لوگ کیا کہیں گے؟

عابد محمود عزام  جمعـء 27 اگست 2021

زندگی میں کوئی بھی کام کرتے ہوئے ہم میں سے بیشتر افراد کو لوگوں کی رائے کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ بعض معاملات میں لوگوں کی رائے کو اہمیت دینا بلا جواز نہیں، لیکن ہمیں حقیقت پسندی اور معقولیت کا دامن تھامتے ہوئے لوگوں کی رائے کو خود پر مسلط کرنے سے بچنا چاہیے۔

کئی افراد کو یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ اگر ہم فلاں ہلکے درجے کا کام کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟بہت سے لوگ تو اس جملے کو زندگی کا روگ بنالیتے ہیں۔یہ جملہ اور اس جملے میں چھپا لوگوں کا خوف زندگی کی گاڑی کو قدم قدم پر روکتا ہے، انسان کو آگے نہیں بڑھنے دیتا اور ترقی نہیں کرنے دیتا۔

جو لوگ کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام کرتے ہیں، وہ کامیاب ہوتے چلے جاتے ہیں اور جو لوگ معاشرے کی باتوں اور لوگ کیا کہیں گے؟ کے خوف کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرتے، وہ کبھی ترقی نہیں کرپاتے۔ اگر کوئی شخص یہ سوچنے لگے کہ گھوڑے پر سوار ہوکر کیسا دکھائی دے گا تو وہ کبھی گھڑ سوار دستے کا سربراہ نہیں بن سکتا۔

اگر کوئی شخص اس لیے چھوٹا کاروبار نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیں گے تو وہ شخص کل بڑا بزنس مین بھی نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی شخص آج اس لیے لکھنا شروع نہیں کرتا کہ اس کی بے ربط تحریر کو دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے تو کل یہ شخص بڑا مصنف بھی نہیں بن سکتا۔ اگر ہم لوگوں کی رائے کا اثر لینا چھوڑ دیں اور اپنے فائدے اور نقصان کو سامنے رکھ کر کوئی بھی کام کریں تو زندگی کامیاب، بے حد سادہ اور آسا ن ہو سکتی ہے۔

دنیا میں ایسے لوگوں کی فہرست بہت طویل ہے، جنھوں نے لوگوں کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر کوئی معمولی سا کام شروع کیا، مسلسل محنت اور جدوجہد کی اور زندگی میں بہت بلند مقام حاصل کیا۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنھوں نے صرف لوگ کیا کہیں گے؟ کے خوف کی وجہ سے محنت چھوڑدی اور حاصل ہوتی ہوئی کامیابی کو ناکامی میں بدل لیا۔

معمولی سی بات سے لے کر زندگی کے اہم امور طے کرتے وقت ہماری زندگی اس ایک جملے کے گرد گھومتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کوئی کام کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچنے کے بجائے ہم یہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری بھلائی کس کام میں ہے؟ محض اس خوف سے کہ لوگ کیا کہیں گے، ہم اپنی زندگی سے متعلق کئی فیصلے غلط کرلیتے ہیں۔ زندگی میں وہ کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جو ہم نہیں کرنا چاہتے۔ ’’ لوگ کیا کہیں گے؟’’ کا تصور ایک آزاد سوچ کو دبانے کی کوشش کا نام ہے۔

لوگ کیا کہیں گے، اس سوچ نے معاشرے کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔انسان حقیقت سے دور ہو گیا ہے اور دکھاوے کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ شادیوں اور دیگر بہت سی تقریبات اور فضول رسوم میں بے جا اخراجات بھی اسی سوچ کے مرہون منت ہیں۔ ایک غریب آدمی بھی لوگوں کی واہ واہ کی خاطر قرض لے کر بے جا اخراجات کرتا ہے۔ ہم نے اپنی روزمرہ زندگی کو اس جملے کا اس قدر محتاج کر لیا ہے کہ صحیح فیصلہ کرنے کے باوجود اسی کشمکش میں رہتے ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ اس سوچ کی وجہ سے ہماری زندگی مسائل سے دوچار ہوگئی ہے۔

ہماری زندگی کے ہر لمحے، ہر میدان، ہر رشتے ناطے، ہر کام اور ہر مقصد میں ہمیں یہی خوف ہمہ وقت اپنے گھیرے میں لیے رکھتا ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انسان کی بقاء معاشرے کے بغیر نا ممکن ہے۔ اْسے بہت سے معاملات میں دوسروں سے براہِ راست تعاون درکار ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کیا ضروری ہے کہ ہم زندگی میں ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ ہی سوچتے رہیں؟

زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی جملے اور خوف کی نذز کر دیتے ہیں، کیا یہ نا انصافی نہیں؟ ہماری زندگی اسی ایک جملے کو سوچتے اور اس سے ڈرتے گزر جاتی ہے، جو سراسر بلا جواز ہے۔ رسم و رواج سے لے کر زندگی بسر کرنے، رشتے نبھانے اور کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے تک یہ خوف ہمارے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔

ہم اس جملے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ لاشعوری طور پر بھی یہ جملہ ہمارے ذہن میں گونجنے لگتا ہے اور ہماری خود اعتمادی اور قوتِ ارادی اس سے متاثر ہوتی ہے۔درحقیقت یہ جنگ جو محض دماغ میں ہوتی ہے، لیکن اس کا اثر ہمارے چہرے کے تاثرات سے لے کر پوری شخصیت پر ہوتا ہے۔لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں، لیکن اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کسی بات کا اثر لینا یا نہ لینا، اپنا وقت خوشی خوشی گزارنا یا اداس رہنا یہ سب آپ کے اختیار میں ہے، لہٰذا کسی کے محض ایک جملے، چند منٹ کی گفتگو یا محض رویے کی بنا پر اپنا قیمتی دن ضایع نہ کریں۔

ہمیں کسی دوسرے شخص کو اپنی ذاتی زندگی اور فیصلوں میں دخل دینے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اس ذہنیت کو اپنی زندگی کے فیصلوں پر حکم چلانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ یہ ہماری زندگی ہے اور ہمیں ہی گزارنی ہے۔ ہمیں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔

اس سے پوری خوشی حاصل کرنے کا بھی سو فیصد حق حاصل ہے۔ سماج کو مکمل طور پر نظر انداز نہ کریں، بلکہ سماج کے صرف مثبت رویوں کو مدنظر رکھیں، جن سے کسی نہ کسی کا فائدہ اور بھلائی ہورہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جینے کی، اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی دی ہے، لیکن انسان نے اپنے گرد غیر ضروری قسم کی رسومات کے دائرے بنا لیے ہیں، جس میں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھنس گیا ہے۔ اگر لوگوں نے یہ سوچنے کے بجائے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اس بات پر توجہ دی ہوتی کہ ہم کیا چاہتے ہیں تو وہ ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے۔ بہت سے لوگ اس جملے کی فکر نہ کرتے ہوئے زندگی میں آگے بڑھ گئے ہیں۔ ان کی زندگی اس لیے کامیاب ہوئی، کیوں کہ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے؟

اس سے زیادہ انسانی دانست کی شکست اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی ذات کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر سکیں اور کوئی دوسرا شخص ہمیں ہمارے بارے میں رائے قائم کرنے پر مجبور کرے۔ ہم ان لوگوں کی رائے پر زندہ ہیں جن کی رائے سے نہ ہماری دنیا بگڑ سکتی ہے، نہ آخرت سنور سکتی ہے۔لوگوں کے کچھ کہنے سننے پر توجہ دینے کے بجائے اپنی رائے پر عمل کرنا سیکھیں ،ان کو اس حد تک اپنی ذات میں دخیل نہ کریں کہ ہماری زندگی کے فیصلے بھی دوسرے لوگ کریں۔

اپنے ہر عمل کو لوگوں اور معاشرے کے طے کر دہ معیارات اور پیمانوں پر جانچنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے طے کر دہ پیمانوں پر جانچنے کی عادت ڈالیں اور اگر آپ کا عمل اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے تو پھر اپنا دل مطمئن رکھیں اور وہ کریں جو آپ کو درست لگتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔