سمیت کا درست استعمال

سہیل احمد صدیقی  اتوار 16 جنوری 2022
زبان و بیان کی بعض اغلاط اس قدر تواتر سے، ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔فوٹو : فائل

زبان و بیان کی بعض اغلاط اس قدر تواتر سے، ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 131

تین جنوری سن دو ہزار بائیس کو، کراچی کتب میلے میں آخری روز محترم آصف انصاری (سابق ایکزیکٹو پروگرام منیجر، سابق سینئرپروڈیوسر، پاکستان ٹیلی وژن) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے زباں فہمی پر اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی وژن کے میزبانوں وغیرہ کے (بگڑے ہوئے) تلفظ (کی اصلاح ) کے لیے بھی آپ لوگوں کو کچھ کرنا چاہیے۔

خاکسار نے عرض کیا کہ ہرچند اس بابت ہمارے واٹس ایپ حلقے بعنوان زباں فہمی سے تحریک اصلاح صحافت، اراکین کی صلاح پر شروع کی گئی، (جس میں راقم کی یوٹیوب وڈیوز اور ایک الگ واٹس ایپ حلقہ بعنوان تحریک اصلاح صحافت بھی شامل ہے) اور ماقبل، سرکاری ادارے اردو لغت بورڈ نے ایک کتابچہ بھی کچھ سال قبل شایع کرکے PEMRA کے توسط سے ٹیلی وژن چینلز تک پہنچایا، مگر اُن لوگوں کو اس سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے پاس اتنا وقت کہاں کہ ایسی چیزیں پڑھنے بیٹھ جائیں۔

آصف انصاری صاحب بھی ہماری طرح دردمند دل رکھتے ہیں، مگر کیا کریں یہ کام اتنا آسان نہیں۔ جہاں Idiot box میں آنے والوں کی اکثریت ہی کسی نہ کسی طرح سیڑھی لگاکر پہنچی ہو، (سفارش، رشوت، مکھڑا یا اس سے متعلق کچھ اور….)، بلاکسی سندوتربیت کے، وہاں زبان وبیان کی معلومات چہ معنی دارد؟

زبان و بیان کی بعض اغلاط اس قدر تواتر سے، ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ علی الخصوص ٹیلی وژن کی خبروں سے متعلق ہے….اس لیے بھی کہ اب خبریں سنی کم دیکھی زیادہ جاتی ہیں۔ اب ریڈیو پر خبریں جیسی تیسی پڑھ کے بھگتائی جاتی ہیں اور سامعین کی اکثریت دیگر چیزیں سننے کی عادی ہے، کیونکہ انھیں عادت ڈال دی گئی ہے۔ اگر ہم محض اصلاح احوال ہی کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ کوئی اس لیے اس کام کی انجام دہی کے لیے آمادہ نہیں ہوتا کہ سب کو بس نوکری کرنی ہے۔

سرکاری شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے معاوضے اس قدر حقیر فقیر ہیں کہ بندہ کسی کوبتاتے ہوئے بھی شرماتا ہے۔ حکومت کے پاس بہت سے دیگر کام بھی ہیں، مختلف مدّات میں دنیا بھر سے امداد (براہ کرم اسے بھیک یا خیرات نہ پڑھا جائے) جمع کرنا بھی ایک بہت بڑا یا شاید سب سے بڑا مشن ہے….پھر اسے ٹھکانے لگانا ایک الگ مسئلہ۔ اگر وسائل کا رونا رونے اور آبادی کی بہتات کا گانا گانے سے کچھ دیر کے لیے فرصت ملے تو غور بھی کریں کہ محض اراکین پارلیمان +غیرمنتخب مشیران کی فوج ظفر موج کے بلاجواز، غیراسلامی ، غیراخلاقی اور غیرفطری (اور قانون کی چھپر چھایا تلے +دیگر غیرقانونی ہتھکنڈوں سے وصول ہونے والے) مشاہروں ہی کی مَد میں جو بے حساب پیسہ کھایا جاتاہے، مل کر، اس کا عُشرِعشیر بھی عوام الناس کی بہبود پر خرچ کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں (یہی معاملہ نام نہاد فلاحی تنظیموں کا بھی ہے۔

جن کی درست تعداد شاید پاکستان میں کسی کو معلوم نہ ہو، مگر ایک اندازے کے مطابق ، جب صوبہ سندھ ہی میں چھتیس ہزار سے زائد ہیں تو پورے ملک میں کتنی ہوں گی؟ اگر اِن میں نصف بھی ایمان داری سے مسائل کے حل کے لیے، اندرون وبیرون ملک سے ملنے والے عطیات، اُسی مصرف میں استعمال کریں جس کا نام لے کر جی رہے ہیں اور کہاں سے کہاں جاپہنچے ہیں تو پاکستان کُجا پورے خطے میں، بلکہ شاید پوری دنیا میں کوئی غریب، اَن پڑھ، بے روزگار اور بے یارومددگارنہ رہے)۔ فی الحال تو سرکار اور بڑی سرکار اپنی اپنی ہی دیکھنے میں مصروف ہیں، شاید آیندہ پچاس سال میں وطن عزیز میں واقعی کوئی ایسا انقلاب برپا ہوجائے کہ جس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں۔ خیر آمدم برسرمطلب!

صبح سے شام اور دن سے رات تک خبریں سنیں یا دیکھیں ، ایک ہی طرح کی اغلاط سننے کو ملتی ہیں۔ گذشتہ کالموں میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ ہمارے یہاں علاوہ، سمیت اور سوائے کے معانی گڈ مڈ کردیے گئے ہیں۔ علاوہ اور سواء کے فرق پر تو آپ نے پورا کالم ملاحظہ فرمالیا ہوگا: زباں فہمی نمبر 122،’’سِوا اور عِلاوہ‘‘، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 7نومبر2021۔ سمیت کے متعلق کیا کیا عرض کریں۔ یہ اگر کوئی ذی روح ہوتا تو احتجاج بھی کرتا۔ اس طرح کے جملے ہمارے ٹی وی چینلز پر ہمہ وقت سنائی اور دکھائی دیتے ہیں:
سانحہ مَری پر، صدرمملکت ، وزیراعظم ، آرمی چیف سمیت تمام دیگر وزیروں، مشیروں اور سیاسی رہنمائوں نے افسوس کا اظہارکیا۔
وزیراعلیٰ، وزیرصحت، وزیرخوراک سمیت دیگر افراد نے بھی اپنی اپنی تنخواہوں سے کچھ رقم بطور اِمداد دینے کا اعلان کیا۔
فُلاں فُلاں جگہ تقریب میں فُلاں، فُلاں اور فُلاں سمیت دیگر اور فُلاں فُلاں نے بھی اظہارخیال کیا، عطیہ دیا ، چندہ دیا، امداد کا اعلان کیا…..وغیرہ
ان بے چاروں کو معلوم ہی نہیں کہ ’’سمیت‘‘ کیا ہے؟
چلیے آج لغات سے سکھانے کی بجائے اُنھی پرچھوڑدیتا ہوںکہ تلاش کرلیں معانی۔ ہا ں البتہ آن لائن لغات کا حوالہ ضروری ہے۔
ریختہ ڈکشنری:
سَمیت۔ اصل: عربی۔ سَمیت کے اردو معانی: فعل متعلق: ساتھ، ہمراہ، بشمول۔
اب یہاں خاکسار سہیل کی بھی سن لیں۔ یہاں تک سب کچھ صحیح تھا، مگر فاضل مرتب نے سمیت کی بجائے سمیٹ کا محلّ استعمال دکھانے کے لیے یہ شعر نقل کردیا:
مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر
کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا
(محفوظ الرحمٰن عادل)
کہیے ہنسی آئی؟ ہنسنا تھا یا رونا تھا؟
ایک اور آن لائن لغت اردوآئنسی کی تعریف اسی کالم میں ماقبل کرچکا ہوں۔ سمیت بمعنی سم(یعنی زہر) زہر کا اثر، زہریلاپن کو ’’اردوآئنسی ڈاٹ کام‘‘ نے ’’سمیت بمعنی شامل ہونا‘‘ کے مترادف قرار دے کر ہماری معلومات کی ایسی تیسی کردی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
مترادفات: اکٹھا، اکھٹے، باہم، ساتھ، شمول، شمُول، مع، ہمراہ۔
اس سے بھی بڑھ کر انھوں نے انگریزی میں یہ معانی بیان کرکے، نامعلوم کتنے ہی گوروں کو بھی لاجواب کردیا ہوگا:
become intimate soon
beloved
exquisite beauty
کہاوت، محاورے اور ضرب المثل:
آب و ہوا میں سمیت آجانا، بن بلائی ڈومنی لڑکوں بالوں سمیت آئی، جوتی سمیت آنکھوں میں بیٹھنا یا گھسنا، منھ لگائی ڈومنی بال بچے سمیت آئی، منھ لگائی ڈومنی کنبہ لائی ساتھ، منھ لگائی ڈومنی گاوے تال بے تال۔
اب اس کے بعد اسی آئنسی نے اشعار بھی نقل کیے ہیں:
اشعار:
تنگ ہوجاوے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر
گر ہمیں زیرزمین سونپا دل نالاں سمیت
(میر تقی میرؔ)
سب ہوئے نادم پے تدبیر ہوجاناں سمیت
تیر تو نکلا میرے سینے سے لیکن جاں سمیت
(میر تقی میرؔ)
قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے
سب کو مارا عشق نے مجھ خانماں ویراں سمیت
باغ کر دکھلائیں گے دامانِ دشتِ حشر کو
ہم بھی واں آئے اگر مژگان خون افشاں سمیت
(میر تقی میرؔ)
اُٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میر
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
(میر تقی میرؔ)
بعث اپنا خاک سے ہوگا جو اس شورش کے ساتھ
عرش کو سر پر اٹھا لیویں گے ہم محشر سمیت
(میرؔ)
تل لگائی جس نے اور پورا نہ تولا وزن کو
ہو گیا برباد کوئی دن میں جنس و تُل سمیت
(دیوان حافظ ہندی)
ایسے قاتل پر کوئی اثبات خوں کیونکر کرے
خاک میں جس نے سلائے سیکڑوں خنجر سمیت
(مصحفیؔ)
دوڑ بھِجوائی ہے صیاد پر اوس گلررو نے
حکم ہے اسے حاضر کرو نخچیر سمیت
(آغا حجوشرفؔ)
دل ترا نٹ کے تماشے کا اگر راغب ہو
تو عدم سے ابھی منصور چلے دار سمیت
(علی اوسط رشکؔ)
ابھی کل کی بات ہے کہ بندہ ٹی وی چینلز بدل بدل کر خبریں دیکھ رہا تھا (سننے کے ساتھ ساتھ) کہ سرکاری ٹیلی وژن پر ایک صاحبزادے نے خبریں پڑھتے ہوئے پاکستان بحریہ کے جہاز کا نام ’’راہ نَوَرد‘‘ [Rahnaward]کی بجائے راہ۔نُود[Rah-nood] بنا ڈالا، وہ بھی کوئی دو تین مرتبہ….ماضی میں بھی بحریہ کی سالانہ مشقوں کا عنوان، ثقیل محسوس ہونے پر، غلط سلط پڑھاجاتا رہا ہے، جس کی بابت، خاکسارکے کالم ’زباں فہمی‘ میں کم ازکم دو مرتبہ نشان دہی کی گئی۔

اب پاک بحریہ کے شعبہ تعلقات ِ عامّہ کے سربراہ [DGPR- Navy] سے براہ راست گزارش کرتا ہوں کہ جب کوئی ایسا نام اپنی خبر یعنی پریس ریلیز میں لکھ کر بھیجا کریں تو براہ کرم اس کا تلفظ رومن اردو میں ضرور شامل کیا کریں، اور ہوسکے تو کوئی صوتی پیغام یعنی Voice messageبھی بھیج دیا کریں، کیونکہ وہاں کوئی بتانے سکھانے والا نہیں ہوتا۔ بات رومن اردو کی ہو تو اس موضوع پر بہت سے صفحات کالے کیے جاسکتے ہیں۔

ہماری تعلیمی اسناد تو خیر جیسی بھی ہیں، پڑھنے اور پڑھانے والوں کے ’’کم فہمی‘‘ اور ’غلط فہمی‘ والے لطائف اتنے تواتر سے منظرعام پر آتے رہتے ہیں کہ اگر باقاعدہ مُنضَبِط یعنی Record کرنے لگیں تو ساری عمر اسی کام میں کھپ جائے۔ اسی کراچی کتب میلے میں دو لطائف کا شاہد یہ راقم بھی ہے۔ (شاہد یعنی گواہ ہوتا ہی عینی ہے، دیکھنے والا، بغیر دیکھے گواہی ممکن نہیں، پھر اُسے عینی شاہد کہنا بلاضرورت ہے)۔ دو جنوری سن دوہزاربائیس کو خاکسار کتب میلے میں علم وعرفان پبلشرز، لاہور کے اسٹال پر براجمان تھا کہ ایک نوجوان نقاب پوش لڑکی نے عملے سے سوال کیا: آپ کے پاس راجہ گدھا ہے؟ …ناشر محترم ماجدمشتاق صاحب اور میں نے بتایا کہ وہ راجہ گِدھ ہے……محترم ماجد صاحب کے والد گرا می نے بھی اس پر اظہارافسوس کیا۔

اگلے دن ایک صاحب وہیں تشریف لائے اور پوچھنے لگے، کوئی بچوں کی کہانیوں کی کتاب ہوگی؟ میں نے اپنی کتاب ’’سارک کہانی‘‘ کی موجودگی کی نشان دہی کی تو موصوف نے اُسے اٹھاکر سرسری نظر ڈالی اور بولے یہ تو ناول ہے اور بہت موٹا۔ مختصر چاہیے۔ بندے نے عرض کیا، ’’آپ کو اردو پڑھنی آتی ہے؟‘‘ اور پھر مختصراً بتایا کہ یہ سارک [SAARC] کے آٹھوں رکن ممالک کے چھوٹے اور بڑے بچوں کی کہانیاں ہیں۔ صفحات کی تعداد نہیں بتائی، مگر بہرحال محض 176صفحات کی کتاب کو موٹی کون کہہ سکتا ہے۔ اُن صاحب کی سمجھ میں بات پھر بھی نہیں آئی، حالانکہ قدرے کھسیانے ہوچکے تھے، اور پھر وہ کہیں اور نکل گئے۔ ایک تیس بتیس سال کے جوان، بظاہر خواندہ شخص کی علمی یا تعلیمی استعداد اور فہم کا یہ عالَم ہے تو بچوں کو کیا کہیں؟

تلفظ کے معاملے میں ماقبل بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور اپنے یوٹیوب چینل، زباں فہمی/تحریک ِاصلاحِ صحافت کے لیے کچھ وڈیوز بھی بناچکا ہوں، مگر مواد اس قدر ہے کہ دن رات لگے رہیں تب بھی ختم نہ ہو۔ زبان وبیان کا معاملہ محض تلفظ کی حد تک محدود نہیں۔ ہمارے یہاں بے شمار مواقع پر ہمہ جہتی اغلاط کا شامل گفتگو ہونا اس قدر عام ہے کہ کیا عوام کیا خواص، سبھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، نمازِجنازہ پڑھی، پڑھائی گئی، پڑھائی جائے گی جیسے

؎ مِری نماز ِجنازہ پڑھائی غیروں نے
مَرے تھے جن کے لیے ، وہ رہے وضو کرتے

اب ذرا ٹھہر جائیے۔ لوگ کہیں گے کہ سہیل صاحب نے غلط شعر لکھ دیا۔ روانی میں لکھا تو وہی جو مشہور ہے، مگر اپنے دیرینہ کرم فرما، ایک سو دو[102] سالہ بزرگ محقق، محترم شمس الحق صاحب (پ: یکم مارچ 1920ء) کی کتاب ’اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں‘ اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ شعر کی درست شکل یوں ہے:

؎ پڑھی نمازِجنازہ ہماری غیروں نے
مَرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے

اس کا شاعر کون ہے، یہ بات ابھی تحقیق طلب ہے، اسی لیے موصوف نے خواجہ حیدرعلی آتش ؔ کا نام لکھ کر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

عوامی بول چال [Slang] میں جنازہ پڑھانا بھی رائج ہے، بعض علماء بھی بول جاتے ہیں، مگر اَب تو ہمارے ٹی وی پر نمودار ہونے والے اور والیاں یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ فُلاں کا نمازِجنازہ پڑھایا گیا یا پڑھایا جائے گا۔ یہ بھی کل پرسوں دُہراتے ہوئے ایک نوجوان خبر رَساں [News reporter] کو سُنا۔ تذکیروتانیث کے معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔

اہل زبان کی اولاد ہی نہیں، اب تو بہت سے بزرگ بھی غلط سلط بولتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ واحد جمع کے ضمن میں بنیادی معلومات کا فقدان ہے۔ لوگ کسی مقامی زبان یا بولی کے اثر سے، اخبار کی جمع، اخبارات کی بجائے اخباریں، بینک (معاف کیجئے گا، میں مولوی عبدالحق صاحب وغیرہم کی طرح ’بنک‘ لکھ کر ’بینک ‘ پڑھنے کا قائل نہیں) کی جمع بینکیں…..اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھیں تو CDکی جمع سی ڈیاں، پیغام کی بجائے Message تو کہنے کا شوق ہے ہی، اب اس کی جمع کیا ہے، مے سجیں….تاریخ کہتے ہوئے لگتا ہے کہ کوئی جاہل یا Backward نہ سمجھ لے، اس لیے تو کہتے ہیں ،Date اور پھر اس کی جمع بناتے ہیں، ڈے ٹیں۔ معاوضے کی ادائی کی بجائے Payment کہنا بھی اب عام ہے اور اس کی جمع بولتے ہیں، پے مینٹیں۔ اب وہ اسکول کی Miss کو مِسیں کہنا تو بہت پرانی بات ہوچکی۔

اب اگر کوئی امی کی جمع امّیوں اور ابّو کی جمع ابّوئوں اور ابّا کی جمع ابّائوں بولتا ہے تو کیا ہوا، چلتا ہے نا۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔Missed call کی جمع ہے ، مس کالیں، اور مِس بیلیں بھی تو ہے۔ واٹس ایپ پر پیغام دینا ہے تو کہتے ہیں، Message ڈال دیں۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی صاحب کہہ رہے تھے، سہیل صاحب! اب آپ فُلاں مسئلے پر شعر ڈالیں نا، گروپ میں۔ اب شعر بھی لکھا نہیں ڈالا جائے گا۔ نا ہوئے میرزا نوشہ، ورنہ ایک خط اسی بابت اپنے کسی چہیتے شاگرد کو لکھ دیتے۔ آج چند روزہ علالت کے بعد، تاخیر سے یہ کالم براہ راست کمپیوٹر پر ٹائپ کررہا ہوں تو ہرگز ارادہ نہیں کہ غالبؔ کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ کی جائے اور یوں بھی ہر کوئی افتخاراحمدعدنی اور آفتاب احمد خان جیسا غالبؔ فہم یا سخن فہم نہیں ہوتا۔

آخر میں بطور تحدیثِ نعمت عرض کرتا ہوں کہ اس ہیچ مَدآں کے کالم کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والوں میں بزرگ معاصر محترم شکیل عادل زادہ بھی شامل ہیں جنھوں نے کچھ دن قبل، کالم نمبر 129’’تشت اَز بام‘‘ (مؤرخہ 26دسمبر 2021ء ) کی تعریف اور بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔ انھوں نے یہ انکشاف کرکے قدرے حیرت میں مبتلا کردیا کہ روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین میں سب سے پہلے زباں فہمی ہی دیکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔