کورونا آسٹریلیا کی سیریز میں، میچ پاکستان کا کم

عباس رضا  اتوار 1 اگست 2021
حیران کن طور پر ابوظہبی میں میچ شروع ہونے سے قبل ہی دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے لیے اسکواڈز کا اعلان کردیا گیا۔ فوٹو: پی سی بی

حیران کن طور پر ابوظہبی میں میچ شروع ہونے سے قبل ہی دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے لیے اسکواڈز کا اعلان کردیا گیا۔ فوٹو: پی سی بی

قومی ٹیم نے جنوبی افریقہ کے بعد زمبابوے کے خلاف سیریز بھی جیت لی مگر اس دوران مڈل آرڈر سمیت کئی خامیاں کھل کر سامنے آئیں،مسائل کا حل پی ایس ایل کے دوسرے مرحلے کے میچز میں تلاش کرنے کا دعوی کیا گیا مگر حیران کن طور پر ابوظہبی میں میچ شروع ہونے سے قبل ہی دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے لیے اسکواڈز کا اعلان کردیا گیا۔

پی ایس ایل میں بابر اعظم اور محمد رضوان کے سوا بیشتر منتخب کھلاڑیوں کی کارکردگی مایوس کن رہی، بیٹسمین فارم کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے تو بولرز بھی مار کھاتے نظر آئے، اس وقت ان کو برقرار رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

انگلینڈ کے خلاف سیریز شروع ہونے سے قبل پریس کانفرنس میں ہیڈ کوچ مصباح الحق نے کہا تھا کہ اکتوبر، نومبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل کمبی نیشن کے حوالے سے حتمی فیصلوں کا آخری موقع ہوگا مگر انگلینڈ میں کھیلے جانے والے وائٹ بال کرکٹ کے میچز میں گرین شرٹس کی کمزوریاں کھل کر سامنے آگئیں،مڈل آرڈر کی ناقص کارکردگی کا سلسلہ جاری رہا۔

صہیب مقصود اور اعظم خان کو آزمانے سمیت کیے جانے والے تجربات بھی ناکام رہے، گزشتہ سیریز میں بولرز میں جو تھوڑا دم خم نظر آتا تھا وہ بھی ختم ہوتا دکھائی دیا، حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی کے چند انفرادی سپیل اور سپنرز کے چند اچھے اوورز کے سوا بولنگ میں بھی مسائل رہے، فیلڈنگ کا معیار بھی تیزی سے نیچے گرتا ہوا نظر آیا۔

اس صورتحال میں پاکستان کی ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز زیادہ اہمیت اختیار کرگئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ یو اے ای میں کھیلا جانا ہے جہاں کی کنڈیشنز ویسٹ انڈیز سے ملتی جلتی ہیں،دوسرے امید کی جا رہی تھی کہ ایک مختلف ماحول میں گرین شرٹس ایک بہتر کمبی نیشن تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے، پی سی بی کی آسانی سے پسپائی اور کچھ موسم کی ستم ظریفی کے سبب پاکستان کی یہ مہم بھی کمزور ہوگئی۔

ایک اسٹاف رکن کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے نتیجے میں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے اسکواڈز آئسولیشن میں چلے گئے،دونوں کی ون ڈے سیریز ری شیڈول کرتے ہوئے دوبارہ کروا دی گئی،اس کا خمیازہ پاکستان ٹیم کو بھگتنا پڑا جس کا ایک ٹی ٹوئنٹی میچ قربان کر دیا گیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ پی سی بی نے اس فیصلے کو بڑی آسانی سے قبول بھی کرلیا، اگر کورونا کیس کی وجہ سے میزبانوں کی آسٹریلیا سے سیریز متاثر ہوئی تھی تو میچ بھی اسی کا کم کیا جاتا پاکستان ٹیم کے شیڈول کا اس سے کیا لینا دینا تھا۔

اگر ایسا کرنا بھی تھا تو پاکستان کا پہلا میچ سیریز آخر میں کروا دیتے، کوئی بڑا مسئلہ اس لیے بھی نہیں تھا کہ پہلا ٹیسٹ میچ 12 اگست کو شروع ہونا ہے، اس سے قبل ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آخری میچ 3اگست کو شیڈول ہے، کیا ان 9دنوں میں ایک میچ نہیں کروایا جا سکتا تھا، ویسٹ انڈیز نے فیصلہ کیا اور پی سی بی نے سرِ تسلیم خم کر دیا، سابق کرکٹرز بھی حیران ہیں کہ پی سی بی نے کمزوری کیوں دکھائی۔

ورلڈکپ کی تیاری کیلئے پاکستان کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا، کسی بھی میگا ایونٹ کیلئے عام طور پر ٹیمیں نہ صرف کہ متوازن کمبی نیشن تشکیل دیتے ہوئے حتمی ناموں کا انتخاب کرلیتی ہیں بلکہ تمام پوزیشنز کیلئے متبادل بھی تیار کرلئے جاتے ہیں،مقصد یہ ہوتا ہے کہ انجری یا کسی اور وجہ سے عدم دستیابی کے سبب دوسرا انتخاب بھی موجود ہو مگر اس کیلئے کرکٹ کا مضبوط سسٹم پس منظر میں ہونا ضروری ہے۔

تازہ مثال انگلینڈ کی ہے کہ کورونا کیسز سامنے آنے پر ایک اسکواڈ قرنطینہ میں گیا تو راتوں رات دوسرا منتخب کرلیا گیا جس نے پاکستان کو ون ڈے سیریز میں کلین سوئپ کردیا،دوسری جانب پاکستان کا ورلڈکپ کیلئے اصل اسکواڈ بھی حتمی نہیں ہے،کاغذی سرگرمیاں تو بہت ہیں، ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ ملکی کرکٹ میں ایک انقلاب آچکا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک عرصہ سے ملک میں گراس روٹ سطح پر کرکٹ نہیں ہورہی۔

پی ایس ایل سے سامنے آنے والے ٹیلنٹ پر انحصار کرتے ہوئے کرکٹرز کا انتخاب ہورہا ہے مگر اس میں بھی کئی حیران کن تجربات کئے جارہے ہیں، مثال کے طور پر حیدر علی کو بطور اوپنر پرفارمنس کی بنیاد پر منتخب کرکے ان کے بیٹنگ آرڈر کے ساتھ تجربات کئے،اسکواڈ میں 4اوپنرز منتخب کرتے ہوئے مڈل آرڈر کو مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی،تجربات کا یہ سلسلہ ورلڈکپ تک ختم نہیں ہوگا،خدشہ ہے کہ میگا ایونٹ کے بعد بھی منیجمنٹ مسائل کا حل تلاش کررہی ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔