مملکت کا دیوالیہ ہونا بُرا ہے یا اچّھا؟

سید عاصم محمود  اتوار 26 جون 2022
ایک انوکھے معاشی عمل کی ڈرامائی داستان جو منفی پہلو رکھتا ہے اور مثبت بھی ۔ فوٹو : فائل

ایک انوکھے معاشی عمل کی ڈرامائی داستان جو منفی پہلو رکھتا ہے اور مثبت بھی ۔ فوٹو : فائل

10 جون کو پارلیمنٹ میں بجٹ تقریر کرنے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ پاکستان نے ایک نیوز کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا۔اس میں انھوں نے متنبہ کیا کہ پٹرول ،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہ ہوا تو ملک کا سری لنکا کی طرح دیوالیہ نکل سکتا ہے۔

یہ خطرہ عیاں کر کے اس کی آڑ میں اتحادی حکومت پھر تینوں ایندھنوں کی قیمتیں بڑھاتی چلی گئی۔اور اس عمل نے مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیا۔حکومت کے نزدیک دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ ضروری تھا۔اپوزیشن نے یہ عمل مگر عوام دشمن قرار دیا۔

عوام کی صحت متاثر نہیں ہوتی

وہ کانفرنس میرے علاوہ چچا جان جان بھی دیکھ رہے تھے۔کہنے لگے:’’ہماری حکومت ملک دیوالیہ ہونے کا کہہ کر ہمیں ڈراتی رہتی ہے، جیسے ہم پہ کوئی پہاڑ گر پڑے گا۔ارے بھئی، ملک دیوالیہ ہونے سے عوام کی صحت پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ان کی زندگی یونہی رواں رہے گی۔ہاں ، دیوالیہ ہونے سے حکمران طبقے کی مراعات و سہولیات اور شاہانہ طرز زندگی خطرے میں پڑ جائے گا۔اصل فرق یہ ہو گا۔میں تو کہتا ہوں، ملک کو دیوالیہ ہونے دو۔ان گنت ’’مفتوں ‘‘سے مستفید ہوتے حکمران طبقے کو راہ راست پر لانے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ کہ بعض ماہرین معاشیات بھی چچا جان جیسا نظریہ رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور مغربی سپر پاورز کی ہدایات پہ عمل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھتی اور عوام کی تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔اگر احکامات پہ عمل نہ کرنے سے ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو ہونے دیں۔قرض دینے والے اداروں اور ملکوںکو کہہ دیا جائے کہ جب وافر ڈالر ہوں گے تو ادائی کردیں گے۔تب تک صبر کریں تاکہ ملکی معیشت درست کر لی جائے۔اس طرح ڈالر کے ظالم پنجوں سے آزادی بھی مل جائے گی۔

امکان کم ہے

یہ حقیقت ہے کہ ایک مملکت کا دیوالیہ ہونا کوئی انقلابی واقعہ نہیں۔سچ یہ ہے کہ دور حاضر کی سپرپاورز مثلاً امریکا، چین، جاپان، جرمنی،برطانیہ، فرانس،روس وغیرہ بھی کسی نہ کسی وجہ سے ماضی میں دیوالیہ ہو چکیں۔ایک ملک صرف اس وقت دیوالیہ ہوتا ہے جب وہ غیرملکی اداروں یا ملکوں کو ادائیگی نہ کر سکے اور جو فی زمانہ ڈالر میں ہوتی ہے۔پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا امکان اس لیے کم ہے کہ اس کے 63 فیصد قرضے مقامی مالیاتی اداروں کے ہیں۔ پھر پاکستانی ریاست پہ چڑھے کل قرضوں کا 17 فیصد حصہ غیرملکی مالیاتی اداروں سے لیا گیا ۔یہ ادارے پاکستان کو مزید قرضہ دے دیتے ہیں۔ اس لیے پاکستان آج تک دیوالیہ نہیں ہوا۔

ملک دیوالیہ ہو تو؟

ایک ملک دیوالیہ ہو جائے تو اس کا پہلا نقصان یہ ہے کہ اسے پھر قومی خصوصاً عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے بڑی مشکل سے ملتے ہیں ۔ان کا سود بھی زیادہ ہوتا ہے۔پھر ڈالر،یورو وغیرہ کم ہونے سے بیرون ممالک سے ساری اشیا خریدنا بھی ممکن نہیں رہتا۔گویا دیوالیہ ہونے کے بظاہر منفی عمل میں یہ مثبت پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ پھر دیوالیہ شدہ مملکت کے حکمران طبقے اور عوام کو بھی خودانحصاری کی راہ اپنانا پڑتی ہے۔انھیں آرام وآسائش کی زندگی کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔اپنی جیب کے مطابق اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔اس طرح فضول خرچی سے نجات مل جاتی ہے۔ حکومت میں کرپشن بھی سرمائے کی کمی کے باعث بہت کم ہوتی ہے۔گویا دیوالیہ ہونا ایک ملک کے لوگوں کو خواب ِغفلت کی نیند سے جگا بھی سکتا ہے۔

 عوام دشمن اقدام

پاکستان کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے مزید قرض حاصل کرنے کی خاطر تینوں ایندھنوں کی قیمتیں بڑھائیں مگر یہ عوام دشمن اقدام ثابت ہوا۔وجہ یہ کہ اس طرح مہنگائی میں اضافہ ہو گیا۔پی ٹی آئی حکومت نے قیمتیں منجمند کر رکھی تھیں۔اپوزیشن کا دعوی ہے کہ یہ اقدام عوام میں حکومت کو مقبول کرنے کے لیے کیا گیا مگر اس سے معیشت کو نقصان پہنچا۔سوال یہ ہے کہ حکومت کی اولیّں ترجیح عوام کی فلاح وبہبود ہوتی ہے۔اگر ایندھنوں کی قیمتیں کم رکھ کر پی ٹی آئی حکومت نے عوام کو ریلیف دیا تو کیا یہ غلط فیصلہ تھا؟نیز اس نے آئی ایم ایف کے کہنے پر ایندھنوں کی قیمت بڑھانے سے انکار کر دیا جس سے عیاں ہے کہ عمران خان حکومت نے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھا۔

اتحادی حکومت نے محض نیا قرض لینے کی خاطر آئی ایم ایف کے سامنے سر تسلیم خم کیا ، عوام کو مہنگائی کی قربان گاہ پہ لٹایا اور اس پہ چھری پھیر دی۔ وہ اس طرح کہ عوام پہ سہ طرفہ حملہ کر دیا…ایک طرف ایندھنوں کی قیمتیں تیزی سے بڑھائیں ، دوسری سمت عوام کو دی گئی سبسڈیاں ختم کرنے لگی اور تیسری طرف نئے بجٹ میں ایندھنوں پہ لگے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا۔

اگر نئی حکومت عوام سے مخلص ہوتی تو وہ سب سے پہلے حکمران طبقے کو میسرّ مفت ایندھن ختم کرتی۔کیونکہ اس طبقے کے مردوزن کی تنخواہیں تو لاکھوں روپے میں ہیں اور وہ ایندھن کا خرچ برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔اس طرح کثیر ایندھن کی بچت ہوتی ، عوام کو دی گئی سبسڈیاں برقرار رہتیں اور انھیں مہنگائی کی جہنم میں نہ جھونکنا پڑتا۔مگر بظاہر عوام کی فلاح وبہبود کا دعوی کرنے والی اتحادی حکومت نے عام آدمی ہی کو تختہ مشق بنایا، صرف اس لیے کہ حکمران طبقے کا شاہانہ تام جھام برقرار رکھنے کے لیے نیا قرض مل جائے۔ یہ تو عوام ِپاکستان پہ بڑا ظلم و جبر ہے۔

چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلائے

سوال یہ ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ آخر کیوں پیدا ہوا؟وہ اس لیے کہ پچھلے کئی سال سے پاکستان کا حکمران طبقہ آمدن سے کہیں بڑھ کر خرچ کر رہا ہے۔اس نے اپنا جو شاہانہ سیٹ اپ بنا لیا ہے، اسے برقرار رکھنے کے لے اب ہر سال کھربوں روپے درکار ہیں۔اور یہ رقم قرضے لے کر حاصل کی جاتی ہے۔چناں چہ اس روش کی بدولت پاکستان پہ قرضوں کا انبار جمع ہو چکا۔نتیجہ یہ ہے کہ اس مالی سال(2022-23 ء )پاکستان کا بجٹ 9,502 ارب روپے رہا۔اور اس میں سے 3,950 ارب روپے قرضے اتارنے اور سود دینے پہ خرچ ہوں گے۔گویا بجٹ کا تقریباً نصف حصہ تو کھوہ کھاتے میں گیا کیونکہ اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔

قرضوں کی رقم کہاں خرچ ؟

قومی اور عالمی مالیاتی اداروں سے دنیا کے ہر ملک کی ہر حکومت قرضے لیتی ہے، یہ کوئی انہونی بات نہیں۔مگر دیکھنا چاہیے کہ قرضوں کی رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے؟پاکستان کے حالیہ بجٹ ہی کو دیکھ لیجیے۔اس میں شعبہ تعلیم کو 117ارب روپے، صحت کو 19ارب روپے اور وزارت سائنس وٹکنالوجی کو 71ارب روپے مل سکے۔صوبوں نے بھی اپنے بجٹوں میں تینوں شعبوں کے لیے کم رقم ہی مختص کی۔دنیا بھر میں دانشور اس امر پہ متفق ہیں کہ دور جدید میں ایک ملک کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار علم یعنی سائنس وٹکنالوجی کی ترقی وبڑھوتری پہ استوار ہے۔

مثال کے طور پہ آج اسرائیل چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود عسکری ومعاشی طور پہ طاقتور مملکت بن چکا مگر کیسے؟اس کی طاقت کا راز اسی بات میں مخفی ہے کہ شروع سے اسرائیلی حکمران تعلیم و سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی پہ بجٹ کا 15 سے 20 فیصد حصہ خرچ کر رہے ہیں۔چناں چہ آج وہ علاقائی سپر پاور بن چکا۔حتی کہ عرب ممالک بھی معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے اس سے تعلقات استوار کرنے پہ مجبور ہو گئے۔

اسرائیل کا سالانہ بجٹ برائے 2022ء تقریباً چھ سو ارب شیکل کا تھا۔اس میں سے اسرائیلی حکومت نے تعلیم وسائنس وٹکنالوجی کے لیے 95 ارب شیکل مختص کیے۔جبکہ شعبہ صحت کو 60 ارب شیکل ملے۔مذید براں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی خاطر 100 ارب شیکل رکھے گئے۔یہ بجٹ عیاں کرتا ہے کہ اسرائیلی حکمران طبقے کو جدید تعلیم، شعبہ صحت اور عوام کی اہمیت کا خوب اندازہ ہے۔اس لیے ان کے لیے بجٹ میں معقول رقم رکھی جاتی ہے۔افسوس کہ ہمارا حکمران طبقہ ایسی مثبت سوچ نہیں رکھتا۔لہذا وطن عزیز میں ان تینوں اہم شعبوں کے لیے بجٹ میں زیادہ رقم نہیں رکھی جاتی۔چناں چہ سرکاری تعلیمی ادارے اور اسپتال لشٹم پشٹم ہی ، اوپر والے کے سہارے چل رہے ہیں۔نیز صرف افواج پاکستان کے اداروں میں سائنس وٹکنالوجی کے سلسلے میں نئی ایجادات ونئے نظریات سامنے آتے ہیں۔

سرکاری نظام مشکوک

یہ درست ہے کہ جاری مالی سال حکومت پاکستان 699 ارب روپے سبسڈیوں پہ خرچ کرے گی۔مگر سبسڈی دینے کا سرکاری نظام مشکوک بھی ہے،۔مثلاً پی ٹی آئی حکومت کے دور میں قابل اعتمادرہنما، ثانیہ نشتر صاحبہ نے دریافت کیا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے کئی اعلی سرکاری افسر بھی مستفید ہو رہے تھے۔موجودہ حکمران طبقہ تو اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر سبسڈیاں ہی ختم کر رہا ہے۔اسی طرح وفاقی و صوبائی حکومتوں نے عوامی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2158 ارب روپے رکھے ہیں۔

سوال مگر یہی کہ حکومت چلانے اور عوام کی فلاح وبہبود کی خاطر مختص پوری رقم میں سے کتنی رقم حقیقت میں عام آدمی تک پہنچ کر اسے حقیقی فائدہ دے پائے گی؟اور کیا اس رقم سے اپنا معیار زندگی بلند کر پائے گا؟وجہ یہ کہ اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں سبسڈی و ترقیاتی منصوبوں کے لیے مقرر رقم کا بیشتر حصہ تنخواہوں، کرپشن اور دیگر اخراجات کی وجہ سے حکمران طبقے تک محدود رہتا ہے اور عوام اس کے ثمرات سے کم ہی مستفید ہو پاتے ہیں۔مذید براں جب زائد رقم کی ضرورت ہو تو ترقیاتی بجٹ ہی کم کیا جاتا ہے۔یوں سال کے آخر تک اس کی رقم خاصی گھٹ جاتی ہے۔

قرضوں کی دلدل

ہمارے حکمران طبقے نے 1990ء کے بعد عالمی وقومی مالیاتی اداروں سے بڑے پیمانے پہ قرضے لیے۔چناں چہ اسٹیٹ بینک پاکستان کی مارچ 2022ء رپورٹ کے مطابق ریاست پہ چڑھے ’’کل قرضوں‘‘(Total Debt and Liabilities)

کی مالیت 53,544.3 ارب روپے تک پہنچ چکی۔اس میں سے 28,076.3 ارب روپے تو مقامی مالیاتی اداروں کا قرض ہے۔جبکہ حکومت پاکستان پہ غیرملکی اداروں کا قرضہ 14,918.6 ارب روپے ہے۔اگر اس میں آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض (1,371.0ارب)، سرکاری اداروں کے ذمے قرض(4,475.3 ارب)،نجی شعبے کا قرض (3,134.5 ارب)، بیرونی ادائیگیاں یعنی External Liabilities(2,116.3 ارب) اور دیگر ادائیگیاں مثلاً Commodity Operations اور Intercompany External Debt from Direct Investor abroad (1622.2 ارب) جمع کی جائیں تو ریاست پاکستان پہ چڑھا قرضہ 53,544.3 ارب تک پہنچ جاتا ہے۔یہ ہمارے جی ڈی پی کا تقریباً 87 فیصد حصہ بنتا ہے۔جبکہ ازروئے قانون اسے زیادہ سے زیادہ 60 فیصد ہونا چاہیے۔ قرضوں کا انبار جمع ہونے کی وجہ سے اس مالی سال پاکستان اپنی آمدن میں سے خطیر رقم قرضے اتارنے و سود دینے پہ خرچ کرے گا۔

اخراجات حقیقی ہیں یا نہیں

یہ درست ہے کہ قرض لیے بغیر کم حکومتیں ہی چل پاتی ہیں۔ان حکومتوں کو بھی کسی تحفہ ِالہی کی بدولت چھپڑ پھاڑ کر آمدن ہوتی ہے۔مثلاً برونائی پہ کوئی قرض نہیں کیونکہ وہاں حکومت تیل کی آمدن سے اتنی زیادہ رقم کما لیتی ہے کہ اسے اخراجات پورے کرنے کی خاطر قرض لینے کی ضرورت ہی نہیں۔اسی طرح ایران پہ غیرملکی قرضہ صرف نو ارب ڈالر ہے کیونکہ وہ بھی تیل بیچ کر اچھی خاصی رقم کماتا ہے۔مگر جس ملک کے پاس عالمی منڈی میں بیچنے کے لیے کم چیزیں ہوں تو اس کی حکومت کو لامحالہ مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پڑتے ہیں تاکہ اخراجات پورے ہو سکیں۔

اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کسی ملک میں اخراجات حقیقی ہیں یا وہاں کے حکمران طبقے نے انھیں اپنے اللے تللے برقرار رکھنے کی خاطر بہت بڑھا چڑھا دیا۔چناں چہ یہ حکمران طبقہ اپنے شاہانہ طرز ِزندگی کی بقا کے لیے بھی زیادہ قرضے لے گا۔

مثال کے طور پہ 1947ء میں آزادی کے چند ماہ بعد ہی بانی ِپاکستان نے بھی امریکا سے قرضہ مانگ لیا تھا…لیکن اس کے ذریعے حکمران طبقے کی ترقی و خوشحالی مقصود نہیں تھی بلکہ نوزائیدہ ریاست کو معاشی و عسکری لحاظ سے طاقتور بنانا مقصد تھا۔تب صورت حال یہ تھی کہ بھارت نے پاکستان کا مالی حصہ روک لیا تھا۔اس باعث وہ شدید ان گنت معاشی مسائل کا شکار ہو گیا۔خزانہ خالی تھا۔آج پاکستانی حکمران طبقہ اپنا بلند ترین معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے بھی قرضے لیتا ہے ۔اور انھیں لے کر یوں شاہانہ انداز ِزندگی اپناتا ہے جیسے یہ قرض نہیں محنت کی کمائی ہو۔

یہ طرز ِزندگی زیب دیتا ہے؟

قبل ازیں ذکر ہوا کہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کی خاطر سب سے پہلے حکمران طبقے کو اپنی مراعات و سہولیات ختم کرنا چاہیے۔پھر اسے اپنے اخراجات بھی کم کرنا چاہیں۔سپر پاور برطانیہ کا وزیراعظم ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا ہے۔اسی طرح امریکی صدر کی قیام گاہ ، وائٹ ہاؤس دراصل اس کا دفتر ہے۔وہ خود اوپررہتا ہے جس میں تین چار بیڈروم ہیں۔پاکستان میں تو اکثر ڈپٹی کمشنروں کی رہائش گاہیں ہی کئی کنالوں پہ محیط ہیں، اعلی افسروں کی کیا بات کی جائے۔پاکستان ایک ترقی پذیر و مقروض ملک ہے۔اس کے حکمران طبقے کو شاہانہ طرز ِزندگی کیا زیب دیتا ہے؟جبکہ وہ اسلامی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے کا دعوی دار بھی ہے جو سادگی وقناعت پہ زور دیتی ہیں۔ایک رپورٹ کی رو سے پاکستانی حکومت اگر صرف ایک دن سرکاری افسروں کو تنخواہ یا پنشن نہ دے تو اتنی رقم ہاتھ آئے گی کہ ایندھن کی قیمت کم رکھ کر مہنگائی کے جن کو قابو کیا جا سکے۔

ایک اور عذاب

ایک اہم سوال یہ ہے کہ تیل، بجلی اور گیس کی قیمتیں نہ بڑھنے سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کیا تعلق ہے؟وجہ یہ ہے کہ ہم بیرون ممالک سے تیل،گیس و کوئلہ خریدتے ہیں۔حکومت اپنی 84.7 فیصد بجلی درآمدی ایندھن ہی سے بناتی ہے۔(یہ ایک اور عذاب ہے جو حکمران طبقے نے اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر عوام پہ مسلط کر دیا)جبکہ کوئلہ بھی منگوایا جاتا ہے۔اور ان ایندھنوں کی قیمت میں پچھلے ایک سال کے دوران نمایاں اضافہ ہو چکا۔یہ تینوں ایندھن ڈالر دے کر خریدے جاتے ہیں۔مثلاً جولائی 21ء سے اپریل 22ء تک پاکستان نے تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کا ایندھن خریدا ۔جبکہ جولائی 20ء تا اپریل 21 ء کی عرصے میں اسی ایندھن کی مالیت ساڑھے آٹھ ارب ڈالر رہی تھی۔

ابھی اسٹیٹ بینک کے پاس سوا نو ارب ڈالر موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان کو رواں سال 21 ارب ڈالر کے قرضے بشمول سود ادا کرنے ہیں۔جبکہ ساٹھ تا پینسٹھ ارب ڈالر مالیت کی درآمدات کے لیے بھی ڈالر درکار ہیں۔ اتنے سارے ڈالر کہاں سے آئیں گے؟ہماری برآمدات صرف 25 ، 26 ارب ڈالر کی ہیں۔جبکہ تارکین وطن ہر سال بیس ارب ڈالر بھیجتے ہیں۔تب بھی پاکستان کو پینتس ارب ڈالر درکار ہیں تاکہ معمول کا کاروبار ِزندگی جاری رہ سکے۔ اگر ان پینتیس ارب ڈالر کا بندوبست نہیں ہوا تو پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے۔

ڈالر پانے کا چکر

ڈالر پانے کا عام طریق کار یہ ہے کہ پاکستانی برآمدکنندگان کو ڈالروں میں ادائیگی ہوتی ہے۔وہ یہ رقم بینک میں جمع کراتے ہیں۔بینکوں سے ڈالر پھر اسٹیٹ بینک میں آ جاتے ہیں۔بینک بھی ڈالر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔فی الوقت ان کے پاس پانچ ارب ڈالر پڑے ہیں۔جب مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے تو یہ عمل ڈالر کی قیمت میں اضافہ کر دیتا ہے۔جیسے آج کل ڈالر کی طلب زیادہ ہے، اسی لیے اس کی قدر بھی بڑھ گئی۔غرض ایک مملکت کے ذخائر زرمبادلہ (یعنی ڈالر)اسی وقت بڑھتے ہیں جب برآمدات میں اضافہ ہو یا تارکین وطن زیادہ رقم ارسال کریں۔

 ایندھن کے اخراجات زیادہ

پاکستانی برآمدات مختلف وجوہ کی بنا پر بڑھ نہیں پارہیں۔ایک اہم وجہ یہ کہ پاکستان میں ایندھن کے اخراجات زیادہ ہیں۔لہذا مصنوعات کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔یہ پھر عالمی منڈی میں سستی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر پاتیں۔ سستی مصنوعات ان ممالک سے آتی ہیں جہاں ایندھن اور افرادی قوت سستی ہے جیسے بھارت، بنگلہ دیش اور ویت نام۔بھارت میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 10 تا 12 روپے ہے۔جبکہ پاکستان میں حکومت نے یہ قیمت ٹیکس لگا کر  31 روپے فی یونٹ کر دی ہے۔گویا ایندھن کی قیمتیں بڑھتی رہیں تو پاکستانی برآمدات مزید کم ہوں گی۔پھر پاکستان کے شعبہ برآمد ودرآمد میں انڈراور اوور وائسنگ بھی ہوتی ہے۔اس طریق کار میں مال کی قیمت کاغذات میں کم یا زیادہ دکھائی جاتی ہے تاکہ ٹیکس بچایا یا ڈالروں میں منافع بیرون ملک بینکوں میں رکھا جا سکے۔یوں قومی خزانے تک قانونی طور پہ ڈالروں کی پوری رقم نہیں پہنچ پاتی۔نیز ٹیکس چوری سے بھی ریاست کو مالی نقصان پہنچتا ہے۔

 حکمران طبقے کی طاقتور لابی

المیّہ یہ ہے کہ بہت پہلے تھر میں ذخائر کوئلہ دریافت ہو چکے مگر ہمارے حکمران طبقے نے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹھوس قدم کئی عشرے گذر جانے کے بعد اٹھائے۔مگر اب بھی ہماری بیشتر بجلی مہنگے درآمدی ایندھن سے بن رہی ہے۔بھارت اپنی 75 فیصد بجلی کوئلے سے بنا رہا ہے۔بھارتی بجلی گھروں میں بیشتر کوئلہ مقامی استعمال ہوتا ہے۔اس باعث وہاں بجلی کافی سستی ہے۔پاکستان میں ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے بجلی بھی مہنگی ہو جاتی ہے۔اندرون خانہ کے رازوں سے واقف ماہرین کا تو کہنا ہے کہ حکمران طبقے کی ایک طاقتور لابی بیرون ممالک سے ایندھن منگوانے کے کاروبار سے منسلک ہے۔یہ مافیا پاکستان میں مقامی کوئلہ استعمال نہیں ہونے دیتی کہ یوں وہ اپنے منفعت بخش دھندے و کرپشن سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔

تین بڑے مسائل

وطن عزیز کے شعبہ بجلی کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے۔اول ہر سال 150 ارب روپے کے بلوں کی ادائیگی نہیں ہوتی۔دوسرا مسئلہ بجلی چوری ہے۔ایک رپورٹ کی رو سے پاکستان میں ہر سال 300 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔چناں چہ ریاست کو ہر سال 450 ارب روپے نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔تیسرا مسئلہ سرکلر ڈیبٹ ہے۔حکومت پاکستان نے بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کو 2400 ارب روپے سے زائد رقم ادا کرنی ہے۔یہ رقم مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ حکومت کو 450 روپے جو وصول نہیں ہو پاتے۔

طرفہ تماشا یہ کہ حکومت بلوں کی ادائیگی کا نظام بہتر اور بجلی چوری روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے بجلی کی قیمت بڑھا دیتی ہے تاکہ اپنا خسارہ پورا کر سکے۔گویا سارے خسارے کا بوجھ عوام پہ ڈال دیا جاتا ہے۔آخرکار ہر شے کی قیمت میں اضافے کا نتیجہ مہنگائی کی صورت عام آدمی ہی کو بھگتناپڑتا ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھنے سے صنعت وتجارت وکاروبار کو نقصان پہنچتا ہے۔ان کی سرگرمیاں سست ہونے سے بیروزگاری بڑھتی ہے۔حکومت کو ساری صورت حال کا جائزہ لے کر ایندھن کی قیمتیں بڑھانا چاہیں۔

افراط زر کا معاملہ

حکومت اندرون ملک جن مالیاتی اداروں سے قرضے لے، انھیں نوٹ چھاپ کر قرض لوٹاتی ہے۔مگر اس طرح افراط زر جنم لیتا ہے یعنی ملک میں کرنسی نوٹوں کی کثرت ہو جاتی ہے جو مہنگائی پیدا کرنے والا عمل ہے۔پاکستانی حکومت بھی نوٹ چھاپ کر مقامی مالیاتی اداروں کو قرضے واپس کررہی ہے ۔چناں چہ افراط ِزر بھی مہنگائی میں اضافہ کرنے کا عمل بن گیا۔بیرونی قرضے عالمی تجارتی کرنسیوں مثلاً ڈالر، یورو،پاؤنڈ وغیرہ میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ان میں سب سے اہم کرنسی ڈالر ہے کیونکہ ہر ملک اسی امریکی کرنسی میں اپنے ذخائر زرمبادلہ رکھتا ہے۔حال ہی میں جب سری لنکن حکومت کے پاس ڈالر ختم ہوئے تو اس نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔مطلب یہ کہ اس نے قرض دینے والے بیرونی ممالک اور اداروں کو ڈالر میں ادائیگی کرنے سے معذوری ظاہر کر دی۔

اچھے اقدام

حکومتیں آمدن بڑھانے کے لیے نئے ٹیکس لگاتی یا ٹیکسوں کی شرح بڑھاتی ہیں۔جیسے حالیہ بجٹ میں مزید 440 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے۔اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ ان کی اکثریت ڈائرکٹ ٹیکس ہیں جو امرا پہ لگے۔اسی طرح ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں پہ صرف ایک سو روپے سالانہ ٹیکس لگا کر انھیں عمدہ ریلیف دیا گیا۔ چھوٹے کاروباریوں کی انکم ٹیکس حد 8 لاکھ روپے کر کے انھیں بھی ریلیف ملا۔گو یہ حد دس لاکھ ہوتی تو بہتر تھا۔ایف بی آر کو چاہیے کہ تنخواہ داروں اور چھوٹے کاروباریوں کو آسانی سے انکم ٹیکس فارم بھرنے کی سہولت مہیا کرے کیونکہ ان کی اکثریت آن لائن فارم بھرنے کا پیچیدہ کام نہیں کر سکتی۔انھیں پھر وکیل کا خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

چند تجاویز

پاکستان کو درپیش معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے چند تجاویز پیش ہیں:

٭…حکومت اپنے اخراجات میں کم از کم ایک ہزار ارب روپے سالانہ کمی لائے۔

٭…ایسے اقدامات کرے کہ سالانہ دس ارب ڈالر کی درآمدات کم ہو جائیں۔اس طرح کثیر غیر ملکی زرمبادلہ بچ سکے گا۔اس سلسلے میں عوام کو بھی قربانی دینا ہو گی۔مثلاً یہ کہ وہ باہر کی اشیا کم سے کم استعمال کریں۔

٭…امرا پہ مزید ٹیکس لگائے۔مثلاً جو پاکستانی پانچ کروڑ روپے ماہانہ کماتا ہے، اس کی زرعی زمینوں، پلاٹوں، گاڑیوں، سٹاک مارکیٹ میں شئیروغیرہ پہ ٹیکس لگ جائے۔اسی طرح بڑی کمپنیوں پہ ٹیکس لگ سکتا ہے۔اس طریقے سے ایک ہزار ارب روپے سالانہ حاصل کیے جائیں۔

٭…حکومت برآمدکنندگان کو سستی بجلی مہیا کرے۔ان پہ کم ٹیکس لگائے اور مختلف سہولتیں دے۔مقصد یہ ہو کہ پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھ جائے۔بنگلہ دیش، ویت نام اور بھارت نے یہ حکمت عملی اپنا کر اپنی برآمدات بڑھائیں اور اپنی معیشت مضبوط بنا لی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔