حلالہ (دوسرا اور آخری حصہ)

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  جمعـء 27 اگست 2021
aamir.liquat@express.com.pk

[email protected]

مْحصنین کے لفظ کے ساتھ (غَیرَ مْسٰفِحینَ وَلا مْتَّخِذی اَخدانٍ)کے الفاظ اس لیے استعمال ہوئے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ شارع نے اپنے ماننے والوں کے لیے اِحصان سے ہٹ کر کھلے بندوں یا چوری چھپے ہر دو طریق سے قائم جنسی تعلقات پر پابندی عائد کررکھی ہے۔

آپ قرآن مجید کے ان الفاظ کو پیش نظر رکھیے: (مْحصِنینَ غَیرَ مْسٰفِحینَ وَلا مْتَّخِذی اَخدانٍ) اور غور وخوض کے بعد انصافًاکہیے کہ کیا مروجہ حلالہ،محصنین کی تعریف میں آتا ہے؟ یعنی کیا یہ حلالہ مرد کو عورت کی عزت وآبروکا محافظ وامین بناتا ہے؟ یااس کے برعکس عورت کی عزت وناموس کو لوٹنے والا، جس کی مدت عام طور پر دو ایک راتوں پرمشتمل ہوتی ہے؟

دوسرے یہ کہ نکاح میں مرد عورت کی باہمی رضامندی بنیادی عامل کا کردار ادا کرتی ہے اور اس رضامندی کی اہمیت بلکہ ضرورت کاکوئی منکر نہیں ہے تو اب سوال یہ ہے کہ کیا حلالہ میں بھی فریقین کی آزادا نہ مرضی کا کوئی عمل دخل ہوتاہے؟

تیسری بات یہ ہے کہ حلالہ کرتے وقت استقرارِ حمل کی صورت میں آیندہ کے لائحہ عمل کا کوئی شرعی منصوبہ مرد یا عورت کے ذہن میں ہوتا ہے؟ اور نکاحِ حلالہ کے دوران اگر کوئی فریق فوت ہوجائے توکیا حقوقِ وراثت پیدا ہونے کا مسئلہ بھی کسی فریق کے ذہن میں ہوتا ہے؟ آپ کو ان سوالوں کاجواب شاید اثبات میں نہ ملے، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حلالہ خالصتاً عارضی ہوتا ہے جو ہنگامی صورتِ حال میں وجود پذیر ہوتا ہے اور یہ کہ حلالہ کی ’’دائمی نکاح‘‘ کی طرح کوئی بنیاد نہیں ہوتی گویا یہ وہ بیج ہے جو درخت پیدا کرنے کے لیے نہیں بویا جاتا۔

چوتھے یہ کہ مرد وعورت جب رشتہ ازدواج میں بندھ رہے ہوتے ہیں تو فریقین کے متعلقین ایک دوسرے کی معاشی، اخلاقی اور مذہبی حالات کی جانچ پڑتال اور چھان پھٹک میں مصروف ہوجاتے ہیں، پھر لمبی چوڑی تحقیق و تفتیش کے بعد نکاح کا مقدس رشتہ وجود میں آتا ہے، کیا حلالہ بھی اپنے پس منظر میں کسی ایسی ہی انکوائری کا طلب گار ہوتا ہے؟ اپنے ضمیر کی عدالت سے پوچھیے، اگر وہ حلالہ کو قرآن کا مطلوب نکاح قرار دے تو بے شک اسے اختیار کرلیجیے، وگرنہ خدارا اس غیر شرعی اورغیر قرآنی عمل کو تحلیل شرعی کا نام نہ دیجیے۔

مْحصِنینَ غَیرَ مْسٰفِحینَ وَلا مْتَّخِذی اَخدان) سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے نکاح کو جہاں ’’احصان‘‘سے تعبیرکیا ہے، وہیں ان لفظوں سے نکاح کے مفہوم کا کامل احاطہ بھی کرلیا ہے، یعنی نکاح ایسا ہو کہ جو مْسافحت(شہوت رانی) کا غیرہو اور مْسافحت کا غیر وہی ہوسکتا ہے جس میں احصان کا قصد ہو اور جو نکاح قصدِ احصان سے خالی ہو، وہ مسافحت کا غیر نہیں بلکہ اس کا عین ہے۔ جو لوگ نکاح کی غرض وغایت، فقط جنسی ملاپ کو قرار دیتے ہیں، انھیں اس آیت پر غور کرنا چاہیے۔

سچ کہیے، کیا مروجہ حلالہ مردوعورت کے درمیان فقط شہوت رانی اور جنسی تعلقات سے عبارت نہیں ہے؟ اور کیا ایسے نکاح میں دورانِ حلالہ علیٰ الاعلان اور طلاق کے بعد چوری چھپے جنسی رابطے کا امکان نہیں ہے؟…کوئی ہے جو اس پر غور کرے؟

اس لیے کہ جنسی بے راہ روی صرف مرد میں نہیں ہوتی، عورت میں بھی ہوتی ہے۔ جس طرح(مْحصِنینَ غَیرَ مْسٰفِحینَ وَلا مْتَّخِذی اَخدان) کے الفاظ مرد کے تعلق سے آئے ہیں، اسی طرح(مْحصَنٰتٍ غَیرَ مْسٰفِحٰتٍ وَلا مْتَّخِذٰتِ اَخدان) کے الفاظ عورت کے تعلق سے بھی آئے ہیں، مطلب یہ کہ عورتیں بھی محصنہ بننے کے لیے قیدِ نکاح میں آئیں، کھلے بندوں شہوت رانیاں اور خفیہ آشنائیاں کرنیوالی نہ بنیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حلالہ جہاں ایک طرف کھلے بندوں اور علیٰ الاعلان (بہ صورت نکاح) شہوت رانی کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہیں چوری چھپے (بہ صورت طلاق) جنسی ملاپ کی سبیل بھی پیدا کر دیتا ہے۔

ہمارے نزدیک اس قرآنی فقرہ میں معانی کا ایک جہاں سمٹا ہوا ہے۔ اس فقرہ میں نکاح کی ایسی تعریف کی گئی ہے جس کی رو سے صرف متعہ ہی حرام نہیں ٹھہرتا بلکہ مروّجہ حلالہ بھی حرام ٹھہرتا ہے کیوں کہ یہ دونوں ہی احصان کی صفت سے خالی اور مسافحت کی شناعتوں سے پْر ہیں۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایک دفعہ رسول اللّٰہﷺ نے صحابہ سے فرمایا تھا:

الا اْخیِرْکْم بِالتَّیسِ المْستَعَار تو انھوں نے پوچھا: ’’من ھو یا رسول اللہ؟‘‘ آپ نے فرمایا: ھْوَ المْحَلِّلْ،لَعَنَ اللہ المْحَلِّلَ وَالمْحَلَّلَ لَہ

امام عبدالرزاق نے حضرت عمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ

لَااْوتَی بِمْحَلِّلٍ وَلَا بِمْحَلَّلَۃٍ اِلَّا رَجَمتْْھمَا

”میرے پاس کوئی حلالہ کرنے والا مرد اور وہ عورت جس سے حلالہ کیا گیا، لائے گئے تو میں ضرور ان دونوں کو رجم کردوں گا۔”

سنن بیہقی میں حضرت عثمان کے تعلق سے یہ روایت آئی ہے:

رفع الیہ رجل تَزَوَّج امراۃ لیحللہ لزوجھا ففرّق بینھما وقال لاترجع الیہ الا بنکاح رغبۃ غیر دلسۃ

یعنی ’’ایک ایسا مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوا جس میں ایک شخص نے کسی عورت سے اس کے سابق شوہر کے لیے حلالہ کے طور پر نکاح کیا تھا۔حضرت عثمان نے اپنے فیصلہ سے ان دونوں کوالگ کردیا اور فرمایا کہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند سے رجوع نہیں کرسکتی، تاوقتے کہ اپنا مرغوب نکاح نہ کرے، یعنی ایسا نکاح جو (مروّجہ حلالہ کی) ملاوٹ سے پاک ہو۔‘‘

آپ نے دیکھا کہ رسول اللّٰہﷺ نے حلالہ کو ملعون قراردیا، حضرت عمر نے اسے قابلِ رجم فعل گردانا اور حضرت عثمان نے اسے وصف ِنکاح سے مجرد مانا ہے، ایسی صورت میں ان قطعی روایتوںکے باوجود مروّجہ حلالہ پر اصرار ناقابل فہم ہے۔

قرآن مجید میں جس حلالے کا ذکر ہوا ہے وہ حلالے کا ہونا ہے نا کہ حلالے کا کرنا……حلالہ ہوتا اس طرح ہے کہ اگر کسی خاتون کو اس کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں اور وہ عدت گزارنے کے بعدکسی اور مرد سے نارمل طریقہ سے شادی کرلے۔حلالہ کی نیت سے معینہ مدت کے لیے نہیں کہ اسلام میں معینہ مدت کے لیے شادی حرام ہے اور یہ زنا کے مترادف ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںحلالے کی نیت سے کیے گئے نکاح کوزنا سمجھتے تھے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔

(تفسیر ابن کثیر)۔ پھر اگر یہ دوسرا شوہر مرجائے یا اس سے بھی کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے اوریہ اْسے طلاق دے دے۔ تب اب یہ خاتون اپنے پہلے والے شوہر سے بھی شادی کرسکتی ہے۔مردایک یا دو طلاق کے بعد عدت کے اندر اندر زبانی یا عملاً رجوع کرسکتا ہے یا عدت کے بعد نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرسکتا ہے… دوران عدت نہ تو شوہر اسے گھر سے نکال سکتا ہے اور نہ ہی بیوی کوشوہر کا گھر چھوڑ کر جانا چاہیے۔ تاکہ اگر طلاق کی وجہ محض غصہ ہو اور غصہ اترنے پر شوہر رجوع کرناچاہے تو کرسکے۔

لہٰذا برائے کرم لوگوں کو کنفیوز نہ کیجیے اس معاملے میں عوام کے بلب ویسے ہی فیوز ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔