ن لیگ نے شرح سود میں اضافے کو ملکی صنعت کیلیے ایک اور پھندا قرار دے دیا

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 19 نومبر 2021
شرح سود بڑھنے سے صنعتی پیداوار میں کمی ہوگی اور حکومت کے اخراجات بڑھیں گے، سابق وزیر خزانہ (فوٹو : فائل)

شرح سود بڑھنے سے صنعتی پیداوار میں کمی ہوگی اور حکومت کے اخراجات بڑھیں گے، سابق وزیر خزانہ (فوٹو : فائل)

 کراچی: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے شرح سود میں اضافے کو ملکی صنعت کے لیے پھانسی کا ایک اور پھندا قرار دے دیا۔

اپنے ویڈیو بیان میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سود کے بڑھنے سے صنعتی پیداوار میں کمی ہوگی اور حکومت کے اخراجات بڑھیں گے، ڈیڑھ فیصد سود بڑھانے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی، نجی شعبے کو مزید مشکلات اور سست روی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ سوا سات سے پونے 9 فیصد کرنے سے حکومت کی سود کی ادائیگی میں 400 ارب سالانہ کا مزید اضافہ ہوگا، مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی روکنے کے لیے دو سال پہلے بھی یہ کام حکومت نے کیا تھا، اس اقدام سے پہلے بھی نہ مہنگائی رکی نہ روپے کی قدر میں کمی بلکہ معیشت مزید کساد بازاری کی نذر ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کی حکومت پہلے بھی شرح سود بڑھا کر ملکی معیشت کو ریورس گئیر لگا چکی ہے، ایک بار پھر تیزی سے شرح سود بڑھائی جارہی ہے، پہلے بھی معیشت سست روی کا شکار ہوئی تھی اب پھر ہوگی، شرح سود میں اتنا تیزی سے اضافہ کرکے ملک میں آگ لگاتی ہوئی مہنگائی پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟ اس اقدام سے مہنگائی پر قابو پایا جائے گا نہ ہی روپے کی گرتی ہوئی قیمت کو روکا جا سکے گا۔

یہ پڑھیں : مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ

 

انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں تاریخ کا سب سے بلند 15 ارب ڈالر سے زائد کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ہونے جارہا ہے جب 75 ارب ڈالر کی امپورٹ دکھائی دے رہی ہوں تو روپے کی گرتی ہوئی قدر روکنا ممکن نظر نہیں آتا، حکومت اپنے شاہی اخراجات کم کرے، درآمدی اور دیگر شعبہ جات کو سستی گیس دی جائے، صنعت چلائیں تاکہ ملک سے زیادہ سے زیادہ برآمد اور کم سے کم درآمد ہو۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کم کرنے کے لیے حکومت بجلی کے نرخوں میں کمی کرے، پٹرول کی قیمتوں کو کم کرنے عوام اورمعیشت کو ریلیف دیا جائے، پاکستان کی موجودہ مہنگائی شرح سود میں کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ چیزوں کو مہنگا کرنے بالخصوص بجلی گیس اور پٹرول کو مہنگا کرنے کی وجہ سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔