’سنی سنائی‘ کا علاج ’کہہ سن کر‘ کرلیں

سمیرا انور  منگل 31 مئ 2022
غلط فہمیوں سے دوریاں بڑھنے میں دیر نہیں لگتی! فوٹو : فائل

غلط فہمیوں سے دوریاں بڑھنے میں دیر نہیں لگتی! فوٹو : فائل

’’آپ نے ایسا ہی کہا ہوگا۔۔۔!‘‘
’’ضرور یہی بات ہوگی، مجھے خود فلاں نے یہ بتایا ہے۔‘‘

اکثر ایسے بہت سے خدشات کا شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اظہار کرتے ہیں۔ ’سنی سنائی‘ بات پر فوراً یقین کر لینا اکثر بیگمات کا شیوہ بن چکا ہے، یہ گلہ کئی حضرات کی زبان سے سنا ہے، جب کہ خواتین یہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کے کان کسی نے بھر دیے ہیں۔ زندگی میں نشیب و فراز تو چلتے رہتے ہیں، لیکن کسی کی باتوں میں آکر اپنے دل میں ایک دوسرے کے لیے غلط فہمیاں پال لینا کہیں کی عقل مندی نہیں ہے۔ لڑائی جھگڑے کس گھر میں نہیں ہوتے۔

انھیں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر کے معاملہ رفع دفع کیا جا سکتا ہے، لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ ذرا سی دیر می کسی بھی بات کو انا کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے سے سنگین حد تک تعلقات خراب کردیے جاتے ہیں، اور بہت تیزی سے سارے معاملات طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ہم غلط فہمی کی بات کرتے ہیں کہ زوجین کے درمیان یہ الجھن کیسے جنم لیتی ہے۔ جب بیوی کسی دوسرے کی زبان سے سنے کہ اس کے شوہر نے اس کے بارے میں کچھ کہا ہے تو وہ اپنے دل میں خدشات کو جگہ دینے لگتی ہیں۔ یہ خدشات اور وہم اس کے دل میں اپنے شوہر کے مرتبے اور رتبے کو کم کرتے کرتے اس مقام پر لے آتے ہیں کہ وہ ان سے بہت زیادہ بدگمان ہو جاتی ہے اور اپنے خول میں سمٹتی چلی جاتی ہے۔

اگر اس وقت غلط فہمیوں کو دور نہ کیا جائے تو فریقین کی زندگیوں میں شدید تلخیاں اور دائمی فاصلے پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہم اپنے گرد و نواح میں ایسے بہت سے واقعات دیکھے اور سنے ہیں کہ میاں بیوی کی آپس میں ناچاقی سے تعلقات خراب ہوئے اور وہ ناچاقیاں دراصل یہ غلط فہمیاں ہی ہوتی ہیں۔ شوہر کہتا ہے کہ اس نے یہ بات ایسے نہیں ایسے کی ہے بیوی کہتی ہے۔

اس نے فلاں کے سامنے یہ نہیں کہا اور نہ ایسی کوئی بات ہے۔ ان ساری باتوں کا آسان حل نکالنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ میاں بیوی افہام و تفہیم سے کام لیں اور کھلے دل سے آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔ اس وقت اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ انھیں اپنے گھر کو بچانا چاہیے۔ انا کو بھول جائیں۔ کچھ باتیں بیوی کو مان لینی چاہئیں کہ اس نے یہ غلط کہا ہے اور کچھ شوہر کو خیال کرنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ بے خیالی میں اس نے بیوی کے لیے کوئی غیر مناسب الفاظ استعمال کیے ہوں۔

معافی مانگنے اور غلطی تسلیم کرنے سے کوئی چھوٹا نہیں ہو جاتا، بلکہ اس سے ایک دوسرے کے دل میں جگہ بنتی ہے، ورنہ آج کل بہت سی بال بچے دار خواتین کے طلاق لینے کی شرح بڑھ گئی ہے۔ ماں باپ میں سے کسی کا اتنا زیادہ نقصان نہیں ہوگا، جتنا اس کا بچوں کے مستقبل پر اثر ہوگا۔ معاشرے میں لوگ انھیں جینے نہیں دیں گے۔کبھی لوگ ان کے باپ پر الزامات لگائیں گے، تو کبھی ماں کے لیے غلط بولا جائے گا۔

بچے احساس محرومی کے ساتھ ساتھ بہت سی معاشرتی برائیوں میں بھی ملوث ہو جائیں۔ ان کے دل میں ماں باپ کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں ہوگی اور ایسے بچے اپنی نجی زندگی بھی تباہ کر بیٹھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ عورت میں صبر اور برداشت مرد سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اسے ہی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ پہلے مرحلے پر ہی اپنے گھر کو لوگوں کی شیطانیت سے بچا لے۔ کوئی اس کے دل میں شوہر کے لیے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش بھی کرے، تو اسے چاہیے کہ اس سے پہلے غوروفکر کرلے، ممکن ہے کہ سنی گئی یا بتائی گئی بات غلط ہو یا ویسے نہ ہو جیسے پیش کی گئی ہے۔

پھر بھی ایسا محسوس ہو تو پہلے پیار محبت سے شوہر سے بات کرے اور اس سے پوچھے کہ یہ بات کس حد تک درست ہے۔ عورت جذباتی بھی بہت ہوتی ہے اور پھر جلد ہی شوہر کے معاملے میں شکی مزاج بھی بن جاتی ہے۔ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سوچے سمجھے اور اس کے بعد اس بات کی تحقیق کرے جو ان دونوں کے درمیان غلط فہمی کی وجہ بنی ہے۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں سے میاں بیوی میں علاحدگی ہو جاتی ہے اور پھر بعد میں پتا چلتا ہے کہ کوئی بات بھی ایسی نہیں تھی کسی نے غلط معلومات دیں تھیں۔

’’کاش! میں اس وقت سوچ لیتی اور ایسا قدم نہ اٹھاتی۔‘‘ یہ پچھتاوا اس کی زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ معاملات پہلے مرحلے پر ہی سنبھال لیے جائیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں آپس میں مل بیٹھ کر حل کی جاسکتی ہیں۔ کوئی قدم بھی جذبات میں نہ اٹھائیں۔ شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے گلے شکوے سنے اور انھیں مثبت انداز میںوصول کرے، تاکہ اس کا آشیانہ بجہ ٹوٹنے سے بچ جائے۔ ورنہ یہ سمجھ لیجیے کہ غلط فہمیاں بپت تیزی سے آپس میں دوریاں پیدا کرتی ہے اور اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔