برآمدات بحوالہ آئی ایم ایف کی شرائط

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 27 نومبر 2021

ماہ نومبر میں پاکستان کی معیشت کے لیے ایک امید افزا خبر یہ رہی کہ ٹیکسٹائل اور فوڈ گروپ کی برآمدات میں 27 فی صد اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ یعنی ماہ جولائی تا اکتوبر 2021 کے دوران برآمدات میں 25 فی صد اضافہ ہوا ، جس میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 27 فی صد اضافے کو معیشت کے لیے ایک امید افزا خبر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا ، لیکن اس بنا پر ماہرین کا خیال ہے کہ اب برآمدات میں مزید اضافے کی امید نے دم توڑ دیا ہے۔

اعداد و شمارکے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران 9 ارب 46 کروڑ ڈالرزکی برآمدات رہیں۔ جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران برآمدات کی مالیت محض 7 ارب 57 کروڑ ڈالر تھیں۔ اس طرح مجموعی طور پر برآمدات میں 25 فی صد اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کی صورت میں برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اب ذرا آئی ایم ایف سے طے کیے گئے معاملات میں سے چند ایک پر نظر ڈالتے ہیں۔ معاہدہ طے ہونے کی صورت میں پٹرولیم لیوی 4 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 30 روپے تک لے جانا ہوگا اور 350 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ واپس لی جائے گی۔ پٹرول، بجلی مہنگی کرنا ہوگی۔

اس معاہدے کی حتمی منظوری ایگزیکٹو بورڈ دے گا۔ ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی کٹوتی کرنا ہوگی ، تمام اشیا پر 17 فی صد جی ایس ٹی لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومتی وزیروں نے اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھائیں گے جب کہ اس سے قبل اعلیٰ سطح پر اس بات کا عندیہ دیا گیا کہ گیس بحران آسکتا ہے۔

آئی ایم ایف اپنے ہر معاہدے میں یہ شرائط پاکستان سے منوا لیتا ہے کہ توانائی کی قیمت بڑھائی جائے اورکرنسی کی قدر گھٹائی جائے۔ کرنسی کی کس طرح سے غیر اعلانیہ کم قدری کی جا رہی ہے ، یہ سب کے سامنے ہے۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے ، گیس بحران کے علاوہ گیس پر سبسڈی دی جا رہی تھی۔

اب شرائط تسلیم کرنے کے ساتھ گیس پر سبسڈی میں کمی یا خاتمے کا خدشہ بھی لاحق ہو چکا ہے۔ صنعت کار تنظیموں کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ اگر گیس پر سبسڈی واپس لی گئی تو ایکسپورٹ اہداف پورے نہیں ہوں گے اور بہت سی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی جس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوجائیں گے۔

گزشتہ عشرہ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ سرد موسم میں پنجاب کے مختلف صنعتی شہروں میں کارخانوں کی چمنیاں ٹھنڈی ہوکر رہ گئیں۔ گیس کی قلت، گیس کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی کمی یا گیس کا بحران جو بھی نام دیں جب گیس ہی نہیں ہوگی تو کارخانے، ملیں اور فیکٹریاں کیسے اپنے پہیوں کو تیز رفتار کرسکتی ہیں ، لہٰذا خاص طور پر فیصل آباد کے کارخانوں میں یکے بعد دیگرے تالے ڈال دیے گئے۔

اب صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ گیس پر سبسڈی واپس لیں یا گیس کم ملے ہر صورت میں یورپی اور دیگر ملکوں کو بھیجے جانے والے گرم ملبوسات کے آرڈر کا ہدف پورا نہیں کرپائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم شرط بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی ہے۔ اب اتنا زیادہ اضافہ ہو رہا ہے کہ ہر غریب و امیر اپنے بجٹ کا ایک حصہ صرف بجلی کے بل کی ادائیگی پر صرف کر رہا ہے۔

اس سے قبل حکومتی حلقے گزشتہ دو یا ڈھائی ماہ تک پاکستانی عوام کو یقین دلاتے رہے کہ وہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے۔ اسی سال جب بجٹ پیش کیا جا رہا تھا اس وقت بھی عوام کو اس عزم سے آگاہی بخشی جا رہی تھی کہ آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے کہ بجلی اب مزید مہنگی نہیں کرسکتے ، لیکن اب اس کے برعکس ہو رہا ہے صرف کراچی کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہاں پر عوام اور کارخانے دار تاجر و صنعتکار بجلی کے نرخوں میں سب سے زیادہ اضافے سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

بعض صنعت کاروں اور مل والوں کا کہنا ہے کہ صرف بجلی اور گیس کے کمرشل بلوں کی مد میں ہی کروڑوں روپے ادا کیے جا رہے ہیں ، لیکن اب بھی بجلی کمپنی والے مزید بوجھ لادنے کے درپے ہیں ، کیونکہ آئی ایم ایف کے نئے احکامات ہیں۔

پٹرول مہنگا اور بجلی مہنگے ہونے پر ایک تاجر صنعتکار اپنی برآمدات کو کس طرح وسعت دے سکتا ہے کیونکہ اس کا مقابلہ ان ملکوں سے ہے جن کو بجلی، پانی، گیس سستا ترین کرکے مہیا کیا جا رہا ہے۔ گرم ملبوسات کے سلسلے میں پاکستان انھی ملکوں کے ساتھ ہے جن کو پاکستان سے پہلے زیادہ مراعات کے ساتھ جی ایس پی پلس کا درجہ ملا ہے۔

اس کے علاوہ کئی ممالک ایسے ہیں جن کو امریکا میں بھی تجارتی مراعات حاصل ہیں۔ چونکہ ان دنوں یورپی ممالک کو گرم ملبوسات کی سخت ضرورت ہے اور زیادہ مقدار میں توقع ہے کہ پاکستان کو بھی آرڈرز میسر آئیں گے، لیکن برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں جب لاگت بڑھ جائے گی لہٰذا ایسی صورت میں برآمدات کی بڑھتی ہوئی رفتار کو قدغن لگ چکا ہوگا۔

حالانکہ اس وقت سے لے کر آیندہ مزید چند ماہ تک پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو مزید ترقی کرنے کے باآسانی مواقعے میسر آسکتے ہیں کیونکہ 15 نومبر تک ملک بھر میں کپاس کی رسائی 68 لاکھ بیلز رہی ہیں جب کہ گزشتہ برس یہ مقدار 40 لاکھ بیلز تھیں۔

اب اس بات کا کیا کیا جائے کہ آئی ایم ایف جو اپنی اندھا دھند پالیسی پاکستان پر لاگو کرنا چاہتا ہے اس سے لامحالہ پاکستان کی برآمدات کی مالیت جس قدر بڑھ جانا چاہیے تھی وہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو اگرچہ ایک ارب 5 کروڑ90 لاکھ ڈالرز کا قرض ہی موصول ہوگا ، لیکن پاکستانی حکام آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر ذرایع سے قرض کے حصول کو بھی مد نظر رکھتے ہیں۔

قرض پہلے ترقیاتی منصوبوں کے لیے لیا جاتا تھا۔ اس طرح منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان کو اپنی شرح افزائش کو بڑھانے کا موقع مل جاتا تھا ، لیکن اب قرض اور وہ بھی مہنگا قرض لے کر قسطوں کی ادائیگی اور شرح سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔