نمرتا کماری سے نوشین کاظمی تک

شعیب مختار  پير 29 نومبر 2021
چانڈکا میڈیکل ہاسٹل میں طالبہ کی خودکشی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

چانڈکا میڈیکل ہاسٹل میں طالبہ کی خودکشی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ بات زیادہ پرانی نہیں، 2019 کی ہے۔ جب 16 ستمبر کو لاڑکانہ میں آصفہ بھٹو ڈینٹل کالج فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا کماری چانڈکا ہاسٹل میں مردہ پائی گئی تھی۔ ان کے قریبی عزیز و اقارب کی جانب سے اس بات کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا گیا تھا کہ اُس نے خودکشی کرنے کی کوشش ہے۔

اس سلسلے میں تفتیش کےلیے ایف آئی اے، پنجاب فارنزک ایجنسی، نادرا، لمس جامشورو، کیمیکل ایگزمن سمیت متعدد اداروں سے بھی مدد بھی لی گئی تھی، جس کی تحقیقات سامنے آنے سے قبل نمرتا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نے تمام تر محرکات کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

میڈیکل رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا تھا کہ موت سے قبل نمرتا کے ساتھ جنسی عمل کیا گیا جبکہ لیبارٹری رپورٹ میں نمرتا کے جسم سے کسی اجنبی شخص کا ڈی این اے ملنے کی تصدیق بھی کی گئی تھی، تاہم اس شخص کی شناخت نہ ہوسکی۔ نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال کی جانب سے بھی بہن کی موت کو خودکشی ماننے سے انکار کردیا گیا تھا۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے بھی نمرتا کے کیس کی عدالتی تحقیقات کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی جبکہ نمرتا کے اہلخانہ کے اصرار پر معاملے کی جوڈیشل انکوائری کو بھی یقینی بنایا گیا تھا۔ انکوائری رپورٹ آنے سے قبل نمرتا کے اہلخانہ کی جانب سے کسی بھی فرد کے خلاف قانونی کارروائی نہ کروانے کا فیصلہ گیا تھا۔ بعد ازاں چند ماہ بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ کی جانب سے مکمل کی گئی جوڈیشل انکوائری رپورٹ نے تفتیش کا دائرہ انتہائی محدود کردیا۔ اس رپورٹ میں نمرتا کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا تھا جو ہوم سیکریٹری سندھ کو بھی بھیجی گئی تھی۔

تمام تر امور میں زیادتی کا شکار طالبہ ہی قصوروار ٹھہرائی گئی اور یوں اس کا قتل خودکشی قرار دے کر ہائی پروفائل انکوائری سردخانے کی نذر کردی گئی۔ نمرتا کماری اپنی موت کو خودکشی قرار دینے کے ساتھ ساتھ کاغذی کارروائیوں میں بھی دفن ہوگئی، جس پر عورتوں کے حقوق پر بڑھ چڑھ کر بات کرنے والی اور فریئر ہال پر پلے کارڈ اٹھانے والی سرکار بھی خاموش تماشائی دکھائی دی۔

دیکھتے ہی دیکھتے دو سال بیت گئے اور پھر اچانک چانڈکا ہاسٹل میں 24 نومبر 2021 کی دوپہر ایسی ہی ایک اور پراسرار خودکشی سامنے آئی۔ خودکشی کرنے والی لڑکی کی شناخت نوشین کاظمی کے نام سے ہوئی۔ جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعے کو بھی خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بظاہر پنکھے سے لٹکی لاش بھی اپنی روداد اپنے آپ سنا رہی ہے کہ اس کی وہاں موجودگی سوچی سمجھی سازش ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق نوشین کاظمی کی موت گلے میں پھندہ لگنے کے باعث ہوئی ہے، جبکہ لاش کے پاس سے ملنے والے پرچے نے تمام تر گتھی سلجھانے میں بھرپور مدد کی ہے جس میں لکھا کہ وہ اپنی مرضی سے خودکشی کررہی ہے۔ نوشین کے والدین اب بھی یہ بات ماننے سے انکاری ہیں کہ ایک روز قبل پریشانیوں سے آزاد نوشین اچانک اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہے۔

خیر آج نہیں تو کل اس کے مجرم بھی ہمیشہ کی طرح قانون کی پہنچ سے دور رہیں گے، جب تک انصاف کے ترازو چند ٹکوں میں بکتے رہیں گے۔ سوشل میڈیا پر ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ہر کوئی اس خودکشی کو بھی فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر انصاف دلوائے گا، جبکہ سیاسی جماعتیں بھی دکھاوے کی تعزیت کرکے خوب سیاست چمکائیں گی۔ حکام بالا بھی واقعے پر افسوس کریں گے لیکن کوئی انتظامیہ کے خلاف شفاف انکوائری کےلیے کچھ نہیں بولے گا۔ جرم بڑھتا رہے گا، قاتل محفوظ رہے گا۔

میرے خیال میں آج اگر ہمارا معاشرہ نمائشی دکھاوے کی دوڑ سے نکل کر نمرتا کے معاملے پر سنجیدہ ہوتا تو شاید نوشین کاظمی کی خودکشی کا واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کی انتہائی باریک بینی سے شفاف انکوائری کروائی جائے تاکہ آئندہ مستقبل کی ایسی نمرتا اور نوشین سماج میں موجود وحشی درندوں سے محفوظ رہ سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شعیب مختار

شعیب مختار

بلاگر کراچی میں مقیم صحافی ہیں اور آج کل ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔