بے روزگاری کی افسردہ شامیں اور ہم۔۔۔

ر۔ ط ۔ م  اتوار 28 نومبر 2021
فرمایا کہ ’یہ تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ ہم نے کہا کہ آپ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے تھے، ہم کیا کرتے۔ فوٹو : فائل

فرمایا کہ ’یہ تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ ہم نے کہا کہ آپ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے تھے، ہم کیا کرتے۔ فوٹو : فائل

خانہ پری
ر۔ ط۔ م

’ایم اے‘ کے بعد جب ہم مجبوراً کاسمیٹک مصنوعات کی ایک فرم سے کچھ ماہ منسلک رہے، تو اسی دوران رات کی شفٹ میں دو چار روز کے لیے روزنامہ ’قومی اخبار‘ بھی گئے تھے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمیں بلایا کمپیوٹر سیکشن والوں نے تھا، لیکن ہم جلدی میں وہاں پہنچ کر خود کو کال کرنے والے کا نام ہی بھول گئے اور پھر ہمیں ’استقبالیہ‘ نے ’نیوز ڈیسک‘ کی طرف بھیج دیا کہ اتفاق سے وہاں بھی جگہ خالی تھی اور پھر وہاں ڈیسک کے ’نگراں‘ اور کمپیوٹر والوں کے ٹکرائو کا معاملہ ہوگیا، جس کے بعد اِن صاحب نے نہ خود ہمیں رکھا اور نہ کمپیوٹر والوں کو رکھنے دیا۔۔۔ ہم دو چار دن ’ٹیسٹ‘ دینے کے بعد ہر روز انھیں کال کرتے، یہاں پہلے ہمارا نام پوچھا جاتا اور پھر بتا دیا جاتا کہ ’وہ‘ تو موجود نہیں ہیں، آخر کو ایک دن ہم نے غلط نام بتا کر انھیں چکمہ دیا، تو وہ بری طرح تپ گئے۔

فرمایا کہ ’یہ تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ ہم نے کہا کہ آپ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے تھے، ہم کیا کرتے۔ ’قومی اخبار‘ میں رات کو بِتائے گئے، دو تین روز کے دوران ایک ادھیڑ عمر صاحب سے کچھ علیک سلیک ہوگئی تھی، جو شاید ہمارے چہرے کی شکست خوردگی پڑھ لیے تھے۔

وہ جب ہمیں مایوس نہ ہونے کی تلقین کرتے، تو ہم سے اپنی کوفت کو ضبط کرنا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔۔۔ سڑک پار کر کے سامنے کسی ہوٹل پر بیٹھ کر وہ اپنا کھانا کھاتے اور بار بار ہمیں امید رکھنے کی نصیحت کرتے جاتے۔۔۔ خود بے چارے بہت معمولی تنخواہ کے عوض ’پروف ریڈر‘ تھے، لیکن کرید کرید کر ہمارے بارے میں جانتے اور انگشت شہادت ہمارے بازو میں زور زور سے چبھو کر کہتے ’’میاں! کبھی مایوس نہیں ہونا۔۔۔!‘‘

ہم اپنے بازو کو ان کی انگلی کی چبھن سے بچانے کی کوشش بھی کرتے اور کسی طرح وہ وقت گزارتے کہ یہ کیا بڑے صاحب، بے وقت کی راگنی لے کر بیٹھ گئے۔۔۔ یہاں ہم کتنی مشکل میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ آئے بڑے، بیٹھے بیٹھے، کہ مایوس نہیں ہو، مایوس نہیں ہو۔۔۔! رات کے دوسرے پہر ملک کی ’وال اسٹریٹ‘ سمجھی جانے والی آئی آئی چندریگر روڈ سے جُڑی ہوئی گلیوں کی محدود سی چہل پہل اور آسیب زدہ سی دھیمی روشنی ہمیں اپنی طرح افسردہ اور اداس اداس نظر آتی تھی۔۔۔

بس پھر جب ’کاسمیٹک فرم‘ کی ملازمت سے بھی فارغ ہوگئے، تو اپنی گہری مایوسی میں دل بہلانے کو شام میں یونہی ’جامعہ اردو‘ میں ’ایم فل‘ کی کلاسیں لینے لگے۔۔۔ غور کیجیے، تو ایک طرف نوکری نہیں ہے، تو دوسری طرف ہم مزید تعلیمی اخراجات کا راستہ اپنا رہے تھے، لیکن یہ بالکل ایک بے سوچا سمجھا قدم تھا۔ ایک بہت عجیب اور فکرآمیز اور ناکام سی زندگی لگتی تھی، کلاسیں لینے کے بعد ہم ’جامعہ اردو‘ کے سامنے ایک نیم اندھیرے اور پس ماندہ سے ہوٹل کی گندی سی پیالیوں میں چائے پیتے۔۔۔ ہر ڈھلتے ہوئے دن کے ساتھ گویا اپنے دن پِھرنے کا انتظار کرتے۔۔۔

یونیورسٹی کے ہم رکاب محمد اجمل خان اور محمد فراز (اب ’آئی او بی ایم‘ میں لیکچرر) کے ساتھ رانا جاوید (اب جیو نیوز کے رپورٹر) بھی یہاں ہمارے ساتھ ہوتے۔۔۔ چائے کی پیالیوں کے درمیان بھِنبھناتی ہوئی مکھیاں اڑاتے ہوئے مغرب کی اذانیں ہوتیں اور یوں محسوس ہوتا کہ آسمان کی بڑھتی ہوئی ساری سیاہی ہمارے مستقبل اور زندگیوں میں اتر کر رہ گئی ہے۔۔۔ اور وہ بھی ایسے کہ لبِ سڑک اس گلی میں اِکّا دُکّا سے لگے ہوئے ہلدی رنگ کے بلب اسے دور کرنے میں ناکام ہیں۔۔۔

اگرچہ روزانہ ہی چائے کے پیسے ایک دوسرے پر ادھار کرتے رہتے، لیکن جتنے دن بھی یہ کلاسیں لیں، واپسی پر یہ بیٹھک ضرور سجی۔۔۔ یونیورسٹی کے اہم اور لایعنی واقعات اور یہاں لوگوں کے مختلف معمولات، کسی کی جاب، تو کسی کا معاشقہ اور کسی کی شادی، تو کسی کی بدمعاشی اور کسی کا اور کوئی جھگڑا۔۔۔ الغرض ہر قسم کے موضوع شام کی چائے کی ان چسکیوں کے درمیان چلتے۔۔۔ اور ان سب میں غالب ہوتی، تو ہماری بے چارگی اور مایوسی، کہ ذرا دیکھو ساری دنیا کہاں جا رہی ہے اور ایک ہم ہیں یہاں کیسے بے روزگار ہوئے پڑے ہیں۔۔۔

اس وقت اردگرد کے ماحول کی پراسراریت بھی بہت محسوس ہوتی۔۔۔ اُن دنوں کراچی کے حالات ایک بار پھر بہت خرابی کی طرف گام زن تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر لیاری شروع ہوتا تھا، جیسے ہی دن ڈھلتا، آتے جاتے عام راہ گیروں کے سائے بھی عجیب اور پراسرار سے لگنے لگتے تھے۔

ہمیں یوں لگتا کہ شاید کوئی چھپ کر ہم پر نظر رکھے ہوئے ہو، بالخصوص جب ہم شہر کے حالات پر بات کرتے اور کوئی سیاسی گفتگو کرتے، تو ایسا لگتا کہ اریب قریب کوئی ہمیں سن رہا ہے، کبھی تو یہ خوف بھی رہا کہ کہیں کوئی چھینا جھپٹی کی واردات ہی نہ ہو جائے، لیکن ہمارے پاس تھا ہی کیا جو کوئی چھینتا۔۔۔ کبھی ایسا بھی لگا کہ جیسے ہوٹل پر فائرنگ جیسے واقعات اخبارات میں پڑھتے ہیں، کہیں خدانخواستہ ہم بھی آج کوئی ایسی ’خبر‘ نہ بن جائیں۔۔۔ اس لیے جیسے ہی رات گہری ہونے لگتی، ہم ایک دوسرے کو یہاں سے رخصت ہونے کی تاکید کرتے اور اپنا اپنا راستہ لیتے۔۔۔

اِسی ’غریب‘ سے ہوٹل کے باہر رکھی ہوئی ٹوٹی پھوٹی سی میز کرسیوں پر چائے کے دوران ہی ایک دن رانا جاوید نے اپنے روایتی پُریقین انداز میں کہا تھا کہ ’’میں آپ کو اندر کی خبر دے رہا ہوں رضوان بھائی، ایکسپریس کے ’میگزین‘ میں جیسے ہی کوئی جگہ خالی ہوگی، سب سے پہلے آپ ہی کی جگہ بنے گی۔۔۔!‘‘ ہم رانا جاوید کی باتوں کو ویسے بھی کم ہی اہمیت دیتے تھے۔

اس لیے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ دعویٰ بھی ہمیں کسی دیوانے کی بَڑ لگا کہ کہاں ہمیں کسی چھوٹے سے اخبار میں بھی کوئی نوکری نہیں مل رہی اور کہاں یہ کہہ رہا ہے کہ ’ایکسپریس‘ جیسے بڑے اخبار کے ’میگزین سکیشن‘ میں جگہ بنے گی۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے رانا جاوید کی اس بات کو ہنسی میں اڑا دیا تھا۔۔۔ لیکن کوئی سوا برس بعد ہی یہ بات سچ ثابت ہوگئی، اور آج 10 سال بعد ہمیں دفعتاً یہ واقعہ پھر یاد آگیا۔۔۔

’’مرا باپ کم نہیں ماں سے۔۔۔‘‘
وریشا ذوالفقار

باپ کسی کو اپنی تکلیف کا احساس نہیں ہونے دیتا، گھر سے باہر کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا، کمپنی کا ’ٹارگٹ‘ پورا نہ ہونے پر باس کی جھاڑ تک سننی پڑی، بے شمار ان گنت پریشانیوں کا سامنا ایک باپ ایک مرد کرتا ہے، وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ نہیں سکتا، کچھ دیر ٹھیر کر آرام نہیں کر سکتا، کیوں کہ اسے ہر حال میں اپنے اس کردار کو بہترین ادا کرنا ہے، جو قدرت نے اس دیا ہے، یعنی ایک والد۔

بچوں کی پڑھائی، ان کی دیگر ضروریات خواہشات سے لے کر ان کی ننھی خوشیاں کیا ہیں، یہ بچوں کی ماں اپنے شوہر کو بتاتی ہے، لیکن انھیں پورا کیسے کرنا ہے کہ اولاد کو کبھی کسی محرومی کا احساس نہ ہو، بچہ منہ سے کوئی فرمائش کرے، تو میں اس قابل ہوں کہ اسے وہ چیز دینے کے لیے وعدہ نہ کرنا پڑے، بلکہ بازار لے جا کر اس کی وہ خوشی خرید سکوں، یہ ہر باپ کی کوشش ہوتی ہے، جس کے لیے وہ دن رات محنت کرتا ہے، اپنے کسی درد کسی بیماری کا احساس نہیں ہونے دیتا اور جب تک دَم ہوتا ہے۔

ایک باپ اپنی اولاد کے لیے سب کچھ کرتا ہے، کسی بدلے کی امید نہیں رکھتا۔ بچپن میں ابو کا ہاتھ پکڑ کر بازار جانا، غبارے والے کو دیکھ کر غبارہ لینے کی فرمائش کرنا، کھلونے کی دکان پر رک کر حسرت سے کسی کھلونے کو دیکھنا اور ابو کا فوراً کھلونا دلوا دینا، آئس کریم والا جب دروازے پر آئے اور ابو گھر پر ہوں، تو بچے پُراعتماد ہو کر اسے روکتے ہیں، آئس کریم خرید کر ابو کو بتاتے ہیں کہ اسے پیسے ادا کر دیں، جب کہ امی سے اکیلے میں یہ چٹخارے پورا کروانا تھوڑا سا مشکل کام ہوتا ہے، چھٹی کے روز باپ کو گھر میں دیکھ کر بچوں کے دماغ میں بہت سارے منصوبے آنے لگتے ہیں، کہیں گھومنے جائیں گے، کیا کچھ منگائیں گے، اور کیا کیا کھا کر آئیں گے۔۔۔ گھر میں امی سے ڈانٹ نہیں پڑے گی اور دل کھول کر موج کریں گے، ہوم ورک کے لیے امی زور نہیں دیں گی اور پورا دن عیش میں گزرے گا، ہر بچہ کم و بیش ایسا ہی ہوتا ہے۔

عمر کے ساتھ وقت کے ساتھ حالات بدلتے ہیں، خواہشات کی نوعیت بدلتی ہے۔ رشتوں کے خدوخال بدلتے ہیں، اور پھر اولاد خود کو خودمختار سمجھنے لگتی ہے، محبت ختم تو نہیں ہوتی، لیکن کافی حد تک کہیں دب جاتی ہے، بڑے ہو جانے کے بعد کے بعد باپ کی نصیحت، ان کی ڈانٹ، زمانے کا صحیح غلط سمجھانا اولاد کو کھلنے لگتا ہے، کیوں کہ اب چاہیے تو بس آزادی۔۔۔!

اس نکتے پر آکر اگر غور کیا جائے، تو احساس ہوگا کہ بچپن میں جب ہم ہر چیز کے لیے باپ کی طرف دیکھتے تھے، وہ دراصل ایک غیرارادی لالچ تھی، جسے پورا کرنے کے لیے ہمارا باپ ارادتاً مخلص تھا، یہ

سوچے بغیر کہ بڑے ہونے پر یہ اولاد اس کے لیے ایک سہارا اور آس بنے گی یا نہیں۔۔۔

وہ باپ جو پورے گھرانے کو اپنی تھوڑی سی آمدنی سے بہترین طریقے سے چلاتا ہے، جب وہ بوڑھا ہو جائے، تو اس کی دوا اور چند ضروریات اولاد پر بھاری پڑتی ہیں، سب مل کر تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالتے ہیں اور دل میں سوچتے ہیں کہ شاید بہت بڑی نیکی کما لی ہے، باپ اگر بڑھاپے میں بھی اولاد کی مالی امداد کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو بچے اسے اپنا حق سمجھتے ہیں، شکر گزار اور احسان مند ہونے کے بہ جائے شکوہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب ہمارا ہی تو ہے، آپ کہاں لے کر جائیں گے، یہ وہ حقیقت ہے، جسے شاید ہم سوچتے بھی نہیں ہیں۔

کسی دن کچھ وقت اپنے باپ کے ساتھ گزاریں، انھوں نے آپ کے لیے اپنی جوانی قربان کر دی اور آپ کو اچھا مستقبل دیا، ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کی، کبھی یہ نہیں چاہا کہ میری اولاد کے لیے کوئی کمی رہ جائے، خود کو غور سے دیکھیں، آپ کی پرورش میں اس انسان نے کوئی کمی نہیں چھوڑی اور اگر کوئی کمی محسوس ہوتی ہے، تو اسے پورا نہ ہونے کا افسوس کرنے کے بہ جائے اب اپنے باپ کی ضروریات کو ایسے ہی دیوانگی کے ساتھ پورا کرنے کی ٹھان لیں، جیسے وہ آپ کے لیے کرتا آیا ہے۔

اب ہماری باری ہے کہ ہم انھیں سکون کی زندگی دیں، انھیں اپنی اولاد پر ناز کرنے کا موقع دیں، ماں باپ نہ ہوں تو انسان لاوارث کہلاتا ہے، ماں کے پائوں تلے جنت ہے، تو باپ کی دعا فوراً عرش پہ پہنچتی ہے، باپ کا نہ ہونا وہ لوگ جانتے ہیں، جو آج اس قیمتی سائے سے محروم ہیں۔

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے

ہر آنکھ اشک بار، ہر دل بے حال!
پروفیسر فرحت عظیم
ٹی وی کی اسکرین پر ’’بے نظیر جاں بحق‘‘ دیکھ کر حیرت اور دکھ کا سمندر دل میں اترگیا۔ یہ لمحوں میں کیا ہوگیا۔ اسکرین سے نگاہیں نہ ہٹتی تھیں۔ قیامت برپا تھی وہاں۔ بے شمار مناظر تھے جو مسلسل بدل رہے تھے ہر ایک اپنا درد لیے بھاگ رہا تھا۔ اسپتال میں بے نظیر صاحبہ کی شہادت کے بعد کے مناظر، خوف اور خون میں لپٹے ہوئے جسم، بتوں کی طرح بیٹھے ہوئے اور حادثے سے بچے ہوئے لوگوں کی خالی آنکھیں۔ یوں بھی سین اور رخ بدلتے ہیں ! ہم نے تاریخ میں تو پڑھا تھا آج پہلی دفعہ دیکھ رہے تھے۔

حماد کو تو سیاست کی الف ب یا اونچ نیچ سے کوئی دل چسپی نہ تھی مگر اس وقت تو وہ پھیلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ میرے برابر میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ شوہر صلاح کا پھر فون آیا بچے گھر آگئے ہیں؟ یہاں ہر طرف افراتفری اور ہنگامے ہیں۔ میں ناظم آباد میں گلیوں میں سے گزر کر آنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میرے سامنے بہت سی گاڑیوں کو ڈنڈے مارکر روکا اور جلادیا گیا ہے۔ فوراً ہی چیخ پکار کی آواز اور فون بند۔ میری تو سانس ہی اٹک گئی۔ عماد کو فون کیا، وہ بھی جلائو اور گھیرائو سے بچ کر آنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتی یا ہدایت دیتی فون بند کردیا اس نے ۔

سمجھ گیا تھا کہ امی پریشان ہوکر سوالات ہی کرتی رہیں گی۔ حفصہ کا فون آگیا، امی مجھے راستہ نہیں مل رہا۔ ہم جس طرف بھی جاتے ہیں آگ ہی آگ ہے۔ میں لسبیلہ تک آگئی تھی۔ پل پر سے راستہ بند تھا۔ اب ڈرائیور نے دوبارہ گرومندر کی طرف گاڑی لے لی ہے۔ پھر اس کی خوف زدہ آواز آئی۔

امی ہاتھوں میں ڈنڈے لئے کچھ لوگ ہماری گاڑی کی طرف آرہے ہیں اور ڈرائیور کو آگے جانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ پھر اس کی چیخ سنائی دی، امی گاڑی کو ڈنڈے مار رہے ہیں۔ مجھے آنکھوں کے سامنے موت کا سا اندھیرا محسوس ہوا، لیکن فوراً ہی حفصہ بتانے لگی کہ ڈرائیور نے آگے والی گاڑیوں کے ساتھ ہی تیزی سے مڑکر گاڑی ایک بلڈنگ کے احاطہ میں لے لی ہے۔ بس ہماری آخری گاڑی تھی اس کے بعد جگہ نہ تھی اس لئے بلڈنگ والوں نے گیٹ بند کرلیا۔ کیسی رحمت کی تھی اﷲ نے۔ اب تو امی کے ہاں سے۔ بھائیوں کے پاس سے ایک دوسرے کی خیریت کے لیے فون مسلسل بج رہا تھا۔

امی نے بتایا کہ ا یک بھائی کی گاڑی جلادی ہے اور وہ کسی کے گھر میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ امی سب بھائیوں سے کہہ رہی تھیں کہ گاڑی اور سامان کی پروا نہ کرو۔ اپنی جان بچائو، انھیں بھائیوں نے بتایا تھا کہ اگر آرام سے اترکر گاڑی اور سامان ڈنڈا برداروں کو دے دو، تو وہ مار پیٹ یا جانی نقصان نہیں کرتے۔ گلیوں اور محلوں میں لوگوں نے بھی اپنے گھروں کے دروازے پناہ دینے کے لیے کھول دیے تھے۔ وہ میزبانی بھی کر رہے تھے۔ حفاظتی اقدامات بھی کر رہے تھے۔ میں عماد اور صلاح کے لیے پریشان فون کان سے لگائے ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی۔ حماد بھی گھبرایا ہوا سہما ہوا میرے پیچھے پیچھے تھا۔ اتنے میں گیٹ پر صلاح اور عماد دونوں کے گاڑیوں کے ہارن کی آواز آئی۔ تیر کی طرح میں اور حماد گئے۔

انھوں نے پہلے ہی لمحہ میں حفصہ کا پوچھا۔ پھر کچھ اطمینان آیا چہرے پر۔ دونوں بتا رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے شہر میں کس طرح وہ بچ بچاکر پہنچے ہیں گھر۔ اس رات سب گھر نہیں پہنچے تھے۔ جو جہاں تھا وہیں رک گیا تھا۔ رات بھی ٹھہر گئی تھی۔ ٹی وی پر خبریں تھیں تبصرے تھے تجزیے تھے، بین الاقوامی سازشوں کے امکانات تھے۔ سیکورٹی پر سوالات تھے۔ دنیا کی بڑی بڑی شخصیتوں کے خیالات تھے۔ ماہرین کے بیانات تھے۔ میں نے یہ سب ذاتی حیثیت میں نہیں لکھا۔ یہ محض آپ بیتی نہیں یہ تو ملک بیتی ہے قومی سانحہ تھا۔ ہر فرد اس سے گزرا۔ ہر آنکھ اشک بار، ہر دل بے حال۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔