پیکرشرم و حیاء عثمان غنی ؓ

خلیل الرحمٰن ربّانی  جمعرات 29 جولائی 2021
یہ نبی کریم ؐ سی حیاء ہی تھی کہ آپ ؓ نے مدینے میں خون کا قطرہ تک نہیں گرنے دیا ۔  فوٹو : فائل

یہ نبی کریم ؐ سی حیاء ہی تھی کہ آپ ؓ نے مدینے میں خون کا قطرہ تک نہیں گرنے دیا ۔ فوٹو : فائل

جناب رسول اﷲ ﷺ اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ دروازے پر آئے، اجازت طلب کی اور مجلس میں شریک ہوگئے۔

اس حال میں کہ آپ ﷺ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا سرکا ہوا تھا، مگر آپ ﷺ اسی حالت میں بیٹھے رہے۔ کچھ دیر میں حضرت عمر فاروق ؓ تشریف لائے اجازت طلب کی اور آپ ﷺ کے سائے شفقت میں تشریف فرما ہوئے۔

کچھ دیر بعد حضرت عثمان ؓ تشریف لائے اجازت مانگی، اجازت دی مگر آپؓ کے آتے ہی جناب رسول اﷲ ﷺ نے اپنی حالت درست فرمائی اور پنڈلیوں پر کپڑا ڈالا۔ حضرت عائشہؓ یہ سارا منظر دیکھ رہیں تھیں۔

بعد ازاں عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی آمد پر آپؐ اپنی حالت میں بہ دستور بیٹھے رہے جب کہ حضرت عثمان ؓ کی آمد پر خصوصی اہتمام فرمایا۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا: اے عائشہ! میں اس شخص سے کیوں حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔

یہ تھے حضرت عثمان بن عفان ؓ جنھیں تاریخ خلیفہ ثالث کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اگر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک صحابیؓ اپنی ایک الگ خصوصیت رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر اس گلشن کا ہر پھول نرالا ہے، مگر بعض خصوصیات میں بعض کی خوش بُو دوسروں سے زیادہ ہے۔

کوئی صدیقؓ ہے تو کوئی فاروق اعظمؓ، کوئی سیاست کے میدان کا بادشاہ ہے تو کوئی جرأت و بہادری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ بھی انھی ستاروں میں سے ایک چمکتے دمکتے ستارے ہیں۔ آپؓ کی سیرت کے مطالعے سے جہاں ایمان کو تازگی ملتی ہے وہیں قارئین کے دلوں میں اصحاب رسول ﷺ سے محبت و الفت میں بھی بے پنا ہ اضافہ ہوتا ہے اور یہی ایمان کا تقاضا بھی ہے۔

حضرت عثمان ؓ پیکر شرم و حیا تھے۔ ایک موقع پر جناب رسول اﷲ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’عثمان میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار اور بزرگ ہیں۔‘‘ اسی طرح حضرت زید ؓ سے مروی ہے کہ جناب نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عثمان میرے پاس سے گزرے تو ایک فرشتے نے مجھ سے کہا کہ مجھے ان سے شرم آتی ہے کیوں کہ قوم ان کو قتل کردے گی۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس طرح حضرت عثمان ؓ خدا اور اس کے رسولؐ سے حیا کرتے ہیں اسی طرح فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں۔

حیاء کیا ہے؟  فطرت سلیمہ سے ناموافق افعال پر دلی شرم اور ہچکچاہٹ حیا کہلاتی ہے۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جو جس انسان میں جتنا پختہ ہو وہ اتنا ہی عظیم بنتا چلا جاتا ہے۔ اس قسم کا انسان جہاں منکرات سے بالکل محفوظ رہتا ہے وہیں نیک اعمال میں چست بھی دکھائی دیتا ہے۔ انسان کی مذہبی اور معاشرتی زندگی کی تشکیل میں حیاء کا بہت اہم کردار ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بے حیائی اور بے شرمی کا نمونہ بن چکا ہے۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان غنی ؓ جیسے عظیم القدر صحابی رسولؐ کے پیروکار ہیں؟ ہم پیکر شرم و حیا کے نام لیوا ہیں؟ 21 ویں صدی کے اسودہ حال معاشرے میں سیرت ِعثمان ؓ کا مطالعہ مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے، کیوں کہ آپؓ ہی وہ ذات تھیں جن سے اﷲ تعالیٰ کے فرشتے بھی حیاء کرتے تھے۔

ایک مرتبہ جناب رسول اﷲ ﷺ اپنے اصحابؓ کے ساتھ کسی مقام پر کھڑے ہوئے تھے جہاں گھٹنوں تک پانی تھا۔ جب حضرت عثمان ؓ وہاں پہنچے تو پاجامے کے پائنچے اٹھائے بغیر ہی آپ ﷺ کے پاس تشریف لے آئے۔ یعنی شرم و حیاء کے باعث سب کے سامنے گھٹنوں تک پائنچے اٹھانا بھی گوارا نہ فرمایا۔ آپؓ کا یہ عمل صرف اجتماعی محافل اور عوام الناس تک ہی محدود نہ تھا بل کہ خلوت و جلوت میں ہر وقت آپؓ پاک دامنی کا استعارہ تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ جب غسل کرتے تو تہبند نہ اٹھاتے حالاں کہ آپؓ بند کمرے میں ہوتے اور شدت حیا کی وجہ سے اپنی کمر کو نہ اٹھاتے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمانؓ بند کمرے میں بھی تہبند نہیں کھولتے تھے۔ جہاں تک حضرت عثمان ؓ کی حضور ﷺ سے حیاء کا تعلق تھا تو اس کا آپ ﷺ کو خود اعتراف فرمایا تھا۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے بیعت کرنے کے بعد میں نے اپنا سیدھا ہاتھ کبھی بھی شرم گاہ کو نہیں لگایا۔

سبحان اﷲ! یہ تھی حضرت عثمان ؓ کی شرم و حیاء مگر آج افسوس کا مقام یہ ہے ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بالکل بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے۔ ہم نے جو میراث پائی تھی اسے بالکل ہی گنوا دیا جس کے باعث ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ٹھہری۔

حضرت عثمان ؓ کی زندگی اس بات کی آئینہ دار ہے کہ حیاء انسانی زندگی کا کس قدر اہم جز ہے۔ جو بھی اس صفت سے متصف ہوگا وہ خدا اور رسولؐ کا محبوب ہوگا۔ حضرت عثمان ؓ کی نبی کریمؐ سے حیاء ہی کی وجہ تھی کہ آپؓ نے مدینے میں خون کا قطرہ تک نہیں گرنے دیا۔ حضرت زبیر ؓ نے باغیوں کے خلاف لڑنے کی اجازت چاہی مگر انھیں یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ میں شہر نبی ﷺ میں اپنی خاطر ایک بھی مسلمان کا خون نہیں بہانا چاہتا۔ میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو اپنے ہاتھ کو روک دے۔

یہی تو حیاء تھی کہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا مگر شہر نبیؐ میں کسی مسلمان کا خون نہیں گرنے دیا۔ اپنی عمر کے 82 سال میں 12 سال فریضہ خلافت نبھانے کے بعد 18 ذوالحج 35 ہجری کو جام شہادت نوش فرمائی۔ مگر اس کے ساتھ ہمیں حضرت عثمانؓ، صحابہ کرامؓ اور جناب رسول پاک ﷺ کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی پیروی بھی کرنا ہوگی۔ اسی میں ہماری حقیقی کام یابی ہے۔ آئیے! سیرت ِعثمان ؓ کا مطالعہ کریں اور اس سے سبق حاصل کرکے آنے والی نسلوں کو سنواریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔