بُک شیلف

بشیر واثق / بلال بشیر / محمد عثمان جامعی  اتوار 24 اپريل 2022
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

داستان دانش
مصنف: ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، قیمت:750 روپے، صفحات:248
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ ، ٹیمپل روڈ، لاہور (03009482775)


دانش کے سوتے کہاں پھوٹے ، یہ بڑی طویل داستان ہے ، انسانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسان ہمیشہ سے علم و دانش کی تلاش میں رہا ہے ، اس کا دماغ ہمیشہ اسے اس طرف بلاتا رہا ہے اسی وجہ سے قدیم تہذیبوں میں بھی علم و دانش کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی ، گو اس کا درجہ بہت کم تھا مگر وہ اس دور کے مطابق ٹھیک تھا ۔ یوں کہا جائے کہ ’ سیانے ‘ ہر دور میں ہوئے ہیں تو بہتر ہوگا۔

یہی دانشور افراد انسانیت کو علم کے خزانوں سے مالا مال کرتے رہے ہیں، ان کا مقصد انسانیت کی شعوری سطح کو بلند کرنا تھا ، اور ہر دانشور اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے، تاہم یونانی ادوار کو اس سلسلے میں خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ یونانی مشاہیر نے غورو فکر اور مشاہدے کے زور پر فلسفے کی باقاعدہ بنیاد رکھی، اسی لئے عام طور پر فلسفے کی تاریخ یہاں سے ہی شروع کی جاتی ہے۔

حالانکہ اس سے قبل بھی غوروفکر کی دانش کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی ، مصنف نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔کتاب کو چودہ عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے ، جن میں فیثاغورس، انکسار گورداس، دیمقراطیس، پروٹا گوراس سے بات چلتے چلتے سقراط تک پہنچتی ہے۔

اس کے بعد افلاطون، ارسطو، ابیقوریت ، رواقبین ، فلاطینوس اور سینٹ آگسٹائن کے عنوانات ہیں ۔ فلسفے کی تاریخ پر بڑی پائیدار اور تحقیقی کتاب ہے ، علم و دانش کے جویا افراد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چا ہیئے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ دانش اور فلسفہ درجہ بدرجہ یہاں تک کیسے پہنچا ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

وحی ، علم اور سائنس
مصنف: ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی ، قیمت: 700 روپے، صفحات:158
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ ، ٹیمپل روڈ، لاہور (03009482775)


عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے بالکل جدا ہیں۔ جب کوئی شخص بہت زیادہ عقلی دلائل سے بات کرے تو کہا جاتا ہے کہ وہ ساری باتوں کو عقلی پیمانے پر پرکھتا ہے اور مذہب سے بہت دور ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ایسا اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والوں میں شعور کی کمی ہے یا پھر وہ صرف ایک طرف کا علم رکھتے ہیں ، جو فرد مذہبی اور سائنسی دونوں طرح کے علوم سے مالا مال ہوگا اس کا استدلال مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سائنسی بھی ہو گا ۔ ڈاکٹر ریاض کرمانی بھی ایسے ہی فرد ہیں وہ باٹنی میں پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامیات کا علم بھی رکھتے ہیں اور سائنس کو قرآن و حدیث سے جوڑتے ہوئے پر اعتماد لہجہ میں بات کرتے ہیں ۔

معروف انڈین دانشور و محقق سلطان احمد اصلاحی کہتے ہیں ’’ اس کتاب میں مختلف مسائل کے تحت ڈاکٹر صاحب کی رائے اور تجزیے سے تو سنجیدہ علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن کسی مقام پر ان کے یہاں تجدد پسندی اور فکری انحراف کے ادنیٰ سے شائبے کی نشاندہی نہیںکی جا سکتی ۔

قرآن اور سائنس کے نازک موضوع میں یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ اکثر شاہراہ اعتدال سے بہک جاتے ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ کتاب کے مصنف اس سے پھسلے بغیر گزر جانے میں پوری طرح کامیاب ہیں ۔

اس پس منظر میں یہ کتاب اردو اسلامیات کے ذخیرے میں ایک بہت اچھا اضافہ ہے۔‘‘ کتاب میں اسلام اور سائنس کو اعلیٰ پیمانے پر جانچا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سائنس ایسی بہت سی باتوں کی تصدیق کرتی ہے جو کئی سو سال پہلے قرآن میں بیان کر دی گئی ہیں ۔گویا سائنس قرآن سے ابھی بہت پیچھے ہے۔ قرآن اور سائنس کے اس تطابق کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

بہت زیادہ ، مگر ہمیشہ ناکافی۔۔۔
مصنفہ: میری ایل ٹرمپ، ترجمہ: سراج الزمان تیموری ( ایڈووکیٹ)
قیمت:600 روپے، صفحات:160
ناشر:فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ ، ٹیمپل روڈ، لاہور (03009482775)


ڈونلڈ ٹرمپ وہ امریکی صدر ہیں جن کی شخصیت امریکی صدور میں سے سب سے زیادہ متنازعہ رہی۔ یہ کتاب ان کی بھتیجی نے ان کی شخصیت کے حوالے سے تحریر کی ۔

مگر اسے شائع کرنے سے روک دیا گیا پھر عدالتی چارہ جوئی کے بعد یہ کتاب شائع کی جا سکی ۔ اس کا عنوان ہی قاری کو چونکا دیتا ہے، بہت زیادہ مگر ناکافی ۔۔۔ کیسے میرے خاندان نے دنیا کے خظرناک ترین شخص ( ڈونلڈ ٹرمپ ) کو تخلیق کیا ‘ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زیر قلم آنے والی شخصیت کس قدر دھماکہ خیز ہو گی ۔ مصنفہ کے دادا فریڈ ٹرمپ سینئر کی وفات کے بعد مصنفہ اور کے بھائی فریٹز کو وراثت میں سے کچھ نہ دیا گیا تھا ۔ اس کتاب کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد کچھ صحافیوں نے میری ایل ٹرمپ سے رابطہ کیا ۔

یہ صحافی ٹرمپ کے خلاف مواد کی تلاش میں تھے ۔ ابتدا میں میری ایل ٹرمپ نے ان صحافیوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا لیکن امریکہ کے دگرگوں حالات دیکھ کر بالآخر اس نے ان صحافیوں کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا ۔ میری ایل ۔ ٹرمپ نے اپنی لاء فرم سے قانونی دستاویزات کے انیس ڈبے نکال کر ان صحافیوں کے حوالے کر دیئے۔ یہ وہ دستاویزات تھیں جو ’ میری‘ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اپنی وراثت کے حصول کے لئے دائر مقدمے میں عدالت میں پیش کی تھیں ۔

یہ سٹوری نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی جس نے تہلکہ مچا دیا ۔ اس کتاب میں مصنفہ نے ثابت کیا ہے کہ اس کا چچا ایک مکار، خودغرض اور بزنس میں بھی ناکام ترین شخص تھا لیکن میڈیا کے بل بوتے اور امیج بلڈنگ نے اسے ایک کامیاب بزنس مین ثابت کیا ۔ جس کی بنیاد پر وہ امریکہ کا صدر بن گیا ۔ تحریر بہت شستہ اور رواں ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ،ضرور مطالعہ کرنی چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
(تبصرہ نگار: بلال شبیر)

رشکِ افلاک
شاعر: طاہر حنفی


رشکِ افلاک کے مطالعہ کے دوران راقم الحروف کو یہ احساس ہوا جیسے شاعر کسی ایسے شہر کا ذکر کافی مرتبہ کر چکا ہے کہ جس کے ہجر میں اس نے قلم اٹھایا ہو ۔ کہ جیسے مجبوریوں کے شہر کو شاعر ”رشکِ شہرِ افلاک” کے قصے سنانے نکلا ہو ۔

مجموعہ کلام میں موجود 75 غزلیات، 75 اکائیاں اور اول صفحات میں موجود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نعتیہ محبت کے فوراً بعد شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے لئے ”مجسمہ خودی” اور قائداعظم محمد علی جناح کے لئے ”سچ کا سورج” جیسا موجود کلام اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ طاہر حنفی کا رشکِ افلاک 75 برس کا ہو چلا اور یہ مجموعہ کلام شاعر کی جانب سے محبت اور محنت سے پیش کیا گیا سالگرہ کا تحفہ ہے۔

جنوری 2022 میں یعنی اسی برس شائع ہونے والی یہ کتاب طاہر حنفی کی مجموعی طور پر پانچویں کتاب ہے۔ رشکِ افلاک کی بات کی جائے تو جیسا کہ اول صفحات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ایسے ہی سر ورق پر موجود شاہین کے آسمان میں بلند ہونے سے لے کر کتاب کے اختتامیہ تک مکمل مجموعہ کلام ایک محور کے گرد گردش میں رہتا ہے۔

کتاب پر جب تبصرہ شروع ہو تو سب سے پہلے سرِورق پر بات کی جاتی ہے جس میں شاہین کا آسمان میں بلندی بھرنا اور سورج کے روشن ہونے کی تصویر اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر بخوبی یہ بات جانتا ہے کہ جہاں کتاب کے اندر موجود شعر پر محنت کی جاتی ہے وہیں پر سر ِ ورق پر محنت کرنا انتہائی نازک معاملہ ہے۔

اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ کتاب لکھنے والے خواتین و حضرات سرورق پر محنت نہیں کرتے۔ اس طرح کی خاص کتاب میں دوسرا اہم معاملہ یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ آپ نے یہ کتاب اگر کسی کے نام کی ہے تو کس کے نام کی ہے؟ یہاں پر بھی طاہر حنفی صاحب یہ کہتے دکھائی دیں گے

”ہر اس ذی شعور کے نام جو ناامیدی کی طویل سیاہ رات میں اپنے حصے کا چراغ جلانے کی جہدِ مسلسل میں مصروف ہے”

کسی کے ہجر میں طاہر ہم اتنا روئے ہیں
کہ وصل میں بھی نہ پلٹے گی زندگی ہم کو
۔۔۔۔۔۔۔۔
طاہر یہ جو افلاک پہ ہے بزم چراغاں
لگتا ہے مجھے رہتے ہیں کچھ لوگ ادھر بھی

اس تازہ شعری مجموعہ میں جہاں شاعر حب الوطنی میں ابھر کر سامنے آتے ہوئے وطن کی محبت میں کھل کر اپنے جذبات پیش کرتا دکھائی دیتا ہے وہیں پر جدید طرز اپناتے ہوئے اور دورِ حاضر کی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے نوجوان نسل کے لئے عملی زندگی میں آگے بڑھنے کا پیغام بھی دیا گیا ہے۔

جاگ اٹھا ہے خود آگہی کا جنوں
موجِ ادراک ہونے والے ہیں
اتنی اونچی اڑان بھر لی ہے
رشکِ افلاک ہونے والے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آگ عشق کی تھی بیسویں صدی میں بھی
کہ راس آئی ہے اکیسویں صدی ہم کو

طاہر حنفی کی پہلی کتاب پڑھنے کے دوران میرا یہ خیال تھا کہ جیسے وہی موضوعات دوہرائے جائیں گے کہ جن پر اکثرشعراء بار بار اور ایک ہی انداز سے بحث کئے جا رہے ہوتے ہیں۔ مگر پہلی کتاب سے لے کر رشکِ افلاک کے اختتام تک کا راقم الحروف کا سفر ایسا تھا کہ ان کی کتب پڑھنے کے دوران یہ احساس نہ ہوا کہ ان سے ملاقات اب تک نہ ہوئی ہو۔

شاعر سے ملاقات کی اصل وجہ اس کی شاعری ہوا کرتی ہے مگر اکثر و بیشتر کچھ ملاقاتیں آپ کے لئے پریشانی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ طاہر حنفی سے ملاقات کا دعوی کر سکتا ہوں کہ آپ ان سے ان کی شاعری کے حوالہ سے پہلی مرتبہ ملاقات کریں گے تو بار بار ان سے قربت برقرار رکھنے کا آپ کو جی چاہے گا۔

اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ طاہر حنفی نے مشکل اور پرانے موضوعات کو نئے انداز میں اور آسان طرح سے بیان کیا ہے جسے سمجھنا بالکل مشکل نہیں۔ عام فہم و تراکیب کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔ طاہر حنفی کی بیشتر شاعری اور بالخصوص غزلیات سہل ممتنع کے دائرہ میں نظر آئیں گی۔ رشکِ افلاک میں کلاسیکی شاعری کی جھلک نظر آتی ہے اور جدید رجحانات نظر آتے ہیں جس سے غزلیات ایک منفرد آہنگ اختیار کرتی ہیں ۔

موضوعات قدیم ہیں جب کہ اس میں استعمال ہونے والے الفاظ جدید ہیں۔ نئی نسل کے لئے اہم ہے کہ وہ ان کے شعری مجموعہ سے استفادہ حاصل کریں ۔ اس سے نہ صرف نئی نسل کو جدید اور قدیم شاعری کا خوبصورت امتزاج ایک ہی شعری مجموعہ میں ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کا جذبہ بھی پیدا ہو گا ۔

حقیقت یا افسانے
مصنفہ: مسز صوفیہ ناہید بیگ، قیمت:500 روپے، صفحات:232
ناشر: دعا پبلی کیشنز، الحمد مارکیٹ، اردو بازار، لاہور (04237233585)

ادیب معاشرے میں پائے جانے والے رویے، رجحانات اور بنتی بگڑتی رسومات کو اپنی تحریروں میں پیش کرتا ہے ۔ وہ جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے استعارے کی شکل میں بیان کرتا ہے ۔

استعارے میں اس لئے کیونکہ معاشر ے میں پائے جانے والے بہت سے رجحانات کو ان کی اصل صورت میں بیان کرنا ممکن نہیں ، ایسے میں وہ استعارے کا سہارا  لیتا ہے تاکہ معاشرے میں پنپنے والے اس ناسور کو اپنے قلم کے نشتر سے کاٹ کر اس کا گندا مواد باہر نکال دے، بہتوں کو اس پر غصہ بھی آتا ہے اور وہ اسے بکواس اور لغو قرار دیتے ہیں مگر حقیقت سب کے سامنے عیاں ہو کر رہتی ہے۔

افسانہ ادب کی وہ صنف ہے جو کسی ایک پہلو کو بخوبی آشکار کر دیتی ہے ۔ ادیب کی آنکھیں جو دیکھتی ، کان جو سنتے اور دل و دماغ جو محسوس کرتا ہے وہ اس کے احساسات پر بوجھ بنتا چلا جاتا ہے جب تک وہ اسے قرطاس پر نہ اتارے ۔ یوں وہ ایک حفیقت کو ڈھکے چھپے الفاظ میں سب کے سامنے لے آتا ہے جس سے معاشرے میں مثبت تنقید کا پہلو اجاگر ہوتا ہے ۔

یہ مثبت تنقید آگے چل کر برداشت اور رواداری کو بڑھاتی ہے یوں معاشرے میں معتدل روایات پروان چڑھتی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب حقیقت یا افسانے بھی ایسی ہی روایات کو پروان چڑھائے گی ، اس میں بیان کئے گئے افسانے پڑھتے ہی قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانہ نہیں بلکہ جگ بیتی ہے ، ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی سچی کہانیاں ہیں ۔ مصنفہ شعبہ درس  و تدریس سے متعلق رہی ہیں ، اس سے قبل ان کی  شاعری کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے جسے بہت پذیرائی ملی ۔ معروف شاعر و ادیب ندیم اسلم کہتے ہیں ’’صوفیہ ناہید بیگ ایک کہنہ مشق تخلیق کار ہیں۔

محبت ان کے ہاں وسلیہ بھی ہے اور مقصد بھی ۔ ان کے ہاں اس نظریہ حیات میں کوئی الجھن اور تضاد نہیں ہے۔ زندگی کے تمام دکھوں ، اذیتوں اور مصیبتوں کو اس بلند آدرش سے دور کرنے کی داعی ہیں ۔ ان کی شاعری کی طرح اب ان کے افسانوں میں اس دور کی عکاسی بھی پوری حقیقت پسندی سے کی گئی ہے۔ ان کی تحریروں کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ جس ماحول میں سانس لے رہی ہیں اس سے پوری طرح باخبر ہیں۔

ان کو معاشرے میں بد امنی کے عذاب اور سکون کی غارت گری کا بہت رنج ہے ۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی فکری ذمہ داریوں سے بخوبی آشنا ہیں اور سماجی معنویت کا بھرپور احساس رکھتی ہیں ۔‘‘ تحریر بڑی سادہ اور رواں ہے ، افسانوں میں پیش کی گئی حقیقتیں دل کو چھو لیتی ہیں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

آئینہ اور دیگر کہانیاں

مصنفہ: افشاں اقبال، ناشر: چلڈرن پبلی کیشنز، قیمت: 350 روپے

بچوں کے لیے شعرو ادب تخلیق کرنا وہ فریضہ ہے جو ہر شاعر و ادیب کو انجام دینا چاہیے، لیکن ہمارے بیشتر شعرا اور نثرنگار اس ذمے داری سے پہلوتہی کرتے دکھائی دیتے ہیں ، جس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ ان کی نظر میں ادبِ اطفال ’’ کھیل بچوں کا ہوا‘‘ اور دوسرا سبب کم سِن اذہان کے لیے شعرونثر تخلیق کرنے  کے عمل کا نہایت دقت طلب ہونا ہے کہ اس کے لیے بچوں کی ذہنی سطح پر اتر کر لکھنا پڑتا ہے ۔

اس صورت حال میں وہ نوجوان لکھاری قابل قدر اور لائق داد ہیں جو بچوں کے لیے ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ افشاں اقبال بھی ان قلم کاروں میں شامل ہیں، جو کئی سال سے بچوں کی کہانیاں لکھ رہی ہیں، ان کی کہانیاں روزنامہ ایکسپریس کے بچوں کے صفحے اور بچوں کے رسائل میں شایع ہوتی رہی ہیں۔ ’’آئینہ اور دیگر کہانیاں‘‘ ان کی منتخب کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں شامل کہانیاں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ کہانی کار کی پوری توجہ بچوں کا اخلاق اور کردار بنانے پر ہے، جو اچھی بات ہے، لیکن اس کوشش میں اکثر کہانی سنجیدہ اور ناصحانہ مضمون کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

بچوں کی کہانی لکھتے ہوئے لکھاری کو یہ امور پیش نظر رکھنے چاہییں کہ کہانی میں کہانی پن ہو، دل چسپی کا عنصر ہو، سبق اور نصیحت کو مرکزی حیثیت دینے کے بہ جائے انھیں بین السطور رکھا جائے۔ ان کہانیوں کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بچے مطالعے کی طرف راغب ہوں، ان کی قوت تخیل کو مہمیز ملے، زبان پر ان کی گرفت مضبوط ہو، وہ بدی اور نیکی میں تفریق کرنے کے قابل ہو سکیں اور ان کی معلومات میں اضافہ ہو۔ اگر کہانی میں دل چسپی کا عنصر نہ ہو تو بچہ اس کی طرف آئے گا ہی نہیں، چناں چہ دیگر مقاصد کے ساتھ تعمیر اخلاق کا مقصد بھی فوت ہو جائے گا۔

اس نکتہ اعتراض سے قطع نظر افشاں اقبال کی کہانیوں میں منظر کشی لاجواب ہے جو پڑھنے والے کو فوری طور پر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کی اکثر کہانیوں کی اٹھان بہت اچھی ہے، اور کتاب میں شامل تخلیقات میں سے زیادہ تر کی بنیاد نئے اور منفرد آئیڈیاز پر ہے ۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ مصنفہ اپنے قارئین کے لیے خوب صورت، رچی ہوئی اور بامحاورہ زبان استعمال کرتی ہیں، لیکن ان کی زبان کہیں بھی مشکل ہوکر ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں کرتی۔ ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ محنت کر کے اور مطالعے کو وسعت دے کر وہ نہ صرف بچوں کی اچھی ادیب بن سکتی ہیں بلکہ اگر افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوں تو بھی کام یابی ان کے قدم چومے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔