بُک شیلف

بشیر واثق / عبید اللہ عابد  اتوار 15 مئ 2022
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

ایڈیسن
مصنف: جی۔گلینوڈ کلارک، ترجمہ : ایم وسیم
قیمت:500 روپے، صفحات:144، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ، سیکنڈ فلور، ٹیمپل روڈ، لاہور (03009482775)

انسانیت کی خدمت کرنا ، انسانیت پر احسان ہے کیونکہ خدمت کرنے والا بدلے سے بے پروا ہو کر اپنا کام کرتا ہے، جیسے فلاحی ادارے بنانا وغیرہ ، مگر دنیا میں کچھ افراد ایسے بھی گزرے ہیں جن کے کارہائے نمایاں نے انسانیت کو مشکلات سے نکال کر سکھ کے جہان میں داخل کر دیا ، یہ ایسے افراد ہیں کہ جن کے کئے ہوئے کام صدیاں گزرنے کے باوجود انسانیت کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان ہیروز میں نمایاں نام تھامس ایڈیسن کا ہے جس کی ایجادات نے انسانی تہذیب کا دھارا موڑ دیا اور انسان کو ترقی کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ۔ ایڈیسن کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، جب اسے سکول بھیجا گیا تو اس کے دماغ نے روایتی تعلیم سے بغاوت کر دی کیونکہ جو بچے عام سے سبق کو روایتی انداز میں یاد کر لیتے تھے ایڈیسن کو وہ سبق خاص لگتا اور اس کے دماغ میں نئے نئے سوالات جتم لیتے ، جب وہ یہ سوالات اپنے استاد سے پوچھتا تو وہ اسے جواب دینے کی بجائے ڈانٹ دیتا کہ فضول سوال مت کرو حتیٰ کہ اس نے ایڈیسن کو بد لگام کا خطاب دے ڈالا ، جب وہ اپنے خاندان والوں سے سوال پوچھتا تو کچھ جواب دیتے اور کچھ خاموش رہتے ، اس کی ماں نے دیکھا کہ اس کا بیٹا دوسروں سے مختلف ہے اس لئے اس نے روایتی تعلیم گھر میں دینے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کے سوالوں کے جوابات وہ خود دے سکے ۔

جب وہ دس برس کا ہوا تو سائنسی تجربات کی ایک کتاب اس کے ہاتھ لگی ، تب اس نے دس سال کی عمر سے ہی ان تجربات کو جانچنا شروع کر دیا اور خود بھی کئی تجربے کئے ، یوں اس نے سائنس کے میدان میں قدم رکھ دیا ، اس کا تجسس اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا اور وہ پارے کی طرح متحرک رہتا تھا اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر تلا رہتا، ان تجربات کے لئے اسے پیسے کی بھی ضرورت تھی ، ابتدا میں تو جیب خرچ سے کام چلتا رہا مگر جیسے جیسے تجربات بڑھتے جا رہے تھے، اخراجات بھی بڑھ رہے تھے ، تب اس نے صرف بارہ سال کی عمر سے ہی ریلوے سٹیشن پر اخبار اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنا شروع کر دیں ۔

یوں اس کی عملی زندگی کی ابتدا ہوئی۔ اس نے اپنے تجربات کے شوق میں کسی بھی چیز کو آڑے نہیں آنے دیا ، جو اس کا انسانیت پر احسان عظیم ہے کیونکہ اس کے تجربات سے جو ایک ہزار سے زیادہ ایجادات ہوئیں، انھوں نے انسانی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا ۔

زیر تبصرہ کتاب کہانی کی صورت میں ہے ، ترجمہ بہت رواں اور آسان زبان میں کیا گیا ہے ، قاری تحریر کے بہائو میں بہتا ہی چلا جاتا ہے ، طالبعلموں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ انھیں پتہ چلے کہ زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کیسے آگے بڑھا جاتا ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

انگہ، جو کبھی گائوں تھا اک باکمال
مصنف: پروفیسر محمد عثمان انگوی ، صفحات:136
ناشر: الخلیل فائونڈیشن، 465D ملت ٹائون، فیصل آباد (03326851910)
وادی سون سکیسر کا شمار پاکستان کے خوبصورت علاقوں میں ہوتا ہے، پہاڑوں ، جھیلوں اور جھرنوں کی یہ سرزمین صرف اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ہی اہم اور معروف نہیں ہے بلکہ یہاں کے باسی بھی بڑے باکمال ہیں ۔ اسی وادی کا ایک گائوں انگہ ہے جس کی شہرت مذہبی ، ادبی ، تعلیمی اور فوجی حلقوں میں یکساں ہے ۔ مذہبی حلقوں میں اس لئے کیونکہ یہاں اعلیٰ مقام و مرتبہ والے صوفیاء اور علماء پیدا ہوئے ۔

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کا آبائی وطن انگہ ہے، جو معرفت ، حقیقت اور شریعت کا بحر بے کنار ہیں ۔ اسی طرح حافظ رحمت اللہ ولیؒ ، قاضی عبدالرسول ؒ ، قاضی مقبول الہیٰ ؒ ، قاضی حسین محمدؒ کا تعلق بھی انگہ سے تھا ۔ مولانا سلطان محمودؒ ، مولانا احمد دینؒ ، مولانا محمد صدیقؒ ، مولانا غلام مرشدؒ ، مولانا عبدالحکیم، مولانا کمال الدین، قاضی عبدالجلیل، قاضی محمد خلیل ؒ ، مولانا عبدالحلیم قاسمی ؒ ، مولانا محمد شریفؒ بھی انگہ کے باسی تھے۔

جنھوں نے پورے خطے میں علم و معرفت کے چراغ جلائے ، جن کے علمی مقامات کا ایک عالم معترف ہے ۔ ادب کے میدان میں انگہ کے قابل فخر فرزند احمد ندیم قاسمی نے چار دانگ عالم میں قابلیت کے جھنڈے گاڑے ، قاسمی صاحب شعر و ادب کی دنیا کے شاہسوار تھے ، ادب قبیلہ انھیں اپنا سرخیل مانتا تھا ، انھوں نے شاعری ، تنقید، خاکہ نگاری، افسانے ، مکالمہ نگاری اور ڈرامہ نویسی کے میدان میں ادب کی خدمت کی ، روزنامہ امروز چیف ایڈیٹر رہے۔

ان کے کالم بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے ، ان کا رسالہ ’ فنون‘ ادب میں ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتا تھا ، ان کی خدمات کے صلہ میں انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا ، اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا ’ کیا کمال کے آدمی تھے‘ ۔

انگہ سے عسکری شعبے میں قدم رکھنے والوں میں میجر جنرل بلال، بریگیڈیئر محمد اکرم ، بریگیڈیئر محمد اقبال، بریگیڈیئر ملک محمد شریف ، کرنل محمد زکریا ، کرنل ملک محمد شریف ، کرنل قاضی سراج الرحمٰن ، کرنل قمر پاشا ، کرنل امیر حیدر قاسمی، کرنل محمد ریاض اور کرنل محمد ظہور احمد ، ونگ کمانڈر غلام ربانی ، سکواڈرن لیڈر محمد اقبال شامل ہیں جبکہ جونیئر افسروں اور جوانوں کا شمار مشکل ہے۔ مصنف نے انگہ کا تعارف بہت خوبصورتی سے کرایا ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

برگد کی دھوپ میں
مصنف : سید مبارک شاہ، قیمت: 500 روپے، صفحات: 240
ناشر: بک ہوم ، بک سٹریٹ ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
برگد کا پھیلائو اور گھنی چھائوں سب سے جدا ہے مگر مصنف نے کتاب کا عنوان برگد کی دھوپ میں رکھا ہے جو چونکا دیتا ہے ، دھوپ اور چھائوں متضاد ہیں اور ایک چیز میں دو متضاد خاصیتیں کیسے اکٹھی ہو سکتی ہیں ۔

سید مبارک شاہ اعلٰی پائے کے شاعر ہیں، شاید اسی لئے انھیں یہ استعارہ سوجھا ہے ۔ گوتم کو گیان برگد کی چھائوں میں سمادھی لگانے سے حاصل ہوا اور انھیں یہی گیان اس کی دھوپ میں حاصل ہوا ۔ زیر تبصرہ کتاب منیلا اور بنکاک کا سفر نامہ ہے ۔ پروفیسر سکندر عباسی لکھتے ہیں ’’ یہ کتاب ایک ایسے سفر کا احوال نامہ ہے جو منیلا میں منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے مصنف نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کیا ، (ADB) نے جس کا اہتمام کیا ۔

اس میں وہ سب کچھ تفصیلاً نہ سہی اجمالاً آپ کو پڑھنے کے لیے مل جائے گا ۔ جس کے لیے سیمینار کا انعقاد ہوتا تھا ۔ مصنف نے اس اجمالی تذکرے کو بھی خوب نبھایا ہے جس کے لیے سیمینار کا انعقاد ہوتا تھا ۔ مصنف نے اس اجمالی تذکرے کو بھی خوب نبھایا ہے جن میں مندوبین کی شمولیت ہوئی اور جن میزبانوں سے پالا پڑا سب کا تذکرہ دلچسپ انداز میں آپ کو اس کتاب کے اندر ملے گا ۔

ناشتوں اور عشائیوں میں ملنے والے ماکولات اور مشروبات کی منظر نگاری اور زخرف بیانی کا کمال دکھاتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ‘‘ مصنف کا تعلق فنانس اور آڈیٹنگ سے ہے مگر ان کی تحریر کی شوخی اور شاعرانہ مزاج کہیں سے بھی اس سے لگا نہیں کھاتا ، کیونکہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے عام طور پر شاعرانہ مزاج سے دور ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ خشک مزاج ہوتے ہیں ، مگر مصنف کے قلم کی شوخیاں عروج پر دکھائی دیتی ہیں ۔ دلچسپ سفرنامہ ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

لایموت ( خود نوشت )
مصنف : راشد شاز ، قیمت : 995 روپے
ناشر : بک کارنر ، جہلم ، (واٹس ایپ نمبر : 03215440882 )
جناب راشد شاز بھارت کے ممتاز نوجوان سکالر ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکز فروغ تعلیم و ثقافت مسلمانِ ہند میں پروفیسر ہیں اور نئی دہلی میں واقع ایک غیر منفعتی ادارہ ’ پیس انڈیا انٹرنیشنل ‘ کے سربراہ بھی ۔ فکر اسلامی پر اپنی فکر انگیز تحریروں کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں ۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی تصنیفات کے تراجم عالم عرب اور عالم غرب میں شائع ہو رہے ہیں ۔

ان کی کتابیں از خود ’غلبہ اسلام اور دوسری تحریریں‘ ، ’ ادراک زوال امت ‘ ، ’ کتاب العروج‘ ، ’ متحدہ اسلام کا منشور‘ ،’ مسلم مسئلہ کی تفہیم ‘ ، ’ اسلام : مستقبل کی بازیافت ‘ ، ’ اسلام : مسلم ذہن کی تشکیل جدید‘ ، ’ ہندوستانی مسلمان: ایام گم گشتہ کے پچاس برس‘ ،’ حقیقی اسلام کی بازیافت ‘ ، ’ اسلامی انقلاب کا طریقہ کار ‘ ، ’ بابری مسجد اور مسلمان‘ ، ’ ہم کیوں سیادت سے معزول ہوئے؟ ‘ ،’ علم شرعی کی شرعی حیثیت ‘ ، ’ اسلام میں تفسیر و تعبیر کا صحیح مقام‘ ، ’ اسلام میں حدیث کا صحیح مقام‘ ، ’ اسلام میں فقہ کا صحیح مقام ‘ ،’ اسلام میں تصوف کا صحیح مقام‘ ، ’ لستم پوخ ( روحانیوں کے عالمی پایہ تخت استنبول میں گیارہ دن) ‘ ، ’ کودرا ( پارسی پال کے اساطیری قلعہ میں گیارہ دن ) ‘ اور ’ کونوار بانین ( اسلام کی آفاقی دعوت) ان کی شخصیت کا مکمل تعارف کرواتی ہیں ۔

نوے کے دہائی میں انھوں نے بھارتی مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش شروع کر دی، پہلے دارالحکومت دہلی میں ایک ملک گیر کنونشن منعقد کیا ، پھر ملی پارلیمنٹ قائم کی ، بعدازاں دو جرائد بھی جاری کیے ۔ وہ مسلسل ایک نئی پرامن دنیا کے قیام کے لئے مختلف بین الاقوامی فورمز پر متحرک ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کے سفر میں رہتے ہیں ۔

’ لایموت ‘ مصنف کے ایام طالب علمی کی روداد ہے جو 1990ء تک پیش آنے والے واقعات و حوادث پر مشتمل ہے ۔ اس اعتبار سے یہ محض ایک خودنوشت نہیں ، گوکہ اسے اس پیرائے میں لکھنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران میں آپ کو دبی کچلی آوازیں بھی سنائی دیں گی ، کٹے پھٹے لوگ بھی دکھائی دیں گے ، مسخ شدہ زندہ لاشے بھی جن سے زندگی کی رمق چھین لی گئی تھی ۔

اس اعتبار سے یہ محض ایک شخص کی داستان حیات نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کے حقیقی شب و روز کا قصہ ہے۔ بہتوں کے لئے یہ کتاب چشم کشا ثابت ہوگی ۔ انھوں نے اس خود نوشت کے پردے میں بہت کچھ ایسا رپورٹ کیا ہے جو ویسے نہ لکھا جا سکتا ۔ اسے ضرور پڑھیے گا ۔

ایمونہ ( ناول )
مصنف : سرفراز بیگ، قیمت : 1000 روپے
ناشر : سانجھ پبلی کیشنز ، بک سٹریٹ 46/2مزنگ روڈ ، لاہور (042-37355323)
یہ تین سہیلیوںکی کہانی ہے ۔ ایمونہ ،گلین اور حسینہ ۔ جیسا کہ ناول کے نام سے ظاہر ہے کہ اول الذکر لڑکی کا کردار مرکزی ہے۔ وہ ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے جو دولت کی نمود و نمائش کرتا ہے نہ ہی اپنی اوقات سے باہر ہوکر زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف مذہبی ہوتے ہیں ، دوسری طرف ان کے مرد اپنے دوستوں کے ہاں شراب اور شباب کی محافل کا حصہ بھی بنتے ہیں ۔ ہاں ! خواتین کو ان کاموں سے دور رکھا جاتا ہے۔

گلین کے والد فوجی افسر ہیں، ایسے افسر جو ایماندار ہیں ، لگی بندھی تنخواہ میںگزارا کرنے والے ہیں ۔ وہ فوجیوں کو حاصل مراعات ہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، اس سے زیادہ نہیں ۔ جبکہ حسینہ کا خاندان پہلے کافی غربت میں زندگی گزارتا رہا ۔ تاہم پھر مارشل لاء ادوار میں حسینہ کے والد ٹھیکے لینے لگے اور غیرمعمولی طور پر دولت مند ہوگئے۔ ان کا خواب تھا کہ ایک بار پھر مارشل لا لگے تو وہ ملک کے چوٹی کے امیر ترین افراد میں شامل ہو جائیں گے۔

تینوں لڑکیاں سکول ، کالج سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی میں پہنچ جاتی ہیں ۔ ایمونہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس کی زندگی غیر معمولی طور پر تبدیل ہو گئی ۔ حسینہ خواب دیکھتی ہے کہ اس کی شادی کسی فوجی سے ہو ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ ہر حد سے گزرنے کو تیار رہتی ہے جبکہ تیسری سہیلی گلین سادہ طبیعت کی مالک ہے۔

حسینہ کی زندگی میں ایک فوجی داخل ہوتا ہے ، مہینوں تک دونوں ملتے جلتے رہتے ہیں، جب فوجی کے والدین رشتہ لے کر حسینہ کے گھر جاتے ہیں تو وہاں سے صاف انکار ہو جاتا ہے ۔ پھر وہی فوجی ایمونہ کا منگیتر بن جاتا ہے ، حالانکہ ایمونہ اس فیصلے سے راضی نہیں ہوتی ۔ وہ اپنے والد کو بالواسطہ طور پر سمجھاتی ہے کہ اس نوجوان کا کردار خراب ہے ۔ تاہم ایمونہ کو سمجھایا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے سب مرد ہی ایسے ہوتے ہیں ۔

ایمونہ سوچتی ہے کہ مرد شادی کے بعد ہی کیوں ٹھیک ہوتے ہیں ، پہلے کیوں نہیں ۔ بعدازاں اس کے والد پر بھی نوجوان کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے اور منگنی ٹوٹ جاتی ہے ۔ پھر ایمونہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکا چلی جاتی ہے جہاں اس کی ایک سہیلی گلین پہلے ہی شادی کے بعد پہنچ چکی ہوتی ہے ۔

غیرمعمولی طور پر دلچسپ کہانی میں ایک کردار ایمونہ کی دادی کا بھی ہوتا ہے ۔ بظاہر ان کا کردار عام سا ہی ہوتا ہے جیسا کہ بعض خاندانوں میں ایک مضبوط بزرگ خاتون کا ہوتا ہے تاہم ناول کے آخری ابواب میں دادی ایک اعتراف کرتی ہیں جس کے نتیجے میں کہانی پر پڑے کچھ پردے ہٹ جاتے ہیں ۔ یہ ناول پڑھنے کے لائق ہے ۔ ناول میں کچھ باتیں ایسی بھی لکھی گئی ہیں جو بہت سے لوگ لکھنے کی ہمت نہیں کرتے ۔

اُس دنیا کے جوتے
مصنف : احمد عدنان طارق ، قیمت : 200 روپے
ناشر : المجاہد پبلشرز ، ایم بلاک ٹرسٹ پلازہ گوجرانوالہ ، رابطہ نمبر : 03006450283
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ احمد عدنان طارق پولیس افسر ہیں البتہ وہ بچوں کی کہانیاں لکھتے ہیں ، یہ بہت سے لوگ بالخصوص بچے جانتے ہیں ۔ اب تک 2000 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے اور مزید لکھے جا رہے ہیں ۔ ان کہانیوں میں مختلف ملکوں کی لوک کہانیاں بھی ہیں اور ترجمہ شدہ کہانیاں بھی ۔ ان کی کہانیوں کے دو درجن سے زائد مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔

زیر نظر مجموعہ بھی نہایت دلچسپ اور سبق آموز دو درجن کہانیوں پر مشتمل ہے ۔ ’ بولنے والی بلی‘ ، ’ناگ پھنسی کے گھر میں‘ ، ’گرگٹ کے رنگ ‘، ’ تیسرا تحفہ‘ ، ’ ایک سے بڑھ کر ایک ‘ ، ’ شہزادہ کون‘ ، ’ دلدل والی جادوگرنی‘ ، ’ بھرے جنگل میں‘ ، ’آخری خواہش ‘ ، ’ بلیوں کی ملکہ ‘ ، ’ چاند کا اژدھا ‘ ، ’ نیولا اور خارپشت ‘ ، ’ عقل مند بطخ ‘ ، ’ چودھری صاحب کی دکان پر ‘ ، ’ اس دنیا کے جوتے ‘ ، ’ چاند سے ملنے ‘ ، ’ جادو کا بیج ‘ ، ’ میری شکایت نہ کرنا ‘ ، ’ سویا ہوا گھر ‘ ، ’ کتابوں کی دنیا ‘ ، ’ جادو کا گدھا ‘ ، ’ جادوگر جاسوس ‘ اور ’ قسمت کا کھیل ‘۔

اس وقت ہمارا معاشرہ ایک بڑے المیے کا شکار ہے کہ بچے ، بڑے سب علم اور تفریح کے فطری ذرائع سے منہ موڑ چکے ہیں ۔ کوئی وقت تھا کہ گھر میں بچوں کے لئے مطالعے کے کلچر کو فروغ دیا جاتا تھا لیکن اب ڈیجیٹل علم اور ڈیجیٹل تفریح ، جو انسانی زندگی کو برباد کر رہی ہے ۔ اب بھی انسانیت اس غیرفطری زندگی سے فطرت کی طرف لوٹ آئے تو اس کا بھلا ہو سکتا ہے ۔ آج نہیں تو کل انسان کو واپس فطرت کی طرف پلٹنا ہی ہے ۔ جو جتنی جلد پلٹ آئے ، اسی قدر نقصان سے بچ جائے گا ۔ اس کے لئے پہلا کام تو یہی کرنا ہوگا کہ بچوں کو دوبارہ کتابوں سے جوڑنا ہو گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔