کراچی جرائم کا گڑھ کیوں

کہا جاتا ہے کہ مجرموں کی حوصلہ شکنی کے لیے فوری ٹرائل اور سخت سزائیں بہت ضروری ہوتی ہیں


Zaheer Akhter Bedari March 16, 2014
[email protected]

کراچی کے ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ عوام برسوں سے جو خوفزدہ اور غیر محفوظ زندگی گزار رہے ہیں اس کی ذمے داری عمومی طور پر پولیس اور رینجرز پر ڈالی جاتی ہے کہ ان اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کراچی میں مجرموں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ دن کی روشنی میں سر راہ جو جرم چاہیں کرتے ہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آپ خود کو نہ گھر کے اندر محفوظ سمجھتے ہیں نہ گھر کے باہر۔ ملک کا آئین اور آئین کی محافظ عدلیہ، قانون اور آئین پر عملدرآمد کرنے والی حکومت، سب یا تو بے دست و پا نظر آتے ہیں یا پھر بے حسی اور نااہلی کے مرتکب ہیں، یہاں ہمارا اشارہ پولیس اور رینجرز کی طرف ہے۔ حکومت کا کام صرف تشویش کا اظہار کرنا، مذمت کرنا یا پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ حکم دینا رہ گیا ہے کہ ''وہ فوری مجرموں کو پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں یا انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں'' اس حکم کے بعد حکومتوں کی ذمے داری ختم ہو جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں کرمنالوجی ایک باقاعدہ علم اور شعبہ ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں جرائم کی وجوہات، محرکات، نفسیات جیسے تمام عناصر کا سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور ماہرین کے ان جائزوں کی روشنی میں جرائم کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں اس قسم کے غیر ضروری تکلفات کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی بلکہ اپنے ہی جاری کردہ ''آرڈر آف دی ڈے'' پر آنکھ بند کر کے عمل کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے جرائم میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہماری انتظامیہ کی کارکردگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں تھانے بکتے ہیں اور تھانوں کے اس نیلام میں وہی خریدار کامیاب ہوتا ہے جو سب سے بڑی بولی لگاتا ہے۔ اس حوالے سے جو سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ جو تھانے دار سب سے زیادہ قیمت لگا کر تھانہ خریدے گا، وہ اپنی رقم واپس کس طرح حاصل کریگا اور تھانوں کے نیلام سے جو رقم حاصل ہوتی ہے وہ کہاں جاتی ہے؟

پولیس اور رینجرز کراچی میں شدت سے متحرک ہیں جس کا اندازہ ان خبروں اور رپورٹوں سے ہو سکتا ہے جو چھاپوں مقابلوں اور گرفتاریوں کے حوالے سے میڈیا میں آتی ہیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ کے مطابق 5 ستمبر 2013 سے 27 جنوری 2013 یعنی لگ بھگ پانچ مہینوں کے مختصر عرصے میں کراچی پولیس نے 13895 ملزمان کو گرفتار کیا جن میں سے 8267 ملزمان مختلف جیلوں میں قید ہیں اور 4972 ملزمان ضمانتوں پر رہا ہیں۔ پولیس اور رینجرز کی تیز رفتاری کا اندازہ صرف ایک روز کی کارکردگی سے کیا جا سکتا ہے یعنی 5 مارچ 2014ء کو پولیس اور رینجرز کی کارروائی میں 111 ملزمان گرفتار ہوئے، 92 چھاپے مارے گئے، 8 پولیس مقابلوں میں بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ مجرموں کی حوصلہ شکنی کے لیے فوری ٹرائل اور سخت سزائیں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ 144 روز میں گرفتار ہونے والوں کی تعداد 13895 ہے، کراچی میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور بلاشبہ پکڑے جانے والوں کی تعداد پانچ کے ہندسوں میں ہے لیکن ان گرفتار ہونے والوں کا ہوا کیا؟ کیا ان کا تیز ٹرائل ہوا، کیا جرم ثابت ہوا؟ اگر جرم ثابت ہوا تو انھیں کیا کیا سزائیں دی گئیں؟ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں اور اس سوال کا جواب نہ ہونا ہی جرائم میں بے تحاشا اضافے اور جرائم پیشہ لوگوں کی دیدہ دلیری کی وجہ ہے۔ پولیس ہو یا رینجرز یہ سب بھی انسان ہیں، تھانے کی نیلامی سے لے کر رشوت لے کر ملزموں کو چھوڑنے تک پولیس پر بے شمار الزامات ہیں۔ رشوت ہمارے قومی جسم میں خون بن کر دوڑ رہی ہے اور پولیس اور رینجرز کے اہلکار بھی قومی جسم ہی کا حصہ ہیں، اگر تھانے نیلام ہوتے ہیں، قدم قدم پر رشوت لی جاتی ہے تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں، لیکن اس کلچر سے مجرم آکاس بیل کی طرح پھیل رہے ہیں اور قوم کے جسم سے لپٹ رہے ہیں۔

جرائم کے حوالے سے ہم نے ترقی یافتہ ملکوں کے طریق کار کا ذکر کیا تھا۔ کیا ہمارے ملک میں اس طریقہ کار کے کسی حصے پر عمل ہو رہا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہی آئے گا۔ کیونکہ ہماری پوری قومی زندگی انتشار، بے ترتیبی اور افراتفری کی شکار ہے۔ حکومت و اپوزیشن کا سب سے بڑا مسئلہ ہمیشہ اپنا پیٹ بھرنا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں یہ پیٹ ایک ایسا بلیک ہول بنا رہتا ہے جس میں دولت کے انبار ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ لہٰذا حکمران طبقات سے یہ توقع کرنا حماقت ہے کہ وہ اس ''موت و زندگی'' کے مسئلے پر سنجیدگی سے کوئی توجہ دیں گے۔

ایک زمانے تک کراچی میں جرائم کی ذمے داری اہل کراچی پر ڈالی جاتی رہی اور یہ کوئی زیادہ غلط بات بھی نہیں تھی لیکن پچھلے کئی سال سے کراچی اور سندھ کے علاوہ بیرونی علاقوں سے جرائم پیشہ گروہ بڑی تعداد میں کراچی آ رہے ہیں کیونکہ کراچی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کی حیثیت سے مشہور ہوگیا ہے۔ کیا ہمارے محکمہ پولیس نے اس حوالے سے کبھی سوچنے کی زحمت کی ہے؟ ہزاروں کی تعداد میں جو ملزمان گرفتار ہو رہے ہیں ان میں سے کتنے فیصد کا تعلق کراچی سے ہے اور کتنے فیصد کا تعلق باہر سے ہے۔ باہر کے علاقوں سے آنیوالے مجرموں میں سے کتنے فیصد بیروزگاری کی وجہ سے جرائم کی دنیا میں آئے ہیں؟ کتنے فیصد زیادہ سے زیادہ دولت کم سے کم وقت میں حاصل کرنے کے لیے کراچی آ رہے ہیں؟ کتنے فیصد مجرموں کا تعلق ایسے گروہوں سے ہے جو اپنی مالیاتی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کراچی کو لوٹنا ضروری سمجھتے ہیں؟ بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان میں کتنے فیصد کا تعلق کراچی سے ہے، کتنے فیصد کا تعلق باہر سے ہے؟ اور بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور صرافہ بازاروں کو لوٹنے سے حاصل ہونے والے کروڑوں روپے کہاں اور کس مقصد کے لیے خرچ ہو رہے ہیں؟ یہ جان کاری حاصل کیے بغیر کی جانے والی پکڑ دھکڑ ایک احمقانہ یا احمق بنانے والی پکڑ دھکڑ کے علاوہ کچھ نہیں۔

کراچی جس قسم کے جرائمی طوفان میں گھرا ہوا ہے اس کا تقاضا ہے کہ یہاں دہشت گردی کی عدالتوں کے ساتھ ساتھ ایسی سرسری سماعت کی عدالتیں بنائی جائیں جو تاریخ پر تاریخ دینے کی مشق کو ترک کر کے حاضر ثبوتوں کی روشنی میں مجرموں کے فیصلے کریں اور انھیں ان کے جرم کی نوعیت کے حساب سے ایسی سخت سزائیں دیں کہ مجرموں کو جرم سے پہلے دس بار سوچنا پڑے۔ ہماری اس تجویز سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو یقیناً اعتراض ہو سکتا ہے لیکن ہنگامی حالات میں ہنگامی اقدامات ضروری ہوتے ہیں جن کے بغیر جرائم پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا۔

مقبول خبریں