سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 16 جنوری 2022
یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!

یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!

ہماری ’اردو کانفرنس‘ تو
کراچی میں رہنے دیجیے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

گذشتہ دنوں وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے دوران ’کراچی آرٹس کونسل‘ کے صدر احمد شاہ نے یہ انکشاف فرمایا کہ ’پندرھویں عالمی اردو کانفرنس‘ اسلام آباد میں 11 سے 13 مارچ 2022ء کو ہوگی۔۔۔! شہر قائد کے علمی وادبی حلقے یہ اعلان سن کر ششدر رہ گئے۔ کانفرنس یا ادبی پروگرام سے بھلا کس کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ یوں بھی گذشتہ کچھ برسوں سے ملک کے شہر، شہر ادبی میلے سجائے جانے کی روایت بھی شروع ہوئی ہے، تو کیا ہی اچھا ہو کہ کراچی کی طرح دیگر شہروں میں بھی ’اردو کانفرنس‘ کی محفل سجے۔۔۔ لیکن سرکار، یہ براہ راست ’پندرھویں کانفرنس‘ چہ معنی دارد۔۔۔؟
خود سوچیے کہ یہ کتنی عجیب وغریب اور بھونڈی بات معلوم ہو رہی ہے کہ ’کراچی آرٹس کونسل‘ کے ’مسعود ہاشمی پینل‘ نے 15 برس پہلے جس ’عالمی اردو کانفرنس‘ کا خواب دیکھا اور اسے 2008ء سے باقاعدگی سے منعقد کرنا بھی شروع کیا۔۔۔ شہر میں امن وامان کے حالات سنگین ہونے کے باوجود یہ کانفرنس ہر سال اپنے وقت پر پورے اہتمام سے ہوتی رہی۔۔۔

پہلی اردو کانفرنس کے وقت بھی معتمد کی اہم ذمہ داری احمد شاہ کے سپرد تھی، یوں وہ روزِاول سے اس اہم قدم کے ایک فعال رکن ثابت ہوئے، اگرچہ کچھ برس بعد آرٹس کونسل کی رونقوں کو ایک نیا رنگ دینے والے ایس ایچ ہاشمی (مرحوم) کے صاحب زادے مسعود ہاشمی آرٹس کونسل سے دور ہوگئے، لیکن احمد شاہ نے ان رونقوں کو بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ اور راقم السطور کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ ’دوسری عالمی اردو کانفرنس‘ میں وہ ’سندیافتہ ‘رضاکار کے طور پر اِس کانفرنس کا حصہ رہا۔۔۔

ابتداً اس میں زبان وبیان اور اردو لسانیات کے حوالے سے موضوعات کی کمی کی شکایت رہی، پھر اس میں ایک معروف ناشر کے ادبی میلے سے متاثر ہوکر دیگر زبانوں کی بیٹھکیں بھی رکھی جانے لگیں۔ ہماری دیگر پاکستانی زبانیں بھی اردو کی طرح ہمارے گل دستے کا ایک حصہ ہیں، لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ ادبی میلے کو ابھی کچھ ہی وقت ہوا ہے۔

ہماری ’اردو کانفرنس‘ کی روایت ادبی میلے کے مقابلے میں دیرینہ ہے، ہم اس شہر اور ملک میں ایسی کانفرنسوں کی نئی رِیت ڈالنے والے ہیں، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’اردو کانفرنس‘ اپنی انفرادیت اور تشخص برقرار رکھتے ہوئے ’ادبی میلے‘ کو اپنے پیچھے لاتی، لیکن یہ جلد ہی ’ادبی میلے‘ کی چمک دمک کے تعاقب میں چل نکلی۔۔۔ حالاں کہ بنیادی طور پر ’اردو کانفرنس‘ اور ’ادبی میلہ‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

خیر، راقم کا اردو سے چوں کہ ہمیشہ دل کا تعلق رہا ہے، اس لیے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ ’عالمی اردو کانفرنس‘ اپنے پہلے دن سے ہی ہمیں کتنی عزیز رہی ہے۔۔۔ ہم نے اس پر تنقید ہمیشہ مثبت اور تعمیری ذہن کے ساتھ کی، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی کانفرنس سجانا کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوتا۔ یہ منتظمین جانتے ہیں کہ وہ سارا سال کتنی محنت کرتے ہیں، تب ہمیں سال کے آخر میں اتنے ساری قد آور علمی اور ادبی شخصیات ’کراچی آرٹس کونسل‘ کی چھت تلے دست یاب ہوجاتی ہیں۔

لیکن صاحب، یہ طریقہ تو بالکل غیرمناسب ہے کہ آپ کراچی شہر کی ایک کانفرنس کو اِس طور شہرِاقتدار لے جائیں، جیسے 1960ء میں جنرل ایوب خان یہاں سے دارالحکومت لے گئے تھے۔ ہم ایک بار پھر دُہرائے دیتے ہیں کہ ہم اسلام آباد یا کسی اور شہر میں اردو کانفرنس کی مخالفت قطعی طور پر نہیں کر رہے، ہمارا اعتراض اس بے اصولی پر ہے کہ کراچی کی ایک کانفرنس کے 14 پروگرام جب یہیں ہوئے، اب آپ اسی پروگرام کا 15 واں ایڈیشن یہاں کیوں نہیں کر رہے۔۔۔؟ باب بہت سادہ سی ہے، آپ اسلام آباد کی اردو کانفرنس کو ’پہلی عالمی اردو کانفرنس، اسلام آباد‘ کا نام دے دیجیے۔

یہی منطقی تقاضا بھی ہے اور ایسے سارے اعتراضات کا جواب بھی۔۔۔ اچھا ہے ناں، اسی بہانے شہرِاقتدار میں بھی قومی زبان اردو کی آواز بلند ہوگی، اور ممکن ہے حکم رانوں کے کان میں بھی پڑ جائے، ورنہ کراچی کی صدائیں ’اسلام آبادی حاکم‘ ذرا کم ہی سنا کرتے ہیں۔

یوں بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد وغیرہ میں سجنے والے ’سالانہ ادبی میلے‘ ہر شہر کے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شہر کا ’ادبی میلہ‘ اُسی عنوان کے ساتھ دوسرے شہر میں منعقد کر لیا جائے۔۔۔ اس لیے ہماری گزارش ہے کہ احمد شاہ صاحب آپ نے اس شہر کے آرٹس کونسل کو جو ’عالمی اردو کانفرنس‘ کی انفرادیت دی ہے، اِس کانفرنس کے اِس وقار اور مرتبے کو برقرار رکھیں اور ایک چھوٹی سی تصحیح کے ساتھ مارچ میں پوری دھوم دھام سے پندرھویں نہیں بلکہ ’’پہلی عالمی اردو کانفرنس، اسلام آباد‘‘ کرا دیجیے کہ اہل کراچی کو یہ محسوس نہ ہو کہ وفاقی دارالحکومت کی طرح ان کی ’عالمی اردو کانفرنس‘ کی ’پندرھویں بیٹھک‘ کو بھی ان سے چھین لیا گیا ہے۔

یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!
محمد علم اللہ، نئی دلی
اس دن صبح سے ہی پانی برس رہا تھا۔ ہم سارے بہن بھائی اپنے کچے مکان کے سب سے کم پانی ٹپکنے والے کمرے میں دبکے ہوئے تھے۔ دونوں بہنیں جو اکثر آپس میں جھگڑتی یا ادھم مچاتی رہتی تھیں، وہ آج ایک دوسرے سے لگی خاموش بیٹھی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی بادل کی ذرا تیز گرج ہوتی دونوں کے چہروں پر پھیلی خوف کی لکیریں کچھ اور گہری ہو جاتیں۔ چھوٹے بھائیوں کو بھی خوف اور اندیشے کے ایسے ہی جذبات نے جکڑ رکھا تھا۔

عموماً یوں ہوتا تھا کہ امّاں کو کھانا پکانے میں ذرا دیری ہوتی، تو چھوٹے بہن بھائی آندھی کاٹ دیتے تھے۔ آج دوپہر سے شام ہو گئی تھی، لیکن دو وقت سے بھوکے ہونے کے باجود انھوں نے کوئی شکوہ بھی نہ کیا تھا۔ شاید دیکھ چکے ہوں گے کہ مٹی کا چولھا پانی میں بھیگ کر تقریباً گارہ بن چکا ہے اور لکڑی اتنی گیلی ہو چکی ہے کہ اسے جلانا ممکن نہیں۔

امّاں اور ابو بارش کے اس جَھڑی میں صحن اور چھت کے درمیان پاگلوں کی طرح بھاگا دوڑی میں مصروف تھے۔ امّاں کچی دیوار کے جڑوں کے سوراخوں سے پھوٹ کر گھر میں گھسنے والے گلی کے برساتی پانی کو روکنے کی جد و جہد میں لگی ہوئی تھیں۔ وہ کبھی ان میں پرانے کپڑے ٹھونسنے کی کوشش کرتیں، کبھی مٹی ڈالتیں اور کبھی اینٹ کے ٹکڑے ’فِٹ‘ کرنے کی کوشش کرتیں، لیکن پانی تھا کہ بار بار اپنا راستہ بنا لیتا تھا۔ ادھر ابو چھت پر ’مورچہ‘ سنبھال رہے تھے۔ جہاں جہاں سے پانی کمرے میں ٹپک رہا تھا ان چھیدوں کو بند کرنے کے لیے وہ بھی وہی تدابیر اپنانے کی کوشش کر رہے تھے جو امّاں دیواروں پر آزما رہی تھیں۔

امّاں اور ابو بارش میں تربتر تھے، لیکن نہ تو چھت ٹپکنی بند ہوئی اور نہ ہی کچی دیوار کی جڑ سے جاری چشمے تھم سکے۔ امّاں بھیگی ہوئی کمرے میں آئیں اور پانی ٹپکنے والی جگہ رکھے لوہے کے بڑے صندوق کو پیچھے دھکیلنے لگیں۔ ہم بہن بھائی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے ساتھ اماں کی مدد کو آگے بڑھے۔

ابو چھت سے اتر آئے اور صحن میں آنے والے گلی کے برساتی پانی کو نکالنے کی ترکیب سوچنے لگے۔ بہت دیر تک تو وہ بھی کچی دیوار کی جڑ میں موجود سوراخ بند کرنے کی کوشش کرتے رہے، پھر انہوں نے پرانی بالٹی سنبھال لی اور کچے دالان تک آنے والے پانی کو بھر بھر کر باہر لے جاکر پھینکنا شروع کر دیا۔ اماں صندوق کھسکا کر باہر آئیں، تو ابا کے ساتھ لگ گئیں۔ اب وہ بالٹی بھر بھر کر دروازے تک لے جاکر ابو کو پکڑا دیتیں اور وہ اسے دور پھینک آتے۔ اس دن نہ جانے کتنی دیر تک اماں اور ابو پانی باہر پھینکتے رہے اور ہم بہن بھائی چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے رہے کہ ’’یا اللہ بارش روک دے۔۔۔!‘‘

’مہاجر‘ کے لغوی معنیٰ میں الجھنا تجاہل عارفانہ ہے!
فائز علی خان، کراچی
24 دسمبر کو ’یوم مہاجر ثقافت‘ کا جوش وخروش نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ کسی دوسرے ’یوم ثقافت‘ کے مقابلے پر کیا جا رہا ہے، جو کہ درست نہیں۔ یہ دن پہلی دفعہ 2015ء میں جامعہ کراچی میں منایا گیا تھا، لیکن ریاستی اداروں کے مشکلات کھڑے کرنے کے باعث زیادہ بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہوا، گذشتہ سال نوجوانوں نے اس عمل کو بڑھانے کا سوچا اور کافی حد تک کام یاب بھی رہے۔

یقینی طور پر اب بھی ’یوم مہاجر ثقافت‘ مکمل طور پر نہیں منایا جا سکا، جس میں اس خطے کی سب بڑی ’مشترکہ‘ تہذیب کو اجاگر کیا جاتا، سب سے بڑی ’مشترکہ‘ زبان کی افادیت و کردار کو اجاگر کیا جاتا، جس میں آگرہ، رام پور، بنارس، بہار، بھوپال، یوپی، سی پی سے لے کر راجستھان وغیرہ تک کی خوب صورت ثقافتوں کے رنگ دکھائے جاتے۔

رہی بات لفظ مہاجر کے لغوی معنوں کی، تو بالکل، ہم نے اپنی قوم کا نام نبی اکرم کی ہجرت کی نسبت سے ضرور رکھا، مگر اب یہ فقط لغوی نہیں مجازی معنوں میں مراد لیا جاتا ہے، جیسا کہ ’پنج آب‘ سے ’پنجاب‘ بنا اور پنجابی۔۔۔ آج تو دو دریا رہ گئے ہیں، تو کیا اب پنجابی خود کو ’دوآبی‘ کہتے ہیں؟ اگر آپ کھلے ذہن سے سوچیں تو آپ یہ دیکھیے کہ ’قومیت‘ کی تعریف کیا ہے؟ ہم ’مہاجر‘ جنھوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت ضرور کی، لیکن آج ہم ایک زمین پر بستے ہیں، مشترکہ طور پر ایک زبان بولتے ہیں، ہمارے مفادات اور مسائل مشترکہ ہیں، تو ہم ایک مکمل قوم ہیں، لہٰذا ہمیں کہہ لینے دیجیے کہ اب ’مہاجر‘ لفظ کے لغوی معنیٰ میں الجھنا تجاہل عارفانہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اگر آپ کو مہاجروں کی ثقافت جاننی ہے یا مہاجر کہلائے جانے والوں کی مختلف اور منفرد تہذیب کو جاننا ہے، تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی مختلف تہذیبوں سے اٹھ کر کراچی اور حیدرآباد وغیرہ میں بسنے والوں کے تال میل سے ایک نئی کثیر الجہت تہذیب اور نئے رنگوں کی ثقافت وجود میں آچکی ہے، جو ظاہر ہے موجودہ ہندوستان میں شاید کہیں اِس نوع میں دکھائی نہ دے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ ہم 40 برس قبل نمٹ جانے والی ’پانچویں قومیت‘ کی اس لایعنی بحث کو بار بار کرنے کے بہ جائے، ٹھنڈے دل سے ثقافتی حقائق کا جائزہ لیں، تو آپ کو بھی یہ باتیں ماننے میں کوئی عار نہیں ہوگی۔

با ادب ، با ملاحظہ ہوشیار
امجد محمود چشتی، میاں چنوں
اردو کے مباحث میں غلط العام الفاظ کا چلن عام ہے، مگر چند ستم گزیدہ الفاظ تو معنویات کی دیوار میں ایسے چنوا دیے گئے کہ شراب سیخ پر اور کباب بوتَل میں جا پڑا ہے۔ ان کے جہانِ معانی میں زمین و آسمان کا فرق ہے پر اپنے متضاد معنی میں طمطراق سے مستعمل ہیں اور خوب ہیں۔ چنداں ملاحظہ ہوں۔

٭ مُغوی و مغویٰ
سب کا ادبی اجتہاد ہے کہ مغوی اغوا ہونے والے متاثرہ فرد کو کہتے ہیں۔ اکثر سنتے ہیں کہ پولیس نے مغوی کو ڈاکوئوں کے قبضے سے چھڑوا لیا۔ مگر مقام حیرت ہے کہ مغوی کا اصل معنی اغوا کرنے والا ہے، جسے ہم مدت سے الٹ مفہوم میں برتے جا رہے ہیں ۔ اصل میں اغوا کار مغوی اور اغوا ہونے والا ’’ مغویٰ ‘‘ ہے۔

٭ مُتوفی و مُتوفی ٰ
ہمارے ہاں اکثر مرنے والے کو متوفی کہا جاتا ہے، جو غلط ہے ۔ متوفی فاعل ہے اور موت دینے والے کے لیے ہے، جب کہ فوت شدہ کے لیے درست لفظ متوفیٰ ہے۔

٭ راشی و مرتشی
عموماً رشوت لینے والے کو راشی سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ راشی رشوت دینے اور مرتشی لینے والا ہے۔

بتاریخ اور مئورَخہ
بتاریخ حال اور مستقبل کی بابت درست ہے، جب کہ مورخہ ماضی کے لیے مستعمل ہے۔ مثلاََ حامد کی شادی بتاریخ پندرہ دسمبر کو ہوگی۔ اگر ماضی میں اطلاع مقصود ہو تو، حامد کی شادی مورخہ دس اگست کو تھی۔ تاہم انہیں ہم حسبِ ضرورت و منشا لکھتے پڑھتے ہیں۔

٭ استاد اور استاذ
دونوں میں فرق نہیں سمجھا جاتا، مگر صحت کے اعتبار سے استاد ہر قسم کے عملی و فنی کام سکھانے والے کو کہتے ہیں، جب کہ استاذ صرف فکری، علمی ا ور کتابی شعور دینے والے کے لیے ہے ۔ استاد کی جمع اساتید اور استاذ کی جمع اساتذہ ہے ۔

٭ جناب اور جنابہ
اکثر لوگ خواتین کو مخاطب کرنے کے لیے جنابہ لکھ دیتے ہیں جو غلط ہے۔ اصلاً خواتین و حضرات ہر دو کے لیے جناب ہی موزوں ہے۔ بہتر ہے کہ خاتون کے لیے محترمہ لکھا جائے۔ اگر نام میں صنف کی تمیز مقصود ہو تو جناب کے بعد صاحبہ لکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔

٭ قرض دار اور قرض خواہ
عام طور پر مقروض کو قرض دار تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ قرض دار، قرض دینے والا اور قرض خواہ لینے والا ہوتا ہے۔

٭ تابع دار و تابع فرمان
ہمارے ہاں تابع دار کی اصطلاح عاجزی کے اظہار کی علامت ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے اور تابع دار اطاعت کروانے والا ہے۔ خدمت گار کا مفہوم تابع فرمان ہے۔

٭ طَلَبہ اور طُلَبا
طالب علم کی جمع طَلَبہ ہے، جب کہ کسی بھی چیز کے طالب کی جمع طَلَبا یا طَلاب ہے۔ تاہم دونوں ہی طالب علموں کے مستعمل ہیں۔ خیال رہے کہ طَلبہ کے ط پر زبر، جب کہ طُلبا کے ط پر پیش ہے اور دونوں کی لام مفتوحہ ہے۔

٭ مشکور ، شکر گزار
یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ مشکور کا درست مفہوم بھی عدم تفہیم کا شکار ہے ۔ اس کے معنی شکر گزار کے نہیں بلکہ مشکور اس شخص کے لیے مختص ہے جو کسی پر احسان کرے اور اس کا شکر یہ ادا کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔