پاکستان بمقابلہ سری لنکا گرین ٹیم ریکارڈز توڑ رہی ہے اور اونچا اڑ رہی ہے

20 جنوری کوافسوس ختم ہوگیا اور پاکستان نے شارجہ کے میدان کی بے شمار یادوں میں اس وقت ایک یاد شامل کردی۔


عاقب شہزاد بھٹی January 27, 2014
1994 میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف 300 سے زائد رنز کا ہدف 106 اوورز حاصل کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD: پاکستان میں ایسے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو ماضی میں شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کی شاندارکارکردگی کے لمحات کو براہ راست دیکھنے سے محروم رہے، چاہے وہ 1991 میں بھارت کے خلاف ون ڈے میچ میں عاقب جاوید کی 7 وکٹیں ہوں یا جاوید میانداد کا عظیم چھکا اورشارجہ اسٹیڈیم پر لگنے والی پابندی کے باعث ان نوجوانوں کو مزید ایسے لمحات دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔

لیکن 20 جنوری 2013 کو یہ افسوس اس وقت ختم ہوگیا جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایک اور سنگ میل عبور کرکے شارجہ کے میدان کی بے شمار یادوں میں اس وقت ایک اور یاد شامل کی جب انہوں نے سری لنکا کی جانب سے دیئے گئے 300 زنز کے ہدف کو 60 سے بھی کم اوووز میں 5.25 رنز فی اوور کی اوسط سے بنا کر ٹیسٹ کرکٹ میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔ اس سے قبل کوئی بھی دوسری ٹیم 60 سے بھی کم اووز میں 300 سے زائد رنز کے ہدف حاصل نہیں کر سکی ۔

یہاں تک کہ جب 1994 میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف 300 سے زائد رنز کا ہدف عبور کیا تو اس نے106 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 315 رنز بنائے تھے۔

بہت سے پاکستانیوں کا خیال تھا کہ تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ مختصر ہوگا، خاص طور پر جب میڈیا نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ اب کوئی معجزہ ہی پاکستان کو بچا سکتا ہے۔ خیر پاکستان نے اس وقت اصل میں ایک معجزہ کر دکھایا جب ٹيم نے سیریز کو بہترین انداز میں بچایا اور شارجہ کرکٹ جو کہ پاکستان کا دوسرا ہوم گراؤنڈ ہے کی زبردست یادوں میں اسے شامل کیا ۔

یہ میچ ڈرا کی جانب گامزن تھا اور تین دن میں 4 میں سے صرف ایک مکمل اور ایک نصف اننگز مکمل ہوئی تھیں لیکن اس سست آغاز کے پیچھے کرکٹ کے شائقین کے لئے ایک عظیم پانچوان دن موجود تھا۔

آخری دن پاکستان کے حق میں کایا اس وقت پلٹ گئی جب عبدالرحمان نے سری لنکا کے آخر میں آنے والے بلے بازوں کو اکھاڑ پھینکا۔ پانچویں روز پاکستان بغیرکسی خوف کے تھا اور اس میں میتھیوز کی پہلے بیٹگ اور بعد میں فیلڈنگ کے دوران بے معنی کپتانی جیسے عوامل میں موجود تھے۔

دوپہر کے کھانے کے وقت تک پاکستان نے مثبت منصوبہ بندی کی اور ہمارے ٹاپ آرڈر نے بہت سے تیزی سے رنز بنائے کیونکہ انہیں ایک عالمی ریکارڈ کا تعاقب کرنا تھا۔عام طور پر مصباح کے دفاعی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے شائقین اس میچ کے ذرا بھی سنسنی خیز ہونے کی توقع نہیں کررہے تھے۔

یہ دن اس لیے بھی زیادہ خاص تھا کیونکہ یہ ڈیو واٹمور اور مصباح الحق کے درمیان ناقابل فراموش شراکت کا آخری دن تھا۔



اگرچہ ہمارے اوپنرز نے ایک تیزآغاز کیا تھا لیکن وہ جلد آؤٹ ہوگئے۔

شام تک ہمارا ٹاپ آرڈر 3 وکٹوں کے نقصان پر 107 رنز بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن حقیقی اضافہ ابھی آنا باقی تھا۔ سرفراز احمد کو پہلے بھیجا گیا انہوں نے نہ صرف شاندار شاٹ کھیلے بلکہ انہوں نے اظہر علی ،جنہوں نے اپنی زندگی کی سب سے زیادہ مثبت اننگر کھیلی اور پھرتی سے رنز سمیٹے، کے ساتھ بھی بہترین شراکت بھی قائم کی ۔



اظہر نے سرفراز کے ساتھ 89 رنز کا اضافہ کر کے اننگز کو مستحکم کیا اور پھر مصباح کے ساتھ فتح تک لے جانے والے 109 رنز بنائے۔ اظہر علی نے اپنی پانچویں سینچری بنائی جس میں صرف 6 چوکے شامل تھے تاہم ان کے ایک اور دو رنز کافی اہم تھے۔



میتھیوز کی کمزور کپتانی نے پاکستان کو ہدف کا پیچھا کرنے میں بے حد مدد کی۔ قریب سے دیکھنے میں جب میچ میں سری لنکا کی جیت کی امیدیں مانند پڑنے لگیں تو تو ان کے فیلڈرز بھی ذہنی انتشار کا شکار دکھائی دیئے۔

تو اب وہ آخری چیز جو ہمارے کرنے لے لئے رہ گئی ہے وہ یہ کہ ہم اپنی قومی ٹیم کے لئے لال قالین (ریڈکارپٹ) کا اہتمام کریں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم آپ نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مقبول خبریں