ہاروں تو پیا تیری

خالد محمود رسول  ہفتہ 30 اکتوبر 2021

ہم معاہدے کے بہت قریب ہیں۔ آپ میری بات کا یقین کریں، صرف ایک آدھ بات طے ہونا رہ گئی ہے، وہ بھی حل ہی سمجھیں؛ شوکت ترین نے ملک واپسی کے بعدپریس کانفرنس کرتے ہوئے بالآخر خاموشی توڑتے ہوئے بتلایا۔ البتہ دوسری ہی سانس میں یہ اشارہ بھی دے دیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے کے بعد عوام کے ساتھ کیا کیا ہونا طے پایا ہے۔

یقیناً ہمیں ٹیکسز کو حقیقت پسندانہ یعنی Rationalise کرنا ہوگا، آمدن اور ریونیو میں 450 ارب روپے کا فرق دور کرنے کے لیے ہمیں یہ قدم اٹھانا پڑے گا۔ تاہم میں اس مرحلے پر آئی ایم ایف پروگرام کے بارے میں مزید کچھ نہیں بتا سکتا۔

وزیر خزانہ نے تو خیر مزید کچھ نہ بتانے سے معذرت کی البتہ ان کی وزارت کے اکنامک ایڈوائزر ونگ نے اپنے ماہانہ معاشی جائزے اور اپ ڈیٹ میں کھل کر واضح کر دیا کہ عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی شرح مبادلہ میں کمی، اجناس کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافے کے سبب قیمتیں بڑھنے کا اندیشہ ہے۔

وزارت خزانہ کی قسمت ہے یاعوام کے ساتھ ستم ظریفی کہ ان کے ’’ کل‘‘ کا فیصلہ وہ کر رہے ہیں جنھیں اپنے ’’ کل‘‘ کا کچھ پتہ نہیں۔ شوکت ترین کو حلف اٹھائے جانے کے چھ ماہ کے اندر اندر سینیٹر بنایا جانا تھا ۔ حکومت کا خیال تھا کہ اسحاق ڈار کو ڈی سیٹ کرکے اس سیٹ پر شوکت ترین کو منتخب کروا دیا جائے گا۔

اسحاق ڈار کی جانب سے معاملہ عدالت میں لے جانے کے بعد حکومت کا وہ آپشن لٹک گیا ہے۔ اب موصوف وزر خزانہ سے مشیرِ خزانہ بنا دیے گئے ہیں، اس شبھ گھڑی تک کے لیے جب تک انھیں سینیٹر بنانے کا کوئی گر حکومت کو نہیں سوجھتا۔ مشیرِ خزانہ اب قانونی طور پر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سربراہی نہیں کر سکتا اس لیے حکومت نے عمر ایوب کو اس کمیٹی کا چیئرمین اور شوکت ترین کو اس کی ایک ذیلی کمیٹی کا  سربراہ بنا دیا ہے۔

ان کے پیش رو ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ بھی راتوں رات آئے اور ملک کی معاشی فیصلہ سازی کے ناخدا بنا دیے گئے۔ انھوں نے آتے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ دو تین دنوں کے اندر ہمارے ایک دوست کے بقول معاہدہ کھڑکادیا۔یہ الگ بات کہ اس معاہدے کے بعد ان کی حکومت بھی کھڑک گئی، وہ خود بھی اور عوام بھی۔ موصوف بھی سینیٹر بننے کی کارروائی کے دوران اپنی وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حسبِ توقع اور حسبِ روایت اس کے بعد موصوف کی کوئی چٹھی نہ کوئی سندیس!

ان سے قبل اسد عمر پی ٹی آئی کے معاشی جادوگر کے طور پر پیش کیے جاتے رہے۔ موصوف جب بھی ٹی وی پر آ کر گزشتہ حکومت کی معاشی غلطیوں کی نشاندہی کرتے اور اپنے پلان کا ذکر کرتے تو خواہش  ہوتی ؛ تو بھی ہو ستم کے قابل خدا وہ دن تو کرے ۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے وہ دن بھی دکھا دیا۔ موصوف ایم این منتخب ہوئے۔ 2018 کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کی صفوں میں دو پوزیشنز پر کوئی ابہام نہیں تھا؛ اول عمران خان بطور وزیراعظم اور دوم اسد عمر بطور وزیر خزانہ۔

موصوف وزیر خزانہ بنے تو اپنی ہی چال بھول گئے۔ رات گئے عمران خان نے ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کو ان کی جگہ لا بٹھایا۔ احمد ندیم قاسمی یاد آئے

حسن بیگانہ ا حساس ِ جمال اچھا ہے

غنچے کھلتے ہیں تو بک جاتے ہیں بازاروں میں

اسد عمر کی بطور معاشی جادوگر پی ٹی آئی نے اتنے سالوں سے دھوم مچائی ہوئی تھی کہ ان کے جانے کا بہت سوں کو کچھ عرصہ تک یقین ہی نہیں آیا، جب یقین آیا تو ایک عجیب نقصان اور محرومی کا احساس ستانے لگا: ایک خواب کے ٹوٹنے کا نقصان، ایک تعبیر ادھوری رہ جانے کا دکھ۔ تاہم ہمارے ایک دوست عبدل کے بقول یہ نقصان علامتی اور بے معنی ہے، ثبوت کے طور پر انھوں نے گاؤں کے لوگوں کے سلائی کے کپڑے  لے کر فرار ہونے والے درزی کا لطیفہ سنایا۔ سب لوگ اپنے اپنے نقصان کا رونا رو رہے تھے۔ پاس کھڑا میراثی بار بار اپنے دکھ کا رونا رو رہا تھا، میرا بڑا نقصان ہوگیا۔ ساتھ کھڑے کسی شخص نے پوچھا، تمہارا کیا نقصان ہوا جو یوں ہلکان ہو رہے ہو۔ اس نے گلوگیر آواز میں بتایا؛ کیا بتاؤں میرا تو ماپ ہی لے گیا۔

اسد عمر کی بطور معاشی جادوگر بڑے سالوں سے ایک دھاک بٹھا دی گئی تھی۔ ان کے ساتھ عمران خان دو سو کے لگ بھگ ملکی اور غیر ٹیکنیکل ٹیکنوکریٹس کی  نوید سنایا کرتے جو اپنی اپنی زنبیل میں اس ملک کے ہر شعبے کی کایا کلپ کے فارمولے سنبھالے اسلام آباد بلاوے کے منتظر ہیں۔ مگر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

وزارت خزانہ کی سربراہی ایک میوزک چیئر بن چکی۔ ایک وزارت خزانہ کا ہی کیا ذکر ، وزارت خزانہ کی سیکریٹری، ایف بی آر کی چیئرمین شپ، توانائی کی وزارت، مشیران اور سیکریٹری بھی میوزک چیئر کے ستم کا شکارہیں۔ اس پسِ منظر میں شوکت ترین کی مجبوری اپنی جگہ کہ وہ آئی ایم ایف معاہدے کی مزید تفصیلات نہیں بتا سکتے مگر عوام کو  اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ویسے بھی ان کے جن پیش روؤں نے تفصیلات بتائیں، وہ کونسا اپنی شرطوں کا حشر دیکھنے تک اپنی کرسی تک رہے!

شرط کیا تھی ، ہار اور جیت پر کیا داؤ پر لگا تھا، یہ سر درد تو عوام کا ہے، ڈاکٹر حفیظ شیخ کا تھا نہ شوکت ترین کا۔ پروین شاکر کی خود سپردگی کا صلہ کچھ اور تھا مگر آئی ایم ایف سپردگی پر عوام کا صلہ کچھ اور ہوگا ۔

اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی

جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔