چین اور عالمی معیشت

چین کی ترقی کے ماڈل نے عالمی معیشت کو غیر مستحکم بھی کیا ہے۔


Editorial December 07, 2021
چین کی ترقی کے ماڈل نے عالمی معیشت کو غیر مستحکم بھی کیا ہے۔ فوٹو فائل

PESHAWAR: چینی صدر شی جن پنگ نے بیجنگ میں ہونے والے امپیریل اسپرنگز عالمی فورم 2021سے ورچوئل خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ عالمی گورننس کے نظام میں بہتری اور اصلاحات لانی چاہئیں۔

آج کی دنیا میں بنی نوع انسان کو بے شمار غیر معمولی بحرانوں کا سامنا ہے، لامتناہی عالمی مسائل اور چیلنجز کے تناظر میں ہمیں کھلے پن، رواداری، مشاورت اور تعاون پر قائم رہنا چاہیے، کثیرالجہتی کو برقرار رکھنا چاہیے اور بنی نوع انسان کے بد نصیب معاشرے کی تعمیر کو فعال طور پر فروغ دینا چاہیے۔

کثیرالجہتی کا نچوڑ یہی ہے کہ عالمی امور مشاورت سے چلائے جاتے ہیں اور دنیا کا مستقبل اور تقدیر تمام ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ہمیں وقت کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہوئے عالمی گورننس کے نظام کو مسلسل بہتر بنانا چاہیے۔ وسیع مشاورت اور اتفاق رائے کی بنیاد پر عالمی گورننس کے نظام میں اصلاحات اور بہتری لانی چاہیے۔ عالمی امور میں ترقی پذیر ممالک کو مزید نمایندگی دینی چاہیے۔

شی جن پنگ نے اس بات پر زور دیا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی صد سالہ جدوجہد کا تاریخی نچوڑ ہمیشہ دنیا کو ذہن میں رکھنا اور بنی نوع انسان کے بد نصیب سماج کی تعمیر پر توجہ دینا ہے۔ چین کا کثیرالجہتی کی حمایت کا عزم تبدیل نہیں ہوگا اور چین انسانی تہذیب کی ترقی میں مزید اپنی دانش اور قوت فراہم کریگا۔

عوامی جمہوریہ چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے قیام کی سوویں سالگرہ منائی جا رہی ہے' چین کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا رکن بنے 20برس ہو گئے اور اس شمولیت کی 20ویں سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے۔ کورونا وبا اور اب اقتصادی بحالی کے آغاز کے دنوں میں شنگھائی میں چوتھی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو بھی منعقد کی گئی ہے۔

کمیونسٹ انقلاب کے بعد چین برسوں دنیا کے لیے بند معیشت رہا لیکن ماؤ ازم کی سختی بتدریج کم ہوتی گئی اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت کے بعد چین نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دروازے کھول دیے' کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد تو چین میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کا آغاز ہو گیا' یوں عوامی جمہوریہ چین کی معاشی ترقی کی شرح حیران کن رفتار سے بڑھنا شروع ہو گئی۔

آج چین امریکا کے بعد دوسری بڑی عالمی معیشت ہے۔ عوامی جمہوریہ چین آج کے عہد میں عالمگیریت کا حامی اور علمبردار ہے' چین دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ عالمی امور میں ترقی پذیر ممالک کو مناسب نمایندگی دیں تاکہ عالمی معیشت اور معاشی نظام استحکام حاصل کر سکے۔

عالمی سرمایہ داری نظام جسے آزاد منڈی کی معیشت کا نام بھی دیا جاتا ہے' خاصے عرصے سے مشکلات میں گھرا چلا آ رہا ہے۔ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد انٹرنیشنل کیپٹل ازم کے سامنے سوشلسٹ معیشت زمین بوس ہو گئی 'امریکا نے اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور ڈکلیئر کر کے انٹرنیشنل کیپٹل ازم کا گارڈین قرار دے دیا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ' انٹرنیشنل کیپٹل ازم مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا ' اس کی وجہ بھی سوشلسٹ نظام معیشت کے زوال سے ملتی جلتی ہے۔

جس طرح سوویت معیشت پراکسی جنگوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہو گئی' اسی طرح عالمی سرمایہ داری نظام بھی پراکسی جنگوں 'تجارتی جھگڑوں اور چپقلشوں اور مالی قرضوں کے باعث مشکلات کا شکار ہو گیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی عسکری اجارہ داری کو تو عالمی سطح پر کوئی خطرہ درپیش نہیں آیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں نظر آ رہا ہے لیکن تجارتی محاذ پر ترقی یافتہ ممالک کے مابین خصوصاً عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ محاذ آرائی شروع ہو گئی۔

ادھر سوویت یونین کے زوال کے بعد عالمی سطح پر کاروباری اور سرمایہ کار طبقے نے ورکرز کی مراعات کم کرنا شروع کر دیں۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ کام زیادہ وسیع پیمانے پر ہوا۔ غریب ' پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک نے معیشت کو مارکیٹ کے نام پر سرمایہ داروں ' بروکرز اور مڈل مینوں کے سپرد کر دیا۔

پاکستان کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پاکستان میں معیشت مکمل طور پر عالمی مالیاتی اداروں اور ملکی کاروباری 'زرعی اور قبائلی اشرافیہ کے کنٹرول میں چلی گئی ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار کے باوجود محصولات کا ٹارگٹ حاصل نہیں ہوتا۔ ٹیکس نیٹ میں بھی درمیانہ طبقہ پھنسا ہوا ہے خاص طور پر تنخواہ دار طبقہ۔ جب کہ بااثر اور امیر طبقہ اپنی مرضی کے مطابق انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکس ادا کرتا ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں کی لائیبلٹی پوری کرنے کے لیے حکمران اشرافیہ اپنے شاہانہ 'غیرضروری اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے کے بجائے ایسی سرکاری سبسڈیز ختم یا کم کر رہی ہے جس کا فائدہ عام لوگوں کو ہوتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ میزانیہ بھی اب مذاق بن گیا ہے۔

سالانہ میزانیے میں سوائے لوکل ٹیکس 'درآمدی اور برآمدی ڈیوٹی'ایکسائز اور کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح میں کمی یا اضافے کے عوام کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ پٹرولیم مصنوعات 'بجلی کے نرخ سالانہ بجٹ میں طے نہیں ہوتے بلکہ ماہانہ اور پندرھواڑے کے حساب سے مقرر ہوتے ہیں ' عام استعمال کی اشیاء اور ادویات وغیرہ کے نرخوں پر بھی کوئی سرکاری کنٹرول نہیں اور نہ ہی صوبائی یا ضلعی بجٹ میں سالانہ کی بنیاد پر نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔

تعمیراتی صنعت میں جو آئٹمز استعمال ہوتی ہیں' ان کے نرخ بھی کسی سرکاری میزانیے میں طے نہیں ہوتے ۔ سریے کا نرخ کیسے طے ہوتا ہے 'کسی کو کوئی پتہ نہیں۔اینٹوں کا نرخ کس میکنزم کے تحت مقرر ہوتا ہے ' کسی کو کوئی پتہ نہیں۔ ٹھیکیدار کس شرح پر کوئی تعمیراتی پراجیکٹ شروع کر سکتا ہے 'یہ فریقین خود طے کرتے ہیں ' سرکار نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ پینٹ اور ہارڈویئرز کے نرخوں کا تعین کیسے ہوتا ہے اس کے بارے میں بھی کسی کو کوئی پتہ نہیں ہے۔ ماربلز اور ٹائیلزخواہ وہ امپورٹڈ ہوں یا لوکل ان کے ریٹ کیسے مقرر کیے جاتے ہیں 'کنزیومر کو اس کا کوئی پتہ نہیں۔

اسی طرح میڈیکل کے شعبے میں چلے جائیں ' وہاں پروفیسرز ڈاکٹرز کی مریض کو چیک کرنے کی کوئی مقررہ فیس نہیں ہے ' جس کی لاٹھی 'اس کی بھینس۔ میڈیکل ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کے ریٹ بھی اپنے اپنے ہیں ' حکومت نے کچھ بھی طے نہیں کیا ہوااور نہ ہی کوئی قانون بنایا ہوا ہے۔ملبوسات کی طرف آ جائیں تو یہاں بھی حکومت ایک خاموش تماشائی ہے۔ کپڑے ہوں یا جوتے ' یہ چاہے لوکل میڈ ہوں یا امپورٹڈ' کوئی ریٹ مقرر نہیںیعنی سرکار خاموش ہے۔ یونانی مطب اور یونانی ادویات کی قیمتیں بھی مینوفیکچررز خود طے کرتا ہے ' حکومت کہاں ہے' کوئی پتہ نہیں۔

ان حقائق کو مدنظر دیکھیں اور ریاست اور حکومت کے کردار کو دیکھیں تو صورت حال کی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ دنیا کی دیگر پسماندہ ریاستوں کا بھی یہی المیہ ہے۔ براعظم ایشیا اور افریقہ میں بسنے والے عام لوگ بدترین معاشی استحصال کا شکار ہیں جب کہ ان ملکوں کی حکمران اشرافیہ اور حکمرانوں کی پشت پناہی کرنے والی اشرافیہ کا طرز زندگی ' ترقی یافتہ ملکوں کی اشرافیہ سے بھی زیادہ شاہانہ ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ کے تقریباً تمام اراکین کی جائیدادیں بیرون ملک میں بھی موجود ہیں۔

ان کے بچے پاکستان کے گراس روٹ پر موجود کلچر اور روایات سے ناآشنا ہیں'مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی یہ کلاس ترقی یافتہ ممالک کے مقامی شہری ہیںاور پاکستان کے دیہی کلچر روایات ' تاریخ اور ادب سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں۔ پاکستان میں ادارہ جاتی زوال کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔

افریقہ اور ایشیاء کے پسماندہ 'غریب اور ترقی پذیر ممالک کا ایک جیسا ہی المیہ ہے۔ افریقہ کا ملک نائیجیریا تیل کی دولت سے مالا مال ہے ' یہ ملک افریقہ کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس ملک کے امراء امریکا اور یورپ میں شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن دولت کے باوجود نائیجیریا میں غربت ناقابل بیان ہے' بھارت جو دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے ' اس ملک کی اشرافیہ کا طرز زندگی بادشاہوں سے کم نہیں ہے لیکن عوام کس طرح زندگی گزاررہے ہیں ،باشعور شہری بخوبی جانتے ہیں۔

افغانستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن اس ملک کی دائیں اور بائیں بازو کی طاقتور اشرافیہ کی موقع پرستی ' دو عملی 'ذہنی افلاس اور لالچ نے افغانستان کو دنیا کا غریب ' پسماندہ اور امن و امان کے حوالے سے بدترین ملک بنا دیا ہے۔

عوامی جمہوریہ چین نے بے پناہ ترقی کی ہے اس پر وہ ستائش کا حق دار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کی ترقی کے ماڈل نے عالمی معیشت کو غیر مستحکم بھی کیا ہے' چینی کمپنیوں نے اپنی پراڈکٹ کی کوالٹی پر کمپرومائز کیا ' عالمی برینڈز کی کاپیاں تیار کر کے مال فروخت کیا۔ اس وجہ سے جہاں عالمی معیشت عدم استحکام کا شکار ہوئی وہاں چین نے وقتی زرمبادلہ تو حاصل کر لیا لیکن دیر پا ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پروڈکٹس کی کوالٹی پر کمپرومائز نہ کیا جائے۔

مقبول خبریں