کراچی میں گرمی شدت بڑھ گئی، ہیٹ ویو کا خطرہ

منصوعی جنگل لگائے، گرین بیلٹس قائم کیے جائیں،ماہرین، اسپتالوں میں فوری خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں، ڈائریکٹر ریلیف الخدمت۔ فوٹو: فائل

منصوعی جنگل لگائے، گرین بیلٹس قائم کیے جائیں،ماہرین، اسپتالوں میں فوری خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں، ڈائریکٹر ریلیف الخدمت۔ فوٹو: فائل

کراچی: کراچی میں گرمی کی شدت بڑھنے کے سبب ہیٹ ویو کا خطرہ لاحق ہوگیا جب کہ شہر کنکریٹ کا جنگل بننے، آلودگی اور ہریالی کی کمی درجہ حرارت میں اضافے اور ہیٹ ویو کی بڑی وجوہات ہیں۔

2015 میں کراچی میں ہیٹ ویو سے سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد بھی سندھ حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ممکنہ ہیٹ ویو کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کوئی پیشگی انتظامات نظر نہیں آتے۔ ماہرین ماحولیات اور موسمیات کراچی کو ہیٹ ویو سے بچانے کے لیے رائے دیتے ہیں کہ شہر بھر میں فوری منصوعی جنگل لگائے جائیں۔ شجر کاری مہم فوری شروع کی جائے۔گرین بیلٹس قائم کیے جائیں۔ عمارتوں ہر ہلکا رنگ کیا جائے۔

ماہر تعمیرات حاجی محمد تسلیم نے کہا کہ کراچی میں اس وقت عمارتوں کا جنگل بن گیا یے۔شہر کے بشیتر علاقوں میں رہائشی یونٹس پر کئی منزلہ پورشن بن گئے ہیں۔ لیاقت آباد،کورنگی ، لائنزایریا، اورنگی ٹاؤن، پی آئی بی، رنچھوڑلائن سمیت دیگر علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو ہر طرف آپ کو عمارتیں ہی عمارتیں نظر آئیں گی۔

سماجی ادارے کے رضا کار عمران الحق نے بتایا کہ کراچی کنکریٹ کا جنگل بننے، درختوں کی کمی، آلودگی اور دیگر مسائل نے شہر کا قدرتی ماحول تباہ کردیا ہے۔2015 میں کراچی میں ہیٹ ویو سے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

سماجی رہنما ناصر خان نے بتایا کہ کراچی میں اس وقت گرمی اور پھر لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن کردی ہے۔اگر اس صورتحال میں درجہ حرارت مذید بڑھا اور ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا تو ایک مرتبہ پھر کوئی بڑا سانحہ ہوسکتا ہے۔

سماجی ادارے الخدمت کے ڈائریکٹر ریلیف قاضی صدر الدین نے کہا کہ کراچی میں ممکنہ ہیٹ ویو کے خدشے کے سبب اسپتالوں میں فوری خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں۔

سماجی ادارے کے رضا کار چوہدری شاہد حسین نے کہا کہ کراچی میں ممکنہ ہیٹ ویو کے سبب ایک ایمرجنسی سروسز پلان بنانے کی ضرروت ہے۔ اس حوالے سے تمام فلاحی اداروں اور سرکاری ایمبولنس سروسز کو فعال رکھا جائے۔

ماہر ماحولیات یاسر حسین کا کہنا ہے کہ کراچی کو اس وقت مربوط ماسٹر پلان کی ضرورت ہے۔ بلند عمارتیں تو اب بن گئی ہیں لیکن اب اس بات کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں تعمیرات ماسٹر پلان کے مطابق ہوں۔جب اونچی عمارتیں بنی ہوتی ہیں تو وہ زیادہ گرمی جذب کرتی ہیں اور پھر یہی گرمائش عمارتیں خارج بھی کر رہی ہوتی ہیں۔

ایک شہری محمد فرحان نے بتایا کہ کراچی میں 2015 کے ہیٹ ویو کو بھول نہیں سکتے۔اس وقت کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے جاں بحق ہونے والے افراد کی میتیں سردخانے میں رکھنے کی جگہیں بھی نہیں تھیں۔ ایک خاتون امبر شیخ نے بتایا کہ اب کراچی میں گرمی بڑھ رہی ہے۔اوپر سے لائٹ نہیں ہوتی۔

ماہر موسمیات توصیف عالم نے بتایا کہ کراچی میں گرمی کی شدت اور ہیٹ ویو کا خطرہ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شہر بھر میں منصوعی جنگل اور گرین زون قائم کیے جائیں۔نیم، پیپل اور دیگر ماحول دوست درخت لگانے کی ضرورت ہے۔

وزیراعلی سندھ کے مشیر وقار مہدی نے کہا کہ جکومت سندھ نے کورونا کی روک تھام کے لیے مربوط اقدام کیے تھے۔ ممکنہ ہیٹ ویو کے خطرے کے پیش نظر صوبائی حکومت تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر مزید اقدامات کرے گی۔ہر سال کی طرح اس باربھی کراچی سمیت اندرون سندھ کے بیشتر علاقوں میں ماہ مئی و جون کے دوران سخت ترین گرمی کا اندیشہ ہے۔

موسمیات کے ماہرین کے مطابق اپریل تا جولائی بالعموم پورے سندھ اور بالخصوص نواب شاہ، پڈعیدن، روہڑی، جیکب آباد، جنوبی پنجاب اور جنوب مشرقی بلوچستان میں فضائی درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کے تناسب زیادہ رہتا ہے اورہیٹ انڈیکس کے تحت موسم شدید گرم اور حبس آلود رہتا ہے۔جب درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ جاتا ہے تو انسانی جلد پر گرمی کی شدت زیادہ محسوس ہوجاتی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔