عمران خان کی سیاست اور ’’اسلامی ٹچ‘‘

رضوان احمد صدیقی  جمعرات 26 مئ 2022
عمران خان اپنی سیاست میں متواتر مذہب کارڈ کا استعمال کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان اپنی سیاست میں متواتر مذہب کارڈ کا استعمال کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان کی سیاست محض جذباتی عوام کی وجہ سے اب تک زندہ ہے، اور چونکہ عمران خان بھی پاکستانی عوام کے مزاج سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے وہ اپنی سیاست میں مستقل ’’اسلامی ٹچ‘‘ اور ’’حب الوطنی کارڈ‘‘ کا استعمال کرکے عوام کے جذبات بھڑکا رہے ہیں۔

عمران خان کی اس سیاست کا مظاہرہ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دینے لگا تھا اور کرسیٔ اقتدار سے اترنے کے بعد تو عمران خان نے اپنے خلاف بیرونی سازش اور قوم پر بیرونی آقاؤں کی حکومت کا تذکرہ چھیڑ کر انھیں ’حقیقی آزادی‘‘ کے لیے مارچ پر اُکسانا شروع کردیا۔ عمران خان تو اس مذہب کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے کبھی نہیں چوکتے لیکن ان کے حواری بھی انھیں اس ’’اسلامی ٹچ‘‘ کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ جیسے آج کنٹینر پر تقریر کے دوران قاسم سوری نے عمران خان کو اپنی تقریر میں ’’اسلامی ٹچ‘‘ دینے کا مشورہ دیا اور عمران خان نے بھی توقف کیے بغیر ان کے مشورے پر عمل کیا۔

ہمارے بھولے بھالے عوام جو ہمیشہ سے ہی جذباتی مذہبی نعروں اور حب الوطنی کے نام پر بلیک میل ہوتے آئے ہیں، عمران خان کی مردہ سیاست کو پھر سے زندہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے عوام کا وہ ’’جذباتی پوائنٹ‘‘ ہے جس کو ہر سیاستدان نے ہر دور میں خوب خوب استعمال کیا ہے اور ستر سال سے یہ نعرہ خوب اثر دکھاتا رہا ہے۔ عمران خان جو سیاست میں آنے سے پہلے ہی پاکستانی عوام کا اچھی طرح نفسیاتی تجزیہ کرکے آئے تھے وہ بھی بھلا یہ کارڈ استعمال کرنے سے کیسے پیچھے رہتے۔ نتیجتاً چند ماہ پہلے تک وہ عمران خان جس کی ناکام پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث عوام کی اکثریت برا بھلا کہتے نہیں تھک رہی تھی، اب وہی عمران خان ’’مذہبی چورن‘‘ بیچ کر عوام کی نظر میں پھر سے معتبر اور ’’نجات دہندہ‘‘ بن چکے ہیں، جو عوام کو اغیار کی غلامی سے نکالنے کے لیے واحد ’’سچے لیڈر‘‘ ہیں۔

عوام ’’حُب عمران‘‘ میں اس قدر جذباتی ہورہے ہیں کہ اپنے ہی خاندان اور دوستوں کی محفل میں عمران خان کی خاطر بحث و مباحثہ کرکے اپنے تعلقات خراب کررہے ہیں اور دلیل کے بجائے جذباتی باتوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ بلاشبہ مذہب کارڈ کا استعمال ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، لیکن عمران خان نے جس انداز سے اس کارڈ کا استعمال کیا ہے اور نوجوانوں کے جذبات کو ابھارا ہے، خدشہ ہے کہ یہ کارڈ اس بار اپنا منفی رخ پوری شدت سے دکھائے گا اور ملک میں ’’نفرت اور شدت پسندی‘‘ کی وہ آگ بھڑک اٹھے گی جس کا بجھایا جانا ممکن نہ ہوگا۔

اپنی انا کے قیدی عمران خان نے اقتدار کی ہوس میں گیم میں وہ فاؤل کیا ہے جس کا ازالہ ممکن نہ ہوگا۔ عمران خان کے فالوورز میں زیادہ تر وہ نوجوان ہیں جنھوں نے پاکستانی سیاست کا صرف ایک رخ دیکھا ہے۔ عمران خان جب سیاست میں آئے تو یہ فالوورز پنگھوڑے میں تھے، اور اب ان میں سے اکثر جوان ہوکر عمران خان کی شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں۔ ان پرستاروں یا دوسرے معنوں میں عمران خان کے پجاریوں کے سامنے عقلی دلائل یا حقائق کا تذکرہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ ان پرستاروں کو سوچ صرف اس بات سے شروع ہوکر اس پوائنٹ پر ہی ختم ہوجاتی ہے کہ عمران خان ہی واحد ’’سچا اور ایماندار‘‘ لیڈر ہے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی برائی یا مخالفت یہ برداشت نہیں کرسکتے۔

عمران خان کو جس طرح اقتدار سے محروم کیا گیا وہ انتہائی غلط طریقہ کار تھا۔ عمران خان کی سیاست اپنی ناکام پالیسیوں اور ’’ہٹ دھرمی‘‘ کے باعث خود ہی خاتمے کے قریب تھی، لیکن عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹا کر انھیں دوبارہ زندہ ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ عمران خان دوبارہ انتخابات کے لیے زور تو دے رہے ہیں، لیکن وہ اپنے اقتدار کے چار سال میں ایسے کون سے کارہائے نمایاں سرانجام دے کر آئے ہیں یا آئندہ کے لیے ان کے پاس ایسا کون سا جادو کا چراغ ہے کہ وہ تمام مسائل چٹکی بجا کر حل کردیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے منطقی جواب خود عمران خان کے پجاریوں کے پاس بھی نہیں ہیں۔

پاکستان کی سیاست پر سیاہ اندھیرے منڈلا رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اقتدار سے باہر ہوکر وہ خطرناک ہوجائیں گے۔ یقیناً ان کی بات درست تھی، وہ خطرناک ہوچکے ہیں لیکن اس وقت کی اپوزیشن اور حالیہ حکومت کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کے لیے۔ انتخابات نہیں ہوتے تو عمران خان دھرنوں جلسوں کی سیاست کے ذریعے عوام کا جینا دوبھر کیے رکھیں گے اور انتخابات ہوجاتے ہیں کسی طریقے سے عمران خان دوبارہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ’’میں سب جانتا ہوں‘‘، ’’مجھے سب پتہ ہے‘‘، ’’میں یہ… میں وہ‘‘ اور ’’سب کچھ کیا دھرا پرانے لوگوں کا ہے‘‘ ’آپ نے  گھبرانا نہیں ہے‘‘ جیسے لگے بندھے جملوں سے عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ اور خدانخواستہ عمران خان انتخابات ہار گئے تو جس طرح آج اقتدار کی خاطر ملک میں انارکی اور انتشار کی آگ بھڑکا رہے ہیں، بعد میں بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور عمران خان کے چاہنے والے ’’بھیڑ چال‘‘ کا شکار ان کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔ یعنی یہ معاملہ تو سانپ کے منہ میں اُس چھچھوندر کی مانند ہوگیا جسے نہ نگلتے بنے، نہ اُگلتے۔

اللہ ہی پاکستان کی حفاظت کرنے والا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔