سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی

میڈیا کی اطلاع کے مطابق بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی کی گئی ہے


Editorial December 31, 2021
میڈیا کی اطلاع کے مطابق بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی کی گئی ہے

لاہور: میڈیا کی اطلاع کے مطابق بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی کی گئی ہے، پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائے سندھ پر بھارت کی جانب سے چھ متنازعہ منصوبوں کی تعمیر شروع کردی گئی ہے ۔

پاکستان نے بھارتی انڈس واٹر کمیشن کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے ۔بھارت کے پاس انڈس ریور بیشن کے علاوہ گنگا اور براہمہ پترا جیسے بڑے دریائی نظام بھی موجود ہیں ۔

بھارت کی مسلسل آبی جارحیت پر اور سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی پر اس معاہدے کے ضامن عالمی بینک سے 2018 سے اب تک کئی دفعہ ثالثی کی درخواست کی جاچکی ہے مگر عالمی برادری کی خاموشی بھارت کو مزید جارحیت کا موقع فراہم کررہی ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اپنا چلن بنا لیا ہے،کیونکہ ہم نے اپنا پانی دوسروں کے لیے کھلا چھوڑاہواہے ،اسی لیے توہمارے حصہ کے پانی پر بھارت ڈیم بنارہاہے اور ہم اس کاراستہ روکنے میں مسلسل ناکام چلے آرہے ہیں۔

مسئلہ پانی کی مقدار کا نہیں، مسئلہ چناب اور جہلم پر کنٹرول کا ہے اور پاکستان کو اپنی بقا کے لیے بھارت کے اس خواب کو ناکام کرنا ہو گا کیونکہ جس دن بھارت کو جہلم کے اس پانی کا مکمل کنٹرول مل گیا وہ دن اکھنڈ بھارت کا نقطہ آغاز ہو گا کیونکہ اپنے ناپاک منصوبے کے مطابق بھارت جب پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے گا تو اس کے جوخطرناک نتائج نکل سکتے ہیں، وہ آسانی سے سمجھے جا سکتے ہیں۔

درحقیقت پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ کرکے اپنے حصہ کے پانی کی ملکیت کا انتقال تو اپنے نام کروادیا مگر اس کا قبضہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کی اور انتقال سے کہیں زیادہ ضروری چیز قبضہ ہوتا ہے۔

اپنے حصے کے پانی کا قبضہ لینے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈیمز بناتے مگر ہم نے ایسا نہ کیا جس کی وجہ سے بھارت کا حوصلہ بڑھا، اگر چہ سندھ طاس معاہدہ میں کہیں بھی اس امر کا ذکر نہیں کہ اگر پاکستان ڈیم نہ بنا سکا تو بھارت اس کے حصے کا پانی استعمال کرنے کا مستحق بن جائے گا لیکن اس نے ڈپلومیسی سے معاملہ اپنے حق میں لے جانے کی کوشش کی کیونکہ جب آپ یہ معاملہ ثالث کے پاس لے کر جائیںگے تو وہ یہی کہے گا کہ جب آپ اپنے حصہ کا پانی استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور ہر سال بہت بڑی مقدار میں پانی سمندر میں گر کر ضایع ہو رہا ہے تو بھارت ڈیم بنا کر یہ پانی استعمال کرسکتا ہے اوریہی بہت خطرناک نکتہ ہے ایک آبی ماہر کی طرف سے سامنے آنے والا یہ نکتہ قابل غور ہے۔ اس وقت اگر دیکھاجائے تو ملک میں مسلسل پانی کم ہورہا ہے۔

بد قسمتی سے کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی آج تک کوشش نہیں کی گئی، جس کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں گیلن پانی سمندر میں گر کر ضایع ہوجاتا ہے۔

ایک صورت حال تو اس طرح کی ہو سکتی ہے کہ پانی کی انتہائی کمی سے ہمارے کھیت اور باغات تو چند مہینوں میں ویران ہو جائیں گے۔ گنے کے کھیت نہ ہونے سے شکر کی صنعت تباہ ہو جائے گی۔ صنعتوں کے لیے بجلی کا دستیاب ہونا تو دور کی بات، گھربھی بجلی کو ترسنے لگیں گے۔

پانی کی سطح ملک میں انتہائی نیچے جا سکتی ہے اور دوسری صورت وہ ہو سکتی ہے جو ابھی ہم نے حالیہ سیلابوں کی صورت میں بھگتی ہے کہ جب بھارت میں بارشیں معمول سے کہیں زیا دہ ہو جائیں تو بھارت اپنے پانیوں کے ذخائر کا رخ پاکستان کی جانب کر دے۔ وہ تمام ڈیمز، بیراجوں اور ان کے ہیڈ ورکس کے دروازے بیک وقت کھول دے، اگر دفاعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھارت کسی بھی وقت ہم پر آبی حملہ کرسکتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میںیہ پتہ چلانا بہت آسان ہوگیا ہے کہ کس وقت پاکستان اور بھارت سے مخصوص حصوں میں بہت زیا دہ بارشوں کا امکان ہے تو اگر وہ یہ سب جانتے ہوئے چناب، جہلم، سندھ اور مشرقی دریاؤں کا پانی بھی مسلسل بارشوں سے پیدا ہونے والی ہماری سیلابی کیفیت میں شامل کر دیتا ہے تو کیااس سے ہمارے تمام بیراج اور ان کے دروازے اڑ کر نہیں رہ جائیں گے؟گدو کے مقام پر اس قسم کے سیلابی پانی کا اخراج 12 لاکھ سے زیادہ، سکھر کے مقام پر گیارہ سے بارہ لاکھ تک ہونے سے صورت حال کس حد تک خطرناک ہو سکتی ہے؟ اور پھر اس سے آگے کوٹری کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرروت ہی نہیں؟ قومیں جب مٹتی ہیں تو آہستہ آہستہ مٹتی ہیں۔ تباہ ہوتی ہیں تو نا محسوس طریقے سے تباہ ہوتی ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت متحدہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کو مل رہی تھیں،بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرکے پنڈت نہرو کی امیدوں کے عین مطابق ہر اس دریاؤں پر قبضہ کرلیا جو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرتے تھے، پنجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھے ،جس پر بھارت قابض ہوچکا ہے، بلکہ دریائے سندھ خود بھی کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کے قبضے کے نتیجے میں لداخ کے مقام پر بھی بہتا ہے۔

پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر سے اغماز برتا گیا اس نا اہلی یا کوتاہی کا خمیازہ آج پورا ملک اور قوم بھگت رہے ہیں۔اس معاملہ میں تو ہماری کارکردگی شرمناک حد تک ناقص رہی ہے۔ گزشتہ50سالوں کے دوران چین نے ہزاروں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے، امریکا میں بھی سیکڑوں ڈیم موجود ہیں، بھارت نے 50 سالوں میں 4291 ڈیم بنائے، اس عرصے کے دوران ہمارے ہاں صرف68ڈیم بنے، ان میں سے صرف2ڈیم ہی بڑے ڈیم کہلانے کے قابل ہیں، تربیلا ہم نے کینیڈا کی مدد سے جب کہ منگلا ورلڈ بینک کی امداد سے بنا۔ جن جن ملکوں نے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے انھوں نے تیزی سے ترقی کی۔

صوبہ بلوچستان میں اور ملک کے دیگر علاقوں لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر اور بغیر پانی کے ہیں اگر ان میں ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز تعمیر کیے جائیں اور ان بنجر زمینوں کو سیراب کرکے کاشت کے قابل بنایا جائے توپاکستان ہمیشہ کے لیے غذائی اجناس کی قلت سے بچ جائے گا۔ نیز اس سے پاکستان کی غذائی ضروریات بھی پوری ہوسکیں گی اور ان فصلوں کو بیچ کر کثیر زرمباد لہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔

موجودہ حکومت پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوشاں تو ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر بھاشاڈیم سمیت دیگر ڈیموں پر کام جاری ہے لیکن یہ سارے منصوبے طویل المدت ہیں جب کہ ہمیں فی الوقت چھوٹے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے ۔کالا باغ ڈیم ایک بہترین منصوبہ ہے جس پر کافی کام ہوچکا ہے،اگر حکومت اپوزیشن سے مل کر اس ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنائے اور ان پر خدشات وتحفظات کو دور کرے تو اس سے کافی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے مقابلے میں بھارت اپنے ملک میں تواتر سے ڈیمز تعمیر کر رہا ہے یہاں تک کے اس نے پاکستان کی طرف بہنے والے پانیوں پر قبضہ کرکے متعدد متنازعہ ڈیم بناچکا ہے۔ بھارت پاکستان کو بنجر کرنے کے منصوبہ پر کاربند ہے اور اس میں اسے کافی حد تک کامیابی مل چکی ہے۔ پاکستان میں فوجی حکومتوں نے ہی بڑے ڈیمز بنائے ہیں جب کہ جمہوری حکومتوں نے اس حوالے سے کچھ خاص نہیں کیا۔

موجودہ حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر کم لاگت اور کم وقت میں چھوٹے ڈیمز تعمیر کریں ، ان ڈیموں میں بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا پھر یہ ذخیرہ شدہ پانی زمینوں اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کیا جاسکے گا اور پاکستان غذائی اجناس میں کافی حد تک خود کفیل بن جائیگا۔ہمارا یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں فنی مسائل کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے اس کی بڑی مثال کالا باغ متنازعہ ڈیم ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی حکومتوں میں بڑے بڑے ڈیمز بنائے گئے ہیں جب کہ جمہوری ادوار میںکوئی ڈیم نہیں بن پایا۔

ہماری فی ایکڑ پیداوار دنیا میں کم شمار کی جاتی ہے چنانچہ ڈیم بنا کر ہم موسم سرما میں فصلوں کی ضروریات کے مطابق پانی مہیا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ گرمیوں میں سیلاب کے خطرات پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔دنیا بھر میں گزشتہ صدی کے دوران42ہزار بڑے ڈیم بنے، جن ممالک نے ڈیم بنائے وہ ترقی کرگئے باقی ہماری طرح پیچھے رہ گئے اصل مسئلہ قومی سطح کی پالیسیوں کا ہوتا ہے، اس سلسلہ میں صرف اورصرف قومی مفاد کو مقدم رکھاجاناچاہیے، ہر چیز کو سیاسی مفاد کی عینک سے دیکھنے کی روش اب ترک کرناہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں