میاں محمد شہبازشریف کا دور کیسا ہوگا؟

عبید اللہ عابد  منگل 12 اپريل 2022
مشکلات بہت اور وقت کم۔ فوٹو : فائل

مشکلات بہت اور وقت کم۔ فوٹو : فائل

بہت سی سیاسی اور قانونی ہلچل کے بعد بالآخر اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا عمل مکمل کروا ہی لیا، جس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان سابق ہوگئے اور میاں محمد شہبازشریف ملک کے 23 ویں وزیراعظم بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔

قبل ازیں سابق حکم راں جماعت نے شاہ محمود قریشی کو وزارت عظمیٰ کے مقابلے میں میدان میں اتارا تھا۔ تاہم گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی کی قیادت میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے نہ صرف وزارت عظمیٰ کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا بلکہ قومی اسمبلی کی نشستوں سے بھی مستعفی ہوگئے۔

میاں شہبازشریف کو متحدہ اپوزیشن نے ایک طویل بحث مباحثے کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے نام زد کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ میاں شہبازشریف اور ان کی جماعت پاکستانی تاریخ کے اس مرحلے پر حکومت سنبھالنے کے لیے تیار نہ تھی۔ مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کام یابی کے فوراً بعد عام انتخابات کی طرف جانا چاہیے تاہم متحدہ اپوزیشن کی (قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے) دوسری سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا اصرار تھا کہ ڈیڑھ سال کے لیے حکومت سازی کی جائے۔

پیپلزپارٹی نے متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر نہ صرف اپنا یہ مطالبہ منوایا بلکہ اس بات پر بھی اصرار کیا کہ میاں شہبازشریف ہی تحریک عدم اعتماد میں کام یابی کے بعد وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں۔

متحدہ اپوزیشن کے فورم پر یہ طے پایا تھا کہ نئی حکومت انتخابی اصلاحات سمیت مختلف قوانین متعارف کروائے گی جس کے بعد عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا، اس وقت تک کی حکومت صرف مسلم لیگ ن کی نہیں بلکہ قومی حکومت ہوگی جس میں تحریک انصاف کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ امید کی جارہی ہے کہ نومنتخب وزیراعظم مفاہمت کا جذبہ لے کر، قومی حکومت ہی قائم کریں گے۔ ان کی سربراہی میں قومی حکومت کیسی ہوگی؟ اور وہ کیا کچھ کرے گی؟

میاں شہبازشریف نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد، قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران میں اس سوال کا جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’تمام ساتھیوں کی کاوشوں سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بچا لیا ہے۔

یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کام یاب ہوئی اور باطل کو شکست اور حق کی فتح ہوئی۔ آج کا دن پوری قوم کے لیے عظیم دن ہے کہ ایوان نے سلیکٹڈ اور جھرلو کی پیداوار وزیراعظم کو گھر کا راستہ دکھایا۔ عوام کے لیے خوشی کی بات کی اور کیا مثال ہوگی کہ آج ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 8 روپے اونچا گیا، اور ڈالر190 سے واپس 182 پر واپس آگیا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ ڈالر ایک روپیہ اوپر جائے تو وزیراعظم کرپٹ ہوتا ہے، یہ 8 روپے نیچے گیا ہے تو اب کیا کہا جائے گا، یہ عوام اور ایوان کے بھرپور اعتماد کا اظہار ہے۔‘‘

٭ معاملہ امریکا میں متعین  پاکستانی سفیر کے خط کا

میاں شہباز شریف کا کہنا تھا: ’’میں سپریم کورٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے آئین شکنی کو کالعدم قرارداد یتے ہوئے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا۔کئی دنوں سے جھوٹ بولا جارہا تھا اور ڈراما کیا جارہا تھا کہ کوئی خط آیا ہے، مجھے ابھی تک خط نہیں دکھایا گیا نہ میں نے خط دیکھا۔ اس حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام اور ایوان کے ارکان جاننا چاہتے ہیں کہ اس خط کی حقیقت کیا ہے۔

عدم اعتماد کے حوالے سے ہم کئی دن پہلے فیصلہ کرچکے تھے، اگر یہ جھوٹ ہے تو سب کے سامنے آنا چاہیے تاکہ یہ بحث ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ میں بطور منتخب وزیراعظم کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں خط پیش کیا جائے جس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود ہوں، جس میں ڈی جی آئی ایس آئی، سیکرٹری خارجہ اور وہ سفیر بھی ہوں ۔ میں بلاخوف تردید کہتا ہوں کہ اگر اس حوالے سے رتی برابر ثبوت مل جائے کہ ہم کسی بیرونی سازش کا شکار ہوئے یا ہمیں کسی بیرونی وسائل سے مدد ملی تو میں ایک سیکنڈ میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا، میں پہلی فرصت میں اِن کیمرا سیشن کا انتظام کروا کر خط پر بریفنگ کرواتا ہوں۔‘‘

میاں شہبازشریف نے ان کیمرہ سیشن کا اہتمام کرنے کا اعلان کرکے وقت کی ایک اہم ترین ضرورت کو پورا کیا ہے۔ واقعتاً اس معاملے کو صاف ہونا چاہیے۔ یہ معاملہ اس وقت تک صاف نہیں ہوسکتا تھا جب تک ہماری عسکری قیادت اس میں موجود نہ ہو بالخصوص وہ سفیر موجود نہ ہوں۔

جنھوں نے امریکا سے یہ مراسلہ بھیجا تھا۔ معلوم کرنا چاہیے کہ آیا امریکا نے ایسے ہی دھمکی دی تھی جیسے سابق عمران حکومت دعویٰ کر رہی تھی؟ کیا واقعتاً تحریک عدم اعتماد کے پیچھے امریکا تھا؟ کیا واقعی امریکا نے عمران خان حکومت کو ہٹانے کی اس جمہوری کوشش کو مالی یا کسی بھی انداز میں سپورٹ کیا تھا؟ ان سوالوں کے جوابات ضرور سامنے آنے چاہئیں ورنہ یہ خط ہمارے ملک کی سیاست کی جان نہیں چھوڑے گا۔

٭ اب ملکی معیشت کیسے چلے گی؟

نومنتخب وزیراعظم شہبازشریف کا بطور وزیراعظم اپنے پہلے خطاب میںکہنا تھا:’’میں نے گذشتہ حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی، میری میثاق معیشت کی پیشکش کا دو مرتبہ حشر نشرکیا گیا۔ یہ زعم اور تکبر میں نہ ہوتے تو وہ پیشکش قبول کرتے۔ آج ملک آگے جارہا ہوتا ، پاکستان رواں مالی سال سب سے بڑا بجٹ خسارہ کرنے جارہا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہونے جارہا ہے۔

60 لاکھ لوگ بیروزگار اور 2 کروڑ سے زائد خط غربت سے نیچے جاچکے ہیں۔ انھوں نے کھربوں کے قرض لیے ایک اینٹ تک نہیں لگائی، فرنٹ مین کے ذریعے کسان کو کھاد منہگی دی گئی، پچھلے ماہ حکومت نے گندم اور کھاد کو اسمگل کروایا، پاکستان گندم اور چینی کا برآمدکنندہ تھا اور آج درآمدکنندہ بن چکا ہے۔ میں یہاں کیا کیا بات کروں، فیکٹریوں کی چمنیاں بند ہوگئیں، آج ہم ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کررہے ہیں۔‘‘

نومنتخب وزیراعظم شہبازشریف نے قومی اسمبلی سے خطاب میں اعلان کیا:’’یکم اپریل سے کم سے کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے کررہے ہیں، صوبوں کے تعاون سے آئندہ چند روز میں ضروری قانونی کارروائی کریں گے، اس کا اطلاق اسی ماہ سے ہوگا۔ سرمایہ کاروں سے درخواست ہے کہ جن ملازمین کی تنخواہ ایک لاکھ روپے تک ہے وہ ان کی تنخواہوں میں 10 فی صد تک اضافہ کریں، ہم آنے والے دنوں میں ملک کو سرمایہ کاروں کے لیے جنت بنادیں گے، پنشن بھی 10 فی صد بڑھا رہے ہیں۔‘‘

نومنتخب وزیراعظم شہبازشریف نے بے نظیر کارڈ دوبارہ لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیرکارڈ کو مزید وسعت دے رہے ہیں، تعلیم کو بھی اس سے منسلک کریں گے، رمضان پیکیج کے حوالے سے سستا آٹا لے کر آئیں گے جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔

ہم نے سستی بجلی کے منصوبے بنائے لیکن ان لوگوں نے مہنگے منصوبے بنائے جس سے بجلی مہنگی ہوئی ہے اور کارخانوں اور ایکسپورٹر کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہم چاروں صوبوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں گے۔ این ایف سی ایوارڈ 2010 میں ہوا جو آج تک چل رہا ہے، ان کو توفیق نہیں ہوئی کہ این ایف سی ایوارڈ دیتے۔ شہبازشریف کا کہنا تھا:’’یہ قوم ایک عظیم قوم بنے گی، قومیں وہی کھڑی ہوتی ہیں جو ’چوزرز‘ ہوتی ہیں، بھکاری قومیں چوزرز نہیں ہوتیں۔‘‘

٭ خارجہ پالیسی

نومنتخب وزیراعظم نے کہا:’’چین پاکستان کے دکھ سکھ کا ساتھی ہے، پاک چین دوستی کوئی ہم سے چھین نہیں سکتا، پاک چین دوستی لازوال ہے جو قیامت تک قائم رہے گی، سی پیک کو اسپیڈ سے چلائیں گے، آگے لے کر جائیں گے۔ پاکستان کے لاکھوں لوگ برطانیہ میں آباد ہیں، دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھنا ہے، برطانیہ نے چاروں صوبوں میں تعلیم کی فراہمی کے لیے فنڈز فراہم کیے۔

برابری کی سطح پر امریکا سے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے پر سعودی عرب اور ترکی کے شکرگزار ہیں، بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں مگر مسئلہ کشمیر کے حل تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔‘‘

تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ عمران خان حکومت نے پاکستان کے تمام دوستوں کو ناراض کردیا۔ سعودی عرب اور چین جیسے ممالک جو ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ ہوتے تھے، دور ہوگئے۔ اس کا اعتراف خود تحریک انصاف کے ذرائع نے بھی کیا۔ امریکا اور پاکستان کے باہمی تعلقات تاریخ میں ہمیشہ اتارچڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ عمران خان دور میں یہ تعلقات شدید بحران کا شکار ہوئے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے عمران خان کو فون کال تک نہ کی حالاںکہ عمران خان حکومت کی شدید خواہش تھی۔ عمران خان کے آنے کے بعد چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بھی قدرے خرابی پیدا ہوئی جس کا اثر سی پیک پر پڑا۔

ماہرین اور تجزیہ نگاروںکا خیال ہے کہ میاں شہبازشریف کے ساتھ چین، سعودی عرب اور امریکا سمیت تمام عالمی ادارے کام کرنے میں یقیناً سہولت محسوس کریں گے۔ اگرچہ میاں شہبازشریف ایک اعتبار سے عارضی حکومت ہی ہے تاہم اس دور میں ہمارے بین الاقوامی تعلقات میں کشیدگی کم ہوجائے تو یہ ایک بڑی کام یابی ہوگی۔ میاں شہبازشریف کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ وہ داخلی اور خارجی میدانوں میں کچھ ایسا کر گزریں جس کے نتیجے میں پاکستان موجودہ بحران سے نکل آئے۔ اپنی تقریر کے دوران انھوں نے دیگر متعدد اعلانات کیے جو پاکستانی قوم کے لیے خوش خبریاں ہیں۔

انھوں نے طلبہ و طالبات کے لیے ایک بار پھر لیب ٹاپ سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا۔ ایک خیال ہے کہ میاں شہبازشریف اپنے سفر کو وہاں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں 2018ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے چھوڑا تھا۔

میاں شہبازشریف کی ترجیحات کا اندازہ ان الفاظ سے بھی بخوبی ہورہا ہے، جو انھوں نے وزیراعظم بننے سے پہلے مختلف مواقع پر ادا کیے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ ملکی معیشت بہتر کر کے عوام کو ریلیف دے سکیں۔ اس کا ثبوت ان کے گذشتہ روز کے اعلانات ہیں جو آج کے اخبارات میں نمایاں انداز میں شائع ہوئے ہیں۔ دراصل اس وقت پاکستانی قوم مہنگائی کے بدترین گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، وہ دُہائی دے رہی ہے کہ کوئی اسے اس مصیبت سے نکالے۔ ایسے میں وہ یہ نہیں دیکھے گی کہ شہبازشریف کی قومی حکومت عارضی ہے یا پانچ سالہ ، اسے فوری ریلیف چاہیے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں شہبازشریف کو اس بات کا بخوبی احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں ریلیف کے لیے چند ایک اعلانات کیے ہیں۔ اگر میاں شہبازشریف اسی انداز میں قوم کو ریلیف دیتے رہیں گے ، ان کی جماعت کی مقبولیت بڑھتی رہے گی بصورت دیگر وہی ہوگا جسے سوچ کر اپوزیشن جماعت تحریک انصاف خوش ہورہی ہے کہ شہبازشریف فوری ریلیف دینے کے قابل نہیں ہوںگے، نتیجتاً عوام میں ان کی مقبولیت کم ہوگی اور تحریک انصاف کو دوبارہ مقبولیت حاصل ہوگی۔

میاں شہبازشریف کا کہنا ہے کہ قومی ہم آہنگی ان کی پہلی ترجیح ہے۔ نئی کابینہ کی تشکیل اتحاد میں شامل راہ نماؤں کی مشاورت کے ساتھ ہوگی۔ امید ہے کہ وہ ملک میں نئے دور کا آغاز کریںگے اور باہمی احترام کو فروغ دیںگے۔ یقینی طور پر اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے بالخصوص جبکہ پاکستان ایک گہرے بحران میں گھرا ہوا ہے۔ معاشرے میں شدت پسندی شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے مختلف سیاسی گروہ بھی سیاسی کارکنوں کو مخالفین کے خلاف نفرت کا ایندھن فراہم کررہے ہیں۔ میاں شہبازشریف کو اس محاذ پر بھی شبانہ روز محنت کرنا ہوگی۔ ان کے مخالفین انھیں الجھانے کی کوشش کریں گے تاہم انھیں مفاہمت کی پالیسی (جس کا انھوں نے گذشتہ دنوں اپنے مختلف بیانات میں اشارہ دیا تھا) کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا، یہ ملک و قوم کے لیے بھی بہتر ہوگی اور خود ان کی حکومت اور پارٹی کے لیے بھی۔

میاں محمد شہبازشریف کی زندگی پر ایک نظر

یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ میاں محمد شہبازشریف، پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم ستمبر1951ء کی23 ویں تاریخ کو پیدا ہوئے۔ وہ لاہور، پنجاب، پاکستان کے ایک مشہور کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں محمد شریف ایک صنعت کار تھے۔ والد کا تعلق امرتسر سے تھا، جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر آئے۔ وہ بنیادی طور پر ایک محنت کش تھے جنھوں نے اپنی بے پناہ محنت سے زندگی میں بے شمار کام یابیاں حاصل کی۔ میاں محمد شہبازشریف کی والدہ شمیم اختر تھیں۔ شہبازشریف کے دو بھائی محمد عباس شریف اور میاں محمد نواز شریف ہیں۔ موخرالذکر تین بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہوچکے ہیں۔

میاں محمد شہبازشریف ایک کامیاب بزنس مین اور بہترین منتظم ہیں۔ 1985ء میں ایوانِ صنعت و تجارت لاہور (لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کے صدر رہے۔ اس وقت ان کے بھائی میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ بعدازآں جب میاں نوازشریف قومی سیاست میں داخل ہوئے تو میاں شہبازشریف پنجاب کے سیاسی میدان میں اتر آئے۔ وہ 1988–1990ء تک رکن پنجاب اسمبلی رہے، پھر 1990–1993ء تک رکن قومی اسمبلی، اس کے بعد 1993–1996ء تک رکن پنجاب اسمبلی اور قائدِحزبِ اختلاف رہے۔ 20 فروری 1997ء سے 12 اکتوبر 1999ء تک رکن پنجاب اسمبلی اور وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران میں، انھیں تین اگست 2002ء کو پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا صدر چنا گیا۔ بعدازآں 2 اگست 2006ء کو دوبارہ اگلی مدت کے لیے منتخب کیا گیا۔

1999ء میں اور اس کے بعد بارہا میاں شہبازشریف کو بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف سے متنفر کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر ناکامی ہوئی۔ انھیں اقتدار کا لالچ دیا گیا۔ ان کی پارٹی کو بھی اشارے دیے گئے کہ میاں نواز شریف کے بجائے میاں شہبازشریف کو لیڈر تسلیم کرو تاہم میاں شہباز شریف نے ہمیشہ اپنے عمل سے ایسی کوششوں کو ناکام کردیا۔ ان کے مطابق وہ میاں نوازشریف کو اپنے والد کی جگہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مخالفین ہر چند روز بعد ایسے ’’ انکشافات ‘‘ کرتے تھے کہ دونوں بھائیوں میں شدید اختلافات ہیں تاہم انھیں شاید ادراک نہیں ہے کہ شریف خاندان میں اقدار کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ انھوں نے ’اتفاق ‘ کے نام سے کاروبار کیا اور اپنی خاندانی زندگی میں بھی ثابت کیا کہ وہ اتفاق کے ساتھ ہی زندگی بسر کرتے ہیں۔

میاں محمد شہبازشریف بطور وزیراعلیٰ کیسے تھے؟ جب 20 فروری 1997ء سے 12 اکتوبر 1999ء تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، ان کا دور نہایت سخت انتظام کے لیے مشہور رہا جس میں انہوں نے لاہور کی شکل بدلنے کی کوشش کی خصوصاً ناجائز تجاوزات میں سے بے شمار کو ختم کیا ۔ انہوں نے پنجاب کے ایسے اسکولوں کے خلاف بھی اقدامات کیے جو عرف عام میں ’بھوت اسکول ‘ یا ’گھوسٹ اسکول‘ کہلاتے تھے یعنی سرکاری وسائل استعمال کرتے تھے مگر وہاں اساتذہ نہیں ہوتے تھے یا پھر سرے سے اسکول ہی نہیں ہوتا تھا۔

میاں شہبازشریف نے ڈھائی سال کے دوران میں اقربا پروری اور سفارش کے خلاف بھی نمایاں کارکردگی دکھائی اور بوٹی مافیا کے خلاف کام کیا۔ انھوں نے بوٹی مافیا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ وہ بطور وزیراعلیٰ اپنے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی پہلے دور وزارت علیا میں پورے پنجاب میں کوئی نئی گاڑی نہیں خریدی تھی ۔ یہ وہی دور تھا جب پولیس میں پہلی دفعہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بھرتی میرٹ کی بنیاد پر کی گئی۔

1999ء میں فوجی انقلاب کے بعد، شہبازشریف نے سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزاری اور آخرکار 2007ء میں پاکستان واپسی ہوئی۔ اس دوران میں لاہور ہائی کورٹ نے جب فیصلہ دیا کہ وہ پاکستان آنے میں آزاد ہیں، تب میاں شہباز شریف نے11مئی 2004ء کو پاکستان واپس آنے کی کوشش کی مگر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر انہیںگرفتار کر کے واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ بعدازآں وہ سعودی عرب سے برطانیہ کے دارالحکومت لندن چلے گئے اور وہاں سے سیاسی معاملات چلاتے رہے۔

پاکستان کے عام انتخابات منعقدہ فروری 2008ء میں کام یابی کے بعد شہبازشریف دوسری بار وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ تاہم 2009ء میں صدر آصف علی زرداری نے گورنر راج نافذ کرکے سلمان تاثیر کو گورنر پنجاب نام زد کیا تو شہباز شریف معزول ہوگئے۔ مسلم لیگ ن نے عدالت کی بحالی کے لیے یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا جس کے نتیجے میں عدلیہ بحال ہوگئی اور گورنر راج ختم ہوگیا۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد میاں شہبازشریف پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور 8 جون 2018ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

ان کے دوسرے دور میں بنیادی ڈھانچے میں ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں ٹریفک کے بدترین مسائل حل کیے گئے، لاہور (پاکستان کے دوسرے بڑے شہر ) کو سگنل فری کردیا گیا۔ میٹرو بس سروس چلائی گئی، جس میں ایک شہر شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک محض 20روپے میں سفر کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے شہر کے اندر سفر کا مفت انتظام بھی کیا تھا۔ یعنی میٹرو بس سے اترنے والا مسافر حکومت کی چلائی ہوئی دوسری بسوں میں بیٹھ کر مفت اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا تھا۔

بدقسمتی سے اس وقت کی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف نے میٹرو بس اور اس کے سفر کو سبسڈائزڈ کرنے پر کڑی تنقید کی تاہم بعدازآں یہی تحریک انصاف صوبہ خیبرپختون خوا میں میٹرو بس جیسی ہی سروس شروع کرنے پر مجبور ہوئی اور اسے سبسڈائزڈ کیاگیا۔ میاں شہبازشریف کی نمایاں کام یابیوں میں ایک 2011ء میں ڈینگی کے بخار کو پھیلنے سے روکنا بھی تھا۔

تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد میاں شہبازشریف پر مقدمات قائم کیے گئے اور پھر گرفتار بھی کیا گیا۔ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے مشترکہ ’انقلاب مارچ‘ کے دوران میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مداخلت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران میں شہید ہونے والے 14 افراد کے قتل اور 90 سے زائد کے شدید زخمی ہونے والوں کو انصاف دلانے کے لیے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔

میاں شہبازشریف کو عمران خان کے عہد میں کرپشن مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر گرفتار بھی ہوئے۔ 5 اکتوبر 2018ء کو (جب عمران خان کو وزیراعظم پاکستان بنے ابھی ایک ماہ اور 18 دن ہوئے تھے ) شہبازشریف کو صاف پانی کرپشن اسکینڈل اور آشیانہ ہاؤسنگ اسیکنڈل کے سبب نیب نے گرفتار کرلیا۔ صاف پانی کمپنی پنجاب حکومت نے قائم کی تھی تاکہ ہر شخص کو پانی فراہم کیا جا سکے تاہم نیب کے مطابق صاف پانی اسکینڈل میں مالی ضابطگیوں کا انکشاف ہوا تھا۔ نیب کا کہنا تھا کہ شہبازشریف نے من پسند کمپنیوںکو ٹھیکا دیا اور اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا۔ نیب کے مطابق اسکینڈل میں ملزمان کی ملی بھگت سے حکومتی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا۔ ان کے خلاف تاحال مقدمات زیرسماعت ہیں۔

میاں محمد شہبازشریف کی پہلی شادی ان کے والد کی اجازت سے 1973ء میں ان کی کزن بیگم نصرت شہباز سے ہوئی جن سے ان کے دو بیٹے حمزہ شہباز ، سلمان شہباز او ر تین بیٹیاں ہیں۔ حمزہ شہباز سیاست دان ہے اور پنجاب اسمبلی کے رکن اور قائد حزب اختلاف ہیں ۔ دوسرے بیٹے سلمان شہباز نے اوکسفرڈ یونیورسٹی لندن سے تعلیم حاصل کی اور ان کا زیادہ رجحان کاروبار کی طرف ہے۔ میاں محمد شہباز شریف ’ عزم و ہمت کی داستان ‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ یہ کتاب دراصل شریف خاندان کے کاروبار کی کہانی ہے۔ وہ 2018ء کے بعد 11اپریل 2022ء تک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔