کیویز اب کیسے بھاگو گے

سلیم خالق  منگل 26 اکتوبر 2021
عام پاکستانیوں کی طرح کرکٹرز کو بھی کیویز پر بہت غصہ ہے۔ فوٹو: فائل

عام پاکستانیوں کی طرح کرکٹرز کو بھی کیویز پر بہت غصہ ہے۔ فوٹو: فائل

’’اب آ ہی گیا موقع، موقع موقع
پاکستان زندہ باد،جیوے جیوے پاکستان‘‘

بھارت سے میچ جیتنے کے بعد اسٹیڈیم میں شائقین یہی نعرے لگا رہے تھے، بھارتی افراد کی آواز نہیں نکل رہی تھی، ان کا خیال تھا کہ جیسے پہلے کبھی پاکستان ورلڈکپ میں بلوشرٹس سے نہیں جیتا اس باربھی ایسا ہی ہوگا،میں نے کرکٹ پاکستان کے منیب سے فیس بک لائیو کا وعدہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے باہر انٹرنیٹ نے ہی کام کرنا چھوڑ دیا۔

ساتھی صحافی عبدالرحمان رضا نے اپنے موبائل کا ہاٹ اسپاٹ آن کیا اور پھر میں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا، لاہور سے کئی صحافی یو اے ای آئے ہیں، ان میں سہیل عمران اور چوہدری اشرف بھی شامل ہیں، بیشتر نوجوان صحافی ہیں، اعجاز باکھری،قادر خواجہ ،ابوبکر اور انس وغیرہ نے اپنی محنت سے فیلڈ میں نام کما لیا ہے۔

خیر میں اپنی موبائل اسکرین پر دیکھتا ہوا باہر جا رہا تھا کہ محسوس کیا کہ دیگر صحافی تھورا آگے نکل گئے ہیں، مرکزی دروازے کے باہر اچانک مجھے آواز آئی ’’ناٹ یو‘‘ میں نے چونک کر دیکھا تو سامنے موجود وسیم خان میڈیا سے گفتگو کرنے کیلیے تیار تھے انھیں یہ خوش فہمی تھی کہ میں بھی ان سے بات کرنا چاہتا ہوں، اس لیے روکنے کا اشارہ کر دیا جس پر میں نے واضح کیا کہ میرا کوئی ایسا ارادہ نہیں ہے، پھر انھوں نے کچھ کہا جس کا ترکی بہ ترکی جواب ملا،اس وقت میں سوچنے لگا کہ پاکستان نے آج بھارت کو ہرایا ہے لیکن یہ شخص اتنے غصے میں ہے۔

عزت رمیز راجہ کے نام لکھی تھی جو انھیں مل گئی، ان کے دور میں ملکی کرکٹ کی بہتری کا سلسلہ جاری ہے، اچھی ساکھ کے حامل رمیز کو دنیائے کرکٹ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، دبئی میں میری آئی سی سی کے بعض آفیشلز اور غیرملکی صحافیوں سے بات ہوئی سب کا یہ خیال ہے کہ رمیز پاکستان کرکٹ کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔

پاکستان ٹیم نے بھی فتح کا خوب جشن منایا،کوویڈ کی وجہ سے بائیو سیکیور ماحول ہے اس کے باوجود لوگ ٹیم ہوٹل پہنچ گئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے،سیکیورٹی اہلکاروں نے کامیابی سے انھیں کھلاڑیوں سے دور رکھا،ڈریسنگ روم میں بابر اعظم اور ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق نے کھلاڑیوں کو ورلڈکپ میں فتح کو مقصد بناتے ہوئے کھیل پر توجہ برقرار کھنے کی ہدایت دی،میں بابر کی اس بات سے متفق ہوں کہ عموما گرین شرٹس ایسی بڑی فتح کے بعد سہل پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

اب اس روایت کو بھی ٹوٹنا چاہیے،ہوٹل میں ٹیم نے فتح اور فیلڈنگ کوچ عبدالمجید کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ ایک بات کا تذکرہ تو رہ ہی گیا کہ پاک بھارت میچ بہترین اسپرٹ کے ساتھ کھیلا گیا، میری ٹیم کے بعض ارکان سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ چیئرمین رمیز راجہ یا مینجمنٹ نے اس حوالے سے کوئی خاص ہدایت نہیں دی تھی، البتہ سب خود بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ملک کے سفیر جیسی حیثیت رکھتے ہیں لہذا ایسا رویہ اپنانا ہے جس سے پاکستان کا اچھا امیج سامنے آئے، اسی لیے میچ کے دوران فیلڈ میں تنائو دکھائی نہیں دیا۔

بھارتی کرکٹرز نے بھی کھیل پر ہی فوکس رکھا، ویسے ویراٹ کوہلی نے اس سے پہلے بھی پاکستان کیخلاف میچ میں اچھا انداز اپنایا ہے،جیسے آپ کو یاد ہوگا انھوں نے ایک بار محمد عامر کو کرکٹ بیٹ دیا تھا،اب بھی میچ کے بعد بابر اعظم کو جس طرح سے مبارکباد دی اورمحمد رضوان کو گلے لگایا اس سے ثابت ہوا کہ وہ بڑے کرکٹر ہونے کے ساتھ اچھے انسان بھی ہیں، میچ کے بعد شکست خوردہ بھارتی کرکٹرز فورا ڈریسنگ روم میں چلے گئے تھے لیکن کوچنگ اسٹاف میں شامل مہندرا سنگھ دھونی تھوڑی دیر فیلڈ میں رہے جہاں ان کی پاکستان کے بعض کرکٹرز سے بات چیت ہوئی، نوجوان شاہنواز دھانی کیلیے یہ منفرد موقع تھا اس لیے وہ تو بات چیت کرتے ہوئے بہت پرجوش نظر آئے،کل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ بھارت سے کئی اداکار بھی میچ دیکھنے آئے تھے۔

ان میں اکشے کمار بھی شامل تھے ، ان سے پاکستان کی اچھی کارکردگی ہضم نہ ہوئی اور درمیان میں میچ چھوڑ کر واپس جانے لگے، اس پر پاکستانیوں نے فلمی اسٹائل میں ہی گا کر انھیں روکنے کی ناکام کوشش کی کہ ’’ابھی نہ جائو چھوڑ کے کہ دل ابھی بھرا نہیں‘‘ جہاں بھارتی غم سے چور تھے وہیں پاکستانی خوشی سے سرشار تھے،ان میں بابر اعظم کے والد بھی تھے جو فتح پر اپنے آنسو نہ روک پائے،بابر نے جو مقام پایا اس میں والد کا بڑا کردار ہے اور اب بھی وہ قدم قدم پر اپنے بیٹے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اب پاکستان کا نیوزی لینڈ سے میچ ہے جس میں فتح سیمی فائنل میں رسائی کا راستہ صاف کر دے گی کیونکہ باقی میچز نسبتا آسان حریفوں سے ہیں۔

ہماری ٹیم کورونا کے دور میں نیوزی لینڈ گئی جہاں کھلاڑیوں کو کمروں میں قید رکھا گیا، قرنطینہ کے نام پر سخت ترین پابندیوں میں جکڑا گیا لیکن کسی نے اف تک نہ کی،پھر کیویز اچھی طرح سیکیورٹی کی تسلی کرنے کے بعد اپنی شرائط پر پاکستان آئے جہاں ایئرپورٹ پر کوویڈ ٹیسٹ نہ لینے کی بات بھی مان لی گئی پھر بھی میچ والے دن وہ انجانے خدشات کی بنا کر واپس لوٹ گئے، آج تک انھوں نے نہیں بتایا کہ کیوں دورہ ادھورا چھوڑا تھا، انگلینڈ نے بھی نیوزی لینڈ کی تقلید کی جس سے ملکی میدان پھر سے ویران ہونے کا خدشہ ہو گیا تھا۔

امید ہے ایسا نہیں ہوگا، البتہ عام پاکستانیوں کی طرح کرکٹرز کو بھی کیویز پر بہت غصہ ہے، وہ ان سے میچ جیت کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ کو دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا، البتہ اس موقع پر کھلاڑیوں کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے، جس طرح روایتی حریف بھارت کیخلاف کوئی دبائو نہیں لیا کیویز سے میچ میں بھی ایسا ہی کریں، ایک بڑی فتح سے ہی نیوزی لینڈ کو کرارا جواب دیا جا سکتا ہے کیویز اب تو کہیں بھاگ بھی نہیں سکتے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔