موسماتی تبدیلی سے جنگلی حیات کی زندگیاں دشوار، پرندوں کی کئی اقسام معدوم

آصف محمود  جمعـء 13 مئ 2022
موسمیاتی تبدیلی کے جنگلی حیات اور پرندوں پر اثرات(فوٹو فائل)

موسمیاتی تبدیلی کے جنگلی حیات اور پرندوں پر اثرات(فوٹو فائل)

 لاہور: موسمیاتی تبدیلیوں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب ہونے لگے، مساکن تبدیل ہونے کی وجہ سے پرندوں کی کئی انواع معدوم ہوچکی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ صرف انسانوں بلکہ جنگلی حیات پربھی انتہائی مضراثرات مرتب ہورہے ہیں، کنٹرولڈ انوارئمنٹ میں بعض جنگلی جانوروں کی آبادی توبڑھ رہی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کی افزائش میں کمی آرہی ہے جب کہ چڑیا گھروں میں رکھے گئے جانوروں اور پرندوں کے بریڈنگ سیزن میں بھی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔

 

پاکستان میں جنگلی حیات کے ماہر عاشق احمد نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کاجنگلی حیات پردوطرح سے اثرپڑرہا ہے۔

انہوں نے دونوں وجوہات کچھ اس طرح بتائی کہ جن جانوروں، پرندوں اور پتنگوں کی کئی انواع معدوم ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں، اس کی وجہ ان کی خوراک بننے والے پودے اور مسکن ہیں جو ختم ہورہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سفید رنگ کی ایک تتلی پہلے عام دیکھی جاتی تھی جو اب تقریبا ناپید ہوگئی ہے، قدرتی چرا گاہیں ختم ہورہی جس سے وائلڈ لائف بھی متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا اثر ہمارے گلیشیئرز پر نظرآرہا ہے، جو گرمی بڑھنے کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سیلاب کا باعث بن رہے ہیں۔

عاشق احمد علی کا کہنا تھا کہ ہماری قدرتی ویٹ لینڈز جو پانچ فیصد سے بھی کم رہ گئی ہیں اور اس وقت مصنوعی بیراج ،ڈیم اور جھلیں ہیں، جہاں کبھی سیلاب آجاتا ہے تو کبھی پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

انہوں نے بتایا دوسری جگہوں سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے پرندوں کو جون، جولائی میں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تو اس وقت یہاں سیلاب آجاتے ہیں اور اکتوبر، نومبر میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں پانی نہیں ملتا۔

جہاں پہلے 200 مرغابیاں دیکھی جاتی تھیں وہاں اب 50 نظرآتی ہیں، مہاجر پرندوں کے پاکستان آنے اور واپس جانے کے وقت میں ہرسال 10 ،15 دن کی کمی، بیشی دیکھ جارہی ہے اور ان کے روٹ بھی تبدیل ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا میدانی علاقوں میں پائی جانیوالی جنگلی حیات کے علاوہ پہاڑوں پر موجود جانور بھی اب مزید بلندی کے علاقوں میں جارہے ہیں کیوں کہ نیچے درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔

بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا اثر جانوروں کی بریڈنگ پر پڑتا ہے، پہلے اگر80 فیصد مادہ بچے دیتی تھیں تو اب ان میں بھی کمی آچکی ہے۔

پاکستان کے نامور ماہر جنگلی حیات کا کہنا تھا کہ کنٹرولڈ ایریاز میں جانوروں کی آبادی تو بڑھ رہی ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کی بریڈنگ سیزن پر اثر پڑا ہے۔

برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں مہاجر پرندوں کی 40 فیصد سے زائد اقسام کم ہو چکی ہیں، 30 برسوں کے دوران ان کی آبادی میں نمایاں کمی ہوئی اور ان میں سے متعدد معدومی کا شکار ہیں۔

برڈ لائف انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ 90 فیصد سے زائد پرندوں کو انسانی سرگرمیوں کے باعث غیرمحفوظ صورتحال اور بقاء کی مربوط کوششوں کی کمی کا سامنا ہے، ان میں تلور، عقاب، مرغابیاں، بطخیں، کونج ، ہنس، نیل سر، سرخاب، مگ اور دیگر آبی پرندے شامل ہیں۔

اس حوالے سے لاہور چڑیا گھر کی ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر مدیحہ اشرف نے بتایا چڑیا گھروں اور وائلڈ لائف پارکوں میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کو کنٹرولڈ ماحول دیا جاتا ہے اور ان کی خوراک اور رہن سہن کو موسم کے مطابق تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود مفلن شیپ اور ہاگ ڈئیر کے ہاں بچوں کی افزائش سیزن سے پہلے ہونا شروع ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چکور سمیت بعض پرندے جو اپریل میں انڈے دینا شروع کرتے اور پھر بچے نکلنا شروع ہوتے ہیں قبل ازوقت گرمی کی وجہ سے بعض پرندوں نے مارچ میں انڈے دیئے اور ان کی ہیچنگ بھی وقت سے پہلے شروع ہوگئی ہے۔

ڈاکٹر مدیحہ اشرف کا کہنا تھا کہ مختلف اقسام کی چڑیاں، طوطے، تیتر، مینا، کوئل، بلبل، فاختہ اور لالیاں کی افزائش فروری کے اختتام سے شروع ہوکر ستمبر تک مکمل ہوتی تھی لیکن اب افزائش مارچ کے اختتام سے شروع ہوکر اکتوبر میں مکمل ہوگی۔

ماہر جنگلی حیات و سابق گیم وارڈن بدر منیر نے موسمیاتی تبدیلی کے جنگلی حیات پر اثرات سے متعلق کہا کہ جنگلی حیات کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لئے ہمیں اپنے ماحول کو بچانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہ ہمیں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانا ہوں گے،جنگلات کا کٹاؤ روکنا اور بڑھتی ہوئی شہری آبادیوں کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

بدر منیر کا کہنا تھا کہ انسان ،جنگلی حیات اور پودے ایکو سسٹم کا حصہ ہیں، ان میں سے کوئی ایک فیکٹر متاثر ہوگا تو اس کا اثر دوسروں پر بھی پڑے گا۔

ماہر جنگلی حیات بدرمنیر کہتے ہیں جنگلی حیات کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ متعلقہ محکموں کی ناقص کارکردگی بھی ہے، انتظامی عہدوں پر ایسے لوگ تعینات کئے جاتے ہیں جنہیں جنگلی حیات اور جنگلات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی یا وہ اس بارے کوئی معلومات نہیں رکھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات کوئی ایک افسر پالیسی بناتا ہے تو اس پرعمل درآمد شروع ہونے پہلے ہی افسر کا تبادلہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کام رک جاتے ہیں۔

بدر منیر نے حکومت کو مشورہ دیا کہ حکومت ان محکموں میں ٹیکنیکل افراد کو ذمہ داریاں دے تاکہ جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔