اے پی ایس سانحہ اور عدالت عظمیٰ

ایڈیٹوریل  جمعـء 12 نومبر 2021
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں

سپریم کورٹ نے کہا سانحہ اے پی ایس کے وقت سات اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے کردار کا جائزہ لے کر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور چار ہفتوں میں وزیراعظم کے دستخط سے تفصیلی رپورٹ جمع کروائی جائے، اس عمل میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کو بھی شامل کیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں تاہم اہم عہدیداروں کی اخلاقی کوتاہی کی بنیاد پر مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔ جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیے ، تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرکے اور سرنڈر ڈاکومنٹ دستخط کرنے جا رہی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس کیس کی سماعت کی۔

سانحہ اے پی سی ملک کے عدالتی، سیاسی اور تدریسی اداروں کے لیے ایک درد انگیز اور المناک ترین سانحہ کے طور یاد رکھا جائے گا ، جس میں معصوم طالب علموں سمیت تدریسی عملے کو دہشت گردوں نے مادر علمی کی دیواریں پھلانگ کر شہید کیا ، درندگی کی اس لرزہ خیز اور دلخراش واقعے کی دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ نے خبر دی، اس سانحے سے ماؤں کے جگر چھلنی ہوئے، انھیں معلوم ہوا کہ مادر علمی بھی دہشتگردوں کی قتل و غارت سے محفوظ نہیں۔

عدلیہ نے غمزدہ ماؤں کے درد کو محسوس کیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ انصاف کی فراہمی میں ان سے ضرور تعاون کریں ، انھیں اس کام میں شامل کریں ، یہ ایک ناقابل بیان سانحہ ہے کہ دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو بے رحمی اور بیدردی سے قتل کرنے کی جو سزا دی اسے انسانیت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ یہ درحقیقت انتہا پسندی کے انتقام میں کی جانے والی ظالمانہ کارروائیوں میں اپنی نوعیت کی دردناک ظلم پرستی تھی ، یہ عناصر کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔

وزیراعظم عمران خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے ، اٹارنی جنرل نے بتایا سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعظم کمرہ عدالت میں موجود ہیں، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کا حکم پڑھا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا پڑھا ہے، چیف جسٹس نے وزیر اعظم کوروسٹرم پر مخاطب کرتے ہوئے کہا2014  میں سانحہ ہوا ، اے پی ایس سانحہ کو سات سال گزرگئے، کسی بھی پالیسی بنانے والے کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کارروائی ہونی چاہیے تھی تاکہ آیندہ ایسا نہ ہو۔

عمران خان نے کہا اس وقت ہماری صوبے(خیبر پختونخوا) میں حکومت تھی، اسی شام میں فوری اسپتال گیا اور جو اقدامات کر سکتے تھے کیے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ شہید ہونے والے بچوں کے والدین کہتے ہیں ہمیں پیسے نہیں چاہیے، عدالت عظمی نے اپنے ریمارکس میں ایک ماں کی ممتا ، مادر علمی کے فطری تعلق ، فرد اور ریاست کے مقدس رشتے کی لازوال اہمیت کو اجاگرکیا، عدلیہ کا استدلال تھا کہ اصل مسئلہ یہ تھا ساری حکومتی مشینری کہاں تھی، سانحہ کے بعد بھی سات سال گزرگئے، عدالت نے مختلف افراد کے نام بھی دیے اس پرکیا کارروائی ہوئی؟ پھر پوچھا کہ بطور وزیر اعظم آپ کے پاس اختیارات ہیں۔

جسٹس قاضی امین نے کہا، مسٹر وزیر اعظم پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں، دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتے ہیں لیکن آج پھر مجرمان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جا رہا ہے، کیا دوبارہ سرنڈر ڈاکومنٹ دستخط کرنے جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اے پی ایس سانحہ کے بعد اپنی مرضی کی کارروائی کی گئی جس کو اللہ کے سوا دیکھنے سننے والا کوئی نہیں، کرتا دھرتا سب لوگ مزے لے کے ریٹائر ہوکر چلے گئے، سب سے پہلے ان کو ذمے دار ٹھہرانا چاہیے تھا۔

اتنی بڑی خفیہ ایجنسی تھی ،کیا آیندہ واقعات کو روکنے کے لیے کوئی اقدام کیا گیا ، سب گارڈ آف آنر کے ساتھ گئے، آج مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب اہم سوالات تھے جن میں ملک کے بالادستوںکے ضمیر کو مخاطب کیا گیا، عدلیہ کے چشم کشا ریمارکس میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ خطے میں دہشت گردی کے کتنے ظالمانہ اور سفاکانہ مظاہر انتہا پسندوں نے ملکی تاریخ کے سامنے پیش کیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے ، کوئی سخت اقدام نہیں اٹھایا گیا ، گولی چلانے والے کو نہیں اس کے پیچھے والے کو پکڑنا ہے۔

عدلیہ نے وقوعہ کے حقائق، محرکات اور قاتلوں کو پکڑنے کی ناگزیریت کا سوال اٹھایا ، وزیراعظم عمران خان نے کہا، مجھے تھوڑا وقت دیں تاکہ میں ساری باتیں بتا سکوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 80 ہزار افراد جاں بحق ہوئے، میں نے تو ہمیشہ امریکا کا ساتھ دینے کی مخالفت کی تھی، آج مجھے بتایا گیا عدالتی حکم میں شامل افراد کی صرف اخلاقی ذمے داری بنتی ہے جس پر ایف آئی آر نہیں کٹ سکتی ، جو باتیں وزیر اعظم نے کہیں انھیں تاریخ ، ملکی سیاست ، پولیس کی تفتیش کے پورے ریکارڈ کے ساتھ قوم کو سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، انصاف اب پوری قوم کے سامنے آنا چاہیے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا میں اپنے وزیر اعظم سے پوچھنا چاہوں گا ، سادھوکی میں 9 پولیس اہلکار قتل ہوئے، کیا اس پر حکومت نے کسی کو پکڑا ؟ کیا وہ پولیس اہلکار آپ یا مجھ سے کم اہم تھے؟ فاضل جسٹس نے اس نوآبادیاتی مزاج کے پولیس سسٹم اس کے تفتیشی میکنزم اور کیس کو غیر جانبداری کے ساتھ کیس کو تیار کرنے کی پیشہ ورانہ ذمے داری کی تکمیل تھی۔ چیف جسٹس نے کہا وزیر اعظم صاحب! آپ کہہ رہے ہیں ہم پاکستان میں محفوظ نہیں، اس پر وزیر اعظم نے کہا جب تک افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہو تا ، مسائل رہیں گے۔

وزیر اعظم نے ایک تزویراتی پینڈورا باکس کا حوالہ دیا، افغانستان کا حوالہ قتل و غارت کا حوالہ ہے، افغانستان کی سیاسی صورتحال ایک طویل تاریخ کی حقیقت رکھتی ہے تاہم قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا افغانستان بھی پاکستان کے لیے تزویراتی مسئلہ نہیں بنے گا، کیونکہ مسائل تو بہت گمبھیر ہیں، مگر ان کو حل کرنے کی ذمے داری کون قبول کرے گا، پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے بہت قربانی دی ہے، واضح کیا ہے کہ پرامن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، لیکن مسئلہ افغانستان میں امن آنے کا ہے۔

وزیر اعظم نے ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، افغانستان کے حوالے سے حکومتی پالیسی کے نشیب و فراز اور اس کے مضمرات پر قوم کو صائب سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہے ، پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات اور تعلقات ایک بڑے سیاسی مسئلہ کی علامتی بنیاد ہیں، بہت کچھ ابھی دو طرفہ تعلقات کے لیے کرنا ہوگا ، عدلیہ کے ریمارکس اس جانب بہت رہنمائی کر سکیں گے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سپریم کورٹ نے 20اکتوبر کے حکم نامہ میں سات نام دیے تھے، والدین کی تسلی کے لیے اقدامات کریں۔ وزیر اعظم نے کہا کوئی مقدس گائے نہیں، عدالت حکم دے کارروائی کریں گے، میں تو خود قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں۔ عدالت نے کہا ذمے داروں کا تعین ہوگا تو لوگوں کو بھی اعتماد ہو گا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا مانیں کہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہوئی ہے۔

کیا ان کے خلاف کارروائی کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا ایک راستہ یہ تھا اے پی ایس کے بعد وزیر اعظم سمیت سب استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے۔ جسٹس قاضی امین نے برملا کہا وہ استعفیٰ دیتے تو ان کی جگہ بہتر لوگ آجاتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب تک ان افراد کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی، والدین کو سکون نہیں ملے گا۔ چیف جسٹس نے کہا اب ریاست کا کام ہے کہ ان کے خلاف کیا کارروائی کرنی ہے، کوئی ذمے دار ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں، بچوں کے والدین کو بھی اعتماد میں لیں، وزیر اعظم ان سے ملیں۔

عمران خان نے کہا میں پہلے بھی ان سے مل چکا ہے لیکن پھر بھی ملوں گا ، پیسے دینے کے علاوہ اب اور کیا کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ان کو پیسے نہیں چاہیے، آپ نے ان کو تسلی دی ہوتی تو یہ لوگ عدالت میں کیوں کھڑے ہوتے، تاریخ میں بہت سے بڑے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے ہیں، دعویٰ ہے ہم دنیا کی بہترین ایجنسی ہیں، اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟ جسٹس قاضی امین نے کہا اطلاعات ہیں ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟ بچوں کے والدین کے وکیل امان اللہ کنرانی نے کہا حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، قصاص کا حق والدین کو ہے ریاست کو نہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ بلاشبہ اے پی ایس کا کیس ایک ٹرینڈ سیٹرکیس ہے، ملکی سیاست، عسکری تعلقات اور خطے کے ممالک سے نازک معاملات کے پیش نظر عدالت عظمیٰ تاریخی نظیر قائم کرے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک ایک نازک موڑ پر ہے۔ انسانی زندگی کی قدر و قیمت، معصوم بچوں کی زندگی کے تحفظ اور ایک انسان دوست سیاسی جمہوری سسٹم میں انسانی جان کی کیا قیمت ہوتی ہے، عدلیہ اس ضمن میں بھی ایک شاندار مثال سیاست دانوں اور سیکیورٹی پر مامور افراد کے سامنے پیش کرے گی۔ حساس معاملات عدالت میں زیر بحث آئے ہیں، سیاست دان ملکی معاملات پر دور اندیشی سے کام لیں ، عدالت نے چار ہفتوں میں وزیر اعظم کی دستخط شدہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔