بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک بڑا چیلنج... عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 25 اکتوبر 2021
ڈائون کیا جارہا ہے، ٹارگٹڈ سبسڈی کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کو سہولت دی جائے گی: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘میں اظہار خیال
فوٹو : فائل

ڈائون کیا جارہا ہے، ٹارگٹڈ سبسڈی کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کو سہولت دی جائے گی: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘میں اظہار خیال فوٹو : فائل

تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی عوام کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔

اس پر قابو پانے کیلئے وزیراعظم کی زیر صدرات اجلاس میں کم آمدنی والے افراد کو مہنگائی سے بچانے کیلئے احساس ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام جلد شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے مصنوعی مہنگائی کرنے والوں، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائزمنافع خوروں کے خلاف کریک ڈائون کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

’’بڑھتی ہوئی مہنگائی اور موجودہ معاشی صورتحال‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، بزنس کمیونٹی او ر سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

شوکت بسرا
(معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب)
ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ مہنگائی اس وقت سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ وزیراعظم اس پر کافی سنجیدہ ہیں کہ کس طرح عام آدمی کو ریلیف دینا ہے۔ کپتان پریشر میں اچھا کھیلتا ہے اورموجودہ پریشر میں بھی کپتان اچھا کھیل رہے ہیں۔

اپوزیشن مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔ یہ حالات انہی کی وجہ سے ہی بنے ہیں اور اب وہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر عوام بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اس ملک کا برا حال کیا۔ 70 برسوں میں جو کچھ ہوا ا س میں تحریک انصاف یا عمران خان کا کوئی کردار نہیں۔ یہ جماعت پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی ہے اور عمران خان پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے جو 70 برسوں میں پیدا کیے گئے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔

سابق حکمرانوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ ان کی قسمت بدل گئی، وہ امیر ہوتے گئے جبکہ عوام غریب۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے کرپشن نہیں کی تو پھر امیر کیسے ہوئے؟ عوام امیر کیوں نہیں ہوئے؟ان کی حرکتوں کی وجہ سے عوام ان پر اعتماد نہیں کر رہے۔ انہیں بھی عوام میں دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ صرف اقتدار کیلئے تگو دو کر رہے ہیں۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے پر بہت زیادہ شور برپا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان نے عالمی مارکیٹ میں ریکارڈ تیل مہنگا کیا؟ کیا 85 سے 90 ڈالر فی بیرل عمران خان نے ریٹ مقرر کیا؟ کیا عمران خان نے دنیا میں پام آئل مہنگا کیا؟ کیا عمران خان نے دنیا میں ایل این جی مہنگی کی؟ کیا شپنگ کاسٹ میں عمران خان نے تین گنا اضافہ کیا؟ کیا عمران خان نے دنیا کی سپلائی چین کو خراب کیا؟ کیا چین میں لوڈ شیڈنگ عمران خان نے کی؟ کیا عمران خان دنیا میں کورونا لایا؟ کیا عمران خان نے دنیا کی معیشتوں کو تباہ کیا؟ کیا عمران خان کی وجہ سے بڑے بڑے عالمی کاروبار متاثر ہوئے؟ ہر گز نہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ہلچل ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی چیلنجز سے دوچار ہیں جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں۔ ہمیں عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے انہیں صحیح بات بتانا ہوگی۔

تحریک انصاف کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے ہر ممکن کام کر رہی ہے۔ مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ’زیرو ٹالرنس‘ کی پالیسی اپنائی گئی ہے، مارکیٹ کمیٹیوں کو فعال بنایا جا رہے ہے جبکہ تمام ایم این ایز، ایم پی ایز، ڈپٹی کمشنرز اوز وغیرہ اپنے اپنے علاقے میں مہنگائی کے ذمہ دار ہونگے۔ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔موجودہ حکومت عام آدمی کو تعلیم، صحت، روزگار و دیگر بنیادی حقوق دینے کیلئے کوشاں ہے۔ صحت کارڈ ہمار بہترین اقدام ہے جس سے عام آدمی اپنا مفت علاج کروا سکے گا۔ دسمبر تک پنجاب بھر میں لوگوں کو صحت کارڈ جاری کر دیے جائیں گے۔

احساس پروگرام کے تحت سروے مکمل ہوچکا ہے لہٰذا غریب آدمی کو ’ٹارگٹڈ سبسڈی‘ دینے جارہے ہیں، اس کیلئے انہیں کارڈ جاری کرنے کی تجویز زیر غور ہے، انہیں یوٹیلٹی سٹورز پر بھی سہولت دی جاسکتی ہے۔ کسانوں کی بات کریں تو جو ریٹ انہیں اس مرتبہ اپنی فصلوں کا ملا ہے ماضی میں کبھی نہیں ملا۔ کسانوں کی حالت زار بہتر کرنے کیلئے کسان کارڈ جاری کیے جا رہے ہیں جس سے خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ کنسٹرکشن کے شعبے کی بات کریں تو اس میں کافی بہتری آئی ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔

ہماری ایکسپورٹس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کورونا کے چیلنج کے باوجود پاکستان کو دنیا بھر سے آرڈر ملے بلکہ زیادہ آرڈر ہونے کی وجہ سے ہماری فیکٹریوں کو دبائو کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حالات اتنے خراب نہیں ہیں جتنا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے تاہم مسائل سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم کی سربراہی میں ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کفایت شعاری مہم سے سرکاری اخراجات میں کمی لائی گئی ہے بلکہ وزیراعظم ہائوس کے اخراجات بھی سابق حکومتوں کی نسبت آدھے کر دیے گئے ہیں۔

راجہ حسن اختر
(نمائندہ بزنس کمیونٹی)
مہنگائی اور موجودہ حالات میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیں تو افسوس ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے احتجاجی تحریک اور انتخابی مہم میں جو وعدے اور دعوے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوسکے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کی بات کی تھی مگر اقتدار میں آنے کے بعد اس کے برعکس کام کیا۔ آج کہتے ہیں کہ تجربہ نہیں تھا۔

اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو ان کے ساتھ موجود ٹیم تو پہلی مرتبہ نہیں آئی بلکہ وہ ماضی میں بھی کام کا تجربہ رکھتی ہے۔ اگر عمران خان کو تجربہ نہیں تھا اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کا کشکول کیسے توڑنا ہے تو پھر انہوں نے یہ دعویٰ کیوں کیا؟ کیا صرف بیان بازی کی؟ اس وقت ملک کا کوئی بھی طبقہ خوشحال نہیں ہے۔ بزنس کمیونٹی کیلئے کاروبار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ کے حوالے سے جو صورتحال 5 برس پہلے تھی وہی آج ہے بلکہ اس سے زیادہ خراب ہوئی ہے۔

نیا کاروبار کرنے پر 23 سے زائد ڈیپارٹمنٹ بزنس مین کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ بزنس کمیونٹی کے معاشی استحصال کے خلاف 26 اکتوبر کو تاجر برادری دھرنا دینے جا رہی ہے جس میں بزنس چیمبرز اور تاجر تنظیمیں شرکت کریں گی۔ معاشی پالیسیوں اور معاشی اقدامات کے حوالے سے بزنس چیمبرز اور تاجر تنظیموں سے رائے لینی چاہیے اور انہیں اعتماد میں لینا چاہیے مگر اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہو رہا۔ اگر وزیراعظم مصروفیات کے باعث ایسا نہیں کر سکتے تو وزراء اور منتخب نمائندوں کو یہ کردار ادا کرنا چاہیے مگر حکومتی اراکین کچھ نہیں کر رہے۔

پنجاب حکومت کی بات کریں تو اس کے نمائندے کہیں نظر نہیں آتے۔ ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد مڈل کلاس کی تھی جو اس مہنگائی اور استحصال کے بعد نظر نہیں آرہی۔ ان کی قوت خرید کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے تاجروں کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں ہر 15 دن کے بعد اضافہ ہورہا ہے ، جس کیو جہ سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء مہنگی ہوئی ہیںجس سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ عوام کو مایوسی سے بچایا جائے، انہیں مزید اندھیرے میں نہ رکھا جائے بلکہ سچ سچ بتایا جائے کہ حالات کتنے گھمبیر ہیں۔

اگر عوام کو سچ بتا دیا گیا تو لوگ وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہونگے بصورت دیگر حکومت کی مشکلات میں بدترین اضافہ ہوجائے گا۔ ایکسپورٹ میں اضافے کے حوالے سے غلط اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں۔ ہماری ایکسپورٹ کبھی بھی 20 بلین ڈالر سے نہیں بڑھی۔ جب تک فیٹف کی وجہ سے ہم گرے لسٹ میں ہیں تب تک ایکسپورٹ متاثر رہے گی۔ایکسپورٹ کو بہتر بنانے کیلئے ہمیں چین کے ساتھ کرنسی لیول پر معاہدہ کرنا چاہیے، اس سے آسانی پیدا ہوگی۔

آئمہ محمود
(نمائندہ سول سوسائٹی)
اس وقت سب سے اہم اور سنگین مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ہے ۔ موجودہ دور میں مہنگائی کے تمام سابقہ رکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ حالیہ مہنگائی کے سامنے کمر توڑ مہنگائی یا قیامت خیز مہنگائی جیسے الفاظ چھوٹے پڑ گئے ہیں بلکہ اب تو لوگوں کا جینا محال ہوچکا ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ کسی بھی حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کبھی اچھی پالیسیاں نہیں بنائی مگریہ افسوسناک ہے کہ موجود ہ حکومت نے عوام کو مایوس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عوام کو موجودہ حکومت سے امید تھی مگر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ سب کچھ ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ کہا جاتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے قرضے لیے، مہنگائی کی، کرپشن کی لہٰذا اس لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں جو سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے 3 سال میں کیا کیا؟ کسی بھی شعبے میں ان کی کارکردگی اچھی نہیں رہی، ہر شعبہ بدحالی کا شکار ہے۔ خواتین کی بات کریں تو ان کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا۔تحفظ، روزگار، آمد و رفت، صحت و دیگر حوالے سے ان کے مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ افسوس ہے کہ موجودہ حکومت نے کوئی ایسا قدم نہیں ٹھایا جس سے محنت کش خواتین کو سہولت مل سکے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں پاکستان میں غربت میں 6 فیصد آضافہ ہو اہے۔ صورتحال یہ ہے کہ 40 فیصد آبادی کیلئے مناسب خوراک کا حصول ممکن نہیں ہے۔ بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت اس کی وجہ کورونا وباء سے پیدا ہونے والی صورتحال کو قرار دے رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے مگر اس میں ایک بڑا کردار حکومت کی خراب پالیسیوں کا ہے جن کی وجہ سے حالات بگڑے۔ حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے کہ نوجوانوں کو کس طرح سے روزگار دینا ہے اور ان کے مسائل حل کرنے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی بات کریں تو ہیومن رائٹس انڈیکس میں بھی ہماری درجہ بندی خراب ہوئی ہے۔

2018ء میں ہیومن رائٹس انڈیکس میں 189 ممالک میں سے ہمارا نمبر 138 تھا جو کم ہوکر 2021ء میں 154 پر آگیا ہے۔ یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی اور انتہائی افسوسناک ہے۔ کرپشن کی بات کریں تو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ موجودہ حکومت کا بنیادی نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ تھا۔

پٹرول کی قیمت میں اضافے کی وجہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چینی کی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ کیوں ہوا؟ اس پر کمیشن بنانے کے باوجود کیا چینی کی قیمت میں کمی آئی؟ بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ صرف تسلی دینے کیلئے نمائشی اقدامات کیے۔ حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 20 ہزار مقرر کی ہے جبکہ غریب آدمی کے گھر کی بجلی کا بل 10 سے 12 ہزار روپے آرہا ہے، سوال یہ ہے کہ وہ اتنی کم آمدن میں کس طرح گزارہ کر سکتا ہے۔

انہتائی کم محنت کش خواتین ہیں جن پر قوانین محنت کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ 20 ہزار ماہانہ تنخواہ کی حقدار ہوتی ہیں مگر انہیں یہ تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ محنت کشوں کا استحصال ہورہا ہے اور ان کیلئے روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نے مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے ایکشن لینے کا اعلان کیا، سوال یہ ہے کہ جو مہنگائی حکومت کر رہی ہے اس کے حوالے سے کیا لائحہ عمل بنایا گیا ہے؟موجودہ صورتحال کا حل یہ ہے کہ عوام متحرک ہوں اور مہنگائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

سیاسی جماعتیں مہنگائی اور حکومتی ناقص کاکردگی پر بات تو کر رہی ہیں مگر خود ان کے پاس بھی کوئی پلان نہیں ہے کہ موجودہ حالات کا مقابلہ کس طرح سے کرنا ہے بلکہ وہ یہ سب ’فیس سیونگ‘ کیلئے کر رہی ہیں۔ انتخابی مہم میں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا اعلان کرنے والی جماعت کے پاس اب کوئی جواز نہیں ہے۔ حکومتی بے حسی کی انتہا ہے کہ عالمی اداروں اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر معاملات چلائے جا رہے ہیں اور عوام کی پرواہ کیے بغیر قرضے لیے جارہے ہیں جو افسوناک ہے۔

اگر یہ عوام کو درست بتا کر قرضے نہ لیتے تو عوام خود مشکل حالات کا مقابلہ کر لیتے اور حالات اتنے خراب نہ ہوتے جتنے آج ہیں۔ حکومت کی شاہ خرچیاں موجودہ مشکل مالی حالات میں بے حسی کی علامت ہیں۔ وزیراعظم، وزراء سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کے اخراجات میں کمی لائی جائے۔ بدقسمتی سے حکومتی پالیساں عوام ،مزدور دوست نہیں ہیں، عوام کو ریلیف دینے کیلئے بہتر پالیسی سازی کے ساتھ ساتھ ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔