سانحات سے نمٹنے میں ناکامی

ایڈیٹوریل  جمعـء 14 جنوری 2022
ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانیت کو بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کے لیے ایک میکنزم وضع کرنا وقت کی ضرورت ہے فوٹوفائل

ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانیت کو بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کے لیے ایک میکنزم وضع کرنا وقت کی ضرورت ہے فوٹوفائل

سانحہ مری کی تین روزہ تحقیقات میں کئی وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے، میٹ آفس نے نیو ایئر نائٹ سے 9 جنوری تک مری میں شدید برف باری اور سڑکیں بند ہونے کی ایڈوائزری جاری کی تھی جس پر عمل درآمد نہ ہوا، 6 جنوری کو جاری ہونے والی ایڈوائزری میں شدید برف باری سے قبل حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی جس پر عمل درآمد نہ ہوا ،7 جنوری کو سانحہ ہو گیا، میڈیا میں ذرایع  کے حوالے سے جو تفصیلات بیان کی گئیں ہیں۔

اس کے مطابق اس سال ابھی تک سنو فال سیزن کا کوئی پلان سرکاری سطح پر جاری نہیں ہوا، سیزن سے پہلے مقامی اسسٹنٹ کمشنر، ایکسین ہائی وے نے تین سے زائد میٹنگز کیں لیکن جو فیصلے ہوئے ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا، 7 جنوری کی شام 6 بجے تک 30 ہزار سے زائد گاڑیاں داخل ہوئیں، جب کہ شدید برف باری سے راستے بند ہو گئے، انتظامیہ نے مری جانے والے راستوں کو بند کرنے میں تاخیر کی، اس سال برف ہٹانے والی مشینری اور این ایچ اے کی نمک پاشی جیپیں سیاحوں کی گاڑیوں کے پیچھے تعینات ہوئیں، برف ہٹانے کے لیے 24 ہیوی مشینری گاڑیاں موجود ہیں۔

ہر سال سیزن میں 8 سے 9 سنو فال کیمپ بنائے جاتے ہیں جہاں ہیوی مشینری اور اضافی عملہ سیاحوں کی گاڑیاں داخل ہونے سے پہلے تعینات ہوتا ہے، اس سال کسی بھی سنو فال کیمپ کو فعال نہیں کیا گیا تمام مشینری سنی بینک چوک کے قریب این ایچ اے آفس میں کھڑی رہی، جب برف باری سے تمام شاہراہیں بند ہوئیں تو پھر وہاں سے مشینری کو باہر نکلنے کی جگہ نہ ملی، میڈیا نے ذرایع کے حوالے سے مزید بتایا کہ سب ہلاکتیں کلڈنہ کھنہ روڈ اور باڑیاں روڈ پر ہوئیں جو مری مال روڈ اسسٹنٹ کمشنر آفس سے صرف 5 کلو میٹر دور تھا۔

یونین کونسل دریا گلی سے سیکڑوں سیاحوں کو بچایا گیا، ایمرجنسی نافذ کرنے سے کلڈنہ کھنہ جنگل روڈ میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو پیدل ریسکیو ٹیمیں نکال سکتی تھیں لیکن انتظامیہ نے برف باری رکنے کا غیر ضروری انتظار کیا۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ مری میں ہوٹلوں کے کرایوں میں استحکام دینے والا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔

ہوٹل مالکان برف باری دیکھتے ہوئے کرایوں کا ریٹ مقرر کرتے ہیں، صرف مرکزی شاہراہیں 5 دنوں میں کھولی گئی ہیں، دیہی علاقوں میں سیکڑوں لوگ گھروں میں محصور ہیں، مقامی آبادی کو مشکلات کا سامنا ہے، جوائنٹ تحقیقاتی کمیٹی چوتھے روز بھی تحقیقات جاری رکھے گی، ادھرترجمان ضلعی انتظامیہ نے کہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سیمری میں متاثرین کی مدد کے لیے خوراک کے 9800 بیگ، 650 گرام کمبل، 9500 خشک میوہ کے پیکٹ اور 20 کلو راشن کے 1100 بیگ تقسیم کیے گئے ہیں۔

ملک میں آنے والی آفات، زلزلوں، سمندری طوفان، آتشزدگی، روڈ حادثات، بس حادثات میں مسافروں کی آتشزنی، تعمیرات کے انہدام اور غیر قانونی بلڈنگز کے باعث دردناک ہلاکتوں، ان گنت سانحات اور واقعات کی داستانیں عوام کی یادداشتوں میں آج تک محفوظ ہیں جن کے بارے میں حکومت یا ریاستی ادارے قوم کو یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان الم ناک سانحات، کی شفاف تحقیقات کا کیا ہوا، کیا کبھی حکومتی تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹیں منظر عام پر لائی گئیں یا انھیں فراموش کردیا گیا۔

سیلاب، زلزلوں، آتشزدگی، روڈ ایکسیڈنٹس اور مجرمانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکتوں میں قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف میں دلیری اور جانثاری کے واقعات میں سماجی تنظیموں کے نوجوانوں نے کتنے ایسے واقعات میں اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شہادت کی موت پائی مگر انھیں حکومتی سسٹم سے وابستہ افسر شاہی نے معمول کے واقعات جتنی اہمیت بھی نہیں دی، کچھ روز تک میڈیا میں ان سانحات کی خبریں چھپتی رہیں، تعزیتی بیانات دیے جاتے رہے، اور تحقیقات کے تماشے ہوتے رہے پھر ایک دن واقعہ کی تفصیلات کا دفتر بند کیا گیا۔

نہ ذمے داروں کا احتساب ہوا، سانحات و واقعات کے ذمے دار افسران اور ملازمین کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی، نہ انھیں معطل کیا گیا، اگر معطل کیا بھی گیا تو انھوں نے اس مدت کو کسی سزا سے بالاتر کوشش سے غیر موثر بنا دیا اور ہر قسم کی سزا اور تادیبی کارروائی سے صاف بچ کر نکل گئے، ایسی سیکڑوں داستانیں ہیں۔

جنھیں لوگ انگلیوں پر گن کر بتا سکتے ہیں، کہ کون سا سانحہ کب ہوا تھا، ایبٹ آباد کا زلزلہ، کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ہولناک موسلا دھار بارشوں سے پوش علاقہ ہفتوں پانی میں ڈوبا رہا، بلدیہ ٹاؤن میں ڈھائی سو محنت کشوں کو زندہ جلانے والے سانحے کو کون بھلا سکتا ہے، ان مجبوروں کی موت پر فیکٹری مالکان اپنے کیے کی سزا نہ پاسکے، ان کا خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا، کتنے ہی واقعات و سانحات میں لوگ مرگئے۔

ناقص تعمیرات کے باعث منہدم ہونے والی عمارات کے ملبے تلے دب کر جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں، خواتین اور بوڑھے اہلخانہ و دیگر افراد کی ہلاکتیں میڈیا میں چند روز تک آتی رہیں لیکن حکومت عوام کو کوئی سسٹم اور انصاف نہ دے سکی، کریمنل کیسز درج کرا کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے کلچر تک کو جڑ پکڑنے نہیں دیا گیا، ہر واقعہ اور سانحہ کو ’’رات گئی، بات گئی‘‘ اور ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی کی نذر کر دیا گیا، شہر قائد کراچی میں آتشزدگی کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔

توقع تھی کہ حکومت اس کے پیچھے مبینہ سازش کا پتا لگا کر کریمنلز کو قانون کے آہنی ہاتھوں میں جکڑ لے گی مگر نام نہاد قانون کی حکمرانی غیر موثر ثابت ہوئی، امیروں کے لیے الگ قانون بنتے رہے اور غریبوں کے لیے جیلوں اور تھانوں کے دروازے کھلے رکھے گئے، دہشت گرد اور قانون شکن عناصر دندناتے ہوئے اپنی رعونت اور طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے، نہ تحقیقات کا کسی کو خوف رہا جب کہ بیچارے انصاف کے دعوے سنتے سنتے، عوام آغوش لحد میں جا سوئے، ماہرین کا کہنا تھا کہ انسانی سانحات کا سب سے درد انگیز پہلو انتظامیہ، پولیس عدالتوں اور حکومت کی اجتماعی لاتعلقی، نااہلی، بے حسی اور تجاہل عارفانہ نے قانون شکن مافیاؤں کے لیے جنگل کے قانون کا یکساں منظر نامہ بنا دیا۔

طاقتوروں کے بگڑے بچے قتل کرکے بھی جیلوں میں بادشاہوں کی سی زندگی گزارتے رہے اور غریب ناکردہ گناہوں کی سزا پر قبر میں سو گئے، قانون کی پاسداری کی روایت ہمارے تمدن و تہذیب سے رخصت ہوگئی ہے، مافیائی طاقتوں نے معاشرے میں جرائم کی ایسی آگ بھڑکائی ہے کہ کسی کی زندگی محفوظ نہیں، انتقام، سنگدلی اور بے حسی نے شرافت کو سیاست، انصاف اور انسانیت کی لغت سے نکال باہر کر دیا ہے، کریمنل جسٹس کی باتیں کرنے والے پاکستانی سماجی اور ثقافت و تہذیب کا حوالہ یوں دیتے ہیں کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں، اخلاقی روایات مردہ ہو چکی ہیں، لالچ، ہوس پرستی، کٹھورپن ، حسد اور نفرت جیسے زہریلے جذبے طاقتور ہوچکے ہیں ۔

دوسری طرف مغربی ممالک جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نئی ایجادات کے باعث انسانیت کے تحفظ کے لیے اقدامات کرتے ہیں، حکومتیں سیلاب اور سمندری طوفانوں کا راستہ روکنے کے لیے جان لڑا دیتی ہیں، وہاں ماہرین مصنوعی بارشیں برساتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل مری میں 23 سیاح برفانی سانحہ کی نذر ہوئے اور ڈزاسٹر مینجمنٹ کے سارے دعویدار مشینری کو استعمال میں لانے سے معذور رہے، آپ سارے سانحات اور واقعات میں تحقیقات کے نتائج پر سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہیں کرسکتے، سیاست شاہی، افسر شاہی اور ارسٹو کریسی کوئی قابل عمل میکنزم قوم کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

جدید ترین ٹیکنالوجی میں بھی مری کے ہم وطن کس بے دردی کے ساتھ اپنی گاڑیوں میں پھنس کر درد ناک موت کی نیند سو گئے، سرکار کے ماہرین، افسران اور ملازمین کی تنخواہیں و مراعات وسہولیات کا حجم کروڑوں ، اربوں روپے میں ہے ، سرکار کی لگژری گاڑیاں اپنی ذاتی گاڑیاں سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، سرکاری رہائش گاہیں بھی ایسے استعمال کی جاتی ہیںجیسے وراثت میں مل گئی ہوں حالانکہ یہ سب کچھ اس ملک کے ٹیکس دینے والے عوام کی ملکیت ہے ، لیکن کام کچھ بھی نہیں کرتے۔ملک پھر میں بلدیاتی اداروں کے افسران اور ملازمین کی تعداد ہزاروں بلکہ کئی لاکھ ہوسکتی ہے لیکن شہروں میں صفائی ستھرائی کا حال سب کے سامنے ہے۔

اس پر بھی حکومت کوئی کارروائی نہیں کرتی، ذمے داران سب کچھ بھلا کر چین کی بنسری بجاتے ہوئے ہر احتساب سے بچ کر نکل جاتے ہیں، مری کے واقعہ کے حوالے سے برفباری کو ایک مفید کام کے لیے استعمال کرنے میں بھی ہمارے ماہرین نے کوئی ندرت اور جدت نہیں دکھائی، برف کو سڑکوں سے ہٹانے کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جا سکتا تھا، مگر ارباب اختیار نے ایسا نہ سوچا نہ کچھ کیا۔ ادھر میڈیا نے بلوچستان میں سونامی کا خطرہ ظاہر کیا ہے، ذرایع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ شدید بارشوں کے باعث بلوچستان میں زندگی تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے۔

ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانیت کو بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کے لیے ایک میکنزم وضع کرنا وقت کی ضرورت ہے، گزشتہ چند ماہ میں پے در پے جو افسوسناک واقعات و سانحات ہوئے ہیں انھیں دیکھ کر تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان ایک ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں کی سرکاری افسرشاہی اور سیاسی حکومت ترقی کا کوئی جدید ویژن رکھتی ہے۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ حکمران قوم کو زندگی کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار کریں، زندگی بلیم گیم کے ذریعے نہیں گزاری جا سکتی۔ بقول اقبال

دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔