سانحہ اے پی ایس اور آج کا پاکستان

سات برس قبل پشاور میں اے پی ایس کا وہ المناک سانحہ رونما ہوا جس نے پورے پاکستان کو غم و الم میں مبتلا کردیا


Editorial December 17, 2021
سات برس قبل پشاور میں اے پی ایس کا وہ المناک اور دلدوز سانحہ رونما ہوا جس نے پورے پاکستان کو غم و الم میں مبتلا کردیا

DHAKA: سات برس قبل پشاور میں اے پی ایس کا وہ المناک اور دلدوز سانحہ رونما ہوا جس نے پورے پاکستان کو غم و الم میں مبتلا کردیا، کتنی ماؤں کے لخت جگر جداہوئے۔پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر 2014 وہ بدقسمت دن تھاجس نے ہر پاکستانی کو دلگیر و اشکبار کیا، یہ وہ دن تھا جس کا سورج حسین تمناؤں اور دلفریب ارمانوں کے ساتھ طلوع ہوا، مگر غروب 132 معصوم و بے قصور بچوں اور اساتذہ کے لہو کے ساتھ ہوا۔

حیوانیت اور درندگی کی یہ انتہا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔اس سانحے میں آٹھ سے اٹھارہ سال کے وہ پھول سفاکی ، بے رحمی اور بربریت کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے جو ملک کا روشن مستقبل اور والدین کی آنکھوں کا نور تھے۔ ان معصوموں کو دہشت گردوں نے اس وقت اپنے ظلم کا نشانہ بنایا جب وہ اسکول میں حصول علم میں مشغول تھے۔

اے پی ایس کے شہداء نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید تیز کیا اور ماضی کے مقابلے میں آج کا استحکام انھی شہداء کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کی شہادت کا قرض پوری قوم پر ہے،جن والدین کے لخت جگر اس سانحے کا شکار ہوئے ان کا حال ایک طرف تو یہ ہے وہ شہداء کے والدین ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں تو دوسری جانب جینے کی تمنا اور خواہش بھی معدوم ہوتی محسوس کرتے ہیں۔ سولہ دسمبر ، سن اکہتر میں پاکستان دولخت ہوا تھا ، اس موقعے پرفیض احمد فیض نے کہا تھا کہ

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

درحقیقت سانحہ اے پی ایس سفاکانہ ذہنیت کی مجرمانہ کارروائی تھی، جس کے نتیجے میں علم کی روشنی کے چراغ اور شمعیں بجھائی گئیں۔اس سانحے نے قوم کو دہشت گردی سے لڑنے کا ایک نیا جذبہ دیا۔ اس وقت کی حکومت نے عالمی پابندیوں اور دباؤ کے باوجود سانحے کے دوسرے ہی دن سزائے موت پر پابندی ختم کردی، آئین میں ترمیم کی گئی اور نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد رکھی گئی، حکومت، فوج، سیاسی قیادت اور عوام ایک صفحے پر نظرآئے۔ ایرانی نژاد امریکی مبصر ولی نصر کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے نزدیک اے پی ایس پر حملے کا مقصد پاک فوج کے خلاف عوامی ردِ عمل اور دباؤ پیدا کرنا تھا کہ وہ ضرب عضب کو بند کردے، لیکن پاک فوج اور عوام کے اتحاد نے ان کی یہ چال ان پر ہی الٹ دی۔

یہ بھی ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ شہداء کے لواحقین اور متاثرین کے دکھ اورغم کا ازالہ اس طرح سے نہیں کیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ آج بھی حصول انصاف کے لیے والدین دربدر ہیں ، اس سانحے کے حوالے سے سپریم کورٹ از خودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کو بھی کچھ عرصہ قبل طلب کیا گیا تھا ۔ عدالت نے ملک کے چیف ایگزیکٹو سے سانحہ کے اصل ذمے داروں کا تعین کرنے کے رپورٹ پیش کرنا کی ہدایت کی گئی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے۔

سانحہ پشاور کے بعد ریاست نے یہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا علاج کسی مرہم پٹی سے نہیں ہوسکتا ، اس کے لیے فوری طور پر سرجری کرنا پڑے گی تاکہ انتہا پسندی اوردہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ وہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں، سماجی تنظمیں جو کسی نہ کسی شکل میں انتہا پسند عناصر کے لیے جواز تراشتی رہتی تھیں، وہ بھی اپنے مؤقف میں تبدیلی پیدا کرنے پر مجبور ہوگئیں۔وطن عزیز میں دہشت گردوں کے حملے اور کارروائیاں اس پالیسی اور ذہن سازی کا نتیجہ و تسلسل ہیں جو ضیاء الحق مرحوم کے دور اقتدار میں اختیار کی گئیں۔

اس دور میں ایسی سیاسی و مذہبی قیادت کو اوپر آنے کے لیے سازگار ماحول ملا جو انتہاپسند سوچ یا اس سوچ اور فکر سے متاثر تھی ۔بیوروکریسی ، کاروباری طبقے ، وکلا، ڈاکٹرز اور فلاحی تنظیموں میں اسی ذہن سازی سے تیار ہونے والے لوگوں نے راستہ بنایا۔یوں اس مخصوص ذہنیت نے ریاست اور معیشت پر اپنا کنٹرول مستحکم کرلیا ، جو آج بھی قائم ہے۔

حکومتوں اور سیاسی قیادت نے انتہا پسند بیانئے کو ختم کرنے اور ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کو بچانے کی کوشش کی اور عوام کو وعدوں اور دعووں میں پھنسائے رکھا۔

امریکا اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے دور میں پاکستان اور افغانستان میں جن انتہاپسند اور جنگجوگروہوں کی سرپرستی کی گئی بعد میںانھیں میں سے ہر گروہ نے اپنے ہی طور پر جہاد کا علم اٹھا لیا جب کہ اہل دین و دانش بتاتے رہے کہ جہاد صرف اور صرف ریاست کی ذمے داری ہے اور فرد یا گروہ ایسا نہیں کرسکتا۔ چونکہ اس ''جہاد'' کی بنیاد ہی گروہی مفادات پر تھی جس کے سبب یہ گروہ تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور انارکی پھیلانے اور اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کے مکروہ فعل میں مصروف رہے۔

اگرچہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیںلیکن بنیادی وجہ ہمارا کمزور ریاستی و جمہوری نظام اور بیانیہ ہے، جس میں کمزور اور مفاد پرست سیاسی ٹولے اپنی بری طرز حکمرانی کے باوجود اقتدار پر براجمان رہے۔ معاشرے میں معاشی، سیاسی اور سماجی استحصال، مراعات یافتہ نکمی اشرافیہ نے ثقافتی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ مڈل کلاس کی ایک غالب تعداد انتہاپسند طبقے کی اسیر بن گئی جو دہشت گرد تنظیموں کے عیار اور مکار ماسٹرمائنڈز کا آسان ہدف بن گئی ۔ ملک کی روشن خیال کلاس میں مایوسی بڑھ گئی اور وہ ریاستی ڈھانچے میں اپنی قوت کھو بیٹھی ۔

انتہا پسندی و دہشت گردی کے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے گزشتہ چند سال میں ریاستی و حکومتی سطح پر آپریشن ضرب عضب، نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ردالفساد جیسے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے۔ ان کے نتیجے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مجموعی صورتحال کافی حد تک بہتر ضرور ہوئی ہے، لیکن بطور ریاست اور معاشرہ ہم اب بھی اس مسئلے سے باہر نہیں نکل سکے۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تو خاطر خواہ حد کمی ضرور دیکھنے میں آئی ہے، لیکن جامعات سمیت کئی معاشرتی اور سیاسی محاذوںپر انتہا پسندی اب بھی سنگین خطرے کے طور پر موجود ہے،حالیہ دنوں میں سری لنکا کے ایک باشندے کاہجوم کے ہاتھوں قتل کا افسوناک واقعہ ملک وقوم کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے ۔

موجودہ حکومت نے اس وقت کچھ انتہاء پسند گروپوں اور گروہوں سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان کی طاقت اور بربریت کو تسلیم کرنے کے مترادف اورریاست کی کمزوری کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ہماری حکومت کوگڈ و بیڈ کی تمیز ختم کر کے تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرنے کی اشد ضرورت ہے، سری لنکا جیسے کم وسائل رکھنے والے ملک نے تامل ٹائیگرز کے خلاف ایک طویل ترین جنگ لڑی اور دہشت گردی پر قابوپانے میں کامیاب رہا ، پاکستان کی فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کا شمار دنیا کے بہترین اداروں میں ہوتا ہے۔

لہٰذا دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہمیں ہر صورت میں جیتنی ہوگی،بیرونی دشمنوں کے اندرونی آلہ کاروں کے خلاف نظر آنے والے اقدامات کی ضرورت ہے، ہمیں دہشت گردانہ ذہنیت کی پیداواری نرسریوں کو ختم کرنا ہوگا۔ درسگاہوں پر حملہ کرنے والے بیمار ذہنیت اور جاہلیت کے پیروکار ہیں، دہشت گردوں کے سرپرست، سہولت کار اورمددگار اپنی عیار اور مکاری سے عوام کو آج بھی گمراہ کر رہے ہیں،نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عملدرآمد نہ ہونا سیاسی حکمران طبقے کی نااہلی ہے۔ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں