ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ 

زمرد نقوی  پير 30 اگست 2021
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی صدر جوبائیڈن شدید تنقید کی زد میں ہیں کہ انھوں نے افغانستان سے فوری انخلا کا فیصلہ کیوں کیا جس کے نتیجے میں کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت ناکام اور افغان نیشنل آرمی اس حد تک بددلی کا شکار ہوئی کہ اس نے لڑنے سے ہی انکار کر دیا۔

ایک مغربی تجزیہ نگار کے مطابق یہ کہنا محض الزام ہے کہ صدر جوبائیڈن کو افغان جنگ میں شکست ہوئی ہے کیونکہ امریکا یہ جنگ کئی سال پہلے ہی ہار چکا تھا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغان صدر اشرف غنی کو کرپٹ اور بدمعاش کہتے ہیں۔ بقول ان کے اس نے امریکی سینیٹرز کو اپنی مہمان نوازی کے ذریعے اپنی جیب میں ڈال رکھا تھا اور یہ ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ تھا۔

افغان فوج بظاہر تین لاکھ پر مشتمل تھی لیکن ان کی ایک بڑی تعداد صرف کاغذوں پر تھی۔ اس طرح تنخواہوں کی مدد میں ایک بڑی رقم خرد برد ہو جاتی تھی۔ یہ یاد رہے کہ امریکا افغان طالبان معاہدے کی خفیہ شرائط سامنے نہیں آئیں جو وقت کے ساتھ ایک مدت بعد ہی سامنے آئیں گی۔ اس طرح کے اسٹرٹیجک معاہدے کی کچھ خفیہ شرائط بھی ہوتی ہیں۔ جنھیں دونوں فریق ایک مدت تک خفیہ رکھتے ہیں۔ معاہدے کی خلاف ورزی کسی ایک فریق کی جانب سے ہونے پر یہ خفیہ شرائط وقت سے پہلے بھی سامنے آ سکتی ہیں۔

بظاہر ظاہری شرائط تو وہی ہیں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی پاسداری۔ افغانستان کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ پختونوں کے علاوہ تاجک، ازبک، ہزارہ اور دیگر نسلی و لسانی گروہوں کو بھی شریک اقتدار کرنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں پشتون کل آبادی کا47فیصد ہیں۔ دری فارسی بولنے والے تاجک 23فیصد اور ازبک 15 فیصد ہیں جب کہ دیگر نسلی گروہ ہزارہ منگول سمیت15فیصد ہیں۔ اب ہر نسلی لسانی گروہ یہ چاہتا ہے کہ اسے نمایندہ حکومت میں اقتدار میں مناسب حصہ ملے۔

اگر اس کی مرضی کے مطابق حصہ نہیں ملتا اور پشتون اقتدار میں زیادہ حصہ لے جاتے ہیں تو یہ سارے گروہ پشتونوں کے خلاف متحد ہو کر خانہ جنگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ صورت حال نمایندہ حکومت کے حوالے سے تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ اگر یہ نمایندہ حکومت قائم بھی ہو جاتی ہے تو نادیدہ اشارے پر کسی بھی وقت غیرمستحکم ہو سکتی ہے۔

تاریخ کے اس اہم موڑ پر بے جا نہ ہو گا کہ ایک دفعہ پھر ماضی میں جھانک کر دیکھ لیں کہ ہم دوبارہ سے وہی غلطی تو دہرانے نہیں جا رہے جس کا ارتکاب گزشتہ ادوار میں کر کے مسلم دنیا کی آیندہ نسلوں کے لیے ہولناک تباہیوں کا سامان کر چکے ہیں۔وہ افغان مجاہدین جو ایک وقت میں امریکا کے سر کا تاج تھے۔ مجاہدین کے لیڈروں کو وائٹ ہائوس مدعو کر کے ان کی عزت افزائی کی گئی۔

امریکی میڈیا کی زبان ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھی۔ جب وہ سوویت یونین کے خلاف استعمال ہو گئے تو انھیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ یاد رہے کہ سوویت یونین کے خلاف اس جنگ میں امریکا کا ایک بھی فوجی ہلاک نہیں ہوا جب کہ لاکھوں افغان مارے اور تباہ برباد ہو گئے۔ وجہ وہی کہ مسلمان اتنے سادہ لوح ہیں کہ بہ رضا و رغبت مذہب کے نام پر کوئی بھی انھیں استعمال کر سکتا ہے۔ لاکھوں افغانوں نے اپنی جانیں دیں بچے یتیم عورتیں بیوہ ہوئیں کس لیے کہ امریکا دنیا کی واحد عالمی طاقت بن جائے۔

انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پوری دنیا پر ایک ہی طاقت حکمرانی کر رہی ہو۔ پہلی بار یہ ہوا کہ امریکا کی بادشاہت پچھلی کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ یہ کارنامہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں انجام پایا۔ جب تک سوویت یونین قائم تھا مسلم دنیا کافی حد تک امریکا کے شر سے محفوظ رہی۔ افغان جہاد کے معمار جنرل حمید گل مرحوم اس صورت حال پر بہت افسردہ تھے جب امریکا نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر اسلامی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجانا شروع کر دی۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

روہنگیا مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی الگ ایک درد ناک داستان ہے۔ جوش و ولولہ سے بھرے خالص مسلمانوں نے بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کو تباہ کر دیا۔ جس کے نتیجے میں برمی بدھشوں نے روہنگیا مسلمانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ دنیا کانپ اٹھی۔ بدھ مذہب کے پیروکار جو ایک چیونٹی مارنے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمان قتل اور لاکھوں دربدر ہو گئے۔ اس خون ناحق کا ذمے دار کون ہے؟۔

اسی لیے کہا گیا ہے کہ کسی کے جھوٹے خدائوں کو بھی برا نہ کہو کیا امریکا زوال کا شکار ہے شاید نہیں یقیناً کہ ہر عروج کا زوال ہے۔ وہ عروج جس کا آغاز دوسری عالمی جنگ سے پہلے ہوا۔ میں گزشتہ برس سے ان کالموں میں لکھ رہا ہوں کہ ہم جس بیس سالہ دور میں داخل ہو گئے ہیں جب یہ مکمل ہو گا تو دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کا علاقہ پہچانا نہیں جائے گا۔

گزشتہ کالم میں میری دی ہوئی تاریخ میں کابل خود کش بم دھماکے ہوئے اگر میری دی ہوئی تاریخ مدنظر ہوتی تو یہ دھماکے نہ ہوتے۔ امریکی اور یورپین تھنک ٹینک انٹیلیجنس کو چاہیے کہ وہ تجزیے میں پیش گوئی اور پیش گوئی کے ذریعے تجزیہ کرنے کا ہنر سیکھیں۔ اگر یہ علم ان کے پاس ہوتا تو آج انھیں امریکی انخلا کے حوالے سے لعن طعن بدنامی کا نہ سامنا کرنا پڑتا۔ یہ خداداد علم ہے۔ پوری دنیا میں لوگ یا تو تجزیہ کر رہے ہیں یا پیش گوئی۔ میں شاید دنیا میں واحد ہوں جس کے پاس تجزیہ اور پیش گوئی کو بلینڈ کرنے کا علم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔