دنیا بھر میں لوگ مہنگائی سے تنگ

سید عاصم محمود  اتوار 3 جولائی 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

وطن عزیز میں بڑھتی مہنگائی سے ہر کس وناکس متاثر ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اشیائے ضرورت خصوصاً ایندھن اور خوراک کی مہنگائی نے دنیا کے سبھی لوگوں خصوصاً نچلے ومتوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے اربوں انسانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

لبنان،وینزویلا، ترکی، سری لنکا، سوڈان ،شام وغیرہ میں تو مہنگائی نے عوام الناس کو پیس کر رکھ دیا ۔حتی کہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی جیسے امیر و ترقی یافتہ ملکوں میں مہنگائی نے تیس چالیس سالہ ریکارڈ توڑ دئیے۔

سرکاری اور غیرسرکاری شرح
ماہرین معاشیات کی رو سے اشیائے ضرورت اور خدمات(سروسز)کی قیمتوں کا بڑھنا مہنگائی کہلاتا ہے جسے اصطلاح میں ’’افراط زر‘‘بھی کہتے ہیں۔ایک ملک میں کرنسی کی کثرت کو بھی افراط زر کہا جاتا ہے۔مہنگائی کا کم یا زیادہ ہونا شرح فیصد کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔تاہم خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ممالک میں مہنگائی کی سرکاری اور غیرسرکاری شرح میں خاصا فرق ہوتا ہے۔وجہ یہ کہ ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں اشیا کی سرکاری قیمتیں دانستہ کم بتاتی ہیں تاکہ عوام میں غیر مقبول ہونے سے بچ سکیں۔جبکہ بازار میں اشیا کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔اسی لیے ان ملکوں میں مہنگائی کی اصل شرح سرکاری شرح سے زیادہ ہوتی ہے۔چونکہ مہنگائی براہ راست عوام کو نقصان پہنچاتی ہے ، اس باعث ماہرین اسے ’’خطرناک ‘‘اور ’’غیر مرئی ‘‘ٹیکس قرار دیتے ہیں۔

آمدن جوں کی توں
مہنگائی سے وابستہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عموماً اس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں تو بڑھ جاتی ہیں مگر لوگوں کی آمدن جوں کی توں رہتی ہے اور اس میں خاص اضافہ نہیں ہوتا۔چناں چہ مہنگائی میں اضافہ خصوصاً نچلے اور متوسط طبقوں پہ بجلی بن کر گرتا ہے۔پاکستان ہی کی مثال لیجیے۔

وطن عزیز میں پچھلے تین چار سال کے دوران مہنگائی خاصی تیزرفتاری سے بڑھی ہے۔اب اس کی سرکاری شرح 14کے آس پاس ہے۔مگر اشیائے ضرورت کی سرکاری قیمتوں اور بازار کی اصل قیمت میں خاصا فرق ہے۔اسی لیے ماہرین کے نزدیک پاکستان میں مہنگائی کی حقیقی شرح 40 فیصد ہے۔ یہ خاصی بلند شرح ہے۔بھارت میں سرکاری شرح 6.95 فیصد ہے مگر حقیقی شرح زیادہ سے زیادہ 15 فیصد ہو گی کیونکہ بھارت برآمدات اچھی خاصی کرتا ہے اور اس کی کرنسی بھی پاکستانی روپے سے زیادہ مضبوط ہے۔

پاکستان میں کم ازکم تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ ہے۔مگر جس رفتار سے پچھلے چند سال میں مہنگائی بڑھی ہے، یہ عددکم از کم 40 ہزار روپے ہونا چاہیے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو پھر ہر سال بڑھ جاتی ہیں، بیشتر نجی ملازموں کی تنخواہوں میں برسوں تک اضافہ نہیں ہوتا۔مزید براں اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 60 تا 80 فیصد نجی ملازمین پوری کم از کم تنخواہ حاصل نہیں کر پاتے۔ان کی تنخواہ 18 سے 22 ہزار روپے کے مابین ہوتی ہے۔قانون کی رو سے انھیں کام بھی کم کرنا چاہیے مگر زیادہ تر ملازم دس سے چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ان بیچاروں کا المیّہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں خاصی بیروزگاری ہے۔لہذا وہ تنخواہ بڑھانے یا اوقات کار کم کرنے کی بات شاید ہی کرتے ہوں کیونکہ انھیں خوف ہوتا ہے، مالک ناراض ہو کر نکال دے گا۔

بجلی، پٹرول،ڈیزل مہنگا
پاکستان میں مہنگائی ہونے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اپنا 90 فیصد ایندھن بیرون ممالک سے منگواتے ہیں۔اس ایندھن سے بجلی بنتی اور ٹرانسپورٹ رواں دواں رہتی ہے۔چناں چہ عالمی منڈی میں ایندھن مہنگا ہو جائے تو پاکستان میں حکومت بجلی وپٹرول وڈیزل مہنگا کر دیتی ہے۔ان تینوں کے مہنگا ہونے سے اشیائے ضرورت کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور یوں مہنگائی جنم لیتی ہے۔

آبادی میں اضافہ بھی مہنگائی بڑھنے کا سبب ہے۔جب پاکستان میں آبادی کم تھی تو اشیا و خدمات کی طلب بھی کم تھی۔آبادی بڑھنے سے اشیا کی طلب میں اضافہ ہوا تو ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔اب تو یہ عالم ہے کہ قدرتی وسائل طلب پوری نہیں کر پا رہے۔مثلاً اب پاکستان کو گندم، کپاس، دالیں، خوردنی تیل، مسالے وغیرہ بیرون ممالک سے منگوانے پڑتے ہیں۔یہ عمل بھی مہنگائی پیدا کرتا ہے۔جو رہی سہی کسر ہو، حکومت نئے ٹیکس لگا یا پرانے ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر پورا کر دیتی ہے۔اس سارے چکر میں عوام ہی مہنگائی تلے آ کر پستے ہیں۔

عوام پہ نیا بوجھ
پاکستانی عوام کو اُمید تھی کہ نئی حکومت مہنگائی کا خاتمہ کرے گی مگر الٹا اس نے ٹیکسوں کی شرح مزید بڑھا دی اور نئے ٹیکس بھی لگا ڈالے۔عام آدمی کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔المیّہ یہ ہے کہ ٹیکسوں کا نیا بوجھ عوام پہ صرف اس لیے ڈالا گیا کہ آئی ایم ایف، چین اور سعودیہ سے مزید قرض مل جائے۔اور یہ کس لیے؟تاکہ ہمارا حکمران طبقہ جس شاہانہ طرز ِحیات کو جنم دے چکا، قرض کی رقم سے اسے برقرار رکھ سکے۔ حکمران طبقے کو قرض کی رقم کی چاٹ لگی رہی تو وہ پاکستان کو معاشی طور پہ تباہ کر اسے مالیاتی اداروں کا غلام بنا دے گا۔

مہنگائی کیوں بڑھی؟
مارچ 2020ء سے کوویڈ وبا پھیلنا شروع ہوئی تو اس نے دنیا بھر میں کاروبار ِزندگی جامد کر ڈالا۔بعد میں لاک ڈائون کھلے تو اشیائے ضروریہ کی ترسیل کا آغاز ہوا۔تب بہت کم بحری جہاز محو حرکت تھے، اس لیے شپنگ کمپنیوں نے کرائے بڑھا دئیے۔پھر ایندھنوں کی قیمت بڑھنے لگی۔اس سے کھاد کی قیمت بھی بڑھ گئی۔اس دوران کئی ممالک میں قحط یا طوفانوں نے فصلیں برباد کر دیں۔ان دو باتوں نے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔آخر میں روس یوکرائن جنگ نے صورت حال مزید بگاڑ دی۔یہ دونوں ممالک بڑی مقدار میں گندم، مکئی، خوردنی تیل اور دیگر غذائیں دنیا والوں کو سپلائی کرتے ہیں۔روس ایندھن کا بڑا برآمدکندہ بھی ہے۔جنگ سے ایندھن وخوراک کی ترسیل رک گئی ۔چناں چہ دونوں اشیا کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔

پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ زرعی ملک ہے۔گو ہماری زراعت کی حالت عمدہ نہیں پھر بھی لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا میسّر آ جاتی ہیں۔دنیا کے کئی ممالک میں صورت حال مختلف ہے۔وہاں نچلے و متوسط طبقوں کے کروڑوں انسان خوراک پانے اور پیٹ بھرنے کی خاطر غیرمعمولی اقدامات کر رہے ہیں۔صرف بھوکے ہی ان کے دکھ واذیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

چھان بورا اہم ہو گیا
پڑوسی ملک، افغانستان کی مثال ہی لیجیے جس کی حکومت معاشی بحران میں مبتلا ہے اور غریب شہریوں کی مالی مدد نہیں کر سکتی۔لہذا شہری اپنی مدد آپ کے تحت جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اب افغانستان میں ’’چھان بورے‘‘کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی۔یاد رہے، ہوٹل اور گھر والے جو بچی کھچی روٹیاں پھیری والوں کو فروخت کر دیں، وہ چھان بورا کہلاتا ہے۔

خوراک کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کئی افغانوں کا کھاجا یہی چھان بورا بن چکا۔وہ پھیری والوں سے سوکھی روٹیاں خرید لیتے ہیں۔پھر سارا خاندان انھیں پانی میں بھگو کر پیاز یا چٹنی کے ساتھ کھاتا اور پیٹ کی آگ بجھاتا ہے۔ان غریب افغانوں کے لیے چھان بورا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ماضی میں بچی کھچی روٹیاں صرف مویشی کھاتے تھے۔اب غربت کی بنا پر انسان انھیں کھانے پہ مجبور ہو چکے۔

طویل قطاریں
کابل میں مخیر لوگ دوپہر کو مفت کھانا تقسیم کرتے ہیں۔اب ان مقامات پر مردوں، خواتین اور بچوں کی طویل قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔اکثر سبھی سائلین کو کھانا نہیں ملتا۔جو محروم رہ جائیں، انھیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے، کئی مردو زن توصبح سویرے وہاں پہنچ جاتے ہیں تاکہ قطار میں آگے لگ کر کھانے کا حصول یقینی بنا سکیں۔ مرد وہاں کوئی شے فروخت کرتے ہیں۔خواتین سلائی کڑھائی کرنے لگتی ہیں۔ غرض ان کے لیے مفت کھانا زندہ رہنے کی سبیل بن چکا۔

معمولی رقم ہی بچتی
افغانستان تو ایک غریب اور جنگوں سے تباہ حال ملک ہے، اٹلی جیسی امیر و ترقی یافتہ یورپی مملکت میں بھی متوسط طبقہ مہنگائی سے بے حال ہو چکا۔تیس سالہ مریدا اپنی بیوی،یوکاس کے ساتھ اطالوی شہر، برینسکا میں رہتا ہے۔دونوں میاں بیوی شہرمیں واقع اسٹیل کے کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ان کی مجموعی ماہانہ آمدن تین لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔مگر مہنگائی ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔مریدا کہتا ہے:’’گیس، بجلی اور پٹرول کے ہمارے بل دوگنا ہو چکے۔ہم کھانے پینے پر بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔ماضی میں ہم خاصی رقم بچا لیتے تھے، اب معمولی رقم ہی بچتی ہے۔ہمارا ایک بچہ ہے۔ہم دوسرا بچہ پیدا کرنا چاہتے تھے مگر مہنگائی دیکھ کر یہ خیال ترک کر دیا۔‘‘

موت کے منہ میں
ایندھن اور خوراک کی قیمتیں بڑھنے سے اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام بھی متاثر ہے۔اس منصوبے کے ذریعے دنیا بھر میں مہاجرین، پناہ گزینوںاور جنگوں و خانہ جنگیوں سے تباہ حال انسانوں کو خوراک مہیا کی جاتی ہے۔اس پروگرام کے سربراہ ، ڈیوڈ ہنری کہتے ہیں:’’اب ہمارے لیے مطلوبہ مقدار میں خوراک حاصل کرنا بہت مشکل کام بن چکا کیونکہ وہ کافی مہنگی ہو چکی۔اگر قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں تو ہم مطلوبہ خوراک نہیں خرید پائیں گے۔تب خطرہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے موت کے منہ میں چلے جائیں۔ گویا صورت حال نہایت تشویش ناک اور سنگین ہے۔‘‘

دنگے فساد کا خطرہ
ماہرین عمرانیات خبردار کر رہے ہیں کہ کرہ ارض میں بھوک بڑھ گئی تو کئی ممالک مثلاً لبنان،ایران، سوڈان، صومالیہ، یمن، ارجنٹائن میں دنگا فساد جنم لے سکتا ہے۔ ان ملکوں میں کسی نہ کسی وجہ سے مہنگائی زوروں پر ہے۔کرنسی بے وقعت ہو چکی اور اشیائے ضروریہ مہنگے داموں مل رہی ہیں۔گویا ان ممالک میں حالات بڑے خطرناک ہیں۔ پاکستان میں بھی عام لوگ بڑھتی مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں مگر فی الحال انھوں نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا۔

ایران میں سبسڈی ختم
ہمارے ایک اور پڑوسی، ایران میں بھی صورت حال کافی خراب ہے۔وہاں چند ہفتوں سے عوام بڑھتی مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ایران 2018ء سے امریکی پابندیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ان کے باعث ملک معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ایران بیشتر خوراک بیرون ممالک سے منگواتا ہے۔درحقیقت خوراک ایران کی سب سے بڑی برآمدات پہ مشتمل ہیں۔ایرانی حکومت پہلے خوراک پہ سبسڈی دیتی تھی تاکہ وہ سستی ہو کر عوام کو ملے۔مگر کچھ عرصہ قبل یہ سبسڈی ختم کر دی گئی۔وجہ یہ ہے کہ خوراک کی قیمتیں بڑھنے کے باعث سبسڈی کی سالانہ مالیت 22 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ایرانی حکومت اتنا زیادہ خرچ برداشت نہیں کر سکتی تھی، لہذا سبسڈی روک دی گئی۔

سبسڈی کے خاتمے سے مگر ایران میں خوراک کی قیمتیں راتوں رات دگنی تگنی ہو گئیں۔ایران اناج، خوردنی تیل، دالیں،سبزیاں ،پھل اور مسالے درآمد کرتا ہے۔اشیائے خورنوش کی قیمت بڑھنے سے غریب طبقہ اور پنشنر زیادہ متاثر ہوئے۔جب مہنگائی برداشت سے باہر ہو گئی تو وہ احتجاج کرنے لگے۔اب ان کی تقریباً ساری رقم غذا خریدنے پہ صرف ہو رہی تھی۔

تین لاکھ تیس ہزار ریال میں ایک ڈالر
آٹھ کروڑ آبادی والے ایران میں معاشی حالات کافی خراب ہیں۔ ایرانی صدر، حجتہ السلام ابراہیم ریئسی معیشت کو مضبوط کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر پابندیوں کی وجہ سے انھیں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔پابندیاں ہٹانے کے لیے امریکا سے بات چیت چل رہی ہے مگر صدر ریئسی کے سخت نقطہ نظر کی وجہ سے وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔تاہم عوام کا دبائو ایرانی حکومت کو جلد کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔یاد رہے، ڈالر کے سلسلے میں ایران کا سرکاری ایکسچینج ریٹ 42 ہزار ریال ہے۔تاہم ایران میں ڈالر کی شدید کمی ہے۔اس باعث وہاں تین لاکھ تیس ہزار ریال میں ایک ڈالر ملتا ہے۔ایران میں مہنگائی کی سرکاری شرح 45 فیصد ہے۔تاہم حقیقی شرح کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

مچھلی خریدنے کی سکت کھو بیٹھے
ایران پہ پابندیاں لگانے والے امریکا کی معاشی صورت حال بھی اچھی نہیں۔ وہاں چالیس سال بعد زبردست مہنگائی جنم لے چکی۔امریکامیں بھی خوراک اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے مہنگائی بڑھائی ہے۔اب امریکی نچلے ومتوسط طبقوں کی بیشتر آمدن انہی دو شعبوں پر خرچ ہو رہی ہے اور وہ کہیں اور خرچنے کے قابل نہیں رہے۔ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے امریکی بینک، فیڈرل ریزرو کو بھی شرح سود بڑھانا پڑی۔ یہ تیس سال میں سب سے بلند شرح ہے۔ بہت سے امریکی خاندان مجبور ہو چکے کہ کئی غذائی اشیا آدھی استعمال کریں۔ خصوصاً وہ گوشت و مچھلی خریدنے کی سکت کھو بیٹھے ہیں۔

اعدادوشمار کی رو سے دنیا میں سے زیادہ مہنگائی کی شرح ان ممالک میں ہے: وینزویلا (1198فیصد)، سوڈان (340فیصد)، لبنان (201فیصد)، شام (139)، سرینام (63.3)، زمباوے (60.7فیصد)، ارجنٹائن (51.2فیصد)، ترکی (49فیصد)، ایران (45فیصد) اور ایتھوپیا (33فیصد)۔

ہائپرانلفلیشن
درج بالا وہ ملک ہیں جہاں بہت زیادہ مہنگائی (Hyperinflation)پائی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں اشیا کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھتی ہیں۔مہینے میں ان کا اضافہ 50 فیصد سے زیادہ ہو تو اسے ہائپرانلفلیشن کہتے ہیں۔وینزویلا میں دو کروڑ ستاسی لاکھ نفوس آباد ہیں۔اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح اس ملک کا بھی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملکی وسائل پہ مٹھی بھر حکمران یا اشرافیہ طبقہ قابض ہے۔ان وسائل میں تیل سب سے اہم ہے۔جب تیل کی قیمت زیادہ ہو تو وینزولین حکومت خوب کمائی کرتی ہے۔مگر آمدن کا بیشتر حصہ حکمران طبقہ (سیاست داں، بیوروکریسی، جرنیل، جج)ہڑپ کر لیتا ہے۔کچھ رقم عوام کی فلاح وبہبود پر بھی خرچ ہو جاتی ہے۔

پریشان کن زندگی
جب تیل کی قیمت کم ہو جائے تو وینزویلا میں حکومتی آمدن کم ہونے سے معاشی بحران آ جاتا ہے۔حکومت نہ صرف سبسڈیاں ختم کرتی بلکہ مختلف ٹیکس لگا دیتی ہے جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔امریکا حکمران طبقے کا مخالف ہے۔اس نے مملکت پہ معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ان پابندیوں کی وجہ سے بھی وینزویلا میں معاشی صورت حال ابتر ہے۔نچلے و متوسط طبقے کے افراد بڑی پریشان کن زندگی گذار رہے ہیں۔

عوام کی فلاح پہ کوئی دھیان نہیں
لبنان بھی ایک بدقسمت ریاست ہے جسے قابل، اہل اور محب وطن حکمران طبقہ نصیب نہ ہو سکا۔لبنانی حکمران طبقہ لالچی و کرپٹ ہے۔وہ صرف اپنے مفادات مدنظر رکھتا اور عوام کی فلاح پہ کوئی دھیان نہیں دیتا۔اس باعث 68 لاکھ کی آبادی والا یہ مسلم ملک شدید معاشی بحران میں گرفتار ہو چکا۔یاد رہے، لبنان کی 60 سے 65 فیصد آبادی مسلمان فرقوں پہ مشتمل ہے۔

فی الوقت لبنان میں بیروزگاری عروج پہ ہے۔آدھی سے زیادہ آبادی کام کی تلاش میں گھوم رہی ہے۔90 فیصد لبنانی اشیائے خورونوش، پانی،بجلی اور پٹرول کی قلت کا شکار ہیں۔جو بیس پچیس لاکھ لبنانی نچلے ومتوسط طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا تو برا حال ہے۔غریب لبنانیوں میں فلسطینی وشامی مہاجرین کی اکثریت ہے جو بڑی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔اکثر یہ گھرانے دن میں صرف ایک وقت کھانا کھا کر جسم وروح کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔

نوجوان نسل میں شدید بے چینی
لبنان میں ہزارہا گھرانوں کے بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب والدین مہنگی فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔کئی بچے اب دکانوں، دفاتر یا کارخانوں میں کل وقت یا جزوقتی کام کر کے پیسے کماتے اور اپنے گھرانے کو مالی سہارا دیتے ہیں۔نوجوان نسل میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہیں۔لڑکے لڑکیوں کو یقین ہے کہ لبنان میں رہ کر وہ کچھ نہیں کر سکتے، اسی لیے امریکا کینیڈا یا کسی یورپی ملک جانا چاہتے ہیں۔مایوسی اور ناامیدی کی وجہ سے لبنان میں آئے دن حکمران طبقے کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔حکومت معیشت بہتر بنانے کی کوششیں کر رہی ہے مگر کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے اسے خاص کامیابی نہیں ملتی۔

اپنا دیس چھوڑ دیا
ایندھن اور خوراک کی مہنگائی نے ترقی پذیر ممالک سے لے کر امیر ملکوں میں مقیم اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہر، ویلگنٹن کے باسی، کرس پیٹر کو لیجیے۔وہ گھر تعمیر کر کے فروخت کرتا ہے۔مگر پچھلے تین سال سے تعمیراتی سامان کافی مہنگا ہو چکا۔لہذا گھر بنا کر بیچنے سے اب زیادہ مالی فائدہ نہیں ہوتا۔پھر اس کی چار بیٹیاں ہیں۔بھرا پُرا خاندان ہونے کی بنا پہ خرچے بھی زیادہ ہیں۔

جب خوراک وایندھن کی قیمتیں بڑھ گئیں تو کرس بیوی بچوں کو لیے آسٹریلیا کے شہر، برسبین چلا آیا۔آسٹریلیا میں نیوزی لینڈ کی نسبت کم مہنگائی ہے۔پھر بھی کرس نئے دیس میں اپنے اخراجات پورے کرتے ہوئے دشواری محسوس کرتا ہے۔اس کی آمدن بس اتنی ہے کہ ماہانہ خرچے پورے ہو جائیں۔بچت کرنا تو خواب وخیال بن چکا۔ بڑھتی مہنگائی نے اسے حواس باختہ کر رکھا ہے۔

ضرورت کی چیزیں خریدنا بھی مسئلہ
برازیل بہ لحاظ آبادی دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔وہاں بھی حکمران طبقے کی بدانتظامی اور کرپشن کے باعث غریبوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔نچلے ومتوسط طبقوں کے لاکھوں برازیلی بڑھتی قیمتوں کے سیلاب میں بڑی مشکل سے گھر چلا رہے ہیں۔ وہ کم کھاتے اور کم سفر کرتے ہیں ۔ان کے لیے ضرورت کی چیزیں خریدنا بھی بڑا مسئلہ بن چکا۔

برازیلی شہر، سائو پائولو میں روزین رہائش پذیر ہے۔چار بچوں کی ماں ہے۔ مقامی نجی ادارے میں کام کرتی ہے۔مگر اس کی تنخواہ اتنی زیادہ نہیں کہ سارے گھریلو اخراجات پورے ہو سکیں۔لہذا اب وہ ایک خیراتی ادارے سے مفت کھانا لے کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔یوں خوراک خریدنے پہ اسے خرچ نہیں کرنا پڑتا اور گزارہ ہو رہا ہے۔اس کا باپ استعمال شدہ تیل سے صابن بناتا اور کچھ رقم کما لیتا ہے۔

ہر انسان کے لیے چیلنج
دنیا بھر میں حکومتیں کم قیمتوں پہ خوراک وایندھن نچلے ومتوسط طبقوں کے افراد کو فراہم کر رہی ہیں ۔اکثر ملکوں میں مگر سب غریب کم قیمت اشیا حاصل نہیں کر پاتے۔وجہ یہ ہے کہ ہر ملک میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھ چکی۔لہذا خصوصاً خوراک سبھی لوگوں کو مہیا نہیں ہو پاتی۔سستی غذا کا حصول درحقیقت ہر انسان کے لیے چیلنج بن چکا۔جو غذائیں ماضی میں بہ آسانی دستیاب تھیں، اب خاصے امیر بھی انھیں خریدنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔اس گھمبیر مسئلے نے اسی لیے جنم لیا کہ دنیا کی آبادی میں تو کروڑوں انسانوں کا اضافہ ہو گیا مگر غذا کی پیداوار اس رفتار سے نہ بڑھ سکی۔مستقبل میں تو پیداوار مزید کم ہونے کا امکان ہے جو مسئلے کو زیادہ تشویش ناک بنا دے گا۔

گاہک کھو بیٹھے گا
افریقی ملک،گھانا میں مقیم مارک فرائم ایک ہوٹل چلاتا ہے۔کہتا ہے کہ کھانوں کے لیے درکار اشیا کی قیمتیں پچھلے دو برس میں دگنی ہو چکیں۔مثلاً ٹماٹروں کا جو تھیلا پہلے تین ڈالر میں آتا تھا، وہ اب چھ ڈالر کا ہو چکا۔عقل یہ کہتی ہے ،مارک کو بھی ہوٹل کے کھانوں کی قیمت دگنی کر دینا چاہیے۔مگر اسے خوف ہے کہ کھانے مہنگے کرنے پر وہ اپنے اکثر گاہک کھو بیٹھے گا۔اسی لیے اس نے کھانوں کی مقدار گھٹا دی، قیمتیں نہیں بڑھائیں۔

گھانا میں پینے کا میٹھا پانی نایاب ہے۔ لہذا وہاں عموماً قیمتاً ملتا ہے۔اور پچھلے ایک سال کے دوران پانی کی قیمت بھی دگنی ہو چکی۔مارک بہت پریشان ہے کیونکہ مہنگائی کے اس عالم میں ہوٹل چلانا کٹھن کام بن چکا۔وہ اگر کھانوں کی قیمت بڑھاتا ہے تو گاہک چلے جائیں گے۔اگر نہیں بڑھاتا تو اسے مالی نقصان ہوتا ہے۔غرض مارک عجب دوراہے پر آ کھڑا ہوا ہے۔

کھاد کی بڑھتی قیمت
تھائی لینڈ چاول پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے۔وہاں کھاد کی بڑھتی قیمتوں نے کسانوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔پچھلے سال کھاد کی ایک بوری 16 ڈالر میں ملتی تھی۔اب اس کی قیمت 30 ڈالر ہو چکی اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔اس اضافے نے کاشت کاری کے اخراجات بھی بڑھا دئیے۔ان کے ساتھ بھی یہی المیّہ درپیش ہے کہ اگر وہ چاول کی قیمت بڑھاتے ہیں تو گاہک کم ملیں گے۔قیمت نہیں بڑھاتے تو انھیں مالی نقصان ہو گا۔

ہر شے مہنگی ہو چکی
یورپی ممالک میں جن لوگوں کی آمدن کم ہے، وہ کھانا پینا کم کر چکے۔کہیں جانا ہو تو پیدل جاتے یا سائیکل استعمال کرتے ہیں۔کئی مردوزن تو شہر چھوڑ کر دیہات جا بسیں ہیں کہ وہاں مہنگائی کم ہے۔بیلجئم یورپ کا امیر ملک ہے۔مگر وہاں چالیس سال بعد مہنگائی کی شرح 9فیصد ہو چکی۔ایکواڈور کی مہاجر، المارنتو بیلجئمی دارالحکومت، برسلز میں ایک ریسٹورنٹ چلاتی ہے۔کہتی ہے:’’اب ہر شے مہنگی ہو چکی…سبزی، گوشت،بجلی،گیس،کاغذ،چمچ مگر میں کھانے کی قیمت میں اضافہ کرنے سے گھبراتی ہوں۔کیونکہ میرے گاہک پہلے ہی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔اگر انھیں یہاں کھانا مہنگا ملا تو نہیں آئیں گے۔یوں میں اپنا کاروبار کھو بیٹھوں گی۔‘‘

سوچ کا انداز مختلف
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرائن کی جنگ ختم ہونے کے بعد ہی ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔مگر روسی صدر پوٹن یہ جنگ روکنے کو تیار نہیں۔وجہ یہ ہے کہ وہ اس جنگ کے ذریعے اپنے مختلف مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔تاہم ان کا طرزعمل دنیا میں کروڑوں انسانوں کو مہنگائی اور بھوک کے عفریتوں کی گرفت میں دے ڈالے گا۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ کا انداز مختلف ہوتا ہے اور ان دونوں طبقوں کے مفادات بھی الگ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔