پاکستانی سمندروں میں جیلی فِش کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تحقیق کی ضرورت ہے، ماہرین

آفتاب خان  بدھ 3 نومبر 2021
پاکستانی سمندروں میں 15 سے20 اقسام کی جیلی فش پائی جاتی ہیں جن پر تحقیقی کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستانی سمندروں میں 15 سے20 اقسام کی جیلی فش پائی جاتی ہیں جن پر تحقیقی کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

 کراچی: پاکستانی سمندروں میں پائی جانے والی جیلی فش کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پر تحقیق وقت کی ضرورت ہے

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج دنیا بھر میں جیلی فش کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سمندر میں پائی آبی مخلوق انسانوں کے لیے مہلک اور جان لیواثابت ہوسکتی ہے،دریائے سندھ کے کریک ایریاز جبکہ بلوچستان کے ساحلی مقامات جیوانی،گوادر اور کلمت کھور میں 15 سے20 زیادہ اقسام کی جیلی فش رپورٹ ہوچکی ہیں اور ان میں سے ایک قسم ڈیڑھ من سے زیادہ وزنی ہے، اس آبی مخلوق کی وجہ سے کئی مرتبہ ماہی گیری کا پہیہ رک چکا ہے ۔

ماہرین کے مطابق جیلی فش قدرتی ماحول کاایک حصہ ہے۔ ابھی تک ان عوامل کا تعین نہیں ہوسکا ہے کہ جیلی فش کی تعداد اچانک کیوں اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ  یہ سمندر میں وسیع کالونیاں یا بلوم بنالیتے ہیں۔ یوں  سمندر کا ایک بہت بڑا حصہ ان سے بھر جاتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف(پاکستان)کےتیکنیکی مشیر محمد معظم خان کے مطابق پاکستان میں جیلی فش کی 15 سے 20 اقسام پائی جاتی ہیں۔ کچھ جیلی فش ایسی ہیں کہ جن کے کانٹوں کی رگڑ سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہیں جبکہ کچھ میں صرف وقتی طور پر شدید تکلیف کا سامنا رہتا ہے،جو بعد میں خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جیلی فش کا ایک بہت بڑی تعداد میں ملنا اس بات کا غماز ہے کہ یہ غیرمعمولی اضافہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہورہا ہے۔ پہلے اتنی بڑی تعداد سمندر میں نمودار نہیں ہوتے تھے۔ پاکستان میں بہت کم عرصے کے دوران لگ بھگ 16مرتبہ جیلی فش کے بلوم یا غیرمعمولی افزائش کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔

معظم خان کے مطابق سن 2003اور2004 کے درمیان جیلی فش کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ ماہی گیری ایک سال تک مکمل طور پربند ہوگئی تھی اور دوسری مرتبہ سن 2018 میں اس کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے ماہی گیری 6 ماہ تک متاثر رہی۔

یہ تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پاکستان کے علاوہ ایران،بھارت،اومان بلکہ یمن تک یہ جیلی فش پھیلی ہوئی تھی۔

جیلی فش کے نقصان سے قطع نظر اس کا ایک فائدہ بھی بلوچستان کے ساحلی مقامات کے ماہی گیروں کو پہنچتا ہے،دریائے سندھ کے کریک ایریا،بلوچستان کے کلمت کھور،پسنی،جیوانی اور گوادر میں اس دوران پائی جانے والی جیلی فش کی 2اقسام ایسی ہیں جن  کو نمک اورپھٹکری سے ٹریٹ کرکے چائنا ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

جیلی فش کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ اس پر تعلیمی اور دیگر ریسرچ آرگنائزیشن کو کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا پر عذاب کی شکل میں نمودار ہونے والی اس آبی مخلوق کے بڑھنے کی وجوہات کا پتہ چل سکے،کیونکہ یہ بہت زیادہ نقصان کا باعث بھی بنتی ہے،نہ صرف ماہی گیری کا پہیہ رک جاتا ہے بلکہ پاور پلانٹس بند ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں اس تحقیق کا ایک اور بھی فائدہ ہے کہ اس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ جس جیلی فش کی دنیا میں مانگ ہے وہ اگر ہاکستانی سمندروں میں بڑھ جاتی ہے،تو اس کے ایکسپورٹ کے حوالے سے ایک مینجمنٹ پلان بنایا جاسکتا ہے۔

معظم خان کے مطابق جیلی فش سمندر سے ملنے والے فوڈ چین کا آخری حصہ ہے،جسے عام طورپر آبی مخلوق بھی نہیں کھاتی البتہ کچھووں کی کچھ اقسام کی خوراک جیلی فش ہے،یہ صورتحال اس بات کی بھی عکاس ہے کہ جب بہت بڑے پیمانے پر مچھلی کا شکار کرلیا جاتا ہے،تو آخر میں جیلی فش ہی باقی رہ جاتی ہے جوکہ ماہی گیری کے لیے تباہ کن ہے،دنیا بھر میں جیلی فش کی 400 سے 500 کے قریب اقسام ملتی ہیں،جو ایک پن ہول سے لے انسان سے بھی 100 گنا بڑی ہوسکتی ہیں۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی آبی مخلوق جیلی فش ہی ہے،پاکستان میں جو جیلی فش ملتی ہے وہ ڈیڑھ من تک وزنی ہوتی ہے،یہ ان دواقسام میں شامل ہے جو بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔