یہ جمہوریت ہے؟

محمد سعید آرائیں  منگل 30 نومبر 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی شکست کے بعد کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان میں بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں مگر اپوزیشن ایسا نہیں ہونے دے گی، حکومت نے پارلیمنٹ پر خود کش حملہ کیا ہے۔ متحدہ اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کی آئین دشمنی کو چیلنج کرے گی۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں قانون سازی میں بدترین آمریت کا مظاہرہ کیا اور چند ووٹوں کی اکثریت سے پورا نظام بلڈوز کردیا ہے۔ ایوان میں کی جانے والی کارروائی جعلی ہے۔ جبر اور زور کے ذریعے کیے گئے فیصلے برقرار نہیں رہ سکتے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹ میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ جو معاملات اتفاق رائے سے طے نہ ہوں تو نگراں حکومتیں انھیں منسوخ کرسکتی ہیں۔ حکومت نے اپنے تئیں 2023 کا الیکشن محفوظ کرلیا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ نگراں وزیراعظم آکر موجودہ حکومت کے اقدامات کو آرڈیننس کے ذریعے ختم کر دے تو پھرکیا ہوگا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی انتخابی اصلاحات کا حشر سب دیکھیں گے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کی یکطرفہ کی گئی انتخابی اصلاحات جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں چند ووٹوں کی عددی اکثریت سے جو کچھ کیا گیا اور حکومت اس بیج کی آبیاری کے لیے جو کچھ کررہی ہے پھل کوئی اور ہی کھائے گا۔ حکومت نے جو کچھ کسی اور کی شہ پر کیا ہے اسے عدالت میں چیلنج کرکے حکومت کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

حکومتی اتحادیوں کی مدد سے پی ٹی آئی حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اور سینیٹ کے اجلاس میں جو قانون سازی کی ہے اس پر پی ڈی ایم، جماعت اسلامی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر حکومتی اقدامات کی شدید مخالفت، احتجاج اور عدالتی کارروائی کرنے کے دعوے کررہی ہیں مگر حکومتی حلقے مطمئن ہیں کہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے زور پر جو قانون سازی ہوئی ہے اس پر عدلیہ کچھ نہیں کرے گی کیوں کہ ہم نے اپنی عددی اکثریت سے جمہوری طور پر پارلیمنٹ میں بل منظور کرائے ہیں اور جمہوریت کے مطابق ہوا ہے۔

حکومت کا یہ کہنا درست ہے کیوں کہ جمہوریت میں اکثریت کے زور پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کرائی جاتی ہے اور حکومت نے بھی یہی کچھ کیا ہے، کوئی غیر جمہوری کام نہیں کیا۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن خوامخواہ واویلا کررہی ہے، ہم پر اعتماد تھے اپوزیشن خود کو ایکسپوز کررہی ہے مگر وہ کمزور ہے اور حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

حکومت کا موقف بظاہر درست ہے کیوں کہ جو کچھ ہوا پارلیمنٹ میں ہوا۔ حکومت نے اپنی عددی اکثریت ثابت کرکے اپنی مرضی کے اہم بل منظور کرالیے اور اس سلسلے میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا۔ حکومت زبانی طور پر اپوزیشن سے انتخابی اصلاحات میں تعاون کے لیے کہتی رہی اور اسپیکر قومی اسمبلی کو اپوزیشن سے رابطوں کا ٹاسک دیا گیا مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔

کوئی پارلیمانی کمیٹی نہیں بنائی گئی اور نہ بل متعلقہ پارلیمانی روایت کے مطابق قائمہ کمیٹی کو بھجوائے گئے اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل سینیٹ میں پاس نہ ہونے کے باعث پارلیمنٹ کا اجلاس جلدی میں بلایا اور مرضی کے بل جس طرح سے منظور کرالیے اس پر اپوزیشن کا اعتراض تو بنتا ہے۔

اہم بلوں کی منظوری اور انتخابی اصلاحات پر اگر قانون و پارلیمانی طریقہ اختیار کیا جاتا اور جلد بازی کرکے اپنے اتحادیوں کی طرح اپوزیشن کو مطمئن کرکے ان کی بھی سن کر انھیں اعتماد میں لیا جاتا تو موجودہ صورت حال پیدا نہ ہوتی کیوں کہ ماضی میں پی پی اور مسلم لیگ ن کی حکومت میں اپوزیشن کی مدد سے اہم فیصلے کیے جاتے تھے اور ان پر اتنا احتجاج ہوتا تھا نہ اتنی شدید مخالفت کبھی ماضی میں ہوئی جتنی آج ہورہی ہے اور حکومتی اقدامات اور اپوزیشن کو مکمل نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں اپوزیشن متحد ہوکر ایک زبان ہوچکی ہے اور حکومت کے اقدامات کو جمہوری ماننے کو تیار نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم بھٹو کے دور کو بھی اپوزیشن کے لیے برا دور تو قرار دیا جاتا ہے مگر بھٹو نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہاتھ ملاؤں گا نہ اپوزیشن کے ساتھ کسی اجلاس میں شریک ہوں گا۔ بھٹو نے تو اپوزیشن سے مل کر 1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور کرایا تھا اور جمہوری آمر قرار دیے جانے پر بھی انتخابی دھاندلیوں پر پوری اپوزیشن کو آل پاکستان کانفرنس میں ایک جگہ بٹھایا تھا اور خود اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن سے رابطے برقرار رکھے تھے۔

مشترکہ اجلاس میں شریک ارکان نے حکومتی مسودے، مجوزہ بلوں کی موٹی موٹی کتابیں پڑھیں نہ بلوں پر ممبران نے بحث کی۔کسی کو نہیں معلوم کہ کتنے بل منظور کرائے گئے۔ وزراء بھی تعداد مختلف بتا رہے ہیں اور حکومت نے یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر کیا مگر جمہوریت میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ حکومت اکثریت سے جبری فیصلے تو کراسکی ہے مگر وہ جمہوری نہیں آمرانہ فیصلے قرار دیے جاتے ہیں اور اپوزیشن کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ جمہوریت نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔