ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری

ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی  اتوار 14 نومبر 2021
جس کا قیام جامعہ کراچی کا ایک قابل تعریف اور لائقِ تقلید عمل ہے۔ فوٹو: فائل

جس کا قیام جامعہ کراچی کا ایک قابل تعریف اور لائقِ تقلید عمل ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کی تہذیبیں اس بات کی گواہ ہیں کہ جن قوموں نے ترقی کی اور خود کو منوایا، وہ علم دوست تھیں اور تعلیم کی اہمیت سے آشنا تھیں۔

جب بھی کسی متمدن اور مہذب قوم یا معاشرے کا ذکر کیا جائے گا تو وہاں کے محققین، ادبا اور کتب خانوں کا ذکر ضرور آئے گا۔ تاریخی، مذہبی اور معاشرتی ہر اعتبار سے کتابوں کی ہمیشہ بہت اہمیت رہی ہے۔

تمام بڑے مذاہب نے اپنے راہ نما اصول، ضابطۂ حیات، فرمودات اور ضابطۂ اخلاق کتابوں کے ذریعے پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پر کتابیں اور صحیفے نازل کیے۔ دینِ اسلام میں تو پہلی وحی لفظ ’’اقرا‘‘ سے شروع ہوتی ہے جس کا مطلب ہے ’’پڑھ۔‘‘ پھر قرآنِ کریم کے آغاز میں ہی:

ذَالک الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہ۔

(یہ وہ کتاب ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں)

یعنی:

اس آیت سے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتاب کی اہمیت کیا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں اور طباعت و کتابت کے ارتقا کے مدارج کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب لفظ ایجاد نہیں ہوئے تھے تو قدیم مصر میں اشکال/ تصویروں (Pictorial form) کے ذریعے ابلاغ کیا جاتا تھا جسے Hieroglyph کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں درختوں کی چھالوں، جانوروں کی کھالوں، پتھروں، ہڈیوں اور مٹی کی تختیوں پر کسی دھات یا نوکیلے پتھر سے الفاظ کندہ کیے جاتے تھے۔ پھر اس کے بعد لکڑی کے ٹھپّے (بلاک) بنائے گئے۔

جب لفظ و معنی ایجاد ہوگئے اور لوگوں کا شعور ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا تو اپنی معلومات دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے قلمی کتابیں تحریر کی جانے لگیں۔ ان کتابوں کے کئی کئی سو نسخے کاتبین اپنے قلم سے تحریر کرکے دوردراز مقامات پہ قائم کتب خانوں کو بھجوایا کرتے تھے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صرف اسکندریہ کے کتب خانے میں اس وقت ہزاروں قلمی نسخے موجود تھے جو چمڑے کی جلد میں محفوظ کیے جاتے تھے۔ اسی طرح عباسیوں کے عہد میں بغداد کے کتب خانے کو کون بھول سکتا ہے جہاں کتابوں کا ایک جہان آباد تھا۔ اسی طرح ہند اور چین کے کتب خانے بھی بے شمار کتابوں سے مزین تھے۔ ارسطو کا شہرۂ آفاق کتب خانہ اور سقراط و بقراط کے کتب خانے آج بھی لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں۔ ہارون الرشید اور مامون الرشید نے اپنے کتب خانے کو ’’بیت الحکمت‘‘ کا نام دیا تھا جس میں مختلف موضوعات پہ دس لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔

جب الفاظ ایجاد ہوگئے اور لوگ لکھنے پڑھنے کی طرف مائل ہونے لگے، ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابت کے بعد مشینی طباعت کا آغاز ہوا۔ کتابیں چھاپی جانے لگیں اور مطالعے کا رجحان بہت بڑھنے لگا۔ اس کا لبِ لباب یہی ہے کہ انسان شروع سے ہی حصولِ علم کی جستجو میں خاک چھانتا رہا اور اس سے ناتا جوڑے رکھا۔ وہ تمام معاشرے جہاں صاحبانِ فکر و شعور غالب حیثیت میں تھے، وہاں کے عوام تہذیب یافتہ، باشعور اور مثبت و معتدل رویے کے حامل تھے۔ اس تمام تاریخی تناظر میں جہاں اساتذہ، علما اور محققین کا کردار نمایاں رہا ہے، وہیں کتب خانوں کی اہمیت بھی مسلمہ رہی ہے۔ رومی فلسفی سیسرو نے کہا تھا:

’’کتابوں سے خالی کمرے کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر روح کے جسم۔‘‘

کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار برس سے زیادہ قدیم ہے، جو ہمیں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں سناتی ہے۔ ان ہی کتب خانوں سے استفادہ کرکے بڑے بڑے فلسفی، مفکر، محققین اور دانش وروں نے نت نئی دریافتیں کیں، ایجادات کیں اور دنیا میں انقلابات برپا کیے۔ یورپ میں بھی تحقیق کا آغاز لگ بھگ پانچ سو برس قبل ہوا۔ اس سے پہلے وہ بھی اندھیروں میں بھٹک رہے تھے مگر پھر انھوں نے تحقیق کی راہ اپنا لی اور اب دنیا پر راج کر رہے ہیں۔

کسی بھی قوم کی ذہنی بلندی اور روشن خیالی کا سراغ کتب خانوں سے ملتا ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ اقوام مطالعے کے کلچر کو پروان چڑھاتی ہیں۔ سمندر کی پنہائیوں سے آسمانوں کی وسعت تک جو کچھ اس کائنات میں ہے اور اس پر جتنی پیش رفت ہوئیں جو کچھ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا وہ سب ممکن ہوا، کائنات کو مسخر کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ چاند، ستاروں پر کمند ڈالی جا رہی ہے، زمین کی گہرائیوں میں جاکر تاریخ کا کھوج لگایا جا رہا ہے۔ نئی دنیائیں تلاش کی جا رہی ہیں۔

اُن سب کام یابیوں کی وجہ صرف تحقیق ہے۔ اور کتب خانہ وہ جگہ ہے جہاں تمام علوم کے خزانے ملتے ہیں۔ اس لیے کتب خانے نہ صرف مطالعے کے شوقین افراد اور طلبہ کی علمی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ تحقیق کرنے والوں کے لیے مرکزی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک پُرسکون لائبریری جو مختلف علوم پر کتابوں، مقالوں، جدید قسم کی ڈیجیٹل اور آن لائن سہولتوں سے آراستہ ہو، جہاں تربیت یافتہ مستعد عملہ ہمہ وقت آپ کی مدد کے لیے حاضر ہو، تشنگانِ علم کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ہوتا۔

جامعہ کراچی جیسی تاریخ ساز درس گاہ اور مادرِ علمی جس نے پاکستان کو عالمی شہرت یافتہ عظیم لیڈر، سائنس داں، محقق، مفکر، صنعت کار، وکیل، سفارت کار، سیاست داں، دانش ور، شاعر، ادیب اور صحافیوں سے نوازا جس کا شمار بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جہاں پر تعلیم حاصل کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔

’’ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری‘‘ کا جامعہ کراچی جیسی دانش گاہ میں قائم ہونا ہر اعتبار سے خوش آئند، قابلِ تعریف اور قابلِ تقلید ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تمام عمر حصولِ علم اور تحقیق میں صرف کردی۔ وہ ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے جن کی زندگی کی ہر جہت اپنی جگہ یکتا و بے مثل تھی۔ وہ بیک وقت سرکاری افسر اور بیوروکریٹ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ستھرے علمی و ادبی ذوق کے مالک تھے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان سول سروس کے بعد فوراً جامعہ کراچی میں ’’شیخ الجامعہ‘‘ کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نام ور محقق، بے مثل مدرّس، ممتاز مؤرّخ، ماہر مدوّن، بہترین مترجم، کھرے ناقد، لغت نگار، ماہرِلسانیات اور اعلیٰ پائے کے منتظم رہے۔ جس ادارے میں رہے اُس کی سربلندی اور وقار کا باعث بنے۔ چاہے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے پر ہوں یا مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ، اردو لغت بورڈ کے صدر ہوں یا شیخ الجامعہ، اُن کی شخصیت کا ہر روپ مکمل اور بھرپور تھا۔ انھیں اصل دل چسپی ’’تحقیق‘‘ سے تھی، اس مشکل شعبے کا انتخاب بھی انھوں نے اپنی خوشی سے کیا تھا اور تمام عمر اسی پُرخار وادی کی آبلہ پائی کرتے رہے اور ایسے ایسے گنج ہائے گراں مایہ اپنے ورثے میں چھوڑ گئے جس سے آنے والی نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔

’’تاریخِ اردو ادب‘‘ اُن کا ایک ایسا معرکہ آرا کام ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ جس میں اُنھوں نے دکنی ادب سے انیسویں صدی تک کا احاطہ کیا ہے۔ فخر الدین نظامی کی قدیم مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ پہ اُن کی سات سالہ تحقیق ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے جس پر اُنھیں ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔

ادب و تحقیق کے علاوہ اُنھوں نے تراجم جیسے بالکل الگ مزاج کے شعبے کا انتخاب بھی کیا اور ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ جیسے انگریزی ادب کے مرقع کا اردو ترجمہ کرکے غیرملکی ادب سے متعارف کروایا۔ انھوں نے کبھی خود کو کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رکھا۔ ان کی ادبی کاوشیں کا مرکز شعرا بھی رہے جیسے ’’میرؔ و سوداؔ کے دور کی ادبی و لسانی خصوصیات‘‘، ’’اقبال صدی خطبہ‘‘ (جو اُنھوں نے دہلی میں پیش کیا تھا)، میراجی، ن م راشد، قلندر بخش جرأت پر کیا گیا کام کبھی شائقینِ ادب کے ذہنوں سے محو نہیں ہوسکتا۔

ادب ہو یا کسی مؤقر رسالے کی ادارت ہو یا شاعرانہ تنقید، لسانی مباحث ہوں یا قومی زبان کا مسئلہ، تنقیدی ادب ہو یا بچوں کا ادب۔ انھوں نے اپنے فکروفن اور اعلیٰ قوتِ متخیّلہ سے ہر موضوع کا احاطہ انتہائی ژرف نگاہی سے کیا۔

تیس سے زیادہ کتابیں اور متنوع موضوعات پر تین سو سے زیادہ مضامین جن میں برٹرینڈ رسل اور ژاں پال سارتر جیسے فلسفیوں پر بھی فکرانگیز تحریریں شامل ہیں۔ انھوں نے جن موضوعات کا انتخاب کیا، وہ معاشرے، تہذیب و ثقافت، تاریخ و مذہب اور حب الوطنی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے چلے جانے سے تحقیق کا میدان سونا ہوگیا ہے۔ انھوں نے تنِ تنہا اتنا کام کیا جتنے ادارے مل کر بھی نہیں کرتے۔ ان کی بہت سی کتب درسی نصاب کا حصہ ہیں۔ اپنی نگارشات پر ستارۂ امتیاز، ہلالِ امتیاز، داؤد ادبی انعام اور کمالِ فن ایوارڈ جیسے اعزازات کا حامل، عالمِ بے بدل، ہمہ گیر، ہمہ جہت تحقیق کی دنیا کا یہ شناور نوے برس کی عمر میں اپریل ۲۰۲۰ء میں داغِ مفارقت دے گیا۔

جامعہ کراچی میں ان سے موسوم ریسرچ لائبریری کا قائم ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے اکابر کی قدر کرتے ہیں اور اُن کے جلائے ہوئے چراغوں کو روشن رکھنا چاہتے ہیں۔

ہم خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیر نہیں، اُجالا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔