بدل جاتی ہے قسمت دعا سے۔۔۔۔!

لبنیٰ مقبول  اتوار 28 نومبر 2021
انسان خاکی ہے اور سب کو خاک ہو جانا ہے، تو اس فانی وجود کے ساتھ تکبّر کیسا ؟  فوٹو : فائل

انسان خاکی ہے اور سب کو خاک ہو جانا ہے، تو اس فانی وجود کے ساتھ تکبّر کیسا ؟ فوٹو : فائل

’’اﷲ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقیناً اﷲ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ (النساء)

ہماری زندگی میں دعاؤں کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔ ہم اپنے لیے دعائیں کرتے بھی ہیں اور دوسروں سے کرواتے بھی ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ہماری دعا گر فوری قبول نہ بھی ہو تو شاید کسی اور کی خلوصِ دل سے ہمارے حق میں کی گئی دعا قبول ہو جائے۔ دعا لینا اور دعا دینا ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق ہے مگر جس طرح دعا کرنے کے آداب ہیں اسی طرح دعاؤں کو سمیٹنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ دعاؤں کو سمیٹنے کے آداب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ دعا دینے والے کا اپنا ظرف ہوتا ہے مگر دعا لینے والے کو بھی اپنا دامن وسیع رکھنا چاہیے اور دعاؤں کو خُوب صورتی سے اپنے دامن میں سمیٹنے کا ہنر آنا چاہیے۔

آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں ہر دوسرا شخص حسد اور جلن جیسی بیماری میں مبتلا ہے وہیں دوسروں کی ہمارے حق میں کی گئی پُرخلوص دعائیں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ معاملاتِ زندگی میں برکت کے اٹھ جانے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ شاید یہ بھی ہے۔ نفسا نفسی کے اس دور میں جو دعائیں ہمیں بے ساختہ دی جا رہی ہیں انہیں اتنی ہی عاجزی و انکساری کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ دعا تو دعا ہوتی ہے۔ دعاؤں کی برکت سے ہی بگڑے کام بن جاتے ہیں اور ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔

مفہوم: ’’جو بَلا اتر چکی اور جو نہیں اتری، دعا ان سے نفع دیتی ہے۔‘‘ (ترمذی)

جب دعائیں ملتی ہیں تو دعاؤں کو سمیٹنا سیکھیں۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کون سی جگہ اور کون سی گھڑی قبولیت کی ہے۔ آپ کو دی گئی دعا کے ردعمل میں آپ کے منہ سے نکلے ہوئے بے ساختہ منفی الفاظ ناشکری کے زمرے میں آتے ہیں۔ قدرت یقیناً آپ کے لیے بہترین سوچتی ہے مگر جب یہی منفی الفاظ گرفت میں آ جاتے ہیں تو دعا پلٹ جاتی ہے۔ بس پھر وقت گزرنے کے بعد شرمندگی اور ندامت ہی حصے میں آتے ہیں اور فقط پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ لوگ جانے انجانے میں محض لمحاتی زبانی لغزش کے نتیجے میں برسوں اس کی گرفت میں رہتے ہیں۔ بے شک دلوں کا حال اﷲ بہتر جانتا ہے مگر زبان گرفت میں لے آتی ہے اور میرے رب کی پکڑ بہت شدید ہے۔ افسوس! اکثر توبہ کرنے کی سمجھ اور عقل بھی اس وقت آتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔

دراصل اس تحریر کا محرک ایک آنکھوں دیکھا واقعہ ہے جب ایک جاننے والے گھرانے کے چار بچوں میں سے تین بچوں کی شادیاں آگے پیچھے ہوئیں۔ بس ایک بیٹی باقی رہ گئی تھی جو اس وقت ایک جامعہ میں زیرِتعلیم تھی۔ بچوں کے نکاح کے فوری بعد اسٹیج پر بچوں کی والدہ کو مبارک باد دیتے ہوئے کسی عزیزہ نے کہا کہ اﷲ آپ کو جلد ہی اس بچی کے فرض سے بھی سبک دوش کرا دے تو ماں نے (جو خوشی خوشی مہمانوں سے اپنے بچوں کے نکاح کی مبارک باد وصول کر رہی تھیں) اٹھلاتے ہوئے کہا: ارے نہیں بھئی! ابھی اتنا جلدی تو نہیں، اب تو میں اپنی بیٹی کی شادی آرام سے ہی کروں گی۔ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔

وہ عزیزہ اپنی پُرخلوص دعا کا یہ ردعمل دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں اور ان کے اطراف میں موجود دیگر خواتین نے بھی اپنی دعائیں روک کر محض مبارک باد دینے پر ہی اکتفا کیا۔

کچھ لوگوں کے نزدیک بہ ظاہر یہ معمولی سی بات ہوگی مگر ایسا نہیں ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ بیٹی کے اچھے مستقبل کے لیے دی جانے والی وہ خُوب صورت دعا سمیٹ لی جاتی، سنبھال لی جاتی اور خُوش ہو کر دل سے آمین کہا جاتا، مگر اس کے برعکس اس قبولیت کی گھڑی کو گنوا دیا گیا۔ آج اتنے برس ہوگئے وہ بچی تعلیم مکمل ہونے کے باوجود بھی آج تک اپنے ماں باپ کے گھر بن بیاہی بیٹھی ہے۔ رشتے آتے رہے مگر ماں کی اس سلسلے میں سکون و اطمینان والی بات پوری ہوگئی۔ وقت نکل گیا، آج بھی اس لمحے کی خلش ماں کو شدت سے محسوس ہوتی ہے اور وہ ہر ایک سے دعا کرواتی ہیں اس امید کے ساتھ کہ ناجانے کس کی دعا ان کی بچی کے حق میں قبول ہو جائے۔

غور کیجیے! ہمیں نہیں معلوم کب کس وقت کون سی بات کو سند قبولیت مل جائے لہذا ایسے موقع پر زبان کو قابو رکھنا اور دعاؤں کو اپنے دامن میں سمیٹنا سیکھیں تاکہ وہ آپ کے حق میں محفوظ ہو جائیں۔

بعض اوقات ہمیں دعاؤں کی سمجھ نہیں آتی۔ ہم انہیں اپنے انداز سے اور اپنے فائدے کے ترازو میں رکھ کر تول رہے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارا ذہن انہیں اسی طرح من و عن تسلیم نہیں کر پاتا۔ لوگ اک عمر گزار لیتے ہیں، تجربہ کار ہوجاتے ہیں مگر کچھ بنیادی باتوں کو سیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارے اطراف ایسے ہی ناجانے کتنے لوگ روزمرہ کے مشاہدے میں نظر آتے ہیں جو اپنی زبان کے باعث ناصرف خود خسارے میں ہوتے ہیں بل کہ اپنے سے وابستہ لوگوں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

رب کریم کے جلال کو نہ للکاریں اور منکسر المزاج رہیں۔ بحث مباحثوں اور خاندانی جھگڑوں میں لوگ عموماً تمام حدود پار کر جاتے ہیں۔ خاندانی معاملات میں خود کو حاوی رکھنے کے چکر میں شر انگیز باتیں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انسان کی جُھوٹی اکڑ اور شان اس کو کہیں کا نہیں چھوڑتی، رسوا کر دیتی ہے۔

راقم الحروف کے مشاہدے میں ایک واقعہ ایسا بھی آیا جب دو بھائیوں کے مابین خاندانی جھگڑے میں ایک ہم درد رشتے دار نے صلح صفائی کرانے کی نیّت سے، جمعے کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے چھوٹے بھائی کو روکا اور حال احوال دریافت کرتے ہوئے دعا دی کہ اﷲ آپ بھائیوں کو ہمیشہ ملا کر رکھے، آپ لوگوں کا باہمی اتفاق قائم رہے اور ساتھ ہی سمجھایا کہ آپ چھوٹے ہیں، آپ اپنا دل بڑا کر لیجیے، بڑا بھائی نہیں مل رہا اور نہیں جھک رہا تو آپ اپنے بڑے بھائی سے جُھک کر مل لیں۔ زندگی کا کیا بھروسا آج ہے کل نہیں آپس میں کم از کم دل تو صاف کر لیں۔

خونیں رشتے ہیں ان رشتوں کا احترام رکھیں۔ مگر چھوٹے بھائی کا تکبّر دیکھنے لائق تھا۔ بڑے تکبّر سے جواب آیا کہ آپ یہ دعا ہمارے بڑے بھائی کو دیجیے اور ان کو ہی سمجھائیے۔ میں مرتا مرجاؤں گا مگر کم از کم اپنے بڑے بھائی کے آگے نہیں جُھکوں گا۔ میں کیوں معافی مانگوں وہ خود آئیں اور مجھ سے معافی مانگیں، اگر واقعی بڑے ہیں تو۔ یہ سب سن کر وہ صاحب مزید کیا کہتے چھوٹے بھائی کو ہدایت کی دعا دے کر اپنی راہ ہو لیے۔ دیکھیں لفظوں کے غیر محتاط استعمال سے کس طرح مظلوم بھی اکثر ظالم بن جاتے ہیں۔ بازی پلٹ جاتی ہے کیوں کہ اﷲ کو تکبّر قطعی پسند نہیں۔ جمعہ کا دن، دعاؤں کی قبولیت کا وقت اور جب مسجد کے باہر کھڑے ہو کر بھی انسان فرعون بننے کی کوشش کرے تو بس اﷲ کے قہر کو ہی للکارتا ہے۔ زبان کی پکڑ کتنی شدید ہوتی ہے یہ سب صرف سمجھنے والوں کے لیے ہے ورنہ کچھ نہیں۔

ایک مہینے سے بھی کم وقت کے اندر چھوٹے بھائی کے منہ کے اندر ایک چھوٹا سا دانہ نکلا، جسے کچھ دن انہوں نے نظر انداز کیا اور حکیمی علاج کی طرف متوجہ رہے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دانہ ناسور کی شکل اختیار کرگیا۔ تکلیف جب حد سے سوا ہوئی تو ڈاکٹر سے رجوع کیا اور ٹیسٹ کرانے پر منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا لرزہ خیز انکشاف ہوا۔ کچھ ہی ہفتوں میں وہ منہ کے کینسر کے تیسرے اسٹیج پر جا پہنچے تھے۔ اس اسٹیج پر مرض کی اس نوعیت کے ساتھ طبیب بالکل بھی پُرامید نہیں تھے۔ اب حال یہ تھا کہ چھوٹے بھائی کو اپنی اس زبانی لغزش پر اﷲ کی گرفت سمجھ آ رہی تھی۔

اپنے کہے گئے جملے یاد آ رہے تھے۔ بیماری نے ساری جھوٹی اکڑ اور مزاج کی فرعونیت نکال دی تھی۔ منہ اتنا سُوج چکا تھا کہ چہرہ پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ منہ سے ایک لفظ ادا کرنے سے بھی قاصر تھے۔ ضمیر ملامت کرنا شروع ہوا ہاتھ جوڑ کر اشاروں سے بڑے بھائی سے رو رو کر معافی مانگی۔ اب وہی بڑے بھائی جو معمولی اختلاف پر ان کو اپنے جانیں دشمن لگ رہے تھے ان کے بہترین علاج معالجے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ آئی سی یو کے باہر چھوٹے بھائی کی زندگی کے لیے رب کے حضور گڑگڑا رہے تھے۔ اور چھوٹے بھائی شرمندگی سے بڑے بھائی سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور بہت جلد کروٹ لے لیتا ہے۔ اگلے لمحے کا نہیں معلوم۔ زبان کو قابو رکھنا سیکھیں اور تکبّر اور بدکلامی سے ہمیشہ بچیں۔ اکڑ کس لیے؟ لہجے کی رعونت کس لیے؟

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کا خمیر خاک ہے اور ایک دن ہم سب کو خاک ہو جانا ہے۔ تو اس فنا ہو جانے والے وجود کے ساتھ تکبر کیسا ۔۔۔ ؟

زبان قابو میں رہے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے بے قابو ہو جائے تو اس کی پکڑ شدید ہے۔ ہمیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کون سی گھڑی قبولیت کی ہے۔ اور ہمارا کون سا عمل اور گھمنڈ رب کی پکڑ میں آجائے۔ لہٰذا اپنے لیے بھی اچھا سوچیں اور اپنے مومن بھائی کے لیے بھی۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ دعا کی نعمت سے نوازے، ہمیں دعا کرنے کی اور دعا سمیٹنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔