چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار صدر کو دینے پراٹارنی جنرل کا اعتراض

حسنات ملک  جمعـء 5 نومبر 2021
’’طاقتورحلقے‘‘ بھی مخالف،وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کے تحفظات پراتفاق کرلیا۔ فوٹو:فائل

’’طاقتورحلقے‘‘ بھی مخالف،وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کے تحفظات پراتفاق کرلیا۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے آئین کے آرٹیکل209 کے تحت چیئرمین نیب کوہٹانے کیلیے متعلقہ فورم سے اختیارواپس لینے پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے وزیراعظم کوآگاہ کردیا ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے یہ اختیارصدرمملکت کودینے سے سنگین قانونی ایشوز سراُٹھا سکتے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اٹارنی جنرل نے وزارت قانون کی اس تجویز پر بھی اعتراض کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رولز میں اس کا کوئی ایسا میکنزم بنایا جائے جسے چیئرمین نیب خود تیارکریں۔

اٹارنی جنرل کواعتراض ہے کہ اگر چیئرمین نیب خود رولز وضع کرتے ہیں تواس سے چیئرمین نیب کے آفس کی شفافیت کے بارے میں سوال اٹھیں گے اور صدر مملکت کا دفترمیں تنازعات کا شکار ہوجائیگا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کوہٹانے کیلیے سپریم جوڈیشل کونسل ہی مناسب فورم ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کے تحفظات پراتفاق کرلیا ہے ۔اب پارلیمنٹ میں اس معاملے کا ازسرنوجائزہ لیا جائے گا جہاں نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی آرڈیننس کا ترمیمی بل منظوری کیلئے پیش کیا جانا ہے۔

اٹارنی جنرل نے ایک ٹی وی انٹرویومیں بھی اپنے تحفظات کی تصدیق کردی ہے۔انہوں نے اپوزیشن جماعتوں پر زوردیا ہے کہ وہ بھی چیئرمین نیب کوہٹانے کے معاملے پر اپنی تجاویز پیش کریں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چیئرمین نیب کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی شروع کرنے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لینے کے معاملے میں پی ٹی آئی کے سینٹرعلی ظفر کو بھی اعتمادمیں نہیں لیا گیا،اس سے قبل وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے بھی اس ترمیم کی مخالفت کی تھی۔

مزید براں ’’طاقتورحلقوں‘‘ کی طرف سے بھی اس کی مخالفت کی گئی ہے۔اس وقت چیئرمین نیب کوہٹانے کا اختیارسپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے ۔اس کیمشن میں سپریم کورٹ کے تین سینئرترین ججوں کے علاوہ ہائیکورٹس کے دوسینئرچیف جسٹس بھی شامل کیے جاتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔