میثاق معیشت؛ ملکی ترقی کے لئے 22 کام نہایت ضروری ہیں

محمد اعجاز تنویر  اتوار 22 مئ 2022
پچھتر برس بعد چارٹر آف اکانومی کیوں ضروری ہے اور اس کے لئے کون سی تدابیر ناگزیر ہیں؟ ۔ فوٹو : فائل

پچھتر برس بعد چارٹر آف اکانومی کیوں ضروری ہے اور اس کے لئے کون سی تدابیر ناگزیر ہیں؟ ۔ فوٹو : فائل

پاکستان پون صدی کی عمر گزار چکا ہے تاہم افسوس ناک امر ہے کہ ابھی تک اس کی معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکی ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر ہے کہ ابھی تک ہمارے معاشی پالیسی ساز یہی طے نہیں کر سکے کہ معیشت کو کھڑا کرنے ، اسے مضبوط بنانے کے لئے کس قسم کی بنیادیں ہونی چاہئیں۔

پاکستانی قوم مسلسل محسوس کر رہی ہے کہ اس کی قیادت نے پچھتر برس ضائع کر دیے ہیں۔ اس وقت یہ قوم شدید احساس زیاں کی شکار ہے اور چاہتی ہے کہ کچھ ایسا قدم اٹھایا جائے کہ 75 برسوں میں ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے۔ اور وہ قدم یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں ایک ’ میثاق معیشت‘ (Charter of Economy) ہو۔

پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے تین برس قبل (چار مارچ 2019ء کو ) اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو پیشکش کی تھی کہ انھیں میثاق معیشت کی طرف آنا چاہیے۔ انھوں نے کہا تھا :’’ آئیں ! مل کر پاکستان اور عوام کو معاشی قوت بنانے کے لئے کام کریں ۔ معیشت کو اولین ترجیح دینے کا وقت آچکا ہے ۔‘‘

گزشتہ دنوں پاکستان کے سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بھی’میثاق معیشت‘ پر خوب بات کی ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں ’ میثاق معیشت ‘ کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے ۔ بلاشبہ اس وقت ملک و قوم کی کشتی کو ایک ایسے میثاق کے ذریعے منجدھار سے نکالا جا سکتا ہے جس میں پاکستان کا ہر شہری سٹیک ہولڈر ہو۔

حکمرانوں ، حزب مخالف کے رہنماؤں ، سیاست دانوں، فوجی جرنیلوں ، بیوروکریٹس ، ماہرین معیشت ، دانش وروں ، صحافیوں ، صنعت کاروں اور تاجروں سمیت ہر ایک کو تمام تر اختلافات ، ذاتی یا گروہی مفادات بھلا کر پاکستان کے مفادات کے لئے ’ میثاق معیشت ‘ کی طرف بڑھنا ہوگا اور جلد از جلد اسے حتمی شکل دینا ہوگی ۔ اس سے پہلے اس موضوع پر پوری سنجیدگی اور خلوص سے بحث مباحثہ کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک اچھے اور موثر میثاق کی طرف بڑھ سکیں ۔

پاکستانی قوم کو ایک ایسے میثاق کی ضرورت ہے جس کی بنیاد مندرجہ ذیل نکات ہوں :

1۔ ٹیکس گزار بزنس مین قومی ہیرو: دنیا میں جن اقوام کو آج تک ترقی یافتہ کا درجہ حاصل ہے، انھوں نے اپنے ٹیکس گزار بزنس مین کو قومی ہیرو کا درجہ دیا ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس گزار بزنس مین سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ نکلنے کے منصوبے بنانے یا پھر پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے ’ ایف بی آر ‘ سے چھپنے ہی میں عافیت محسوس کرتا ہے ۔ ہم نے اپنے بزنس مین کوخوف میں مبتلا کر کے آج تک کچھ حاصل نہیں کیا ، آئندہ بھی کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت ٹیکس ادا کرنے والے کاروباری افراد کو اس قدر پروٹوکول اور سہولیات فراہم کرے کہ ٹیکس نہ دینے والے افراد بھی ایسا ہی پروٹوکول حاصل کرنے کے لئے بڑے شوق و ذوق سے ٹیکس کے دائرے میں داخل ہوں ۔

2۔بالواسطہ ٹیکسیشن کے بجائے براہ راست ٹیکسیشن : ہمارے ہاں اب تک ٹیکس اکٹھا کرنے کا صدیوں پرانا بالواسطہ طریقہ کار ہی رائج ہے ۔ ایکسائز ڈیوٹی،کسسٹم ڈیوٹی اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے ذریعے معیشت کا بھلا نہیں کیا جا سکتا ۔ حکومت کو براہ راست ٹیکسیشن کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اس کے لئے پہلے مرحلے پر بنیادی غذائی اشیاء مثلاً گھی، تیل، شکر، مصالحے، سبزیاں اور چائے وغیرہ پر بالواسطہ ٹیکسز میں کمی لائی جائے۔ اگلے مرحلے پر اس ٹیکسیشن کو ختم ہی کر دیا جائے۔

دوسری طرف انکم ٹیکس، رئیل پراپرٹی ٹیکس، اثاثوں پر ٹیکس ، یہ سب براہ راست ٹیکسیشن ہے ۔ حکومت کو ٹیکسیشن کا نظام اسی انداز میں رائج کرنا چاہیے کہ ٹیکس گزار کا ٹیکس براہ راست حکومت کو پہنچے۔ اس کے نتیجے میں ملکی نظام بہت سی خرابیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ٹیکس گزار ٹیکس دینے میں خوشی محسوس کریں گے جبکہ حکومت قومی خزانہ بھرنے پر نازاں ہوگی ۔

3۔ ٹیکس نیٹ بڑھائیں نہ کہ ٹیکس کی شرح : سمجھ دار حکمران سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح نہیں کرتے بلکہ سونے کا انڈہ مسلسل حاصل کرنے کی ترکیب اختیار کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں ہمیشہ واویلا مچایا جاتا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے تاہم ایسی کوئی تدبیر اختیار نہیں کی جاتی کہ ٹیکس نیٹ بڑھ سکے ، اس کے برعکس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے ٹیکس گزار طبقے پر زیادہ سے زیادہ بوجھ لادنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے ۔ نتیجتاً وہ ٹیکس چوری کا سوچنے لگتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔ اس حکمت عملی کے ذریعے اس قدر زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوگا کہ پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے ۔ ٹیکس کی شرح بڑھاتے چلے جانا عقل مندی نہیں ہے۔

4۔ایف بی آر میں ریفارمز: پاکستان میں شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو ( ایف بی آر ) میں اصلاحات کی جائیں۔ تادم تحریر ایف بی آر بدترین خرابیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ پاکستانی قوم بالخصوص تاجر طبقہ اس ادارے سے قطعی طور پر خوش نہیں ۔ اس لئے ایف بی آر میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں یہ ادارہ اپنے اہداف بہ آسانی حاصل کرے اور اپنی روز افزوں کارکردگی کے ذریعے ملکی معیشت کی مضبوطی کا باعث بنے۔ یقیناً ان اصلاحات کے ذریعے ایف بی آر بزنس فرینڈلی ہوگا ۔ بھلا کوئی کاروبار اور کاروباری طبقے سے دشمنی کرکے یا انھیں ناراض کرکے ، انھیں ڈرا دھمکا کر بھی کچھ حاصل کرسکا ہے؟ اب تک ایف بی آر کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔

5۔ فکس ٹیکسیشن: تاجر طبقے کے بارے میں پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ یہ جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ کاروباری برادری ٹیکس گزاری کے گورکھ دھندوں میں نہیں پڑنا چاہتی۔ وہ ان گورکھ دھندوں میں الجھے گی تو کاروبار کیسے کرے گی؟ نہ ہی وہ اس گورکھ دھندے کے لئے اپنا سٹاف بڑھا کر اپنے اخراجات میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے بہترین راہ یہ ہے کہ جس کا جتنا بڑا کاروبار ہو ، اسی بنیاد پر اس پر ایک متعین ٹیکس نافذ کردیا جائے۔

6۔ سیلز ٹیکس سنگل ڈیجیٹ : پاکستان کا کاروباری طبقہ ایک طویل عرصہ سے حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ سیلز ٹیکس کو سنگل ڈیجیٹ کیا جائے ، اس کے ملکی معیشت پر نہایت اچھے اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ ہوگا کہ کاسٹ آف پروڈکشن کم ہوگی لیکن پرڈوکشن کا میدان وسیع ہوگا اور پروڈیوسرز میں جوش و خروش پیدا ہوگا۔

7۔کا روبار میں تنازعات کی صورت میں ایف بی آر نہ کہ نیب: گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران احتساب کا ادارہ ’ نیب ‘ خوف اور دہشت کی علامت بنا رہا۔ اسی خوف اور دہشت کے سبب لوگوں نے کاروبار ہی سے منہ موڑ لیا ۔کاروباری طبقہ اب بھی خوف کا شکار ہے اور چاہتا ہے کہ کاروباری تنازعات میں ایف بی آر بروئے کار آئے ، نیب نہیں۔ تنازعات کا ایک حل’ ڈیجیٹل بزنس کورٹس ‘ بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔بزنس ایشوز اور تنازعات کے حل کے لئے ملک بھر میں تیز رفتار کام کرنے والی ’ ڈیجیٹل بزنس کورٹس ‘ بنانے سے بزنس گروتھ میں مدد ملے گی۔

8۔ زرعی آمدن پر بھی ٹیکس ضروری : ماہرین معیشت مسلسل اصرار کر رہے ہیں کہ زرعی آمدن پر ٹیکس نافذ کیا جائے ۔ نجانے کیوں ہماری حکومتیں اس سے گریزاں ہیں! اب وقت آچکا ہے کہ زرعی انکم ٹیکس نافذ کیا جائے۔ یہ ملکی معیشت کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔

9۔ امپورٹ بیس ٹریڈ پالیسی یا لوکل پروڈکشن بیس انڈسٹریل پالیسی؟ : ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی سمجھ سکتا ہے کہ معاشی ترقی کی بنیادوں میں لوکل پروڈکشن بیس انڈسٹریل پالیسی ازحد ضروری ہے۔ پاکستان کے اندر پیداوار کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے، اس کے نتیجے میں پاکستانی قوم معاشی ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے خود کفالت کی منزل حاصل کرے گی ۔

10۔ انڈسٹریل را میٹیریل کی لوکل پروڈکشن:  یہ بات بھی نہایت عام فہم ہے کہ انڈسٹریل را میٹیریل کی لوکل پروڈکشن ، ’ میڈ ان پاکستان‘ کی منزل حاصل کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر یہ دروازہ کھولا جائے تو پاکستان میں ایسا بڑا انقلاب رونما ہوسکتا ہے جس کا تصور ہی مسحور کن ہے۔ یہ تصور ناقابل عمل نہیں۔ اگر دنیا کی باقی اقوام یہ راہ اختیار کرسکتی ہیں تو پاکستانی قوم کیوں نہیں؟

11۔ انڈسٹریل قرضہ جات پرکم سے کم مارک اپ : کیا یہ بات بھی بھلا سمجھانے کی ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی کے لئے انڈسٹریل قرضہ جات پر مارک اپ کم سے کم ہونا بہت ضروری ہے ! جب تک ایسا نہیں کیا جاتا ، مضبوط معیشت کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ جن اقوام نے ترقی حاصل کی ہے ، وہ مارک اپ کو مسلسل کم سے کم تر کرتی چلی گئیں حتیٰ کہ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ انھوں نے مارک اپ صفر کردیا ۔ اس کے نتیجے میں ان کی معیشت خوب برگ و بار لائی۔

12۔سمگلنگ کا ناسور: یہ بات ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے کہ سمگلنگ ملکی معیشت کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت سمگلنگ کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ ترقی پذیر مملک میں سمگلنگ کا رجحان زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اسے کم سے کم کرتے ہوئے خاتمے کی منزل کی طرف بڑھنا بہت ضروری ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت بخوبی جانتے ہیں کہ سمگلنگ لوکل انڈسٹری کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔یہ تو اچھی بھلی لوکل انڈسٹری کا ستیاناس کردیتی ہے۔ اس لئے کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیے کہ سمگلنگ ختم ہو۔ اس کی ایک تدبیر یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ سرحدی علاقوں میں ایسی مارکیٹیں قائم کی جائیں جو مکمل طور پر ڈیوٹی فری ہوں۔ ایسے ہی دیگر کئی اقدامات بھی کئے جاسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ مندرجہ ذیل نکات پر غور و فکر اور پھر تیز رفتاری سے مسافت طے کرنے کی ضرورت ہے۔

13۔پاکستان کسٹم کی استعداد کار بڑھانے کے لئے برق رفتار کام کی ضرورت ہے۔

14۔ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ ترقی کا ایک بہترین راستہ ہے۔اب جبکہ پچھتر برس بعد ہم میثاق معیشت کی بات کررہے ہیںتو پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا راستہ اختیار کرکے ہم ترقی کی طرف تیز رفتار سفر طے کرسکتے ہیں۔

15۔ پی آئی اے ، سٹیل ملز ، ریلوے جیسی کارپوریشنز کی بحالی کی جائے یا پھر نجکاری؟ اب اس مخمصے سے نکلا جائے اور کوئی ایک آپشن اختیار کرنے کے لئے قومی یکسوئیحاصل کی جائے۔

16۔ ہمارے بہت سے قومی پراجیکٹس زیر التوا ہیں، ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے نہایت پرجوش انداز میں کمر کس لی جائے اور اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے ۔

17۔ سی پیک ہمارا قومی مستقبل ہے۔امید واثق ہے کہ موجودہ حکومت اس کی تعمیر کے لئے شبانہ روز محنت جاری رکھے گی۔

18۔سی پیک انٹرنیشنل زونز کی تکمیل جنگی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔

19۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ خودمختار سٹیٹ بنک آف پاکستان ہی مضبوط معاشی پاکستان کی ضمانت ہے۔

20۔ ہر لمحہ ، ہر قدم پر ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ خودکفالت ہی میں خودداری ہے ۔

21۔ خودکفالت کے لئے مضبوط معیشت اور مضبوط معیشت کے لیے معاشی پالیسی کا تسلسل ضروری ہے، اسی میں ہماری قوم کی بقا مضمر ہے۔

22۔ حکومت کا آخری سال میں الیکشن جیتنے کے لئے ڈویلپمنٹ فنڈ کا بے جا اور بے دریغ استعمال بند ہونا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔