مری سانحہ اورکئی سوال

عوام میں ہیجانی کیفیت تھی تاہم صوبائی حکام معمول کے حکومتی اجلاسوں میں مصروف تھے


Editorial January 11, 2022
عوام میں ہیجانی کیفیت تھی تاہم صوبائی حکام معمول کے حکومتی اجلاسوں میں مصروف تھے۔ (فوٹو: فائل)

سانحہ مری کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانحے کے روز ہوٹل مہنگے اور انتظامیہ غائب تھی، گاڑیوں میں بیٹھے 22 افراد کاربن مونو آکسائیڈ سے جاں بحق ہوئے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2 سال سے سڑکوں کی مرمت ہوئی نہ برف ہٹانے کے لیے مشینری تھی، صبح 8 بجے حکومت نے ایکشن شروع کیا جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ذمے داروں کے تعین کے لیے 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی، TOR,sکا اعلان کر دیا گیا، کمیٹی 7روز میں رپورٹ پیش کرے گی، لواحقین کے لیے فی کس 8 لاکھ روپے امداد کا اعلان بھی کیا گیا۔

سانحہ کے بعد مری پر نوازشات بھی دیکھنے کو ملیں، وزیراعلیٰ بزدار نے ملکہ کوہسار کو ضلع بنانے، رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے فنڈز دینے، 2 پارکنگ پلازے اور 2 نئے تھانے بنانے کا اعلان بھی کیا۔ عثمان بزدار نے اوور چارجنگ کرنیوالے ہوٹلوں اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کرنیکی ہدایت کی اور برفباری سے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ، گھڑیال سمیت دیگر علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ پی ٹی اے کی ہدایت پر موبائل فون آپریٹروں نے گلیات کے علاقوں میں پھنسے ہوئے صارفین کو زیرو بیلنس ہونے پر اپنے نیٹ ورک کے نمبروں پر مفت کالوں کی سہولت فراہم کر دی ہے۔

سانحہ مری کی ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی جس کے مطابق 7جنوری کو مری میں 16گھنٹے میں 4 فٹ برف پڑی،3 جنوری سے7 جنوری تک ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گاڑیوں میں بیٹھے 22 افراد کاربن مونو آکسائیڈ سے جاں بحق ہوئے، 16مقامات پر درخت گرنے سے ٹریفک بلاک ہوئی، مری جانے والی 21 ہزار گاڑیاں واپس بھجوائی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق مری اور گرد و نواح میں موجود سڑکوں کی گزشتہ دو برس سے جامع مرمت نہیں کی گئی تھی اور گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے کے باعث ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مری میں موجود ایک نجی کیفے کے باہر پھسلن ہونے کے باوجود کوئی حکومتی مشینری موجود نہیں تھی اور اسی پھسلن والے مقام پر مری سے نکلنے والوں کا مرکزی خارجی راستہ تھا، سیاحوں کے مری سے خارجی راستے پر برف ہٹانے کے لیے ہائی وے کی مشینری موجود نہیں تھی۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مری کے مختلف علاقوں میں بجلی نہ ہونے کے باعث سیاحوں نے ہوٹلز چھوڑ کر گاڑیوں میں رہنے کو ترجیح دی۔ رات گئے ڈی سی راولپنڈی اور سی پی او راولپنڈی کی مداخلت پر مری میں گاڑیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی اور مری کی شاہراہوں پر ٹریفک بند ہونے کے باعث برف ہٹانے والی مشینری کے ڈرائیورز بھی بروقت موقع پر نہ پہنچ سکے تاہم متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی ٹریفک کی روانی یقینی بنانے موقعے پر موجود تھے۔

رپورٹ کے مطابق مری میں ایسا کوئی پارکنگ پلازہ موجود نہیں جہاں گاڑیاں پارک کی جاسکتیں، صبح 8 بجے برف کا طوفان تھمنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی، ذرایع نے بتایا کہ مری میں سیاحوں سے ہوٹلوں کا کرایہ 20 ہزار سے 50 ہزار روپے تک وصول کیا گیا۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مری کے برفباری سے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ کیا اور گھڑیال سمیت متاثرہ علاقوں کا3 گھنٹے طویل دورہ کیا اور متاثرہ علاقوں میں جاری ریلیف آپریشن کا جائزہ لیا، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے سانحہ مری کی اعلیٰ سطح کی انکوائری کرانے کا اعلان بھی کیا۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب کی سربراہی میں کمیٹی 7روز میں رپورٹ پیش کرے گی اور مری میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کے لیے ایک کروڑ 76لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان بھی کیا۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے مری کو ضلع بنانے کی اصولی منظوری دے دی اور فوری طور پر ایس پی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی کی ہدایت بھی کی۔

گھڑیال میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ریلیف کمشنر/سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اور دیگر نے ریسکیو و ریلیف آپریشن کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور مری میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بارے میں رپورٹ پیش کی گئی۔ کمشنر راولپنڈی ڈویژن، سی پی او راولپنڈی اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، سی ٹی او راولپنڈی نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو المناک واقعے کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیا اور ٹریفک مینجمنٹ پلان کے بارے میں بریفنگ دی۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس موقعے پر مری میں گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کی آمد پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے واضح کیا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں غفلت یا کوتاہی کے ذمے دارو ں کے خلاف بلاامتیاز ایکشن لیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ مری کو ضلع بنانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں چیف سیکریٹری اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے تجاویز طلب کرلی ہیں۔

پنجاب حکومت نے مری میں آیندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سینئر افسران کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مری میں 2 نئے تھانوں کے قیام کی بھی منظوری دے دی۔ مری میں سیاحوں کے رش کو کنٹرول کرنے کے لیے سنی بینک اور جھیکا گلی میں 2 پارکنگ پلازے بنائے جائیں گے ۔ ان پارکنگ پلازوں سے شٹل سروس کے ذریعے سیاحوں کو مال روڈ تک لایا جائے گا۔

ذرایع کا کہنا تھا کہ مری کا سانحہ مکمل ڈزاسٹر تھا، یہ انتظامی غفلت تھی، مری میں کیا کچھ ہونے جارہا ہے، اس بارے میں حکام خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے، ابتدا میں تو برف باری اور ٹریفک جام کی خبریں معمول کے مطابق دی جا رہی تھیں، گاڑیوں میں پھنسے لوگ سیل فون کے ذریعے سانحہ کی ہلاکت خیزی کے بارے میں خطرات اور اندیشے مسلسل ظاہر کرتے رہے، لیکن کسی نے محکمہ موسمیات کی پیشگوئیوں اور مسلسل اطلاعات پر توجہ نہیں دی، جب کہ موسم کی شدت کی خبروں سے یہ بات ظاہر تھی کہ برفباری طوفانی تھی تاہم یہ کوئی اچانک ہولناک طوفان نہیں تھا۔

لوگ انتظامیہ کو اپنے نجی سیل فونز سے خبردار کرتے رہے، دوسری طرف ٹول پلازہ حکام کی غفلت بھی افسوس ناک تھی، ٹول پلازا حکام کے پاس گاڑیوں کی آمد کا ڈیٹا موجود رہتا ہے، وہ فوری نشاندہی کرسکتے تھے کہ کثیر تعداد میں گاڑیوں کی آمد سے سیاحوں کو شدید خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے، حکومتی حکام کا کہنا تھا کہ مری میں سسٹم مفلوج ہوگیا تھا، جہاں بیس ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش تھی وہاں ہزاروں سیاح موجود تھے۔

میڈیا نے بتایا ہفتے کے دن انتظامیہ غائب تھی، پیر کو ہونے والی تحقیقات کے مطابق ہوٹل بے حد مہنگے اور سیاح ریسکیو کے بعد گھروں کو واپسی کے انتظامات میں مصروف تھے، سانحہ مری میں لوگوں کی پریشانی اور بے بسی دیدنی تھی، لوگ گاڑیوں کے قریب آتے اور ناظرین کو بتاتے کہ ان گاڑیوں میں لوگ پھنسے ہوئے تھے، انھیں بچانے کے لیے مشینری بجھوائی جائے، ان میں سے کافی لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ قرب و جوار کے لوگ مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن قرب و جوار کی آبادیوں میں چھوٹے ہوٹل بند تھے، بارش، برف باری اور آفات سے بچاؤ کی مشینری، کرینیں موجود نہیں تھیں، عجیب بے بسی کا عالم تھا، سانحہ کی ہلاکت خیزی کے بعد بھی کوئی ذمے داری لینے پر تیار نہیں تھا، اتنے بڑے سانحہ پر کوئی انتظامی آنکھ ہلاکتوں پراشکبار نہ ہوئی، اطلاع ملی کہ حکومت نے آفات کے لیے درآمدی سامان پر17فیصد ٹیکس لاگو کردیا ہے۔

عوام میں ہیجانی کیفیت تھی تاہم صوبائی حکام معمول کے حکومتی اجلاسوں میں مصروف تھے، انتظامی افسران کو سانحہ کی اطلاع ٹی وی کے خبرنامہ سے ملی، مری پورے ملک سے کٹ کر رہ گیا تھا۔

عوامی حلقوں کے مطابق مری کے واقعہ نے قوم کی حسیات کو مضمحل کردیا ہے، بعض فہمیدہ افراد کا کہنا تھا کہ ایسے سانحات پر ہمارا رد عمل اور محسوسات زندہ قوم کے شایان شان نہیں تھے، ہمارے لہو میں گرمی نہیں رہی، افسر شاہی نے ایک غیر معمولی واقعہ پر جس سنگدلی اور بے حسی کا ثبوت دیا اس پر حکومت کو بہت سخت ایکشن لینا چاہیے، درد انگیز حقیقت یہ بھی تھی کہ قوم کے لیے ابھی سری لنکن منیجر کی ہلاکت کا غم تازہ ہے۔

اس تناظر میں انتظامیہ کو مری کے واقعہ پر جوش و جذبے کا فقیدالمثال مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، لیکن محسوس ہوا ہے کہ ہم من حیث القوم ایک مردہ دل انبوہ ہیں، ہمارے اندر کی انسانیت اب چیتھڑوں کی طرح پھٹی کٹی ہے، قوم کے غم میں احساس اور درد کی کوئی کسک ہماری ضمیر میں کچوکے نہیں لگاتی۔

مری میں جو کچھ بھی ہوا، اس کے اثرات حکمرانوں کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں، ماہرین نے بائیس افراد کی دردناک موت پر انتظامی بے حسی پر شدید رنج کا اظہار کیا ہے، ماہرین نفسیات نے مری کے سانحے کو ایک قوم کی بے حسی اور سنگدلی سے تعبیر کیا ہے، مری کے الم ناک واقعہ پر عوامی رد عمل ایک بڑا سوال ہے، یہ لمحہ فکریہ ہے، کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ہمیں انسانی رنج والم سے لاتعلق کردیا ہے، ہم ایک قوم نہیں رہے بلکہ ایک انبوہ کثیر اور بے ہنگم ہجوم بن کر رہ گئے ہیں۔

مقبول خبریں