کیویزکو گراؤنڈ میں سیکیورٹی نہ ملی

سلیم خالق  بدھ 27 اکتوبر 2021
باؤنڈری پر جو کیوی فیلڈر آتا ’’سیکیورٹی سیکیورٹی‘‘ کی آوازیں لگا کر اسے چھیڑا جاتا  فوٹو: فائل

باؤنڈری پر جو کیوی فیلڈر آتا ’’سیکیورٹی سیکیورٹی‘‘ کی آوازیں لگا کر اسے چھیڑا جاتا فوٹو: فائل

’’ٹاس ہونے والا ہے چلو کمنٹیٹرز کے قریب جا کرکھڑا ہو جاتا ہوں شاید میں بھی ٹی وی پر دکھائی دوں‘‘

یہ بات میرے پہلے غیر ملکی دورے کی یادوں میں محفوظ ہے،مجھے یاد ہے کہ اس وقت روی شاستری کمنٹیٹر تھے، شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں میچ ہو رہا تھا،پاکستان کے کئی کرکٹرز سے میری دوستی تھی اور میچ کے دوران ان سے بھی مختصر بات ہو جاتی۔ اب وقت بدل چکا، پہلے سیکیورٹی سخت ہوئی پھر کوویڈ کی وجہ سے بائیو ببل کا سلسلہ شروع ہوا، اب میڈیا سمیت جس کا جہاں کا کارڈ بنا ہو وہ وہیں تک محدود رہ سکتا ہے،اوپر میڈیا گیلری سے کمنٹیٹرز کو دیکھا تو یکدم ماضی میں چلا گیا،شارجہ کرکٹ گرائونڈ کا نام سنتے ہی ہر کسی کو چیتن شرما کی آخری گیند پر جاوید میانداد کا چھکا یاد آ جاتا ہے۔

اس میچ کو برسوں بیت چکے مگر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں اس کی یادیں تازہ ہیں، نئی نسل نے یو ٹیوب پر یقینی طور پر اسے دیکھا ہوگا، ورلڈکپ میں بھارت کیخلاف یکطرفہ فتح کے بعد پاکستان ٹیم کا دوسرا میچ شارجہ میں ہی ہوا، میں اپنا اصول پہلے ہی آپ کو بتا چکا کہ میچ سے کئی گھنٹے پہلے اسٹیڈیم پہنچنا ٹریفک جام میں پھنسنے سے بہتر ہے۔

آج بھی میں کافی پہلے شارجہ آ گیا، یہاں میڈیا کیلیے نئی گیلری بنائی گئی ہے مگر سوشل ڈسٹینسنگ کی وجہ سے گنجائش کم ہو گئی، دبئی میں 80، 90صحافی موجود تھے شارجہ میں کم کو اجازت ملی،میڈیا گیلری اوپن ایئر ہے۔

لہذا تماشائیوں کا شور اور گانے سب کچھ واضح سنائی دیتے ہیں، یو اے ای میں مقیم پاکستانی پہلے ہی ورلڈکپ کے حوالے سے بہت پْرجوش تھے، بھارت کیخلاف فتح نے ان کا جذبہ مزید بڑھا دیا، میچ شروع ہونے سے پہلے ہی ’’جیتے گا بھئی جیتے گا پاکستان جیتے گا‘‘ جیسے نعرے گونجنے لگے تھے، زیادہ تر شائقین گرین شرٹس میں ملبوس تھے یا انھوں نے سبز ہلالی پرچم تھاما ہوا تھا، میری باہر چند افراد سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’جس طرح ٹیم نے بھارت کو ہرایا ویسے ہی اگر نیوزی لینڈ کو شکست دے دی تو مزا آ جائے گا۔

کیویز دورہ پاکستان ادھورا چھوڑ کر گئے تھے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کا حساب چکتا کریں‘‘ شارجہ کا گرائونڈ چھوٹا اور دائیں جانب روڈ پر عمارتیں بھی موجود ہیں، اگر کوئی زوردار چھکا لگائے تو گیند روڈ پر ہی جا گرتی ہے، پہلے تو باہر موجود افراد اسے واپس کر دیا کرتے تھے لیکن اب کوویڈ کی وجہ سے جو ایس او پیز نافذ ہیں ان کے تحت گیند باہر گئی تو اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے،آئی پی ایل کے دوران تو شارجہ کی پچ سابقہ روایت سے بالکل مختلف دکھائی دی اور زیادہ رنز نہیں بنے تھے لیکن ورلڈکپ میں صورتحال تھوڑی مختلف نظر آئی۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ میں بھی شائقین چوکوں،چھکوں کی بارش دیکھنے کی آس لیے اسٹیڈیم آئے تھے، پریذینٹر نے جب کراؤڈ سے بات چیت شروع کی تو وہ بڑی اسکرین پر دکھائی دی اورساؤنڈ سسٹم پر کھلاڑیوں نے بھی پیغام سنا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ ’’ٹرافی جیت کر جانا ہے،سنبھل سنبھل کر کھیلنا‘‘۔

جب اسٹیڈیم میں اعلان ہوا کہ پاکستان نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا ہے تو شائقین نے شور مچا کر خوشی کا اظہار کیا، پاکستان، نیوزی لینڈ اور ورلڈ کپ کے بڑے پرچم میدان میں آئے تب بھی تماشائی نعرے لگاتے دکھائی دیے، کرکٹرز کا بھی پْرجوش انداز میں استقبال ہوا،جس وقت قومی ترانے چلائے گئے ہزاروں پاکستانیوں نے بھی اپنا ترانہ پڑھا، جیسے پہلے اسٹیڈیم میں شاہد آفریدی کے لیے ’’آفریدی آفریدی‘‘ کے نعرے گونجتے تھے اب شاہین کی بولنگ کے وقت ’’آفریدی آفریدی ‘‘ کا شور سنائی دیتا ہے۔

ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی ہوتا رہا، کیوی کرکٹرز کو تو لگ رہا ہو گا جیسے وہ پاکستان میں ہی کھیل رہے ہیں کیونکہ ساری سپورٹ حریف ٹیم کی تھی، بولرز کی بہترین کارکردگی نے سب کو خوشی سے سرشار کر دیا، اس وقت اسٹیڈیم میں شور اور نعروں کی آوازیں سن کر مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے نیشنل اسٹیڈیم کراچی یا قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہی موجود ہوں۔

بابر اعظم پھر فیلڈ میں بہت اینرجیٹک نظر آئے، بولرز کو وہ مسلسل ہدایات دیتے رہے، جب آدھی ٹیم آؤٹ ہو گئی تو میچ پھنس گیا تھا، البتہ زغرف خان، ابوبکر اور ماریہ راجپوت سمیت میری رائے یہ تھی کہ آصف علی اور شعیب ملک ٹیم کو فتح دلا سکتے ہیں، بعد میں ایسا ہی ہوا، آصف،آصف کے نعروں نے آصف علی کو جوش دلایا اور انھوں نے مسلسل چھکے لگا کر ٹیم کو جیت کی آس دلائی۔

میں اسی لیے ہمیشہ شعیب ملک کی ٹیم میں شمولیت کی حمایت کرتا ہوں، سینیئر کھلاڑی کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے، آصف اور شعیب نے عمدہ بیٹنگ کی، اچھی بات یہ رہی کہ بابر اور رضوان کی ففٹی کے بغیر پاکستان نے میچ جیتا، اس وقت میدان میں شائقین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔

اسٹیڈیم کے باہر بھی سیکڑوں لوگ میچ کے دوران موجود رہے، باؤنڈری پر جو کیوی فیلڈر آتا ’’سیکیورٹی سیکیورٹی‘‘ کی آوازیں لگا کر اسے چھیڑا جاتا، ویسے نیوزی لینڈ نے بے بنیاد خدشات پر دورہ منسوخ کر کے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا، انھیں اس سے مناسب کوئی جواب دینا ممکن ہی نہ تھا، بھارت کے بعد کیویزکو بھی شکست دے کر پاکستان نے ثابت کر دیا کہ چاہے ہمارے خلاف جتنی بھی سازشیں ہوں ہمیں دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا نہ ہی ہماری کرکٹ کو ختم کرنا ممکن ہے۔

اب بقیہ میچز نسبتا آسان حریفوں سے ہیں گرین شرٹس نے سیمی فائنل میں جگہ تقریبا پکی کر لی ہے، نیت صاف ہو تو اچھے نتائج بھی ملتے ہیں، پاکستان ٹیم بابر اعظم کی زیر قیادت متحد نظر آرہی ہے، حارث رئوف پر بڑی تنقید ہوتی تھی مگر انھوں نے چار وکٹیں لے کر مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کر لیا، ٹیم کی ایسی ہی کارکردگی جاری رہی تو ورلڈکپ میں فتح کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔