مانیٹری پالیسی اور عوام کے دل کی دھڑکن

اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں سود کی شرح میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے


Editorial November 21, 2021
اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں سود کی شرح میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے

اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں سود کی شرح میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ درآمدات اور ترسیلات میں کمی جب کہ جاری کھاتوں میں خسارہ اور مہنگائی بڑھی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 150 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 8.75 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلاشبہ مانیٹری اعلامیہ ملک کے ان مالیاتی اور زری حلقوں کے لیے ایک آئینہ ہے جس میں وہ شرح سود کے اثرات کا جائزہ لیتے اور معیشت و اقتصادیات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر دیکھتے ہیں کہ حکومت اور ان کے معاشی اور مالیاتی مسیحاؤں نے ان کے معاشی معاملات کا کیا حل تجویز کیا ہے، لہٰذا اس جائزہ جاتی اعلامیہ سے براہ راست عوام کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کوئی میزانیہ نہیں ہے، بس بے روح تخمینہ ہے جس میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ڈیڑھ فی صد اضافہ کی اطلاع دی ہے اور درآمدات، ترسیلات کے کم ہونے اور مہنگائی بڑھنے کی نوید سنائی ہے، یہیں سے عوام کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی ہے۔

اور انھیں محسوس ہونے لگتاہے کہ ہنوز دلی دور است۔ در اصل حکومت نے قوم سے جو وعدے کیے، ایک سو دن کی ڈیڈ لائن میں تبدیلی لانے کے جو خواب دکھائے وہ حقیقت کے مقابلے میں فکشن کی خوبصورت تحریر تھی، علمی سطح پر جو باریک نکتہ علمائے کرام، اقتصادی مدبرین نے پیش کیا ہے وہ یہی ہے کہ شعرا اپنے اشعار میں بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔

ان کے انقلابی اشعار میں سماجی زندگی میں تبدیلیوں کے جو افسانوی رنگ پیش کیے جاتے ہیں، وہ کسی نظام حیات یا کوئی مستحکم اصولی نظریہ کے نقیب نہیں ہوتے، اس لیے اقتصادی اور معاشی نظریات ٹھوس عملی تجربات، انسانی فلسفے کا نچوڑ ہوتے ہیں، اس لیے جب ہم سیاسی تقاریر، پارٹی منشور اور حکومتی اعلامیوں اور بیانات کے نتائج پر غور کرتے ہیں تو کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آتی، ماہرین عوام کو اقتصادی گورکھ دھندوں اور اعداد وشمار کی کہانیوں سے بہلاتے ہیں۔

حکمرانی کے جدید طریقوں سے معاشی ماہرین نے قوم کی حقیقی اقتصادی کایا پلٹ کے جو نئے معیار بتائے ہیں وہ معاشی فیصلوں میں زمانے کے تقاضوں سے مربوط حکمت عملی سے جڑے ہوتے ہیں، اور وہی حکمرانی سماجی تبدیلی لاتی ہے جو اقتصادی اور معاشی اقدامات کے ذریعے عوام کی آسودگی، ان کی روزمرہ ضروریات اور زندگی کے اسلوب کو بدلنے کا وہی طریقہ اپناتی ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپناتے ہیں، ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات عوامی امنگوں اور دکھوں سے کبھی ہم آہنگ نہیں رہیں۔

عوام کی زندگی عشروں سے افتادگان خاک جیسی رہتی ہے، حکومت کو تین سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، مگر عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اور قوم کو الیکٹرانک ووٹنگ کے خواب دکھائے جا رہے ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں دھاندلی کے طریقے کسی بٹن سے ختم نہیں ہوں گے، کروڑوں ووٹرز اور اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے جو اس برقی نظام کے خلاف اس انداز نظر پر قائم ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ دھاندلی روکنے کی کوشش نہیں بلکہ مخالفین کے ووٹ روکنے کا الیکٹرانک حربہ ہے، بہر حال اس سوچ کی تبدیلی میں بھی ذہنی انقلاب کی ضرورت ہے، حکمرانوں کو اقتصادی معاملات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، عوام سخت مشکل میں ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے اعلامیہ کے مطابق پچھلے اجلاس کے بعد مہنگائی اور توازن ادائیگی سے متعلق خطرات بڑھے ہیں جب کہ نمو کا منظرنامہ مزید بہتر ہوا، جاری کھاتوں کا خسارہ پہلی سہ ماہی میں 3 ارب 40 کروڑ ڈالر رہا جب کہ برآمدات اور ترسیلات زر میں بھی کمی ہوئی۔ مانیٹری پالیسی اعلامیہ کے مطابق مہنگائی اور توازن ادائیگی سے متعلق بڑھتے ہوئے خطرات عالمی اور ملکی دونوں قسم کے عوامل کی بنا پر ہیں، دنیا بھر میں رسدی زنجیروں میں کووڈ سے تعطل کی بنا پر قیمتوں کا دباؤ اور توانائی کے بلند نرخ اس سے زیادہ بڑے اور دیرپا ثابت ہو رہے ہیں جتنا پہلے سمجھا گیا تھا۔

جواب میں مرکزی بینکوں نے عام طور پر مہنگائی کی توقعات کو قابو میں رکھنے کے لیے زری پالیسی کو سخت کرنا شروع کر دیا۔ جہاں تک توازن ادائیگی کا تعلق ہے، ستمبر اور اکتوبر میں جاری کھاتے کے خسارے توقع سے زیادہ رہے ہیں جس سے تیل اور اجناس کی بڑھتی قیمتوں اور تیز ملکی طلب دونوں کی عکاسی ہوتی ہے، اس بیرونی دباؤ سے نمٹنے کا بوجھ زیادہ تر روپے پر پڑا ہے، ان حالات کے نتیجے میں خطرات کا توازن توقع سے زیادہ تیزی سے نمو سے مہنگائی اور جاری کھاتے کی طرف منتقل ہوگیا۔

چنانچہ ایم پی سی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مہنگائی کے دباؤ کا مقابلہ کرنے اور نمو کے استحکام کو برقرار رکھنے کی خاطر زری پالیسی کو معمول پر لانے کے لیے زیادہ تیزی سے آگے بڑھنا ہوگا، ریٹ میں اضافہ اس سمت میں اہم قدم ہے، مالی سال21-22 ء کے آغاز سے جاری معاشی بحالی، جس کی عکاسی ملکی طلب کے بلند تعداد اظہاریوں بشمول گاڑیوں کی فروخت، پٹرولیم مصنوعات (پٹرولیم، تیل اور لبریکینٹس) کی فروخت اور بجلی کی پیداوار نیز درآمدات کی مقدار اور ٹیکس محاصل سے ہوتی ہے جاری ہے۔

بلند اساس کے اثر اور رسدی زنجیر کے کسی قدر تعطل کے باعث ستمبر میں تھوڑے اعتدال سے قطع نظر مالی سال21-22 کی پہلی سہ ماہی میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) میں 5.2 فیصد (سال بسال) کی نمو ہوئی جس میں صارفی اشیا (پائیدار اور ناپائیدار دونوں)، تعمیرات سے منسلک اور برآمدی صنعتوں کی پیداوار کا سب سے زیادہ حصہ تھا، زراعت میں کپاس کے سوا خریف کی تمام اہم فصلوں کی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، کپاس کی پیداوار بھی بحال ہوئی اور یکم نومبر تک کارخانوں میں پہنچنے والی مقدار پچھلے سیزن کے اسی عرصے کے مقابلے میں 80 فیصد بڑھ گئی، مجموعی طور پر تیزی سے کم ہوتے ہوئے کووڈ کے کیسوں اور حکومت کی بھرپور ویکسی نیشن مہم کے پس منظر میں معاشی بحالی زیادہ سے زیادہ پائیدار اور ازخود قائم رہنے والی معلوم ہوتی ہے، مگر ڈنگی کی یلغار نے حکومت کو پسپا کر دیا ہے، صوبائی حکومتیں ڈنگی سے نمٹنے میں عوام کو سہولتیں دینے میں فعالیت کا مظاہرہ نہیں کر رہیں، عوام کورونا وائرس سے چھوٹے تو ڈنگی میں گرفتار ہوگئے۔

صحت سسٹم کو ایک بڑے ویک اپ کی ضرورت ہے، دوسری طرف مانیٹری اعلامیہ کے مطابق مستقبل میں خام مال کی بڑھتی لاگت اور معاشی پالیسیوں کے معمول پر آنے کے نتیجے میں صنعتی سرگرمیوں کی نمو میں کچھ اعتدال آنے کا امکان ہے تاہم زراعت کے بہتر منظر نامے سے اس کی بخوبی تلافی ہوسکتی ہے اور مالی سال21-22 میں نمو کی 4-5 فیصد کی پیش گوئی کو لاحق خطرات کا جھکاؤ اوپر کی جانب ہے، اجناس کی مسلسل بلند قیمتوں اور مضبوط ملکی سرگرمی نے جاری کھاتے کے خسارے کو مالی سال21-22 کی پہلی سہ ماہی میں 3.4 ارب ڈالر کی بلند سطح پر رکھا، غیر توانائی درآمدات میں کچھ اعتدال آنے کے باوجود توانائی کی بلند قیمتوں اور خدمات کی درآمدات بڑھنے کے باعث اکتوبر میں یہ خسارہ بڑھ کر 1.66 ارب ڈالر ہوگیا جب کہ ستمبر میں 1.13 ارب ڈالر تھا۔

برآمدات اور ترسیلات ِزر میں کسی قدر ماہ بہ ماہ کمی بھی آئی، توقع ہے کہ مالی سال21-22 کے لیے جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے 2-3 فیصد کی پچھلی پیش گوئی سے تھوڑا تجاوز کر جائے گا، اگرچہ مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ نے دھچکا جذب کرنے والے کا کردار مناسب طور پر ادا کیا تاہم بڑھتے ہوئے جاری کھاتے کے خسارے کے ساتھ مطابقت کے حوالے سے اس نے خاصا بوجھ برداشت کیا، گزشتہ ایم پی سی اجلاس کے بعد سے روپے کی قدر مزید 3.4 فیصد گر گئی ہے۔

امریکی ڈالر مئی سے بیشتر ابھرتی ہوئی منڈیوں کی کرنسیوں کے مقابلے میں بڑھا ہے کیونکہ فیڈرل ریزرو کی جانب سے تدریجی کمی کی توقعات سامنے آئی ہیں تاہم مئی سے روپے کی قدر میں کمی مقابلتاً زیادہ رہی ہے، شرح سود اور مالیاتی پالیسی سمیت ردّوبدل کے دیگر طریقے معمول پر آئیں گے تو روپے پر دباؤ کم ہونا چاہیے، مالی سال21-22 کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی مالیاتی خسارہ جو پچھلے سال کی اسی مدت میں جی ڈی پی کا ایک فیصد تھا بہتر ہوکر 0.8 فیصد سے ہوگیا۔

اس کا سبب بلند ریفنڈز اور پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس ریٹ میں نمایاں کمی کے باوجود ایف بی آر کے ٹیکس محاصل میں ہدف سے زیادہ نمو (38.3 فیصد سال بسال) تھی تاہم پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) میں بڑی کمی کی وجہ سے نان ٹیکس محاصل 22.6 فیصد (سال بسال) گر گئے، اس کے علاوہ بنیادی فاضل مالی سال21-22 کی پہلی سہ ماہی سے 28.6 فیصد کم تھا جس کا سبب غیر سودی اخراجات میں 33 فیصد (سال بسال) اضافہ تھا، مستقبل میں ملکی طلب کو قابو میں رکھنے کے لیے بجٹ میں طے کردہ مالیاتی یکجائی کو حاصل کرنا ضروری ہوگا۔

منصوبے سے بڑھ کر بنیادی مالیاتی خسارہ مہنگائی اور جاری کھاتے کے منظرنامے کو بدتر کرسکتا ہے اور بحالی کی پائیداری کو مخدوش کردیگا، حقیقی رسدِ زر کی نمو حالیہ مہینوں میں تیز ہوگئی ہے اور رجحان کی سطح سے اوپر ہے، پچھلے دو ماہ میں اوسط ماہ بہ ماہ مہنگائی 2 فیصد کی بلند سطح پر رہی اور صارف اشاریہ قیمت باسکٹ کے تمام ذیلی اجزا میں تیزی دکھائی دی۔

گزشتہ دو مہینوں میں مہنگائی بڑھی اور مکانات کے کرایوں، اَن سلے کپڑوں اور ملبوسات، ادویات، چپل جوتے اور دیگر اجزا میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں 6.7 فیصد (سال بسال) ہوگئی۔ علاوہ ازیں گھرانوں کی مہنگائی کی توقعات بلند ہیں اور کاروباری اداروں کی تیزی سے بڑھی ہیں، حکومت عوام کی توقعات پر نظر ڈالے، کیونکہ تقاضائے وقت یہی ہے۔ عوام کہتے ہیں۔

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں