پار چناں دے۔۔۔

دریائے چناب کی دل چسپ کہانی۔ فوٹو : فائل

دریائے چناب کی دل چسپ کہانی۔ فوٹو : فائل

کچھ سال پہلے کوک اسٹوڈیو نے ایک گانا ریلیز کیا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے

”پار چناں دسے کلی یار دی
گھڑیا گھڑیا آوے گھڑیا”

یہ گیت بہت مشہور ہوا تھا جس میں سوہنی مہیوال کی کہانی بیان کی گئی تھی جو چناب میں گھڑے پہ تیر کہ پار واقع جھونپڑی میں اپنے محبوب مہیوال سے ملنے جایا کرتی تھی۔

تب سے سوچ رہا تھا کہ محبت کی داستانوں کے امین، چناب کی اپنی کہانی بھی سن لینی چاہیے کہ سرحد پار چندربھاگا کے نام سے جانا جانے والا یہ دریا بہت قدیم ہے جس کا ذکر ویدوں میں بھی ملتا ہے۔

پرانے لوگوں نے ہی دریاؤں کی تقسیم کچھ یوں کی تھی

راوی راسقاں
سندھ صادقاں
چناب عاشقاں

یہ دریا محبتوں کی کئی کہانیاں بھی اپنے ساتھ بہائے کشمیر و پیر پنجال سے پنجاب دھرتی تک لاتا ہے۔ اور پنجاب دھرتی تو ہے ہی رومان کی سرزمین جہاں چناب کنارے ہیر رانجھا ، مرزا صاحباں اور سوہنی مہیوال جیسی تین بڑی لوک کہانیوں نے جنم لیا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ چناب کے پانیوں میں عشق بہتا ہو تو چنداں غلط نہ ہو گا۔ کیا وجہ ہے کہ یہ دریا صوفیاء اور عاشقوں کا پسندیدہ دریا رہا ہے؟؟؟

ندی کنارے جو نغمہ سرا ملنگ ہوئے
حباب موج میں آ آ کے جل ترنگ ہوئے
ارم کے پھول ازل کا نکھار طور کی لو
سخی چناب کی وادی میں آ کے جھنگ ہوئے
کبھی جو ساز کو چھیڑا بہار مستوں نے
تو گنگ گنگ شجر ہم زبان چنگ ہوئے

آئیں اس کی تاریخ اور اس کے سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ چناب کے تین پڑاؤ ہیں بھارت، جموں کشمیر اور پاکستان جن کا باری باری ذکر اس مضمون میں کیا جائے گا۔

بھارت کے شمال میں ریاست ہماچل پردیش واقع ہے جو اپنی دل کش وادیوں اور ہل اسٹیشنز کے حوالے سے مشہور ہے۔ ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں سے گھری اسی ریاست سے پھوٹتا ہے وہ دریا جسے ”پنجاب کی گنگا” کہا جائے تو غلط نہ ہو گیا کہ پنجاب کی رومانوی لوک داستانیں اسی کے کناروں سے پھوٹی ہیں۔ پیار و محبت کے اس دریا کو ہم چناب کہتے ہیں۔

چناب، ‘چَن’ اور ‘آب’ سے مل کر بنا ہے، چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے۔ یہ دریا بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی (ضلع لاہول) کے مقام پر دریائے چندرا اور بھاگا کے ملاپ سے معرض وجود میں آتا ہے۔ انہی بالائی علاقوں میں یہ ”چندربھاگا” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں کے علاقے سے بہتا ہوا پاکستانی پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے اور ضلع جھنگ میں تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریائے راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو کوٹ مٹھن سے پہلے دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔

آئیں اس دریا کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور اس کے کنارے آباد شہروں کا جائزہ لیتے ہیں۔

چندرا، ہندی اور سنسکرت میں چاند دیوتا کو کہا جاتا ہے جس سے چندرماں اور چاند بھی مراد لیے جاتے ہیں۔ یہ دریا ہماچل میں ”سُوریہ تل” جھیل کے جنوب سے نکلتا ہے۔ سوریہ تل یا سورج تل جھیل بھارت کی تیسری اور دنیا کی اکیسویں بلند جھیل ہے جو تقریباً 800 میٹر لمبی ہے۔ یہ لہہ منالی ہائی وے پر مشہور ”بارا لاچا درہ” کے پاس واقع ہے۔ اس جھیل کے پانی کا ماخذ بھی بارا لاچا کے گلیشیئر اور نالے ہی ہیں۔

جھیل کے جنوب سے نکل کر چندرا ایک نالے کی صورت بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا رخ جنوب سے مشرق کی جانب ہوجاتا ہے، چوںکہ یہ جگہ پہاڑی علاقہ ہے اس لیے یہاں کوئی خاص بڑ شہر آباد نہیں ہے۔ جنوب مشرق کے اپنے سفر میں یہ دریا ”چندرا تل” نامی جھیل کے قریب سے اپنا رُخ جنوب کی طرف کر لیتا ہے۔ چندرا تل ضلع لاہول سپتی میں واقع ہماچل کی ایک مشہور جھیل ہے جو سیاحتی مرکز کے ساتھ ساتھ آبی حیات کا مسکن بھی ہے۔ جیسے جیسے چندرا جنوب کی جانب رینگتا ہے اس کے کناروں پر آبادی بڑھتی جاتی ہے۔

”درہ کُنزم” اور کُنزم اسٹوپا کے قریب سے گزر کر یہ دریا ”بٹل” پہنچتا ہے جو ہماچل کے سب سے بڑے دیہات میں سے ایک ہے۔ بٹل سے اس کا رُخ مغرب کی جانب ہوتا ہے اور یہ بٹل –کازا اور پھر لہہ-منالی ہائی وے کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا ”خانگسر” پہنچتا ہے۔ خانگسر سے یہ شمال کی جانب بل کھاتا ہوا ٹنڈی پہنچتا ہے جہاں بھاگا اس کا منتظر ہے۔

یہ تو تھا چندربھاگا کے چندر کا سفر اب چلتے ہیں بھاگا کی جانب۔
دریائے بھاگا، بھاگ سے نکلا ہے جسے ہندومت میں قسمت کا دیوتا کہا جاتا ہے۔ بھاگ سورج دیوتا سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں چندربھاگا کو چاند اور سورج کے ملاپ سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

دریائے بھاگا، سُوریہ تل جھیل کے قریب سے ایک چھوٹے سے نالے کی شکل میں نکلتا ہے اور لہہ منالی ہائی وے کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف بہتا ہوا پتسوئی کے مقام پر اپنا رخ جنوب کو پھیر لیتا ہے۔ اس علاقے میں یہ بلند و بالا پہاڑوں کی گھاٹیوں سے گزرتا ہے جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ کچھ مندر اور پگوڈے یہاں واقع ہیں۔ جسپا اور کیلونگ کی سر سبز وادیوں سے ہوتا ہوا دریائے بھاگا ”ٹنڈی” کے مقام پر اپنے بچھڑے ساتھ چندرا سے بغل گیر ہو کر چندرابھاگا بن جاتا ہے۔ یوں برصغیر کا ایک عظیم دریا تشکیل پاتا ہے۔

ٹنڈی سے چندربھاگا کا سفر مغرب کی جانب شروع ہوتا ہے جہاں یہ ”تریلوک ناتھ” اور کشوری سے ہوتا ہوا اُدے پور پہنچتا ہے۔
اُدے پور ہماچل کا مشہور شہر ہے جس کا پرانا نام ”مرکل” تھا جو یہاں موجود ”مرکلا دیوی” کے مندر کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ پھر چمبہ کے راجا اُدے سنگھ کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا جو آج ایک ضلعی صدر مقام ہے۔

ادے پور اور قریب واقع تریلوک ناتھ مندر، اس علاقے کے دو اہم زیارتی مقامات ہیں جو ہندو اور بدھ دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیے متبرک ہیں۔

ادے پور کے بعد یہ بہت سی سنسان گھاٹیوں میں بہتا ہوا رنسانی سے شمال کی جانب موڑ کاٹتا ہے۔ ہماچل کے چھوٹے چھوٹے شہروں جیسے منڈھل اور دھرواس سے ہو کر چندربھاگا مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہو کر چناب بن جاتا ہے۔

جموں کے سرسبز پہاڑوں میں بہتا ہوا چناب بہت سے جھرنوں کا پانی خود میں سموتا ہوا ”پدار” پہنچتا ہے جو ضلع کشتواڑ کی ایک تحصیل اور خوب صورت وادی ہے۔

اس کی اگلی منزل کیرو ہے جہاں اس پر ”کیرو ہائیڈرو الیکٹرک” پاور پراجیکٹ لگا کر بجلی بنائی جاتی ہے۔ اسکے بعد یہ گلہار سے ہو کردول پہنچتا ہے جہاں ”دلہستی” ڈیم بنایا گیا ہے۔ اس سے کچھ آگے چناب میں ”مراؤ” دریا شامل ہوتا ہے اور اس کا سفر جنوب کی جانب شروع ہوتا ہے۔جنوب کی جانب بہتے ہوئے اس کے کناروں پر مندِروں کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔
یہاں کچھ آگے چناب کنارے کشتواڑ شہر آباد ہے۔ کشتواڑ ریاست کے تمام ضلعوں میں ماسوائے اضلاع لداخ و ڈوڈہ، بلحاظ رقبہ سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس علاقے کو

نیلم و زعفران کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پدار میں نیلم کی بہت بڑی کان ہے جبکہ پوچھل کی وادی میں بڑے پیمانے پر زعفران کاشت کیا جاتا ہے۔

معدنی لحاظ سے یہ سرزمین بہت قیمتی ہے۔ ابرق، سیسہ، جپسم اور نیلم منظرعام پر آچکے ہیں اور دوسری پوشیدہ معدنیات کا سراغ ابھی تک نہیں لگایا گیا ہے۔ پہاڑوں کی ڈھلانوں میں چیل، پرتل، دیودار سمیت دیگر عمارتی لکڑی کے جنگلات لہلہاتے ہیں۔ ان جنگلوں میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار پایا جاتا ہے۔

قدیم زمانہ میں کشتواڑ کی طرف سے مغلوں اور کشمیری تاج داروں کو جو خراج دیا جاتا تھا اس میں باز اور جرہ پرندے بھی شامل ہوتے تھے۔ یہاں کی زرعی پیداوار میں مکئی، جو گندم اور دالیں شامل ہیں۔

آگے چل کر تھاتھری کے مقام پر چناب کا رخ مغرب کو ہو جاتا ہے۔ یہاں آہستہ آہستہ پہاڑ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ”ڈوڈا” شہر آ پہنچتا ہے۔ یہ شہر ضلع ڈوڈا کا صدر مقام ہے۔ یہاں سے آگے کے سفر میں چناب کا پاٹ چوڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور چندرکوٹ کے قریب اس میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہاں بنایا گیا متنازعہ بگلیہار ڈیم ہے۔ اس ڈیم پر کام کا آغاز1999 میں ہوا جب کہ اس کا دوسرا فیز 2015 میں مکمل ہوا تھا۔

اس ڈیم کی ساخت کو لے کر پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت کئی اعتراضات اٹھائے تھے جن پر ورلڈ بینک نے ایک سوئس سِول انجینیئر ”ریمنڈ لیفیٹی” کو ثالثی بنا کر بھیجا۔ ریمنڈ نے پاکستان کے کچھ قلیل اعتراضات کو تسلیم کیا جبکہ ڈیم کی اونچائی اور گیٹ کنٹرول اسپل وے کے اہم معاملے پر اپنی حمایت بھارت کے پلڑے میں ڈال دی۔

یہ پاور پراجیکٹ ضلع رام بن کی حدود میں پیر پنجال کی پہاڑیوں کے دامن میں بنایا گیا ہے۔ وادی چناب کا یہ ضلع اپنی سیاحتی سرگرمیوں خصوصاً پیرا گلائڈنگ، گالف، ٹریکنگ، کیمپنگ اور ہائیکنگ کے لیے جانا جاتا ہے۔

یہاں سے چناب مقبوضہ جموں کے ضلع ریاسی میں داخل ہوتا ہے اور مقبوضہ علاقوں کو بھارت سے ملانے والی سب سے بڑی سڑک سرینگر- کنیا کماری ہائی وے (جو کشمیر سے تامل ناڈو تک جاتی ہے) کے ساتھ چلتا ہوا شمال کی طرف جاتا ہے جہاں اس کے کنارے میترا اور رام بن آباد ہیں۔ یہاں سے کچھ آگے یہ سرینگر کنیا کماری ہائی وے کو چھوڑتا ہے اور ایک بڑی ندی کا پانی لے کر جنوب کو بل کھاتا ہوا ”دھرم کنڈ” پہنچتا ہے جہاں اس کے کنارے جپسم و دیگر معدنیات کی کانیں موجود ہیں۔

چناب کا سفر پیر پنجال کی پہاڑی گھاٹیوں میں جاری ہے یہاں تک کہ دھاروٹ سے ہو کہ یہ اْس جگہ آ پہنچتا ہے جہاں اس پر ایک خوب صورت محرابی شکل کا ریلوے پل بنایا گیا ہے جس کا نام ہے ”چناب ریل محراب پل”۔ یہ ایک خوب صورت پل ہے۔

یہاں میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ بھارت نے اپنے ریلوے نیٹ ورک کو اتنی ترقی و وسعت دی ہے کہ اسے جموں تک لے آیا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ نئے ٹریکس بنانا تو کجا ہمارے کئی ٹریکس بند ہو کر بے کار پڑے ہیں۔ کاش کہ ہمارے ہاں بھی سیاحتی مقامات جیسے سوات، مری، مظفرآباد وسکردو کو ریلوے لائن سے ملا دیا جائے۔

یہاں سے آگے چناب کا پاٹ پھر چوڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس میں کہیں کہیں چھوٹے جزائر نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں شمال اور مغرب سے اس میں ندیاں ملتی ہیں اور کچھ جنوب میں اس پر بنایا گیا ”سلال ڈیم” آ جاتا ہے۔یہ ایک رن آف ریور ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے جو 1970 سے 1987 تک کے عرصے میں بن کہ تیار ہوا یوں یہ سندھ طاس معاہدے کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں بنایا جانے والا پہلا بھارتی منصوبہ تھا۔ڈیم سے آگے دریا کا پاٹ سکڑنا شروع ہوتا ہے اور سلال شہر آ جاتا ہے۔ سلال سے یہ تلواڑا پہنچتا ہے جہاں سے اس کا پاٹ پھر چوڑا ہوتا ہے۔

یہاں چناب کنارے رافٹنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔کچھ آگے مشرق سے ایک اور شاخ اس میں ملتی ہے اور اس کے پانی کو جلا بخشتی ہے۔ یہاں یہ مختلف شاخوں میں بٹ جاتا ہے جن میں مغرب اور پھر مشرق سے کشمیر کا پانی لے کہ دی نالے شامل ہوتے ہیں۔اب ہم چناب کے تنگ پاٹ کے ساتھ جموں میں داخل ہونے کو ہیں جو مقبوضہ ریاست میں اس دریا کا آخری پڑاؤ ہے۔

یہاں اس کی اہم منزل اکھنور ہے۔اکھنور جموں کا ایک مشہور اور قدیم شہر ہے جس کا ذکر مہا بھارت میں ”ویراٹ نگر” کے نام سے آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہنشاہ جہانگیر کی کشمیر یاترا کے دوران آنکھیں خراب ہوئیں تو ایک بزرگ کے مشورے پر اس نے اس جگہ کا دورہ کیا۔ چناب سے آنے والی ہواؤں نے اس کی آنکھوں کو صحت بخشی اور اس نے اس جگہ کو آنکھوں کا نور قرار دیا جو بگڑتے بگڑتے اکھنور بن گیا۔

ایک دوسری جگہ یہی روایت اس کی بیوی کا سے منسوب ہے کہ آنکھیں خراب ہونے پر اس نے چناب کے پانی سے آنکھیں دھوئیں تو آنکھوں کا نور واپس آ گیا اور یوں اکھنور شہر کا نام پڑ گیا۔ ان میں سے سچ کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔ اکھنور ایک تاریخی شہر بھی ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق یہ شمال میں وادی سندھ کی تہذیب کے آخری قلعوں میں سے ایک تھا۔اکھنور ہی وہ جگہ ہے جہاں پہاڑ اور ان کی وادیاں چناب کو میدانی علاقوں کے سپرد کر دیتی ہیں اور اس کی روانی کچھ کم ہوجاتی ہے۔

اب چناب کا سفر بجانب جنوب مغرب ہے اور یہ دیوی پور، گکھڑال، پرگوال اور سروال سے ہوتا ہوا مختلف شاخوں میں بٹ کر ٹگوال آ پہنچتا ہے۔ یہ مقبوضہ جموں کشمیر و پاکستان کی سرحد پر آخری علاقہ ہے۔یہاں سے چناب پاک سرزمین میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ضلع سیالکوٹ پاکستانی حدود میں چندربھاگا کو خوش آمدید کہتا ہے۔ یہاں گنگوال نامی قصبہ سے گزر کہ پہلے اس میں تیروتی نالہ اور پھر مشرقی سمت سے دریائے تَوی آ ملتا ہے۔ کیلاش گلیشیئر سے نکلنے والا دریائے توی جموں شہر سے بہہ کر سیالکوٹ کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور چناب میں مل جاتا ہے۔ عام طور پر بھارت میں دیگر دریاؤں کی طرح 141 کلومیٹر لمبا دریائے توی بھی مقدس سمجھا جاتا ہے۔

یہاں سے کچھ ہی جنوب میں ضلع سیالکوٹ و گجرات کی سرحد پہ چناب پر پاکستان کا پہلا بند باندھا گیا ہے۔ یہ مرالہ ہیڈورکس ہے۔

برطانوی دور میں نہر اپر چناب کو پانی کی سپلائی کے لیے یہاں ایک بند تعمیر کیا گیا تھا۔ پھر آبپاشی اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے یہ نیا بیراج 1968 میں تعمیر کیا گیا تھا۔پاکستان کی دو اہم ترین نہریں، مرالہ راوی لنک کینال اور اپر چناب کینال یہاں سے نکلتی ہیں۔ اپر چناب گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کے اضلاع کو سیراب کرتی ہوئی مانگا کے قریب راوی میں مل جاتی ہے۔مرالہ راوی لنک کینال 1956 میں چناب کا پانی راوی کو منتقل کرنے اور ضلع سیالکوٹ و گوجرانوالہ کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ 65 کی جنگ میں اسی نہر کو نشانہ بنا کہ بھارتی فوج نے حملہ کیا اور پاک فوج کے ہاتھوں پسپائی اختیار کی۔

ہیڈ مرالہ سے آگے چناب کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے۔ یہیں جلال پور جٹاں کے قریب کشمیر سے آتا ہوا ”دوارا نالہ” مغربی جانب سے چناب میں گرتا ہے۔ یہاں سے چناب گجرات و گوجرانوالہ کے اضلاع کے بیچ حد بندی بناتا ہوا بہتا چلا جاتا ہے۔یہ علاقہ پنجاب کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے۔ یہاں چناب کنارے آباد پاکستان کا پہلا بڑا شہر گجرات ہے۔برقی آلات، بجلی کے پنکھے و فرنیچر سازی کے لیے مشہور گجرات کو ”نشانِ حیدر” کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔

اس ضلع کے تین فوجی جوان نشان حیدر حاصل کر چکے ہیں جن میں راجہ عزیز بھٹی شہید، میجر شبیر شریف شہید اور میجر محمد اکرم شہید شامل ہیں۔ تاریخی اہمیت کی بات کریں تو مغلیہ دور میں، مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا۔ جب کشمیر سے واپسی پر مغل شہنشاہ جہانگیر کا انتقال ہوا تو اس کے اعضاء خراب ہونے سے بچانے کے لیے پیٹ کی انتڑیاں نکال کر گجرات میں ہی دفنا دی گئیں، جہاں اب ہر سال شاہ جہانگیر کے نام سے ایک میلہ لگتا ہے۔

انگریزوں اور سکھوں کے درمیان دو بڑی لڑائیاں اسی ضلع میں لڑیں گئیں، جن میں چیلیانوالہ اور گجرات کی لڑائی شامل ہیں۔ اور گجرات کی لڑائی جیتنے کے فوراً بعد انگریزوں نے 22فروری 1849 کو پنجاب کی جیت کا اعلان کردیا تھا۔گجرات ہی کے قریب پہلے ”الیگزینڈر برج” پر سے لاہور پشاور مرکزی ریلوے لائن اور پھر گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) چناب پر سے گزرتی ہے۔

گجرات، پنجاب کا ایک ایسا ضلع جہاں کے بہت سے لوگ بیرونِ مُلک کام کرتے ہیں اور وطنِ عزیز کو قیمتی زرِمبادلہ کما کر بھیجتے ہیں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر برطانیہ، یونان اور ناروے میں آباد ہیں۔گجرات ہی وہ جگہ ہے جہاں چناب کنارے سوہنی مہیوال کی عشقیہ داستان نے جنم لیا۔سوہنی، گجرات میں ایک کمھار کے گھر پیدا ہوئی تھی جس کا حسن دور دور تک مشہور تھا۔ سوہنی کے والد کی دکان رام پیاری محل کے قریب دریا کے کنارے پر واقع تھی۔ مہیوال کا اصل نام عزت بیگ تھا، اس کا تعلق بخارا سے بتایا جاتا ہے۔ عزت بیگ تجارت کی غرض سے گجرات آیا اور وہیں مقیم ہوگیا۔

ایک روز عزت بیگ برتن خریدنے عبد اللہ کمہار کے گھر پہنچا تو اُس کی آنکھیں سوہنی سے چار ہوئیں تو دونوں پر سکتہ طاری ہو گیا اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔

عزت بیگ نے سوہنی کے قریب رہنے کے لیے اس کے باپ کے ہاں ملازمت کرلی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ سوہنی اور مہیوال کے عشق و محبت کی داستان نہ صرف سوہنی کے باپ بلکہ دوردراز کے علاقوں تک جاپہنچی۔ بدنامی کے خوف سے کمھار نے سوہنی کا رشتہ اپنے ہی خاندان کے ایک نوجوان سے طے کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں اس کی شادی کردی۔

سوہنی رخصت ہوکر اپنے شوہر کے ساتھ دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے شوہر کے گھر چلی گئی جب کہ مہیوال اسی کنارے پر رہ گیا۔ اب ان کے بیچ چناب حائل تھا۔ سوہنی نے اپنی محبت کی تسکین اور محبوب سے ملاقات کے لیے ایک منفرد طریقہ ایجاد کیا۔ چوںکہ وہ مٹی کے ظروف بنانے میں مہارت رکھتی تھی اس لیے اس نے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے پکی مٹی سے ایک گھڑا تیار کیا اور روزانہ رات کی تاریکی میں اپنے محبوب مہیوال سے ملنے دریا کے پار پہنچ جاتی۔یہ بات جب اس کی نند کو پتا چلی تو اس نے ایک دن پکی مٹی کے گھڑے کی جگہ ایک کچی مٹی سے بنا گھڑا رکھ دیا کیوںکہ وہ جانتی تھی کہ سوہنی تیرنا نہیں جانتی۔

اس بات سے بے خبر سوہنی وہی کچی مٹی کا گھڑا اٹھا کر اس کی مدد سے دریا میں اتر جاتی ہے۔ پانی میں اترنے کے بعد کچی مٹی سے بنے گھڑے کی مٹی گھلنے لگتی ہے اور دریا کے عین وسط میں پہنچ کر گھڑا بالکل پگھل جاتا ہے اس کے ساتھ ہی سوہنی بھی ڈوبنے لگتی ہے۔موت کے خوف سے سوہنی بے اختیار مہیوال کو پکارتی ہے۔ مہیوال جو دریا کے دوسرے کنارے پر سوہنی کے آنے کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اس کی چیخیں سن کر دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے بھی تیرنا نہیں آتا تھا، اس لیے سوہنی کے ساتھ وہ بھی ڈوب جاتا ہے۔ دونوں کی محبت چناب میں امر ہوجاتی ہے۔

کچے گھڑے کو ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا عشق
بپھری ہوئی تھیں سامنے لہریں چناب کی
یہ قصہ اتنا مشہور ہوا کہ فضل شاہ نے اس پر طویل نظم لکھی، سوبھا سنگھ نے اسے صفحہ قرطاس پر اتارا، پٹھانے خان اور عالم لوہار نے اسے گایا اور پھر کوک اسٹوڈیو میں نوری بینڈ کا گانا دوبارہ اسی قصے سے متاثر ہو کر بنایا گیا۔ بالی وڈ میں اس قصے پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

چناب پار گجرات کے دوسری طرف وزیرآباد ہے جو کٹلری (چھری کانٹے) کی صنعت کے لیے جانا جاتا ہے۔

اس شہر کی بنیاد مغل بادشاہ، شاہ جہاں کے ایک گورنر وزیر خان نے رکھی تھی جن کے نام پہ یہ وزیر آباد کہلایا۔ صنعتی لحاظ سے یہ پنجاب کی ”سنہری تکون” کا حصہ ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ دنیا بھر میں کٹلری اور سرجیکل آلات بنانے میں مشہور ہیں۔ وزیر آباد کو کٹلری کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ قریبی دیہات چاول، گندم، سبزیوں اور گنے کی پیداوار میں بھی مشہور ہیں۔ بون کرشنگ فیکٹریوں کے علاوہ ڈومیسٹک پریشر ککر کے لحاظ سے بھی یہ علاقہ نمایاں ہے۔ یہ شہر ایک اہم جنکشن ہے جو سیالکوٹ اور فیصل آباد کو جانے والی ٹرینوں کو راستہ فراہم کرتا ہے۔کچھ جنوب میں شادی وال کے قریب ”بھمبر نالے” میں ضم ہو کہ نہر ”اپر جہلم” چناب میں آ ملتی ہے جس کے ساتھ ہی خانکی ہیڈورکس واقع ہے۔

خانکی ، 1889 میں بنایا جانے والا پاکستان کا سب سے پرانا بیراج ہے جو ضلع گوجرانوالہ کی حدود میں واقع ہے۔ 1920 اور 33 میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے باعث اس بیراج کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا جو 2017 میں مکمل ہوا۔جھنگ، چنیوٹ، حافظ آباد، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع کی ہزاروں ایکڑ اراضی کو پانی پہنچانے والی نہر ”لوئر چناب” اسی ہیڈ ورکس سے نکلتی ہے جس کی ذیلی شاخوں میں جھنگ برانچ، رکھ برانچ اور گوگیرہ کینال شامل ہیں۔رکھ برانچ نہر1892 میں انگریزوں نے ساندل بارکو سیراب کرنے کے لیے نکالی تھی جو حافظ آباد، سکھیکی، سانگلہ ہل، سالاروالا اور چک جھمرہ کے دیہات کو سیراب کرنے کے بعد فیصل آباد میں داخل ہوتی ہے۔

جیسے ہی چناب جنوب میں اپنا سفر شروع کرتا ہے اس کی مغربی جانب ضلع منڈی بہاؤ الدین شروع ہو جاتا ہے جو ایک زمانے میں ضلع گجرات کا حصہ تھا۔ اپنے بہترین چاول کے لیے مشہور یہ ضلع گوندل بار بھی کہلاتا ہے۔ اس ضلع میں داخل ہوتے ہی چناب کنارے پہلا قصبہ ”جوکالیاں” کا ہے جو مشہور ادیب و ڈرامہ نگار ”مستنصر حسین تارڑ” کا آبائی علاقہ بھی ہے۔ جوکالیاں کے نام سے ہی انہوں نے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔

جوکالیاں سے آگے کچھ جنوب میں گوجرانوالہ کی طرف ”رسول نگر” واقع ہے جو ایک تاریخی و قدیم قصبہ ہے۔رسول نگر جس کا سابقہ نام رام نگر تھا، بھی اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہے- تاریخی حوالے سے اس کا نام پہلے بھی رسول نگر تھا، رنجیت سنگھ کے والد مہا سنگھ نے جب اس پر حملہ کیا تو اسی دوران اسے رنجیت سنگھ کی پیدائش کی اطلاع ملی، اس قصبہ کو فتح کرنے کے بعد اس نے اس کا نام رام نگر رکھ دیا۔رنجیت سنگھ نے دریائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2 کلومیٹر مشرق کی جانب اپنے دور کی خوبصورت ترین بارہ دری تعمیر کی اور دریا میں اترنے کے لیے زیرزمین سرنگ بھی تعمیر کی جس میں اس کے اہل خانہ نہانے کے لیے اترتے تھے۔

مہا راجا رنجیت سنگھ ہر سا ل کچھ عرصہ یہاں قیا م کرتا تھا۔اسی مقام پر خالصہ فوج اور برطانوی فوج کے درمیان لڑا ئی میں برطانوی فوج کے کئی آفیسر ہلاک ہوئے جن کی قبر یں علاقہ بھر میں کھڑی قبروں کے نا م سے مشہور ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں سکھوں کی مڑیاں اور ایک تاریخی جین مندر بھی موجود ہے جسے رنجیت سنگھ کے دور میں ایک جین سادھو ”بُدھ وجے” نے بنوایا تھا-

یہاں سے چناب ضلع حافظ آباد و منڈی بہاؤ الدین کی سرحد بناتا ہوا رواں دواں ہے جہاں اس کے غربی کنارے سے ”رسول – قادرآباد لِنک کینال” چناب میں ملتی ہے۔ جہلم پر واقع رسول بیراج سے نکلنے والی اس نہر کی پانی چھوڑنے کی صلاحیت پاکستان میں چشمہ جہلم کینال کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ پانی سے بھری یہ نہر کسی چھوٹے ملک کے بڑے دریا جیسا منظر پیش کرتی ہے۔

یہاں دوسری طرف حافظ آباد کا قصبہ ”قادر آباد” واقع ہے (اسی نام کا ایک علاقہ پھالیہ میں بھی ہے) جہاں1967 میں قادرآباد بیراج بنا کہ ”قادر آباد – بلوکی” لنک کینال نکالی گئی تھی۔ یہ نہر رسوال بیراج سے موصول شدہ پانی چناب سے لے کہ حافظ آباد ، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب کے اضلاع سے ہوتی ہوئی بلوکی کہ مقام پر راوی میں ڈالتی ہے۔

یہاں حافظ آباد کی حدود میں چناب کنارے کوٹ عالم، کوٹ دائم و گڑھی کلاں کے قصبے واقع ہیں۔اب چناب کی مغربی سمت ضلع سرگودھا شروع ہو چکا ہے جو اپنی زرخیزی اور بہترین کینو کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہیں چناب کنارے سرگودھا کا مشہور قصبہ ”تخت ہزارہ” واقع ہے۔ کسی دور میں ”کھجیانوالہ” کہلایا جانے والا یہ شہر مشہور رومانوی داستان ”ہیر رانجھا” کے رانجھا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے مطابق یہ ایک بڑا شہر ہوا کرتا تھا جو سکھوں کے حملوں کے باعث ایک قصبہ بن کہ رہ گیا۔

تخت ہزارہ رانجھا سے وابستگی کی وجہ سے مشہور ہوا جس کی کہانی پنجابی صوفی شاعر وارث شاہ نے ہمیشہ کے لیے ”ہیر وارث شاہ” میں امر کر دی ہے۔ مقامی مصنف میاں محمد شفیع نے اپنی کتاب ”صدف ریزے” میں تخت ہزارہ کے ثقافتی ورثے کا ذکر کیا ہے جس میں میاں رانجھا کے نام سے ایک پرانی مسجد بھی شامل ہے جس کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔

مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے بھی اپنی کتاب ”تزک بابری” میں تخت ہزارہ کے بارے میں لکھا ہے۔ اس سے آگے مڈھ رانجھا کا قصبہ ہے جس کے قریب لاہور سے اسلام آباد جاتی ہوئے موٹروے ایم 2 چناب پر سے گزرتی ہے۔

چناب اب حافظ آباد کو چھوڑ کہ ضلع چنیوٹ میں داخل ہو چکا ہے جو پہلے ضلع جھنگ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں اس کے ارد گرد معدنیات سے بھرپور کِرانہ کی پہاڑیاں واقع ہیں۔ اپنے تاریخی ورثے، خوبصورت لکڑی کے کام، عمر حیات محل، تاریخی شاہی مسجد اور مختلف دھاتوں کے ذخائر کی بدولت مشہور چنیوٹ، پاکستان کا اٹھائیسواں بڑا شہر ہے۔

چنیوٹ میں موجود پہاڑ شہر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں جن سے ملنے والے نوادرات اور نقوش یہاں پر آباد قدیم تہذیبوں کا پتا دیتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں۔ ان قدیم پہاڑوں پر موجود نشانات سے ماہرین آثارقدیمہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگا پائے ہیں کہ یہ ہڑپہ تہذیب کی تحریر ہے یا پھر محض چٹانی نقوش اور اگر یہ کوئی خاص تحریر ہے تو کس اور کتنی پرانی تہذیب کی؟ چناب، ضلع چنیوٹ کے وسط میں بہتا ہے جہاں اس کے ایک طرف چنیوٹ تو دوسری جانب چناب نگر واقع ہے۔ دونوں شہروں کو چناب کا خوب صورت پل ملاتا ہے جس پر فیصل آباد سے سرگودھا جانے والی لائن اور روڈ بھی گزرتی ہے۔

چناب نگر کا پرانا نام ”ربوہ” ہے جو پاکستان میں قادیانیوں کا مرکز ہے۔ لفظ ربوہ عربی زبان سے لیا گیا ہے جس کے معانی اونچی جگہ کے ہیں۔ تقریباً 50,000 آبادی والے شہر کی آبادی کا 95 فی صد حصہ اقلیتی جماعت احمدیہ کے پیروکاروں سے تعلق رکھتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ربوہ وہ جگہ ہے جہاں محمد بن قاسم نے سندھ اور ملتان فتح کرنے کے بعد دریائے چناب کو عبور کر کے ”چندروٹ” کے راجا کے خلاف جنگ کی تھی۔ چندروٹ موجودہ چنیوٹ کا قدیمی نام ہے۔موجودہ شہر ربوہ کی آبادی سے پہلے یہ جگہ ”چک ڈھگیاں” کہلاتی تھی اور اسے آباد کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو چکی تھیں۔ 1948ء میں جماعت احمدیہ کے مرکز کی قادیان، ہندوستان سے نقل مکانی کے بعد اس جگہ 1034 ایکڑ اراضی حکومت پاکستان سے بارہ ہزار روپے کے عوض مستعار لی گئی اور شہر کا نام ربوہ رکھا گیا۔ 14 فروری 1999 کو اس کا نام بدل کہ چناب نگر رکھ دیا گیا۔ یہاں منعقد ہونے والا سالانہ ختم نبوت جلسہ پاکستان کے بڑے اجتماعات میں سے ایک ہے۔کچھ جنوب مغرب میں چلیں تو چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ واقع ہے۔ یہ بھی ایک قدیم علاقہ ہے جسکا ذکر اس کے خوب صورت طرزتعمیر اور جھروکوں کی وجہ سے تزکِ بابری میں ملتا ہے۔

بھوانہ سے آگے چناب ہیر سیال کے ضلع جھنگ میں داخل ہو چکا ہے جہاں مشہور قصبہ ”کھیوا” اس کی مشرقی جانب واقع ہے۔ یہ صاحباں کا گاؤں ہے جوچناب کنارے ہماری دوسری کلاسیکی رومانوی داستان کا مرکزی کردار ہے۔مرزا اور صاحباں رشتہ دار تھے اور بچپن سے اکھٹے پڑھتے رہے تھے، نہ جانے کب ایک دوسرے کے پیار میں کھو گئے۔ تاریخ داں اس واقعے پر متفق ہیں کہ ایک بار معلم نے مرزا کو چھڑی سے مارا تو صاحباں نے اپنی ہتھیلی بند کرلی اور جب اس نے ہتھیلی کھولی تو اس پر چھڑی کے نشان تھے۔ یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور مرزا کو واپس اس کی ماں کے پاس بھیج دیا گیا لیکن تب تک عشق دلوں میں گھر کر چُکا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مرزا ایک بہترین تیرانداز اور گھڑ سوار بن چکا تھا۔ مرزا کے جانے کے بعد صاحباں کے باپ کھیوا خان نے اس کا رشتہ کر دیا۔ شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو صاحباں نے مرزا کو پیغام بھجوایا اور مرزا شادی والے گھر سے صاحباں کو اٹھا لے گیا۔

راستے میں سفر کی تھکان سے مغلوب مرزا، ایک گھنے درخت تلے سو گیا ادھر صاحباں نے مرزا کے تیر توڑ دیے کیوںکہ وہ جانتی تھی کہ مرزا ایک قابل تیرانداز ہے اور یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ مرزا کے نشانے پر اس کے بھائی ہوں۔ صاحباں کا خیال تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو منا لے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ان دونوں کا پیچھا کرتے کرتے صاحباں کے بھائی وہاں تک پہنچ گئے اور مرزا کو مار دیا، جب کہ صاحباں کے بارے میں کچھ کہتے ہیں کہ وہ مرزا کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی اور کچھ کے مطابق اس کے بھائی اسے محل واپس لے گئے اور وہاں پر اسے مار دیا گیا۔اس کہانی پر بھی پاکستان و ہندوستان میں کئی فلمیں بن چکی ہیں جب کہ نظم کی شکل دے کر اس لازوال داستان کو شاعر پیلو نے شہرت بخشی ہے۔

یہاں سے آگے خانیوال سے سرگودھا جانے والی مرکزی ریلوے لائن اسے کراس کرتی ہے اور پھر اس کے کنارے محبت کا شہر جھنگ آ جاتا ہے۔جھنگ، ساندل بار کا مشہور شہر ہے جو اپنے لوک میلوں، تہواروں، عرسوں، لوک فن کاروں، پہناووں اور انگریزوں کے خلاف اپنی بغاوت کے لیے جانا جاتا ہے۔ جھنگ شہر، سردار رائے سیال نے 1288ء میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ جلال بخاری کے کہنے پر آباد کیا۔ سیال قبائل نے جھنگ پر 360 سال حکومت کی۔ آخری سیال حکمران احمد خان تھے، جنھوں نے 1812ء سے 1822ء تک حکومت کی۔ اُن کے بعد حکومت سکھوں کے ہاتھ آئی اور پھر ان سے انگریزوں کے قبضے میں گئی جنہوں نے اس علاقے سے کھڑے ہونے والے جنگ آزادی کے ہیرو رائے احمد خان کھرل کی وجہ سے اسے ہمیشہ پس ماندہ ہی رکھا۔

جھنگ کا ایک اور حوالہ محبت بھی ہے۔ چناب کنارے محبت کی اس سرزمین سے ہیر سیال جیسی مٹیارن نے جنم لیا رانجھے سے جس کے عشق کی داستان، چناب کہانیوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔بہت سے مصنفین و شعرا نے یہ کہانی لکھی، لیکن ان میں سے سب سے مشہور وارث شاہ کی لکھی ہوئی ہیر وارث شاہ ہے۔ مختصر کہانی یوں ہے کہ تخت ہزارے کا میاں مراد بخش عرف رانجھا باپ کے مرنے کے بعد بھائیوں سے تنگ آ کر گھر چھوڑ دیتا ہے اور پھرت پھرتے ہیر سیال کے جھنگ آ پہنچتا ہے۔ یہاں جب وہ ہیر کو دیکھتا ہے تو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ہیر بھی رانجھے کی ونجلی (بانسری) کے سحر میں اس کی شیدائی ہوجاتی ہے اور یہ دونوں چھپ کہ ملنے لگتے ہیں یہاں تک کہ ہیر کا چاچا کیدو اسے پکڑ لیتا ہے اور اس کی شادی کھیڑوں میں کر دی جاتی ہے۔

ماہی ماہی کوکدی میں آپے رانجھن ہوئی

رانجھن رانجھن ہر کوئی آکھے ہیر نہ آکھے کوئی

(شاہ حسین)

ادھر عشق میں نا کامی سے رانجھے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ دوبارہ آوارہ گردی کرنے لگا۔ ایک دن اس کی ملاقات بابا گورکھ ناتھ سے ہوئی جو جوگیوں کے ایک فرقے کن پھٹا کا بانی تھا۔ اس کے بعد رانجھا بھی جوگی بن گیا۔ اس نے اپنے کان چھدوائے اور جوگی بن کر رنگ پور پہنچا جہاں ہیر بیاہی گئی تھی۔ یہاں اس نے سیدو کھیڑے کے مکان پر صدا لگائی جسے پہچان کہ ہیر اپنی نند سہتی کے ساتھ اس سادھو کو خیرات دینے باہر نکلی۔ ہیر نے رانجھا کو پہچان لیا۔ رانجھا نے رنگ پور میں ڈیرہ لگا لیا اور خیرات کے بہانے ہیر کا دیدار کرتا رہا۔

یہاں سے آگے اس داستان پر بہت سے لوگوں کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کسی کے مطابق بیٹی کی ضد سے مجبور ہیر کے والدین دونوں کی شادی پر رضا مند ہوگئے مگر حاسد کیدو نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا اور کوئی کہتا ہے کہ ہیر کو زہریلے سانپ کے ڈسنے پر علاج کی غرض سے رانجھے جوگی کے ساتھ بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ فرار ہو جاتے ہیں اور کھیڑے انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ کہیں لکھا ہے کہ جھنگ کہ قریب پہنچنے پر سیال انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

بے ادباں نہ سارا ادب دی گئے او جہاں تھیں وانجھے ہو
جیہڑی تھاں مٹی دے بھانڈے کدے نہ ہوندے کانجے ہو

جو مڈھ قدیم دے کھیڑے آہے کدے نہ ہوندے رانجھے ہو
جیں دل حضور نہ منکیا باہو دوہیں جہانے وانجھے ہو

(حضرت سلطان باہو)

ہیر رانجھا کی کہانی پر مبنی بھارت اور پاکستان میں متعدد بار ’’ہیر رانجھا‘‘ نام کی ایک فلمیں بن چکی ہیں۔ پنجاب میں تین صدیوں تک اس کو شادی بیاہ، میلوں اور دیگر مواقع پر گایا اور سنا جاتا رہا ہے۔ آج بھی پنجاب کے دیہات میں بزرگ شخصیات اس سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ یہ تو ایک کہانی ہے جسے اکثر لوگ حقیقت نہیں مانتے اور تاریخی طور پر بھی اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ دوسرا حضرت بابا بلھے شاہ، حضرت سچل سرمست، حافظ برخوردار اور دیگر صوفی شعرا نے ہیر رانجھا کا جو تصور پیش کیا وہ عاشقی کا تاثر نہیں دیتا بلکہ دونوں کے روحانی مرتبہ و مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہیر کا مزار بھی جھنگ میں واقع ہے۔واپس چناب کی طرف آتے ہیں۔

جھنگ سے ہی کچھ جنوب میں تریموں کے مقام پر کشمیر و پوٹھوہار کا پانی لے کردریائے جہلم اس میں آن ملتا ہے۔ اسی جگہ تریموں ہیڈ ورکس واقع ہے۔1939 میں بنائے جانے والے اس بیراج سے نکلنے والی واحد نہر تریموں – سدھنائی لنک کینال ہے جو چناب کا پانی لے کہ خانیوال میں دریائے راوی پر بنے سدھنائی ہیڈورکس میں مل جاتی ہے۔یہیں چناب کے دوسری جانب اٹھارہ ہزاری واقع ہے جس کے قریب تھل کا ریگستان ہے۔کچھ جنوب میں سفر کریں تو ہم چناب کے ساتھ شور کوٹ شہر پہنچ جاتے ہیں۔

شور کوٹ جھنگ کی تحصیل ہے جہاں پاک فضائیہ کی اہم ایئر بیس موجود ہے۔ قلعہ شورکوٹ کی بنیاد مشہور راجا اشور نے رکھی تھی اس لیے علاقے کو شورکوٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس شہر سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر شور کوٹ چھاؤنی اور شور کوٹ چھاؤنی جنکشن واقع ہے۔ یہ شہر صوفی بزرگ سید بہادرعلی شاہ اور شاہ محمود غازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

شور کوٹ سے آگے گڑھ مہاراجا ہے جہاں مشہور صوفی حضرت سلطان باہوؒ کا مزار واقع ہے۔ عہد شاہجہاں میں شور کوٹ میں پیدا ہونے والے صوفی بزرگ سخی سلطان باہوؒ کا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ہے۔ آپ کے والد سپاہی تھے۔ آپ ایک صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔ سخی سلطان باہو کی والدہ بی بی راستی عارفہ کاملہ تھیں۔ سخی سلطان باہو کی پیدائش سے قبل ہی بی بی راستی کو ان کے اعلیٰ مرتبہ کی اطلاع دے دی گئی تھی اور ان کے مرتبہ ”فنا فی ھُو” کے مطابق ان کا اسمِ گرامی باہُو الہاماً بتا دیا گیا۔ آپ نے ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔

جس چیز نے آپ کو شہرت دوام بخشی وہ ابیات باہو ہے۔ اس کے ہر مصرعے کے بعد ہُو آتا ہے جو ذات باری تعالٰی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ خاص رنگ سخن باہو کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ آپ کی تمام شاعری تصوف سے مملو ہے۔ آپ کا عرس ہر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو گڑھ مہاراجا میں منایا جاتا ہے۔

یہاں احمد پور سیال کے پاس جھنگ کا اختتام ہوتا ہے اور یہ خانیوال کی حدود میں داخل ہوتا ہے جہاں ”ستیاں والا” کے مقام پر راوی اِس میں آ ملتا ہے۔ ضلع خانیوال اور مظفرگڑھ کی مختصر سی حد بندی کرتا ہوا یہ ضلع ملتان کے مغرب میں آ جاتا ہے جہاں دوسری طرف ضلع مظفرگڑھ واقع ہے۔مظفرگڑھ کی طرف لنگر سراں کے قریب اس میں ”تونسہ پنجند لنک کینال” شامل ہوتی ہے جو دریائے سندھ پر تونسہ بیراج سے نکلتی ہے۔ دوسری طرف ملتان میں بوسن کا علاقہ ہے جو آموں کی پیداوار اور مویشی بانی کے لیے مشہور ہے۔کچھ جنوب میں ملتان کینٹ کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔

یہیں ملتان سے مظفرگڑھ اور کوٹ ادو جانے والی لائن اس پر شیر شاہ پل سے گزرتی ہے۔ شیر شاہ پل ملتان و مظفرگڑھ کے بیچ مرکزی رابطہ پُل ہے۔پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ملتان، دنیا کے قدیم ترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ قبلِ مسیح سے بھی پہلے کی ہے۔ اسلامی تاریخ کی بات کی جائے تو ملتان کو سب سے پہلے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔

ان کے بعد محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کیا اور اسے اپنی حکومت میں شامل کیا۔ 1175 عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لیا۔ غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اس کو اپنا پایہ تخت بنائے رکھا، جن میں خاندانِ غلاماں ،خاندانِ خلجی، خاندانِ تغلق، خاندانِ سادات، خاندانِ لودھی اور پھر مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا۔ 1857 کی جنگ ِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ملتان پر مکمل قبضہ کر لیا جو برصغیر کی آزادی تک جاری رہا۔اس شہر کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔

صوفیاء ، مزار و درگاہیں، سوہن حلوہ، ہندوؤں کا قدیم پرہلاد مندر، ملتانی کاشی گری، فنِ کھسہ سازی، گرد و گرما اور رسیلے آم۔ یہاں چناب کی دوسری جانب مظفرگڑھ واقع ہے جس کی بنیاد 1794 میں نواب مظفر خان شہید نے رکھی تھی۔ دو دریاؤں کی بیچ واقع یہ ضلع پنجاب کے زرخیز ترین اضلاع میں سے ایک ہے جہاں بہترین کپاس، آم اور گندم پیدا ہوتی ہے۔چناب اپنے اختتامی سفر پر رواں دواں ہے جہاں یہ خان پور، شجاع آباد، خان گڑھ ، فیض پور، شہرسلطان، شاہ پور اور مڈ والا سے ہوتا ہوا بہاولپور کی حدود میں آجاتا ہے۔ یہاں خشک دریائے ستلج اس میں جا ملتا ہے اور کچھ ہی آگے مغرب میں مظفر گڑھ بہاولپور سرحد پر علی پور کے قریب ” پنجند ہیڈ ورکس” آ جاتا ہے۔

پنجند ہیڈورکس پنجاب کے بڑے بیراجوں میں سے ایک ہے جہاں ایک زمانے میں پانچوں دریاؤں (روای ، چناب، ستلج، بیاس، جہلم) کے پانی کا سنگم ہوتا تھا۔پنجند کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مہا بھارت کے قصے کہانیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے جو ”پنجا ندا” (پانچ ندیاں) کے حوالے سے ہے۔

پنجاب کی تاریخ کا پنجند سے گہرا تعلق ہے، مسلمانوں کی آمد سے پہلے پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی تک تھا اور اسیسپت سندھو (ست دریاؤں کی سرزمین) کہلاتا تھا۔1922ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت اس دریا پر ہیڈ ورکس کی تعمیر شروع ہوئی جو 1932ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔

اس منصوبے کے تحت ہیڈ پنجند سے دو بڑی نہریں ”عباسیہ نہر” اور ”پنجند کینال” اور بعدازآں نیو عباسیہ کینال نکالی گئیں جو ضلع بہاول پور و رحیم یار خان سمیت چولستان کے وسیع علاقہ کو سیراب کرتی ہیں۔

انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث آبپاشی کا ایک بڑ ا ذریعہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، ہیڈ پنجند سے نکلنے والی نہریں جو چولستان کو سیراب کرتی تھیں، ریت اور مٹی سے اٹ کر اپنی صلاحیت کھو چکی ہیں جس کی وجہ سے چولستان کا 64لاکھ ایکڑ رقبہ صحرا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اور اس کے تاریخی مقامات اس ملک کی شناخت ہوتے ہیں جنھیں آنے والی نسلیں “ثقافتی ورثے” کے طور پر سنبھال کر ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔

پنجند تاریخی اعتبار سے رومانیت کی حامل سرزمین رہی ہے جسے بابا بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور ابراہیم ذوق جیسے شعراء نے موضوع سخن بنایا۔ پانچ دریاؤں کے ملاپ کا تصور ہی انسانی ذہن کے لیے دل چسپی کا حامل ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کے دوردراز علاقوں سے لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ہیڈ پنجند کے پاس صرف ایک کمرے کا چھوٹا سا میوزیم موجود ہے جس کی صفائی بھی نہیں کی جاتی۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ پاکستان ٹورازم کی سرکاری ویب سائٹ پر ہیڈ پنجند جیسے تاریخی اور تکنیکی لحاظ سے اہمیت کے حامل مقام کا کوئی ذکرتک موجود نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ کوئی سہولیات میسر ہیں۔ اس بیراج سے آگے چناب کو دریائے پنجند بھی کہا جاتا ہے۔

یہاں اس کی جنوب مشرقی جانب ضلع رحیم یار خان کی حدود شروع ہو چکی ہے جہاں اس کے کنارے زرخیز میدان واقع ہیں۔ مظفر گڑھ کی جانب ”سیت پور” چناب پر آخری بڑا قصبہ ہے۔ یہ قدیم قصبہ طاہر خان ناہڑ کے مقبرے کی بدولت جانا جاتا ہے۔

1880 کی دہائی میں بنی شاہی مسجد بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔یہاں سے آگے بل کھاتا چناب مختلف شاخوں میں منقسم ہو جاتا ہے اور بستی گھاگھڑی پہنچتا ہے۔بستی گھاگھڑی کے قریب ہی وہ مقام ہے جہاں ہماچل و کشمیر کا چندر بھاگا پنجاب کا چناب بن کہ خود کو سندھو ک سپرد کر دیتا ہے۔ سندھو ندی اسے ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

یوں اپنے پانیوں میں محبت گھولے، ہماچل کی وادیوں کی خوبصورتی سموئے، کشمیر کے زعفرانی ذائقے لیے، پنجاب کے میدانوں کی زرخیزی اوڑھے چندربھاگاسندھ میں ضم ہو جاتا ہے۔

وہ چاند تاروں کے سارے قصے

وہ ہیر رانجھے کی سب کہانی

وہ لیلٰی مجنوں کی چاہتوں کے

سنائیں گے جب فسانے خود کو

تو چپکے چپکے

پھر ان کے دل میں

چناب لہریں ابھار دے گا

تو سوہنی کچے گھڑے پہ بیٹھی

مسافتوں کو سمیٹ لے گی

کہیں سے تیروں کی جھولی بھر کے

صاحباں تلملا اٹھے گی

اور تپتے صحرا میں کھوجتی سی

سسی کو پنوں تلاش لے گا

پھر اس طرح کی ہزاروں باتیں

ہزاروں قصے سنا کریں گے

اور چاند ماموں کی ٹھنڈی لو میں

گداز راتیں گزار دیں گے

اور اپنی اپنی انا کی خاطر

ہم اپنی چاہت کو مار دیں گے

پرانے قصے پرانی باتیں

بھلا چکو جب تو لوٹ آنا

چناب کی خوب صورت تصاویر کے لیے میں مشہور فوٹوگرافر ایم بلال ایم (منظرباز) کا شکرگزار ہوں۔

(ایسی دیگر تحریروں کے لیے آپ فیس بک پر میرا پیج shahnamaدیکھ سکتے ہیں)۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔