اقتصادی و معاشی صورتحال اور عوام

سفیدپوش پاکستانیوں کیلیے ہم وطنوں کی سنگدلی اوربددیانتی پرمبنی رویے سے جنم لینے والی ہوشربامہنگائی جینامشکل کردیتی ہے۔


Editorial October 14, 2021
سفیدپوش پاکستانیوں کیلیے ہم وطنوں کی سنگدلی اوربددیانتی پرمبنی رویے سے جنم لینے والی ہوشربامہنگائی جینامشکل کردیتی ہے۔ فوٹو:فائل

LUCKNOW: ایکسپریس ٹریبیون کی خبر کے مطابق روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ انٹربینک میں امریکی ڈالر پہلی بار 171 روپے سے زائد کا ہوگیا ۔ رواں مالی سال میں اب تک روپے کی قدر میں 8.57 فیصد (13.50 روپے) کی کمی واقع ہوچکی ہے، کیونکہ کموڈٹیز مہنگی ہونے سے ملکی درآمدی حجم نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے۔

تیل کے علاوہ کوئلہ، ایل این جی، گندم، چینی اور کوکنگ آئل کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ آر ایل این جی کا گردشی قرضہ 104ارب روپے تک پہنچ گیا ہے،گردشی قرضہ میں رواں مالی سال 90 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے،سیکریٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ آر ایل این جی 13اور 14ڈالر میں لے کر تین ڈالر میں نہیں بیچ سکتے،گھریلو صارفین کو قدرتی گیس اور آر ایل این جی دونوں دینی پڑیں گی۔

اس وقت تمام معاشی اشاریے سرنگوں ہیں اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔روپے کی قدر اپنی تاریخ کی پست ترین سطح پر اور بے روزگاری ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو پہنچ چکی ہے۔ معاشی شرح نموقیام پاکستان کے بعد کبھی منفی میں نہیں تھی،مگر بیتے برس یہ صفر سے بھی کم رہی۔ عوام کی ذاتی زندگیوں پرسیاسی حکومتی پالیسیوں کے اچھے یا برے اثرات سے مفر ممکن ہی نہیں ہے۔ ملک میں مہنگائی کی تپش ہر فرد کے گھر تک پہنچ رہی ہے ۔حکومتی ماہرین گزشتہ سال کی منفی شرحِ نمو کی بنیاد پر معاشی شرحِ نمو کی نئی سطح کا اعلان کررہے ہیں۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، ویسے ہی مہنگائی کچھ کم نہ تھی کہ اب پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل ہر ماہ میں دو بار اضافہ کرکے غریب کا دو وقت کا چین چھین لیا گیا ہے، کیا کھائیں، کیا پکائیں، گرمی میں دو وقت پنکھا چلا لیں تو یہ بڑی بات ہے، مگر بجلی کا بل آسمانوں سے باتیں کرنے لگ جاتا ہے، جہاں دیکھو بجلی کے بلوں کے رونے دکھائی دیتے ہیں اور ظاہر ہے حق حلال کی کمائی میں بھی گھر کا خرچ اور بجلی کے بل پورے نہ ہوں تو کیسے غریب کی چیخیں نہیں نکلیں گی؟

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)نے پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کی پیش گوئی کردی تھی جب کہ حکومتی سطح پر ترقی کی شرح4فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔پاکستان کے ڈیٹا بیس پر ملکی اور غیر ملکی ادارے بھی معاشی شرح نمو کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.8 سے 3 فیصد، آئی ایم ایف نے 2 اور عالمی بینک نے 1.5 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے گزشتہ ماہ اپریل میں میڈیم ٹرم بجٹ اسٹرٹیجی تشکیل دی تھی جو آئی ایم ایف کو بھی ارسال کی گئی۔

اس میں جی ڈی پی 2.9 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی مگر چند ہفتوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ معاشی شرح نمو اچانک 3.94 فیصد تک پہنچ گئی؟ماہرین معیشت کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ مالی سال کے ایک بڑے عرصے تک صنعتیں بند رہیں مگر اس کے باوجود اس میں بہتری دیکھی جارہی ہے، مگر یہ کون سی صنعتیں ہیں جو ایندھن یعنی بجلی اور گیس کا استعمال کیے بغیر اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں، کیونکہ بجلی اور گیس کے شعبے کی نمو تو منفی 22 فیصد رہی ہے۔

ان دنوں سرکاری شخصیات عوام کو یہ خوش خبری سناتی دکھائی دیتی ہیں کہ بس مشکل دن ختم ہونے کو ہیں اور موجودہ حکومت کی حکمت عملی کی وجہ سے ملک کی معیشت تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہے۔وزرا اور مشیران مختلف اعدادوشمار کے حوالے دے دیکرقوم کا خون بڑھارہے ہیں اور انھیں ''تبدیلی'' کی نوید سنارہے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے رواں مالی سال میں ملکی معیشت کے تقریباً چارفی صد کی شرح سے بڑھنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ملکی معیشت تباہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت،پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت کے اختتام پر جی ڈی پی کی شرح پانچ فی صد سے زیادہ تھی، تاہم موجودہ حکومت کے پہلے دو مالی برسوں میں جی ڈی پی کی شرح میں کمی دیکھی گئی اور گزشتہ برس یہ شرح منفی چارفی صد رہی تھی جس کی ایک وجہ کورونا وائرس سے معاشی سرگرمیوں میں تعطل اور سست روی بتائی گئی۔ تاہم رواں مالی سال میں اقتصادی ترقی میں تقریباً چارفی صد ترقی کا دعویٰ نہ صرف حکومت اور اس کے اپنے اداروں کے مقررہ کردہ اہداف سے زیادہ ہے بلکہ اس نے عالمی مالیاتی اداروں کے تخمینوں کو بھی مات دے دی ہے۔

پاکستان میں معیشت کے ماہرین بھی اس ملکی معاشی ترقی میں تقریباً چارفی صد ترقی کو حیران کن قرار دیتے ہیں اور اسے ملکی معیشت کی اصل صورت حال سے متضاد بتاتے ہیں۔ان ماہرین کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ تین برسوں میں اقتصادی ترقی بہت نیچے چلی گئی تھی اس لیے ملکی معیشت میں ہونے والی کم ترقی کا ''بیس ایفکٹ'' بہت بڑا نظر آرہا ہے۔

یہاں پر ایک مثال پیش خدمت ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت بنگال کی آبادی ہم سے زیادہ اور معاشی حالت خراب تھی،آج معاملہ الٹا ہو گیا ہے۔بنگلہ دیش کی معیشت کاحجم ہم سے سو ارب ڈالر زیادہ ہے۔ان کی ایکسپورٹ ہم سے دگنا ہوگئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر پہلے تو دگنا تھے،اس سال کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں،اگر موجودہ معاشی رجحان اور سیاسی انتظام برقرار رہتا ہے توقوی امکان ہے کہ معیشت کامجموعی حجم بھی بنگلہ دیش کا ہم سے دگنا ہو جائے گا۔

ملک میں سیاسی ابتری اور معاشی انتشار نے قوم کو بہ حیثیت مجموعی مصائب میں نہیں ڈالا بلکہ ہر گھر میں پریشانیوں، اندیشوں اور مخمصوں کی فضاء مسلط کر دی ہے۔ خواتین مردوں سے زیادہ اذیت میں ہیں۔ غریب گھرانوں میں چولہے جلانے کے لیے اگرچہ دونوں کو محنت کرنی پڑتی ہے تاہم عورتوں کی ذمے داریوں کا دائرہ مردوں سے کئی گنا زیادہ وسیع تر ہے۔

گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کے معاملات وہ اضافی بوجھ ہے کہ جسے نہ چاہنے کے باوجود اٹھانے پر مجبور ہیں گویا ان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے۔ عورتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل، سونے اور گندم کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے کہ ان کے ملک کی معیشت پر منفی اثر ڈالتا ہے، وہ تو بس اتنا جانتی ہیں کہ انھوں نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا اور تن ڈھانپنا ہے۔انھوں نے ایک وقت کا کھانا کھایا ہے اور دوسرے وقت کے کھانے کی امید نہیں ہے۔

ان کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہیں۔ والدین انھیں پڑھا نہیں سکتے۔ چھوٹی عمر ہی میں وہ گھر کی کفالت کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں۔ مائیں دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھتی ہیں جب بچے ان کی ہتھیلی پر دن بھر کی کمائی چند روپوں کی صورت میں رکھتے ہیں۔ بیماریاں ان لوگوں کے گھروں میں مکینوں کی طرح ڈیرہ جمائے رکھتی ہیں۔

صاف پانی کا حصول ان لوگوں کا خواب ہے۔ بس زندگی سے کندھا رگڑتے رگڑتے وہ اپنے دن پورے کر لیتے ہیں۔مہنگائی اتنی ہے کہ پیٹ کا ایندھن بجھانے میں ساری مشقت صرف ہو جاتی ہے۔ سفید پوش پاکستانیوں کے لیے اپنے ہم وطنوں کی سنگدلی اور بددیانتی پر مبنی رویے سے جنم لینے والی ہوشربا مہنگائی جینامشکل کردیتی ہے۔ ایسی دلخراش خبریں بھی آتی ہیں کہ نئے کپڑے نہ ملنے پر بچے نے خودکشی کرلی، کہیں باپ اس معصومانہ فرمائش پر خود اپنے ہاتھوں بچوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔

جی ڈی پی کا مطلب مقامی پیداوار ہے اور اس میں بہتری ڈالر کی قدر کم ہونے سے نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر جی ڈی پی میں اضافہ پاکستانی کرنسی میں دیکھا جائے تو یہ 14.81 فیصد بنتا ہے جب کہ ڈالر میں 12.5 فیصد بنتا ہے۔ کرنسی کے تقابل میں جی ڈی پی بڑھنے کے بجائے 2.3 فیصد کم ہوئی ہے۔

اگلے روز وفاقی وزیراطلاعات کی پریس کانفرنس بھی خاصی دھواں دار تھی ، جس کے بعد حکومت اور عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونے کا تاثر بھی زائل ہوا ہے ،اختیارات کی کشمکش کا سلسلہ چل پڑا ہے ،دیکھیے بات کہاں تک پہنچتی ہے ، بہرحال یہ صورتحال کسی بھی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں ۔ پنڈورا پیپرز منظر عام پر آ چکے ہیں ان پیپرز کا ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑے گا دنیا میں پاکستان کا معاشی تاثرمزید خراب ہو گا اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان پر انٹرنیشنل ایجنسیز مانیٹرنگ سخت کریں گی ،موجودہ عالمی صورتحال میں پاکستان کے دشمن پاکستان کے بارے میں پروپیگنڈا کریں گے۔اگر ایک مرتبہ پھر حکومت نے معاشی شرح نمو کے اعداد و شمار کو تبدیل کیا اور شرح حقیقی طور پر 3.94 فیصد نہ رہی تو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کا پاکستان سے اعتماد اٹھ جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا۔

مقبول خبریں