بسوں کی کمی، خواتین موٹر سائیکل چلانے لگیں

عامر خان  منگل 16 نومبر 2021
کالج جانے میں شدید پریشانی تھی کئی بسیں بھری ہوئی آتی تھیں،طالبات ۔ فوٹو : فائل

کالج جانے میں شدید پریشانی تھی کئی بسیں بھری ہوئی آتی تھیں،طالبات ۔ فوٹو : فائل

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی سے روزانہ مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین اور تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات کو سفر کرنے میں شدید مشکلا ت کا سامنا ہے۔

نوکری پیشہ خواتین اور طالبات ٹیکسی سروس، نجی گاڑیوں اور 11 سیٹر رکشوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، کچھ خواتین اور طالبات بسوں ، منی بسوں اور کوچز میں سفر کرتی ہیں، بڑی بسوں ،کوچز اور منی بسوں کی کمی کی وجہ سے گھریلو ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کو سفر کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔

اسی وجہ سے اب ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات نے معاشرتی مسائل کے باوجود موٹر سائیکل پر سفر کرنا شروع کر دیا ہے، بعض خواتین اور طالبات موٹر سائیکلیں ( اسکوٹیاں چلانے کو ترجیح دے رہی ہیں۔

لیاقت آباد کی رہائشی زبیدہ ناز نے بتایا کہ انھوں نے حال ہی میں گریجویشن کیا ہے اور اب نجی ادارے میں ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہوں، یونیورسٹی جانے کے لیے تو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی تھی جب ملازمت اختیار کی تو آمدورفت میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا شروع میں تو رکشا اور پبلک ٹیکسی سروس سے آنا جانا کیا کچھ دن کے لیے ایک پرائیویٹ سوزوکی میں سفر کرتی رہیپرائیویٹ سوزوکی میں مختلف ملازمت پیشہ خواتین سفر کرتی تھیں جو مختلف اداروں میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔

زبیدہ نے کہا کہ اس سہولت سے فائدہ تو تھا لیکن گھر لوٹنے میں کافی تاخیر ہو جاتی تھی یہ مسئلہ میں نے اپنے والد کے سامنے رکھا تو انھوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تجویز دی کہ میں تمھیں خواتین کی موٹر سائیکل خرید کر دے دیتا ہوں اور چلانا بھی سکھا دیتا ہوں اس سے تمہاری آمد ورفت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور تم باآسانی وقت پر دفتر اور گھر پہنچ جاؤ گی پہلے تو مجھے کچھ شرم محسوس ہوئی تاہم والد اور والدہ کے حوصلہ دینے کے بعد میں نے والد کو ہاں کر دی۔

انھوں نے مجھے اسکوٹی خرید کر دی اور ایک مہینے تک چلانے کی تربیت دی اس کے بعد آج میں باآسانی سفر کرتی ہوں، راستے میں لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں، میرے لیے میرے والدین کا اعتماد ہی بہت ہے، آج میں باآسانی اپنے تمام امور انجام دیتی ہوں اور باوقت ضرورت اپنی والدہ کو بازار بھی لے جاتی ہوں جہاں بااسانی خریداری کر لیتے ہیں۔

شریف آباد میں مقیم گریجویشن کی ایک طالبہ حرا عارف نے بتایا کہ وہ ایک سرکاری کالج سے بی اے کر رہی ہیں، میرے والد ایک سرکاری دفتر میں ملازم ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کالج جانے میں شدید پریشانی ہوتی تھی کئی مرتبہ بسیں اور منی بسیں بھری ہوئی آتی تھیں، رکشوں میں جگہ بھی نہیں ہوتی تھی، ہمارے گھر میں ایک موٹر سائیکل موجود تھی ، ایک دن میں نے والد سے درخواست کی کہ مجھے موٹر سائیکل پر کالج جانے کی اجازت دیں، میری والدہ نے اعتراض کیا تاہم والد اور بھائی نے حوصلہ افزائی کی اس موٹر سائیکل کو ٹھیک کروا کر چلانے کی تربیت دی، تقریبا دو ماہ مجھے موٹر سائیکل سیکھنے میں لگے، آج میں باآسانی موٹر سائیکل کالج آنا جانا کرتی ہوں تاہم میری کلاس فیلو اور دیگر خواتین مجھے حیرت سے دیکھتی ہیں۔ کئی طالبات نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیسے موٹر سائیکل چلا لیتی ہو جس پر میں نے انہیں اپنا پورا قصہ بیان کیا۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں موٹر سائیکل چلانے والی خواتین کو لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں، کہتے تو کچھ نہیں لیکن اس انداز میں دیکھتے ہیں کہ کوئی عجوبہ سڑک پر جا رہا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ میں عبایہ پہنتی ہوں اور ہیلمٹ کا استعمال کرتی ہوں جس سے مجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے، کراچی میں خواتین کو آمدورفت میں بہت مشکلات ہیں اسی لیے خواتین اور لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ موٹر سائیکل چلانا سیکھیں اور ہمت پکڑیں تاکہ انھیں سفر میں کوئی دقت نہ ہو۔

پنجاب کالونی میں مقیم ایک شادی شدہ خاتون نگہت بیگم نے بتایا کہ گھریلو خاتون ہیں، میرے شوہر ایک پرائیویٹ ادارے میں کام کرتے ہیں، دو بچے ہیں ، جنہیں اسکول اور لانے لے جانے اور دیگر گھریلو کاموںکو نمٹانے میں بہت مشکلات ہوتی تھیں، میرے شوہر کے پاس دو موٹر سائیکلیں تھیں، ایک خراب موٹر سائیکل جو گھر میں موجود تھی ، میں نے شوہر سے کہا کہ وہ ٹھیک کروادیں اور مجھے چلانا سکھا دیں تو میں بچوں کو اسکول چھوڑ کر اور قریبی دکانوں سے سودا سلف لے آوں گی۔

انہوں نے کہا کہ پہلے تو میرے شوہر نے بہت اعتراض کیا تاہم بعد میں میرے شدید اصرار پر وہ راضی ہو گئے اور مجھے موٹر سائیکل چلانا سکھادی، کچھ عرصہ بعد میں نے موٹرسائیکل پر بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا شروع کیا تو لوگ خصوصا دیگر بچوں کی مائیں مجھے حیرت سے دیکھتیں اور پوچھتی کہ تم کیسے موٹر سائیکل چلا لیتی ہو ، تمہیں خوف نہیں آتا۔ یہ تو مرد وں کی سواری ہے تاہم میں خواتین کے ان سوالات سے گھبراتی نہیں ہوں بلکہ انہیں مطمئن کرتی ہوں کہ وہ بھی موٹر سائیکل چلائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ایک دو خواتین کو قائل کیا ہے ، امید ہے کہ وہ بھی جلد موٹر سائیکل چلانا سیکھ لیں گی،فیڈرل بی ایریا میں گھروں میں کام کرنے والی ایک ملازمہ رانی بیگم نے بتایا کہ میں شادی شدہ ہوں اور کرسچن کالونی میں رہتی ہوں، میرے شوہر بیمار ہیں، ان کی نوکری چھوٹ چکی ہے، ان کے پاس ایک موٹر سائیکل موجود تھی، ان کی نوکری ختم ہونے کے بعد ہمارے گھر میں فاقے ہو گئے،اس کے بعد میں نے فیڈرل بی ایریا کچھ فلیٹوں اور گھروں میں گھریلو کام کرنا شروع کیا تو مجھے سفر کرنے میں مشکلات ہوتی تھیں جس کی وجہ سے کئی مرتبہ میں کام پر لیٹ پہنچتی تھی، شوہر کی اجازت سے میں نے ان کی موٹر سائیکل چلانا شروع کی، میرے بھائی نے مجھے موٹر سائیکل چلانا سکھائی۔ آج میں باآسانی موٹر سائیکل پر سفر کرتی ہوں اور مقررہ وقت پر اپنے کام کو سرانجام دینے کے بعد گھریلو امور سے متعلق سامان بھی خرید لیتی ہوں، اس طرح وقت کے ساتھ پیسے سے بھی بچ جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ طبقہ اشرافیہ کے علاوہ متوسط اور غریب علاقوں میں خواتین جب موٹر سائیکل چلاتی ہیں تو لوگ ان پر حیرت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہے کہ خواتین آزادانہ طور پر موٹر سائیکل چلائیں لیکن ہمیں اپنا کام کرنا ہوتا ہے، ہم موٹر سائیکل چلاتے وقت ہم عبایہ ضرور استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ والدین اور گھر کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بچیوں اور گھریلو خواتین کی حوصلہ افزائی کریں،سماجی رہنما زہرہ خان نے بتایا کہ ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ طالبات اور گھریلو خواتین میں موٹر سائیکل چلانے کے رحجام میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ ایک اچھا اقدام ہے، انھوں نے کہا کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے بہت مسائل ہیں۔ رات کے اوقات میں خواتین کے لیے سفر کرنا مشکل ہوتا ہے، جب خواتین خود موٹر سائیکل چلائیں گی تو ان میں تحفظ کا احساس بھی ہو گا۔

سماجی رہنما سیدہ احمد نے کہا کہ آج کے معاشرے میں خواتین ہر شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں اگر متوسط اور غریب خاندانوں کی بچیاں یا عورتیں سفر کرنے کے لیے خود موٹر سائیکل چلائیں گی تو یہ ایک اچھا اقدام ہے، وفاقی اور سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین اور طالبات کو آسان اقسام پر موٹر سائیکلیں فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کریں تاکہ خواتین باآسانی سفر کر سکیں اور انھیں موٹر سائیکل چلانے کی تربیت کے لیے کوئی انسٹی ٹیوٹ کی خدمات فراہم کی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔