پاکستان بزنس فرینڈلی ملک کیسے بن سکتا ہے؟

محمد اعجاز تنویر  پير 30 مئ 2022

جب بھی کوئی کاروباری کمپنی اپنا کاروبارکسی دوسرے ملک میں بڑھانے کا فیصلہ کرتی ہے ، وہ جائزہ لیتی ہے کہ کون سا ملک اس کے لئے بہتر ہوگا۔

وہ خوب چھان پھٹک کے بعد کسی ایک ملک کا انتخاب کرتی ہے اور پھر وہاں اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے اگلے مراحل طے کرتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ وہاں آپریشنل اخراجات کتنے اٹھیں گے ، افراد کار پر کتنا خرچ آئے گا؟ پھر دیکھا جاتا ہے کہ حکومت کتنا ٹیکس عائد کرتی ہے؟ کاروبار سے متعلق اس کی پالیسیاں کیا ہیں؟

اس کے علاوہ ان سوالات پر بھی ضرور غور کیا جاتا ہے کہ وہاں مینوفیکچرنگ پر اخراجات کس قدر اٹھتے ہیں؟ کرپشن کے باب میں وہ ملک کیسا ہے ؟ ٹیکسیشن کا ماحول موزوں ہے یا نہیں؟ طرزحکومت کس قدر صاف اور شفاف ہے؟ اس تناظر میں سب سے زیادہ بزنس فرینڈلی ملک وہ ہوتا ہے جہاں زیادہ اخراجات نہ اٹھیں اور کاروباری استحکام نصیب ہو۔ ایسا ہی ملک سرمایہ کاروں اور کارپوریشنز کے لئے جنت قرار پاتا ہے۔

صرف غیرملکی سرمایہ کار ہی ایسے ملک کی طرف رخ نہیں کرتا بلکہ وہاں کے مقامی کاروباری طبقہ میں بھی کاروبار کرنے کے لئے خوب جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں جس ملک میں غیرملکی سرمایہ کار انویسٹمنٹ کا منصوبہ بنائے، مقامی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ اٹھا کر باہر جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں کام کرنے کا سوچے، اس ملک کی قسمت پر کوئی کیوں نہ ناز کرے۔

٭بزنس فرینڈلی ممالک کون کون سے ہیں؟

مختلف جائزہ رپورٹس کے مطابق دنیا کے50 سب سے زیادہ کاروبار دوست (مجموعی طور پر) ممالک کی فہرست میں سب سے پہلے سوئیٹزر لینڈ ہے ، اس کے بعد بالترتیب پانامہ ، کینیڈا ، ڈنمارک ، سویڈن ، نیوزی لینڈ ، ناروے ، آئرلینڈ ، فن لینڈ ، نیدر لینڈ ، ملائشیا ، آسٹریلیا ، بلجئیم ، سنگاپور ، آسٹریا ، کوسٹا ریکا ، تھائی لینڈ ، جرمنی ، پرتگال ، سری لنکا ، ویت نام ، انڈونیشیا ، برطانیہ ، ڈومینیکن ریپبلک ، فلپائن، جاپان ، سپین ، فرانس ، سلوینیا ، اٹلی، مراکش ، کمبوڈیا ، سلواکیہ ، یونان ، ایسٹونیا ، لٹویا ، کروشیا ، چلی، جنوبی کوریا ، گوئٹے مالا ، پولینڈ ، لیتھونیا ، انڈیا، پیرو ، امریکا ، یورا گائے ، کینیا ، تیونس ، میانمار ، ایکواڈور ہیں۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات ، قطر اور ہنگری ہیں۔ چین کا نمبر 55 واں ، ترکی کا 69 واں، سعودی عرب کا 77 واں ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو دیکھنا چاہیے کہ مذکورہ بالا ممالک کیسے بزنس فرینڈلی ہیں؟ وہ کون سی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں؟ اور پھر دیکھیں کہ ہم اپنے ملک کو کیسے بزنس فرینڈلی بنا سکتے ہیں؟

ایک اور جائزہ رپورٹ میں دنیا کے ایسے چوٹی کے دس ممالک کی فہرست مرتب کی گئی ہے جہاں کاروبار شروع کرنا سب سے زیادہ آسان ہے ۔2020ء میں ورلڈ بنک کی طرف سے مرتب کردہ اس رپورٹ میں پہلا نمبر نیوزی لینڈ ، دوسرا سنگاپور ، تیسرا ہانگ کانگ ، چوتھا ڈنمارک اور پانچواں جنوبی کوریا ہے۔ ان کے بعد بالترتیب امریکا ، جارجیا ، برطانیہ ، ناروے اور سویڈن ہیں۔ 190 ممالک کی فہرست میں بھارت 63 ویں اور پاکستان108 ویں نمبر پر ہے۔ فہرست کے مطابق قزاقستان، آذربائیجان، کینیا، روانڈا ، ازبکستان ، منگولیا ، بھوٹان ، نیپال، سری لنکا اور تاجکستان جیسے ممالک پاکستان سے بہتر کاروبار دوست ماحول رکھتے ہیں۔

ان ممالک کی رینکنگ چند اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جس میں کاروبار شروع کرنا ، کنسٹرکشن پرمٹ کا معاملہ ، بجلی کا حصول ، رجسٹریشن کا مرحلہ ، قرضہ لینے کی سہولت ، چھوٹے سرمایہ کاروں کا تحفظ ، ٹیکسوں کی ادائیگی، سرحدوں کے اِدھر اُدھر تجارت ، اور معاہدوں کی بابت کوئی تنازعہ ہو جائے تو اس کے حل پر کتنا وقت لگتا ہے ،کتنا خرچہ آتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

ورلڈبنک ہر سال ایسے ممالک کی رینکنگ کرتا ہے۔ سن 2020ء میں آخری رپورٹ جاری کی گئی تھی ، اس کے بعد بعض ایشوز کی بنا پر یہ سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ آخری رپورٹ کے مطابق دنیا کے 115ممالک نے کاروبار کرنے کے معاملے کو آسان کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے خاص طور پر لوگوں کو کاروبار شروع کرنے ، کنسٹرکشن پرمٹس کے معاملات ، بجلی کے حصول اور ٹیکسوں کی ادائیگی کے مراحل کو آسان بنایا ہے۔

نئے کاروباری افراد کے لئے سب سے زیادہ آسانی نیوزی لینڈ میں فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں کی حکومت نے مذکورہ بالا تمام اشاریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کاروبار دوست ماحول بنایا ، اور انٹرپرینیورز کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کی۔ وہاںکی حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ کاروباری میدان میں پہلی بار داخل ہونے والوں کے ہر مرحلے پر اخراجات کم سے کم اٹھیں اور وقت کم سے کم خرچ ہو ۔

حکومتیں سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کے لئے مختلف قوانین بناتی ہیں تاکہ وہ اس دوران لالچ اور ہوس میں مبتلا نہ ہوں، اپنے ورکرز کا استحصال نہ کریں ، ملک کا ماحول تباہ نہ کریں تاہم دنیا میں بعض حکومتیں اس قدر زیادہ قواعد و ضوابط بناتی ہیں کہ اصل مقصد ( کاروبار دوستی ) کو فراموش کر دیتی ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ضابطے (دانستہ یا نادانستہ طور پر ) بناکر کاروباری طبقے کی راہ میں زیادہ سے زیادہ روڑے اٹکا دیتی ہیں۔ یہ ضابطے اس نئے کاروباری طبقے پر بوجھ ہوتے ہیں۔ نتیجتاً انٹرپرینیورز آزادانہ طور پر کاروبار نہیں کرسکتے۔

وہ ہمہ وقت انہی ضوابط کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، ٹیکس اکٹھا کرنے والوں سے میٹنگز کی منصوبہ بندی ہی میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ کسی دوسرے ملک میں کاروبار کرنے کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر خاموشی سے گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسی حکومتیں غیرملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتیں۔ چنانچہ غیرملکی سرمایہ کار زیادہ حساس ہونے کے سبب نجی شعبے کے لئے استحصالی قوانین بنانے والے ممالک سے دور رہنے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں ۔

کس ملک میں بزنس کرنا آسان ہے ؟ اس سوال کا جواب بنیادی طور پر تین سوالات کے جوابات کی بنیاد پر مرتب کیا جاتا ہے۔ اولاً ، حکومت نجی شعبے کی ترقی کے لئے کب ریگولیشن یعنی ضابطے میں تبدیلی لاتی ہے؟ ثانیاً، اگر کوئی حکومت اصلاحات کا نعرہ بلند کرتی ہے تو وہ کس قسم کی اصلاحات متعارف کرنا چاہتی ہے؟ ثالثاً ، ریگولیٹری تبدیلی کے معیشت اور سرمایہ کارانہ سرگرمیوں پر مختلف پہلوؤں سے کس قسم کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ معاشی آزادیوں اور جی ڈی پی کی گروتھ میں ایک لازمی تعلق ہوتا ہے۔ تنخواہوں اور قیمتوں کے تعین میں آزادی، پراپرٹی رائٹس اور لائسنسنگ کے تقاضوں جیسے پہلو معاشی ترقی پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

ورلڈ بنک کی اس رپورٹ کے مطابق جوں جوں وقت گزر رہا ہے، ترقی پذیر ممالک میں کاروبار شروع کرنے کے اخراجات کم ہو رہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر وہاں کی حکومتوں کی ترجیح اول ہے کہ ان کے ملک میں زیادہ سے زیادہ لوگ کاروبار شروع کریں۔ نتیجتاً وہ اپنی پالیسیاں بھی اسی انداز میں تیار کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان ایسے ترقی پذیر ممالک میں شامل نہیں ہے۔ یہاں پالیسیاں اس انداز میں تیار کی جاتی ہیں کہ کوئی کاروبار کرنے ، انڈسٹری لگانے ، ٹیکس ادا کرنے کا سوچے تو اسے اس کی بدترین سزا دی جائے، تاکہ وہ اس ملک سے بھاگ کر کسی دوسرے ملک میں چلا جائے۔ ا

گر وہ کاروبار کرنے، انڈسٹری لگانے کا سوچتا ہے تو اس کی راہ اس قدر زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کہ وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اگر وہ کسی نہ کسی انداز میں کاروبار شروع کر لیتا ہے ، انڈسٹری لگا لیتا ہے ، تو اسے اس قدر زیادہ تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔ اس تناظر میں کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک کو دانستہ طور پر بزنس فرینڈلی نہیں بننے دیا جا رہا ہے۔

اگر کسی معاشرے کو بزنس فرینڈلی بنانا مقصود ہو تو وہاں سب سے پہلے عزت اور تکریم ٹیکس ادا کرنے والے بزنس مین کی ہونی چاہیے ۔ یہاں الٹی گنگا بہتی ہے، سب سے پہلے فوجی جرنیل کی عزت ہوتی ہے ، اس کے بعد سول بیوروکریٹ کی، پھر ججز کو عزت ملتی ہے ، پھر سیاست دانوں کو اور سب سے آخر میں کمانے والوں ، بزنس کرنے والوں ، ٹیکس دینے والوں اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والوں کو عزت ملتی ہے۔ اور پھر انکے بارے میں ایک غلط تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس چور ہیں، وہ بے ایمان ہیں ، وہ اخلاقیات کی پاسداری نہیںکرتے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

بزنس مین بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتا ہے ، وہ بہت سی خدمات کے ساتھ ملکی نظام کو چلانے اور ملکی معیشت کو بڑھانے کے لئے ٹیکس بھی ادا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس6000 ارب روپے کیسے اور کہاں سے اکٹھے ہوئے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو کاروباری طبقہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوگا۔ یہ چھ ہزار ارب روپے انہی کا دیا ہوا ٹیکس ہے۔

اگر وہ ٹیکس نہ دیں تو ٹیکس جمع کرنے والوں کے پلے کیا رہ جاتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کا کاروباری طبقہ سمجھتا ہے کہ سب سے پہلے اس ترتیب کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والے بزنس مین کو معاشرے میں سب سے پہلے عزت ملنی چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں ملک چلے گا اور معیشت مضبوط ہوگی ، معاشرہ پھلے پھولے گا۔

دوسری بات ، انڈسٹری لگانے والے کو زیادہ فائدہ ملنا چاہیے۔ اسے کیک میں سے اس قدر زیادہ حصہ نہیں ملتا جتنا ایک رئیل اسٹیٹ کا بزنس کرنے والے کو ملتا ہے۔ پلاٹ لینا اور بیچنا نہایت آسان کام ہے۔ وہ کچھ پیدا نہیں کرتا ، صنعت کار پیداوار دیتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ والا اپنے ہی ملک میں ایک جیب سے پیسہ نکالتا ہے اور دوسری جیب میں ڈال دیتا ہے جبکہ صنعت کار ایسی چیز پیدا کرتا ہے جو ایکسپورٹ ہونے کی شکل میں بیرون ملک سے پیسہ اپنے ملک میں لانے کا سبب بنتی ہے یوں ملکی معیشت کا حجم بڑھتا ہے۔

یاد رکھنے کی بات ہے کہ جس کام میں منافع زیادہ ہوگا ، سرمایہ کار فطری طور پر اسی شعبہ کا رخ کرے گا۔ ہمارے ہاں جرنیل اور بیوروکریٹس ہاؤسنگ سوسائٹیز کو پہلے نمبر پر لے کر آئے حالانکہ انڈسٹری کو کیک میں سے سب سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھا ۔ جب انڈسٹری کو منافع میں سے زیادہ حصہ ملے گا ، اسے سہولیات ملیں گی ، بنک بھی اسے زیادہ اہم سمجھیں گے تو ملک میں انڈسٹری لگے گی۔ اس لئے آج تعین کر لیا جائے کہ پاکستان کو صنعتی ملک بنانا ہے یا رئیل سٹیٹ کا ملک بنانا ہے۔ کیا دنیا میں کسی نے ایسا ملک دیکھا ہے جہاں سب سے زیادہ اہمیت ، فائدہ رئیل اسٹیٹ کو دیا جائے؟

آپ کو ڈھونڈے سے بھی ایسا ملک نہیں ملے گا سوائے پاکستان کے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انڈسٹری زیادہ لگے گی، پھولے پھلے گی تو ملک کا فائدہ ہوگا ، رئیل اسٹیٹ کے نتیجے میں چند افراد کو فائدہ ملے گا۔

تیسری بات ، تجارتی پالیسی بیوروکریٹس کو نہیں بنانی چاہیے بلکہ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور بزنس مین ہی تجارتی پالیسی بنائیں ، وہی پالیسی بناکر حکومت کو دیں۔ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں تجارتی پالیسی بیوروکریٹس بناتے ہیں۔ وہ سی ایس ایس کی صورت میں ایک امتحان پاس کر کے آتے ہیں، انھیں کوئی عملی تجربہ نہیں ہوتا ، انڈسٹری کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔

جب انھیں تجارتی پالیسی بنانے کو کہا جاتا ہے تو وہ بے چارے دنیا کے مختلف ممالک کی تجارتی پالیسیوں کی نقل کرتے ہیں حالانکہ ہر معاشرے ، ملک کے حالات دوسرے ممالک سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان صرف اسی صورت میں ایک بزنس فرینڈلی ملک بنے گا جب چیمبرز آف کامرس کے مختلف سیکٹرز کے نمائندگان سے پالیسی سازی کروائی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔