کتابیں پڑھنے کو جرم قرار دیجیے؟

راؤ منظر حیات  ہفتہ 27 نومبر 2021
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ایلن مسک (Elan musk) دنیاکے امیرترین انسانوں میں آتا ہے۔ 2021 میں اس کی مجموعی دولت دو سو اکانوے بلین ڈالر ہے۔ جنوبی افریقہ میں عام سے گھر میں پیدا ہونے والا یہ آدم زاد کیسے از حد امیر ہو گیا۔ مسک کی دولت کم از کم پاکستان کے بیرونی قرضوں سے دگنی ہے۔

ہمارے قرضے 116ملین ڈالر ہیں اور ایلن مسک کی ذاتی دولت ان سے از حد زیادہ ہے۔ ویسے جس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہمارے وزرا خزانہ‘ بین الاقوامی اداروں سے قرضہ لیتے ہیں۔ شاید اس سے زیادہ غریبوں کو امداد ‘ ایلن مسک اکیلا دیتا ہے۔ ہاں ایک فرق ضرور ہے۔ ہمارے ذہنی طورپر قلاش ’’وزراخزانہ‘‘ ایلن مسک سے زیادہ شان و شوکت سے  رہتے ہیں۔

ویسے ایک فرق اور بھی ہے۔ہمارے وزراخزانہ مختلف لابیوں اور سربراہان مملکت کے فرنٹ مین ہوتے ہیں ۔ جو بہرحال مسک نہیں ہے۔ مسک نے خلائی تحقیق اور سفر کرنے کے لیے Spacex نام کاانتہائی غیر معمولی کام شروع کیا۔ پٹرول سے چلنے والی گاڑی کے بجائے بجلی سے چلنے والی گاڑی کی داغ بیل ڈالی۔

ٹیسلا گاڑی اب اسی سے ہی منسوب ہے۔ اس طرح کے بے شمار کاروبار ہیں جن سے مسک ہر طور سے وابستہ ہے۔ سب کچھ غیر معمولی ہونے کے علاوہ ایک ایسا وصف ہے جس نے اس کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔وہ ہے کتابیں پڑھنے کا جنون۔ ایلن مسک پاگلوں کی طرح کتابیں پڑھتا رہتا ہے۔

ایک انٹرویو میں بتایا کہ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کتابیں پڑھتے ہوئے گزارتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں مسک نے Encylopedia britannica کوکافی حد تک یاد کر لیا تھا۔ لائبریری اور کتابیں اس کی بہترین رفیق ہیں۔ ایک اخباری نمایندے نے مسک سے پوچھا کہ آپ کے ذہن میں راکٹ بنانے اور بجلی سے چلنے والی گاڑی بنانے جیسے انوکھے خیال کیسے آئے۔ جواب تھا کہ یہ سب کچھ کتابیں پڑھنے کے شوق سے کشید کیا ہے۔ دور حاضر کا کامیاب ترین بزنس مین آج بھی ٹی وی دیکھ کر اپنا وقت برباد نہیں کرتا۔

ویسے تو ہمارے معاشرے میں ہر وقت مرثیہ گوئی کا رجحان ہے۔ مگر ایک موضوع پر تو گفتگو ہر دم سنائی دیتی ہے۔ وہ یہ کہ ہم لوگ کتابوں سے کوئی شغف نہیں رکھتے۔ کتابیں پڑھنے کا رجحان بالکل ختم یا کم ہو چکا ہے۔ علم کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں بحث برائے بحث کا رواج ہے۔ ہم دلیل کی بنیاد پر کسی بھی مباحثہ سے نتیجہ نہیں نکال پاتے۔ بہر حال اس نکتہ میں کافی سچائی ہے کہ عمومی طور پر ہم کتابوں سے دور ہیں۔  کیا سیاست دان ‘ تو کیا مذہبی رہنما ۔ کیا نوکری پیشہ لوگ تو کیا تاجر حضرات۔ اور ہاں۔ ٹی وی پروگراموں میں ان کے پیچھے نظر آنے والی کتابیں صرف اور صرف نمائشی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔

سیاسی طبقے کے سرخیل میڈیا پر اچھی باتوں کے بھاشن دیتے اکثر نظر آئیں گے۔ ہر پارٹی کے سربراہان جمہوریت‘ اصل جمہوریت ‘آزاد جمہوریت اور اس طرح کے صیغے استعمال کرتے ہر دم ‘ بے دم ہوتے ہوئے محسوس ہوںگے، مگر ان میں سے کسی سے یہ پوچھنے کی جرأت کر لیں کہ جناب جمہوریت کا آغاز کیسے ہوا تھا۔ عوام کی حکومت میں شمولیت کے لیے کتنے ان گنت لوگوں نے جانیں دی تھیں۔

انسانی حقوق‘ آزادی اظہار اور مساوات کے لیے خون کے کتنے گہرے دریا عبور کیے گئے۔ رومن تہذیب سے لے کر برطانیہ‘ فرانس اور امریکا تک کیسی کیسی عظیم تحریکیں عام لوگوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے چلائی تھیں۔ شخصی حکومتوں اور بادشاہوں کو کیسے عوامی غضب میں بھسم کر ڈالا تھا۔ تو یقین فرمائیے ۔ کہ ہمارے آج کے جمہوری رہنما آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیں گے۔ سوال کو اپنے سیاسی دشمن کی چال گردانیں گے۔ سوال کا کوئی جواب دیے بغیر ‘ باتوں کو کسی ادنیٰ موضوع کی طرف لے جائیں گے۔

یہ سکہ بند قومی رہنما کتنے جاہل ہیں۔ اس کا اندازہ آپ صرف ان کی تقریریں سن کر لگا لیجیے۔ ویسے ان کی بے سروپا تقاریرسننا ایک ذہنی کوفت سے کم نہیں۔ یہ اپنی باتوں میں کرکٹ یا جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ جیسے استعارے تو استعمال ضرور کریں گے۔ مگر کسی نئی کتاب کا ذکر کرنا گناہ سمجھیں گے۔ ذرا تھوڑی دیر کے لیے سب چیز بھول جائیے۔ محترم عمران خان‘ زرداری صاحب یا نواز شریف صاحب سے صرف یہ پوچھ لیجیے کہ جناب آپ لوگ اتنے قدکاٹھ کے قومی رہنما ہیں۔

ذرا فرما دیجیے کہ پچھلے ایک برس میں آپ نے کتنی نئی کتابیں پڑھ ڈالی ہیں۔ اس سوال کا جواب دینا ان کی ذاتی صوابدید ہے۔ مگر ان کی تقاریر اور باتوں سے سب کچھ ظاہر ہو جاتا ہے۔ ان کے نزدیکی لوگوں سے پوچھ لیجیے کہ صاحب نے گزشتہ پانچ دس مہینوں میں کتنی کتابیں خریدی یا منگوائی ہیں۔ اکثریت کو چپ لگ جائے گی۔

مثال دینا ضروری ہے۔ آقا ﷺ کی سیرت پر عربی زبان میں قدیم ترین کتابیں ابن کیثر اور ابن ہشام نے حددرجہ ریاضت سے تحریر کی ہیں۔ ان کے ہر زبان بمعہ اردو میں تراجم موجود ہیں۔ برصغیرمیں سیرت پر لکھنے والوں نے ان کتابوں سے بنیادی فیض حاصل کیا ہے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم‘ ہر وقت ’’ریاست مدینہ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ مثبت بات ہے۔

مگر سوال پوچھنا تو بنتا ہے تو جناب کیا آپ نے آقاؐ کی سیرت کو بنیادی کتب سے پڑھا ہے۔چلیے‘ کیا آپ نے شبلی نعمانی کی سیرت سے استفادہ فرمایاہے۔ کیا آپ کو علم ہے کہ سیرت النبی ؐ کتنا عظیم انقلاب تھا۔ کیا آپ کو ریاست مدینہ کے بنیادی اصول معلوم ہیں۔ طویل عرصے سے خان صاحب کی باتوں میں کسی علمی ماخذ کا ذکر نہیں سنا۔ دکھ ہوتا ہے کہ وہ ’’ریاست مدینہ‘‘ جیسی عظیم حکومت کو صرف تقاریر کے لیے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اب آپ پیپلز پارٹی کے قائد یا عالم پناہ کی علمی سطح کو منصفانہ طرز پر پرکھیے۔ موصوف ہر جگہ جمہوریت کے فوائد اور برکات پر رطب اللسان نظر آئیں گے۔

اگر آپ ہمت کر کے موصوف سے یہ پوچھ لیں کہ جناب جمہوریت کے ارتقا کے بنیادی محرکات کیا ہیں۔ سرمایہ کے ارتکاز اور انسانی حقوق کی پامالی کا تعلق کیا ہے۔ سندھ جیسے صوبے میں سانپ اور کتے کے کاٹنے سے لوگ کیوں کیڑے مکوڑوں کی طرح رزق خاک ہو رہے ہیں۔ تو بادشاہ سلامت ناراض ہو جائیںگے۔جرأت کر کے یہ پوچھ بیٹھیے کہ حضرت آپ نے جمہوریت کی عملی شکل کس فلسفی سے مستعارلی ہے۔ تووہ اور ان کے حواری آپ کی جان کو آجائیں گے۔ ہاں اگر آپ کلفٹن کی پراپرٹی کا ریٹ یا ڈالر کا نرخ پوچھیں گے۔تو یہ جھٹ درست جواب دینگے۔

بالکل یہی حال‘ پنجاب سے تعلق رکنے والے لندن میں مقیم قائد کا ہے۔ ان کی فکری اساس کیا ہے۔ ان کی علمی بنیاد کیا ہے۔ عملی سیاست میں طویل تر حکمرانی کرنے کے باوجود ان کی ذاتی لائبریری میں کون کون سی کتابیں موجود ہیں۔ اگر خرید کر سجا بھی لی گئی ہیں تو ان میں سے کتنی پڑھی ہیں۔ کوئی علم دوست ان کے مصاحبین میں موجود ہی نہیں ہے۔

المیہ تو یہ بھی ہے کہ بیوروکریٹس میں بھی پڑھنے کا رجحان مفقود ہے۔ وہ بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کا ہر قیمت پر دم چھلا بننے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں عوام بھی کتابوں سے دور رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ درست قدم تو یہ ہے کہ ہم تمام کتب خانے اور لائبریریاں بند کر دیں؟ کتابیں پڑھنے کو جرم قرار دے دیں؟ علم اور کتب سے نفرت کرنا شروع سے سکھائیں۔ ایلن مسک جیسے بے وقوف لوگوں کا نام تک مٹا دیں‘ جو دن میں دس بارہ گھنٹے صرف کتابیں پڑھتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔