بادشاہی مسجد ... عظیم تاریخی عمارت مناسب دیکھ بھال سے محروم

تحریم قاضی  اتوار 25 ستمبر 2022
عوامی رویے اور انتظامی اقدامات کی روداد سناتی تحریر ۔  فوٹو : فائل

عوامی رویے اور انتظامی اقدامات کی روداد سناتی تحریر ۔ فوٹو : فائل

کچھ مناظر اور مقامات انسان کو سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ عہد رفتہ کی کچھ شاندار یادگاریں انسان کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔

ان میں ایک عجب سی کشش انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔کہتے ہیں تصویر اور اصل میں فرق ہوتا ہے اور اس بات پہ یقین کرنے کو دل چاہنے لگا ہے۔ یقین کے اس سفر کی داستان منٹو پارک یعنی گریٹر اقبال پارک کے آہنی دروازے سے شروع ہوئی۔ سامنے دوراہے پہ لگے رہنمائی کرتے بورڈز کی مدد سے اپنی منزل کا تعین کیا ۔ اپنے بائیں جانب سیدھ میں چلتے ہوئے راہداری کے ارد گرد پھیلی سرسبز گھاس کے قالین نے دل موہ لیا۔ دن کے آغاز میں پیڑ پودوں کی کانٹ چھانٹ کا سلسلہ بھی جاری و ساری تھا۔ داہنی جانب پارک میں لگے جھولوں پہ چہکتے بچے زندگی کا احساس دلا رہے تھے ۔

تھوڑا آگے چل کر بائیں ہاتھ حضرت شیر شاہ ولیؒ کا مزار ہے اور آگے شاہی قلعے کی سرخ اونچی دیواریں ۔ ان دیواروں کے سنگ جنوب میں مڑ جائیں تو دائیں جانب گوردوارہ ڈیرہ صاحب شہیدی استھان سری گورو ارجن دیوجی کا مرکزی دروازہ نظر آتا ہے ۔ اور سیدھ میں چل کر بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی دیوار کے درمیان حضوری باغ  کی نمائندگی کرتا بورڈ دکھائی دے گا۔

دائیں جانب سے بادشاہی مسجد کی سمت روشنائی دروازے کو پار کر کے آگے بڑھیں تو دائیں جانب لائبریری اور اس کے آگے دیوار کے سائے میں سردار سکندر حیات کی قبر ہے اور اس سے آگے چند قدم چلنے کے بعد مغلیہ سلطنت کا عظیم شاہکار بادشاہی مسجد کے مرکزی دروازے کو جاتی سیڑھیاں اور اس کے بغل میں عظیم مفکر پاکستان علامہ اقبال کا مزار ہے۔ بادشاہی مسجد مغلیہ طرز تعمیر اور عہد رفتہ کی عظیم یادگار ہے۔

مسجد کو دیکھ کر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے اور یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ انسان آج سے ساڑھے تین سو سال قبل چلا گیا ہے جب یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی ۔ سرخ پتھروں سے بنی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ہر قدم آگے بڑھتے ہوئے آج سے دور جا رہے ہیں ۔ اک احساسِ فرحت و انبساط اور عجب سی اداسی آپ کو گھیر لیتی ہے۔ مسجد میں داخل ہونے سے قبل جوتوں کی حفاظت کے لئے دائیں جانب ٹوکریاں رکھی ہیں جہاںسے ایک ٹوکن ملتا ہے جو جوتے واپس حاصل کرنے میں سہولت اور شناخت کے پیش نظر دیا جاتا ہے۔

مسجد کے مرکزی دروازے پہ محافظ ما مور ہیں اور واک تھرو گیٹ بھی ۔ لیڈی چیکر آنے والی خواتین کے پرس بھی چیک کرتی ہیں۔ دائیں جانب سے اوپر جانے والی سیٹرھیاں تبرکاتِ مقدسہ کی جانب جانے کا راستہ ہیں۔

تبرکات مقدسہ کو محفوظ بنانے کے لئے انھیں شیشوں کے ڈبوں میں رکھا کیا گیا ہے۔ وہاں آنے والے سیاح ان مقدس تبرکات کی زیارت کا شرف حاصل کر تے ہیں جن میں نبی کریم ﷺ کا سبز جبہ مبارک ،عصاء مبارک ، عمامہ شریف مع کلاہ، گدڑی مبارک، اور زلف مبارک شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ پتھر ازاں غارِ حرا، غلاف برنگ سیاہ کعبہ شریف، دستارمبارک برنگ صندل منسوب حضرت امام حسینؓ، دستارمبارک برنگ صندل منسوب حضرت امام حسنؓ ، غلاف روضہ مبارک حضرت امام حسینؓ اور دیگر مقدس شخصیات سے منسوب تبرکات موجود ہیں ۔

ان تبرکات کو دیکھ کر پاکیزگی کا احساس رگ و پے میں دوڑ جاتا ہے۔ ان تبرکات پہ مامور نگران دعا کے لئے کہنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں پانچ سو اور ہزار، ہزار کے نوٹ رکھنے کی ترغیب دے رہے تھے جو وہ ملحقہ کمرے میں پڑے دو بڑے سبز ڈبوں میں ڈال سکیں ۔

جب ان سے پوچھا کہ ’’کیا یہ پانچ سو ہزار کا صدقہ یہاں ڈالنا ضروری ہے؟‘‘ تو وہ جواب دینےسے کترانے لگے اور یہ کہہ کر رخ موڑ لیا کہ ’’ جس کو توفیق ہوتی ہے وہی ڈالتا ہے‘‘ ۔ وہاں موجود باکس محکمہ اوقاف کی جانب سے رکھے گئے ہیں جس میں سیاح حضرات اپنی بساط کے مطابق صدقات اور نذرانہ ڈال سکتے ہیں ۔

مسجد کے وسیع وعریض صحن کے بیچوں بیچ ایک حوض ہے جبکہ اس کے اطراف میں برآمدے ہیں ۔ شمالی حصے میں طلائی قرآن پاک گیلری ہے جس میں سونے کے پانی سے لکھے ہوئے قرآن پاک شیشے کے کیس میں رکھے ہیں اور کمرے کی دونوں دیواروں پہ اللّٰہ اور محمدﷺ کے گولڈن نام فریم میں مزین کئے گئے ہیں جو اکتوبر 1979ء میں صدر و جنرل ضیاء الحق ( مرحوم) نے عطیہ کئے تھے ۔ مگر دیواروں کی حالت خستہ ہے جہاں جگہ جگہ سے روغن اکھٹرا ہوا ہے ۔

برآمدوں میں سے گزرتے ہوئے ایک عجب سے سکوت کا احساس ہوتا ہے مگر اس سکوت کو چیرتی ہوئی سکول سے فرار نوجوانوں کی آوازیں اور قہقہے ناگوار محسوس ہوتے ہیں ۔ دیواروں پہ جگہ جگہ ہدایات موجود ہونے کے باوجود بھی ہر دیوار پہ نقش و نگار بنا کر اسے بھدا اور بدنما بنانے میں وہاں آنے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

برآمدوں میں ہر ستون کے پیچھے کوئی نہ کوئی منچلا سگریٹ کے کش لگاتا نوجوان نظر آتا ہے ۔ کئی تو باقاعدہ نشے میں دھت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور المیہ یہ ہے کہ انھیں مسجد کے تقدس کا ذرہ برابر احساس نہیں ، یہاں تک کہ وہ نعرے بازی اور گنگنانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ ستونوں میں گہری دراڑیں پڑ چکی ہیں اور محرابوں پہ لگے جالے اور دراڑیں خوفزدہ کر دیتی ہیں ۔

انتظامیہ کے ایک گارڈ کا اپنی ڈیوٹی کے بجائے ’’گائیڈ‘‘ کی ڈیوٹی کرنے کا شوق اپنے فرائض سے غفلت برتنے کی ایک مثال تھا ۔ بجائے اس کے کہ وہ برآمدوں میں نظر رکھے اور آوارہ گھومتے نوجوانوں کو مسجد سے نکال باہر کرے وہ بھاری جسامت اور بڑی موچھوں والا ٹورگائیڈبن کر چار رکنی ٹیم کو مسجد کی سیر کرانے میں مصروف تھا ۔ میناروں پہ جانے والے راستوں کو عارضی باڑیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سیاح اوپر جا کر شہر لاہور کا دلکش منظر دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ مسجد کی اندرونی محرابوں پہ خوبصورت نقش و نگار مغلیہ ذوق کی ترجمانی کرتے ہیں ۔

مسجد میں ایسا ٹیکنیکل ساؤنڈ سسٹم موجود ہے جس سے بنا کسی مائیک کے بھی گونج پیدا ہوتی ہے ۔ مسجد میں ٹھنڈے پانی کے کولرز کا انتظام بھی موجود ہے جو کہ سیاحوں کی پیاس بجھانے میں معاون ہے ۔ مگر عمارت کی حالت سے شکست و ریخت عیاں ہے ۔

مسجد کا فرش بھی کئی جگہ سے مرمت کا طلب گار ہے ۔ فرش پہ لوگ سستا رہے تھے جبکہ کچھ ’’ جوڑے ‘‘ ستون کے عقب میں خوش گپیوں میں مشغول تھے مگر کوئی گارڈ اس صورت حال پہ نظر ڈالنے کا روا دار نہیں تھا ۔ مسجد کے جنوبی حصہ میں لگے سارے دروازوں پہ تالے لگے تھے اور اس حصہ کو کاٹھ کبار کا ڈھیڑ ہی بنا کر رکھا گیا تھا ۔ وضو خانے میں پانی کا انتظام البتہ موجود تھا ۔

افسوس کی بات یہ تھی کہ وہاں آنے والا نوجوان طبقہ اسے مسجد کے بجائے ایک عام سیاحتی مقام ہی سمجھتا ہے۔ منچلے اسے پکنک سپاٹ سمجھ کر بے ہودہ حرکات میں لگے تھے جبکہ سیاح نوجوان خواتین انتہائی نامناسب لباس زیب تن کئے کھلے سر بنا دوپٹے یا سکارف کے مسجد میں دندناتی پھرتی اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے میں مشغول تھیں حالانکہ مسجد میں داخل ہوتے ہی تنبیہ کی جاتی ہے کہ یہاں ویڈیو بنانا سختی سے منع ہے اور اس کا جرمانہ کیا جائے گا ۔

اگست 2020ء میں صبا قمر اور گلوگار بلال سعید نے گانے کی ایک ویڈیو مسجد وزیر خان میں شوٹ کی جس پہ عوام الناس میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور پاکستان پینل کوڈ دفعہ 295 کے مطابق مذہبی مقامات کا تقدس پامال کرنے پہ دونوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ۔ اس سے قبل مسجدوں میں نکاح کے فوٹو شوٹ کئے جاتے تھے اور ایسی کوئی پابندی نہ تھی لیکن مسجدوں میں ویڈیو بنانے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ اور محکمہ اوقاف کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے ہیں ۔ مگر یہاں صورتحال بالکل مختلف دکھائی دی ۔

اپنے ثقافتی ورثے کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ بادشاہی مسجد جیسے تاریخی مقامات ہمارا اثاثہ ہیں اور اگر ان کی نگہداشت کو یقینی بنایا جائے تو آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ رہے گا۔ اگرانتظامی معاملات کو مزید بہتر بنا لیا جائے اور وہاں آنے والے سیاحوں کے لئے سہولیات مہیا کی جائیں تو اس سے ملک میں سیاحت کا فروغ ممکن ہوگا۔ اس ضمن میں اوقاف کے علاوہ ہمارے ملک میں محکمہ  تحفظ ثفافتی ورثہ اور سیاحت کا اس ضمن میں اہم کردار ہے انھیں عوام میں اپنے ورثے کے تحفظ اور سیاحتی مقامات سے متعلق آگاہی کی مہم چلانی چاہئے۔

شہریوں کو کسی مقدس مقام پہ جاتے ہوئے کن باتوں کا دھان رکھنا ہے یا کسی سیاحتی مقام پہ کیسے رویوںکا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں کثیر جہتی ابلاغ کے ذرائع کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ سیاحتی مقامات کی ویڈیوز، تصاویر، اشتہارات اور ڈاکومینٹریز بنا کر پیش کرنی چاہئیں۔  مسجد کی تعمیر و مرمت سالانہ نہیں بلکہ ماہانہ بنیادوں پر کی جانی چاہئے۔ وہاں موجود انتظامیہ کو حرکت میں لا کر قوانین کی پاسداری یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

بادشاہی مسجد کیوں تعمیر کی گئی؟
جب بھی کوئی شاہکار تخلیق کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سوچ ہوتی ہے کچھ مقصد ہوتا ہے ۔ بادشاہی مسجد کو مغل بادشاہ شاہجہاں کے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے اپنے دورِ حکومت میں سن 1658سے 1707کے درمیان دو برس (1672-74) میں تعمیر کرایا ۔ اس وقت یہ دنیا کی پانچویں بڑی مسجد ہے جبکہ اس مسجد کو 1673سے 1986کے دوران دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل رہا ۔

بعد ازاں یہ اعزازاسلام آباد میں موجود فیصل مسجد کو حاصل ہوا ۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز اورنگزیب عالمگیر کے بہنوئی جو کہ اس وقت گورنر تھے مظفر حسین نے کیا ۔ بنیادی طور پہ اسے زلف مبارک حضرت محمد مصطفٰیﷺٰ کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا ۔ اس کا طرز تعمیر تاج محل اور جامعہ مسجد سے متاثر ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہاں نے آگرہ اور دہلی میں تعمیر کرائی تھی ۔

اس کی دیواروں پہ لگے سرخ پتھر کی بھی اپنی ایک منفرد پہچان ہے ۔ اسے بھارت کی ریاست راجستھان کے شہر جے پور سے درآمد کیا گیا ۔ جبکہ اس کا فرش سفید سنگ مرمر سے بنا ہے ۔ بادشاہی مسجد کا یہ منفرد اور اچھوتا طرز تعمیر اسے دیگر مساجد سے ممتاز کرتا ہے جوکہ کسی حد تک مصری طرز تعمیر سے مماثلت رکھتا ہے ۔

’’ جو اعتماد مجھے ملا ہے سب میرے پیشے کی دین ہے‘‘ فوٹوگرافر

پچھلی دودہائیوں سے بادشاہی مسجد میں فوٹوگرافی کے شعبہ سے وابستہ ایک فوٹوگرافر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بات کی تو انھوں نے کچھ دلچسپ باتیں بتائیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ یہاں آنے والے سیاحوں کی فوٹوگرافی کرتے ہیں اور یہ کام وہ یہاں موجود ٹھیکے کے مطابق کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں روزانہ یہاں مختلف کلچر اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور جو سیاح بیرونِ ملک سے آتے ہیں۔

ان سے بھی سیکھنے کو ملتا ہے ۔ وہ اردو انگریزی ، چینی اور جاپانی زبان بھی جانتے ہیں ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ وہ جب پہلی بار کیمرہ تھام کر بادشاہی مسجد میں آئے تھے تب وہ نوجوان تھے ، گھریلو حالات کی وجہ سے انھیں تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی ۔ آج وہ نوجوان بچوں کے باپ ہیں ۔ لیکن وہ اس بات پہ تشکر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا تعلق ایک ایسی فیلڈ سے ہے جہاں ہر روز کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے ۔

انھوں نے جتنی بھی زبانیں سیکھیں وہ وہاں اپنے دودہائیوں کے قیام کے دوران مختلف سیاحوں سے میل جول کے ذریعے سیکھیں۔ وہ کہتے ہیں،’’ جو اعتماد مجھے ملا ہے سب میرے پیشے کی دین ہے‘‘ ۔ مشکل اوقات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جب سیاحوں کا سیزن ہوتا ہے اس وقت گزر بسر اچھے سے ہوتا ہے لیکن کورونا کے دوبرس کسی قیامت سے کم نہ تھے تب کوئی کام نہیں تھا اور لاک ڈائون کے دوران جو زندگی بھر کی جمع پونجی تھی وہی لٹا کر گزر بسر کیا ۔

وہ کہتے ہیں یہاں آنے والے مقامی سیاحوں کا رویہ مایوس کن ہوتا ہے ، مسجد کے آداب اور احترام کو فراموش کرتے لوگوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے مگر اس ضمن میں ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ۔ جب ان سے کسی باقاعدہ ادارے سے منسلک نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اپنے اس فیصلے پہ فخر ہے کہ میں نے کسی ادارے میں کیمرہ مین کی نوکری نہیں کی کیونکہ اداروں میں کیمرہ مینز کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ایک کیمرہ مین کو اتنی کم تنخواہ دی جاتی ہے کہ اس کے گھر کا چولہا بھی بمشکل چل سکتا ہے ۔

میں یہاں جو کام کرتا ہوں اس میں الحمد اللّٰہ اتنا کما لیتا ہوں کہ گزر بسر اچھے سے ہو جاتی ہے۔ فوٹوگرافر عموماً ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو زندگی کی دوڑ میں دھکے کھاتے اور لڑکھڑاتے سنبھلتے چلے جاتے ہیں ۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ چند مشہور فوٹوگرافر مقبولیت کی بنا پر بہت پیسے کما رہے ہیں لیکن نجی اداروں سے وابستہ فوٹوگرافر حضرات آج بھی مشکل سے گزر بسر کر رہے ہیں ۔ لوگوں کی یادگاروں کو محفوظ کرنے والا یہ طبقہ خود گمنامی میں ہی زندگی بسر کر دیتا ہے ۔

’’مغربی ثقافت سے متاثر خواتین سکارف کی بات کرنے پہ الجھنے لگتی ہیں‘‘ ، پروٹوکول آفیسر

جب بھی کوئی عمارت یا فن تعمیر کا شاہکار تخلیق کیا جاتا ہے تو اس کی تزئین وآرائش سے بڑھ کر اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت ایک مشکل اور اہم امر ہوتا ہے ۔ بادشاہی مسجد کے انتظام و انصرام کی بابت ہم نے وہاں پہ محکمہ اوقات کی جانب سے تعینات پروٹوکول آفیسر اورنگ زیب سے تفصیلی گفتگو کی جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں سیاحوں کا زیادہ تر سیزن نومبر سے اپریل میں ہوتا ہے جس میں روزانہ بیسیوں سیاح مسجد دیکھنے آتے ہیں ۔

اورنگزیب بتاتے ہیںکہ کورونا لاک ڈائون نے یہاں آنے والے سیاحوںکی تعداد کو متاثر کیا ۔ خصوصاً جو سیاح بیرون ملک سے آتے ہیں ان کی تعداد میں خاطرخواہ کمی ہوئی۔ وہ بتاتے ہیںکہ جب کوئی اعلی سطح کا بیرونی وفد آتا ہے تو مسجد کے خطیب صاحب اور سٹاف کے اعلی افسران اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔

سکیورٹی اور تبرکات کی چوری کی بابت سوال پہ ان کا کہنا تھا کہ نعلین پاک کے نقش چرانے کے واقعے کے بعد انتظامیہ چوکنا ہو گئی جس کا ثبوت مسجد میں جگہ جگہ نصب سکیورٹی کیمرے ہیں۔

اور تبرکات کی حفاطت کے لئے انھیں محفوظ بھی رکھا گیا ہے اور ان پہ محافظ بھی پہرا دیتے ہیں ۔ یہاںآنے والے سیاحوں کی سکیورٹی چیکنگ کے متعلق ان کا کہنا تھاکہ حضوری باغ کے مرکزی دروازے سے لے کر مسجد کے مرکزی دروازے تک گارڈز موجود ہیں ، ایسا ممکن نہیں کہ سیکورٹی پروٹوکول کو کوئی توڑ سکے ۔ مسجد کے اندر تین سکیورٹی گارڈز ہر وقت تعینات رہتے ہیں جبکہ اوقاف کی جانب سے پچپن افراد کی ایک ٹیم صفائی ستھرائی پر مامور ہے ۔ جب ان سے مسجد کی شکست و ریخت کی بابت سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سو سال گزر چکے ہیں اب وقت کے اثرات تو نمایاں ہوں گے ۔

انھوں نے بتایا کہ مسجد کی مرمت اور تزئین کا ٹھیکہ پنجاب حکومت نے آغا خان کنسٹرکشن کمپنی کو 35 کروڑ میں دیا ہے اور اس پروجیکٹ کی نگرانی محکمہ اوقاف کرے گا ۔

مسجد میں تقدس اور حرمت کا پاس رکھنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گیٹ پہ ہی خواتین کو سکارف لینے کی ہدایات کی جاتی ہیں اور اگر کسی کے پاس نہ ہو تو اسے انتظامیہ کی جانب سے عارضی طور پہ سکارف بلا معاوضہ دیا جاتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کچھ ممی ڈیٖڈی قسم کی آنٹیاں آگے سے بحث شروع کر دیتی ہیں اور مجبوراً بدمزگی سے بچنے کی خاطر ہمیں انھیں ننگے سر مسجد میں جانے دینا پڑتا ہے ۔

یہاں کے موجودہ خطیب مولانا عبد الخبیر آزاد ہیں جو کہ محمد عبدالقدیر آزاد کے بیٹے ہیں جو سابقہ امام بادشاہی مسجد لاہور تھے۔ عبد الخبیر آزاد چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کے عہدے پہ بھی فائز ہیں ۔ وہ جمعہ کے روز مسجد میں خطبہ دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔