مقامی حکومتوں کا نظام اور حکومتی ترجیحات

سلمان عابد  اتوار 28 نومبر 2021
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی اور خود مختاری کہیں نظر نہیں آتی ہے۔سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔ اس وقت بھی  چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کا نظام عملاً موجود نہیں ہے جو ملک میں حکمرانی کے بحران کی سنگینی کی نشاندہی کرتا ہے ۔

لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں عدالتی محاذ پر یا الیکشن کمیشن کی سطح پر اس نظام کے حوالے سے کافی گرم جوشی اور فعالیت نظر آتی ہے۔ اس وقت چاروں صوبائی حکومتوں پر ان ہی دو بڑے اداروں کا دبائو ہے کہ وہ جلد ازجلد اپنے صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے عمل کو یقینی بنائیں۔ عدالتوں یا الیکشن کمیشن کی جانب سے عملی طو رپر محض صوبوں کو تجویز ہی نہیں دی جارہی بلکہ ان سے تواتر کے ساتھ رابطہ کاری، انتخابی شیڈول کے اجرا اور انتخابی طریقہ کار پر فیصلوں کا عمل سامنے آرہا ہے۔

خیبر پختونخواہ میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد اور عدالت کی جانب سے صوبائی حکومت کو غیرجماعتی انتخابات کے مقابلے میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا فیصلہ خوش آیند ہے۔ اسی طرح سے سندھ، پنجاب اور بلوچستان سمیت اسلام آباد میں صوبائی او رمرکزی حکومت کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کو یقینی بنا کر اپنا اپنا انتخابی شیڈول جاری کریں۔

عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے کردار سے بظاہر لگتا ہے کہ 2022میں ہمیں چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا عمل دیکھنے کو ملے گا۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں نیا مقامی نظام حکومت تشکیل دیا گیا ہے۔جب کہ سندھ میں بھی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ نیا نظام سامنے آیا ہے۔

پنجاب، خیبرپختونخواہ او راسلام آباد کے مقامی سطح پر ہونے والے مقامی انتخابات میں مئیریا چیرمین کے انتخابات کو تاریخ میں پہلی بار براہ راست کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے البتہ اہم بات ہے یہ کہ ہمیںاس بات کا بھی تجزیہ کرنا ہوگا کہ جو نئے نظام تشکیل دیے گئے ہیں یا سندھ اور بلوچستان میں جو پرانے نظا م کے تحت انتخابات ہوںگے وہ کس حد تک 1973کے دستور کی شق140-Aاور 32کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

کیونکہ آئین پاکستان میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ جو بھی مقامی حکومتوں کا نظام تشکیل دیا جائے گا اس میں ان ہی آئینی شقوں کی بنیاد پر اس نظام کو نہ صرف حکومتی نظام میں تیسری حکومت بلکہ ان حکومتوں کو سیاسی، انتظامی او رمالی خود مختاری بھی دی جائے گی۔ لیکن بدقسمتی سے ہم آئین کی پاسداری کے مقابلے میں ایک ایسے نظام کو لانا چاہتے ہیں جو صوبائی حکومتوں کے کنٹرول کو یقینی بناتا ہے جو عملی طور پر آئین میں کی گئی 18ترمیم کی روح کے بھی منافی ہے۔

پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت اصل میں معاشرے کے محروم طبقات یا کمزور افراد کو حکمرانی کے نظام میں شامل کرکے ان کو فیصلہ سازی کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔ ان محروم طبقات میں عورتیں ، کسان، مزدور، اقلیتیں، نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ سول سوسائٹی کا ایک معروف ادارہ بیداری جو سیالکوٹ سمیت پنجاب کے کچھ اضلاع میں مقامی حکومتوں کے نظام او ربالخصوص محروم طبقات کی بھرپور شمولیت او رفعالیت پر کام کرتا ہے۔

اس ادارہ کے سربراہ پروفیسر ارشد مرزا نہ صرف اس نظام کے بارے میں سیاسی و سماجی شعور کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ عورتوں سمیت مختلف طبقات کی مقامی نظام میں شمولیت او رتربیت کے عمل میں بڑا فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کے بقول مقامی حکومتوں کا نظام جہاں بہت سے طبقات اور جمہوری عمل کو فائدہ دیتا ہے وہیں سب سے زیادہ فائدہ معاشرے کے محروم او رکمزور طبقات کو ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں اسی ادارے نے مختلف نوعیت کی تحقیق پر مبنی رپورٹس بھی جاری کی ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ حکمرانی کے نظام کی شفافیت ہی عام او رمحروم یا کمزور طبقات کو ترقی کے قومی دھارے میں لانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔اسی ادارے کی تحقیق کے مطابق ان محروم طبقات کی نمایندگی کو محض مصنوئی بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو نمایندگی کے ساتھ ساتھ نظام میں ان کا موثر کردار مقامی حکومتوں کے آئین میں واضح اور شفاف ہونا چاہیے جو ان کی موثر نمایندگی کو ممکن بناسکے ۔

اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مقامی حکومتوں کے نظام کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کے تعین کا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیںعمومی طور پر جمہوریت او رمقامی حکومتوں پر زور دیتی ہیں لیکن ان کا سیاسی مقدمہ مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کے لیے کافی کمزور بھی ہے اور ان کی عدم دلچسپی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

ہمیں مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل کے لیے تمام سیاسی قوتوں ،سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے ایک بڑے میشاق مقامی حکومت درکار ہے۔ کیونکہ جب تک سیاسی جماعتوں کی سطح پر اس نظام کو تسلسل سے چلانے اور اسے مضبوط بنانے پر اتفاق پیدا نہیں ہوگا تو عملی اقدامات ممکن نہیں ہونگے۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اصل اہم مسئلہ اس نظام کو چاروں صوبوں میں آئینی ، انتظامی او رمالی خود مختاری دینی ہوگی۔

اصل میں جو لوگ بھی ملک میں مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کے حامی ہیں ان کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ نظام کوئی پرانی سوچ او رفکر سمیت پرانے روائتی طو رطریقوں سے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں دنیا میں مقامی حکومتوں کے تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور بہت سے بڑے فیصلے کرتے وقت کڑوی گولیاں ہضم کرنا ہونگی۔

کیونکہ جو لوگ بھی اس ملک میں روائتی سیاست کے حامی ہیں اور جو اختیارات کو زیادہ سے زیادہ صوبوں یا اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی عدم مرکزیت پر مبنی نظام کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس نظام میںجہاں اور بہت سی رکاوٹیں ہیں وہیں ایک بڑی رکاوٹ صوبائی حکومتوں کا نظام بھی ہے ۔ کیونکہ صوبائی حکومتیں زیادہ سے زیادہ اختیارات کو اپنی حد تک محدود کرکے نظام کو چلانا چاہتی ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس نظام کی مضبوطی اور تسلسل میں ہمیں صوبائی حکومتوں کا کمزور کردار نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے ریاستی نظام سمیت صوبائی حکومتوں پر ایک بڑے دبائو کی سیاست کو مضبوط بنانا ہوگا اور ان کو اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ وہ اپنی سیاسی توجہ کا مرکز مقامی حکومتوں کے نظام کو دیں۔ کیونکہ یہ ہی مقامی حکومتوں کا نظام ملک میں شفاف حکمرانی اور عام آدمی کی سیاسی طاقت بن سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔