جس نے بھی جاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کیخلاف آواز اٹھائی وہ ’غدار‘ قرار پایا، ڈاکٹرعالیہ

رضوان طاہر مبین  اتوار 2 اکتوبر 2022
بے نظیر نے خود کو پارٹی چیئرمین بنایا تو نصرت بھٹو کو شدید تکلیف پہنچی، معروف دانش وَر ڈاکٹر عالیہ امام کی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

بے نظیر نے خود کو پارٹی چیئرمین بنایا تو نصرت بھٹو کو شدید تکلیف پہنچی، معروف دانش وَر ڈاکٹر عالیہ امام کی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

ڈاکٹر عالیہ امام اس وقت ہمارے اُن گنے چنے دانش وَرں اور سیاسی بزرگوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے نہ صرف اس ملک کا قیام دیکھا، بلکہ بعد میں یہاں سیاسی جدوجہد میں بھی ایک اہم حصے دار رہیں اور یہاں پیش آنے والے کئی سیاسی واقعات اور المیوں کی چشم دید گواہ ہوئیں۔

اُن کا تعلق ’بائیں بازو‘ کی فکر سے رہا، تو اپنے نظریات کی ترویج کی خاطر انھوں نے نہ صرف اپنی پوری زندگی بسر کی، بلکہ عمر کے اِس حصے میں بھی وہ محنت کشوں، غریبوں اور عوام کی بالادستی اور اختیار کے حامل ایک بھرپور سویرے کے خواب ’جوان‘ رکھتی ہیں۔ اگرچہ ان پر ضعف کے اثرات محسوس کیے جانے لگے ہیں، لیکن لب ولہجے اور طور طریقوں میں گنگا جمنی وضع داری اب بھی خوب جھلکتی ہے۔

ہم جیسے ’بچوں‘ پر ان کا دست شفقت، بلائیں لینے اور دعائیں دینے کی ادا اپنے میں بالکل ہمارے گھروں کی روایتی نانیوں اور دادیوں کی سی جھپ رکھتی ہے اور ان کے در پر قدم بوسی کو پہنچنے والا ہم جیسا طالب علم اور بھلا کیا چاہتا ہے۔۔۔

رسمی کلمات اور انٹرویو کا مقصد وغیرہ سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، تو ہم نے ڈاکٹر عالیہ امام سے پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کے ماحول کو ٹٹولنا چاہا، انھوں نے کہا کہ ’’وہاں نہرو اور گاندھی جیسی ہستیاں تھیں، جو کوئی تفریق نہیں کرتی تھیِں اور جمہوری فضا اتنی بلند تھی کہ آپ تصور نہیں کرسکتے، مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے تھے۔ عوام کی بات ہوتی تھی، کسانوں اور محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے جلوس نکلتے تھے۔‘‘

اُن سے اتنا شانت ماحول کا تذکرہ سن کر ہمارے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ ’’پھر پاکستان بن کر کیا حاصل ہوا۔۔۔؟‘‘

تو کہنے لگیں کہ ’’یہ حاصل ہوا ہے کہ مسلمانوں کو ایک ٹھکانا مل گیا۔‘‘

ہم نے پوچھا کہ ’’وہاں نہیں تھا؟‘‘

جس پر وہ کہتی ہیں کہ ’قائداعظم پاکستان چاہتے تھے، ایک بات یہ ہے کہ فلسطین کے لوگ ایک ٹکڑا زمین کے لیے ترس رہے ہیں، وہاں کچھ قوتیں ایسی اوپر آچکی ہیں، جو نہیں چاہتیں کہ مسلمانوں کو وہ جگہ ملے، جہاں زندگی کے ہر شعبے کے لوگ موجود ہوں۔ انھیں نہیں ملا، ہمیں مل گیا، اسے ہمیں خوب صورت بنانا چاہیے۔‘

’’مسلمان تو وہاں بھی رہ گئے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

’’مسلمان تو دنیا کے ہر گوشے میں رہ گئے ہیں، اس کا تو کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ ہم نے عرض کیا کہ ’’بنایا تو سب مسلمانوں کے لیے تھا؟‘‘

وہ کہتی ہیں کہ ’’وہاں انتہاپسند قوتیں قابض ہیں، تو یہ سب وقتی ہیں، ان کی جڑیں نہیں، یہ سب منظر آج نہیں تو کل تبدیل ہوگا، جمہوری قوتوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ظلم کی طاقت کا فلسفہ ہے، یہ آگے بڑھتی ہیں، پھر پیچھے ہٹتی رہتی ہیں، یہاں تک ختم ہو جاتی ہیں۔ تاریخ میں سب کا انجام یہی ہے۔ جب کہ لہو سو شکل بدل کر ابھرتا ہے، کہیں نعرہ، کہیں پتھر، کہیں انقلاب بنتا ہے اور دنیا میں کہیں انقلاب روس، انقلاب چین اور انقلاب ایران برپا ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر عالیہ امام کہتی ہیں کہ ’’یہاں مختلف قوموں کے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور اسٹیبلشمٹ کے گٹھ جوڑ نے تین طرف اندھیرے اور ایک طرف روشنی کا نظام بنایا، ایک طرف قہقہے اگلتے ایوان بنے، جب کہ تین طرف سسکتی ہوئی، جہل میں ڈوبی ہوئی زندگی بنائی اور جس نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کی اسے غدارِ وطن قرار دے دیا گیا۔‘‘

ڈاکٹر عالیہ بتاتی ہیں کہ وہ جنرل ضیاء کے دور میں میں 24 گھنٹے میں ملک سے نکال دی گئیں، معروف سیاسی راہ نما معراج محمد خان نے کہا تھا کہ ہمیں چَھڑیاں مار کر اِن کے بارے میں پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔ کہتی ہیں کہ ’’دوسری طرف ہم دو سال مارے مارے پھرتے رہے، سوئیڈن اور لندن وغیرہ میں رہے، کسی کے در پر رہنا اور چلے جانا معمولی بات تو نہیں، پھر پاکستان کی محبت میں ہم دوبارہ آگئے۔‘‘

’’ہندوستان سے محبت نہیں ہوئی، آپ کا سب کچھ تو وہاں تھا؟‘‘ اچانک ہمیں خیال آیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’’ہندوستان سے محبت ان معنوں میں تھی کہ میری تعلیم وغیرہ وہاں ہوئی، جب میرے شوہر اور ان کا پورا کنبہ یہاں اگیا، تو پھر ہمارے سوچ کے انداز بھی بدل گئے۔‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’پھر میں پاکستانی ہوگئی۔۔۔ شوہر کی وجہ سے تو سب کچھ کرنا پڑتا ہے، پورا خاندان ان کا یہاں تھا۔‘‘

ڈاکٹر عالیہ امام بتاتی ہیں کہ انھیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں دو مرتبہ ملک سے نکالا گیا۔ انھیں، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کو کوڑوں کی ضربیں بھی لگائی جاتی تھیں، وہ کہتی ہیں کہ ’برنس روڈ پر راتوں کو تمھاری عمر کے لڑکوں پر فائرنگ کی جاتی تھی، اس وقت ہم، ہمارے شوہر اور فیض صاحب گاڑی میں دو، دو، تین تین بجے انھیں اسپتالوں میں لے کر جاتے تھے۔ لاشیں اٹھاتے تھے۔ پھر ہمیں تین ماہ کے لیے اندر کر دیا گیا۔ مگر ہم نے برداشت کیا، کیوں کہ ہمارے سامنے اعلیٰ مقصد تھا۔‘

چین کے حوالے سے ڈاکٹر عالیہ امام بتاتی ہیں کہ انھوں نے چینی وزیراعظم کو پھول دینے چاہے، تو انھیں بتایا گیا کہ ہم اساتذہ، ادیب اور دانش وروں سے گل دستے لیتے نہیں، بلکہ انھیں پیش کرتے ہیں۔ یہاں سے انھیں ’ماسکو لینگویجز اکادمی‘ سے دعوت نامہ آیا۔ کہتی ہیں کہ ’’ہم نے گیارہ دن اور گیارہ رات سفر کیا اور ہم براستہ یورپ ماسکو پہنچے، وہاں ہمارے بڑے بھائی بڑے دانش ور سید محمد مہدی بھی تھے، ان کا بہت اثر رسوخ تھا، اس لیے وہاں کی ’پیس فاؤنڈیشن میں ہماری تقریریں وغیرہ ہوئیں اور بہت پذیرائی ہوئی۔‘‘

ہم نے ڈاکٹر عالیہ امام پر بغاوت کے مقدمے کے حوالے سے بھی استفسار کیا، جس پر انھوں نے بتایا کہ ’’ہم پر غداری کا الزام لگا اور کہا گیا کہ ہم پاکستان کے نہیں ہیں۔ یہ دراصل سوشلسٹ خیالات کے خلاف سازش تھی، جس کا نتیجہ ہم نے بھی بھگتا اور فیض صاحب نے بھی۔ یہی راجا صاحب محمود آباد بھی چاہتے تھے کہ چند لوگ خزانوں کے مالک بن کر نہ بیٹھیں، وسائل سب کے لیے ہوں اور جہاں اخلاقی قوانین اوپر سے تھوپے نہ جائیں، بلکہ زندگی کی معاشی تہوں کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ اعلیٰ اقدار حیات رہنا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہو جائے۔ جتنے بھی بڑے بڑے فلسفی گزرے ہیں ان کا فلسفہ حیات یہی تھا، یہاں یہ نہیں ہو سکا۔۔۔ سرداروں اور جاگیر داروں نے نہیں ہونے دیا۔‘‘

جاگیرداروں کے تذکرے پر ہمارا دھیان ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے دو فی صد وڈیروں کے خلاف آواز اٹھانے کی طر ف گیا، جس پر عالیہ امام کہتی ہیں کہ ’’ساری قومیں اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوتیں جمع ہوتی ہیں تو ہی انقلاب آتا ہے، انقلاب الگ ہو کر نہیں آسکتا کہ چار آدمی کھڑے ہوگئے کہ ہم ’ایم کیو ایم‘ ہیں۔ اور ’ایم کیو ایم‘ میں بھی ایک طرف بڑے بڑے سرمایہ دارہیں، بینکار ہیں، الغرض کون کون نہیں ہے، جن کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں۔ دوسری طرف ہمارے اور تمھارے جیسے عام لوگ ہیں۔‘‘

ہم نے کہا ہر جماعت ہی میں یہ تقسیم ہے کہ وہاں کچھ بڑے عہدوں پر ہیں اور کہیں اس طرح چھوٹے لوگ ہیں؟ تو وہ کہنے لگیں کہ بڑے راہ نما اور چھوٹے کارکن کی بات نہیں، بلکہ بات یہ ہوتی ہے کہ اصل کس ایجنڈے پر چل رہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں، تب تحریک چلاتے ہیں۔‘

’’انھیں کیا کرنا چاہیے تھا؟‘‘

ہمارے اس سوال کے جواب وہ کہتی ہیں کہ میں اس پر زیادہ گفتگو نہیں کروں گی، بس کراچی الگ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، پورے سندھ کی جس طرح وڈیرے اور عام لوگوں کی تقسیم ہے، ایسے ہی کراچی میں بھی ہے۔ آپ سب کو ساتھ لے کر چلیے!‘

ڈاکٹر عالیہ امام بتاتی ہیں کہ وہ ’نیشنل عوامی پارٹی‘ (نیپ) کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن تھی، فیض احمد فیض ذوالفقار علی بھٹو کو لے کر ان کی رہائش فیڈرل بی ایریا آئے، میر رسول بخش تالپور بھی ساتھ تھے۔ بھٹو مجھے اپنی کابینہ میں لینا چاہتے تھے۔

میں نے انھیں بہت احترام کے ساتھ منع کیا، کہ میں اپنی پارٹی سے کمیٹڈ رہنا چاہتی ہوں۔ وہ چپ ہوگئے، لیکن انھیں برا لگا تھا۔ فیض صاحب بھی بہت خفا ہوئے کہ تم نے غلطی کی۔ میں اس وقت ولی خان کے ساتھ تھی، وہ ایک جمہوری راہ نما تھے۔ جب ذوالفقار بھٹو کا زوال ہونے لگا، میں اس وقت پیپلزپارٹی میں شامل ہوئی۔ وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی کے زمانے میں، میں نے بھٹو صاحب کو لکھا کہ چڑھتے ہوئے سورج کی سب پوجا کرتے ہیں، لیکن جب وہ غروب ہوتا ہے تو بہت کم اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ میں آج آپ کو ابھرتا ہوا سورج دیکھ رہی ہوں۔

’’آپ نے ’نیپ‘ کیوں چھوڑی؟‘‘ ہم نے ان کی نئی سیاسی وابستگی کا سبب جاننا چاہا تو انھوں نے کہا کہ ’’میری اور ’نیپ‘ کی لڑائی ہوگئی، وہ کہتے تھے کہ بھٹو سے زیادہ بہتر فوج ہے!‘‘

’’یہ ولی خان کہتے تھے؟‘‘ ہم نے ان سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ’’ولی خان کا گروپ۔‘‘

ہم نے کہا ’’پھر وہ جمہوری راہ نما کیسے ہوئے؟‘‘

وہ کہنے لگیں کہ ’’ان کا ایک گروپ، وہ تو نہیں کہتے تھے کہ فوج بھٹو سے بہتر ہے، بس پھر ہم وہاں سے نکل آئے۔‘‘

ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کے حوالے سے دریافت کیا، تو عالیہ امام بولیں کہ ’مرتضیٰ واقعی مرتضیٰ تھا۔۔۔ وہ کچھ اندرونی اختلاف تھے، اور پیدا کیے گئے تھے؎

اپنے میں اور مجھ میں نہ دے دخل غیر کو

ہوتے ہیں فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ

درمیان کے لوگوں نے بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کو اتنا دور کر دیا تھا۔ میں اندر کی پوری کہانی سے واقف ہوں۔ بیگم نصرت بھٹو ایک ایک قدم پر کہتی تھیں کہ مجھے ذوالفقار بھٹو نے چیئرمین بنایا، میں جسے چاہوں گی، بنا دوں گی اور جھگڑے کی کوئی بات نہیں ہے، میں مرتضیٰ کو چیئرمین نہیں بناؤں گی، بے نظیر کو آپ سمجھا دیجیے۔۔۔! وہ گاڑی بھیج کر مجھے اپنے گھر بلواتی تھیں، بے نظیر مجھے بہت مانتی تھی۔

مگر بے نظیر کو خطرہ تھا کہ مرتضیٰ چیئرمین پیپلزپارٹی نہ بنا دیے جائیں، اس لیے اختلاف بڑھانے شروع کر دیے گئے۔ بے نظیر کے اردگرد لوگوں نے بے نظیر کو آگے بڑھایا اور وہ سینٹرل ایگزیکٹیو کے ارکان اور بیگم بھٹوکو الگ کر کے لاہور چلی گئیں اور اپنے آپ کو چیئرمین بنا دیا۔ اس سے بیگم بھٹو کو جو تکلیف ہوئی وہ تصور بھی نہیں کی جا سکتی، اب مرتضیٰ کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا کہ الگ پارٹی بنائے، جس میں ماں ہونے کے رشتے سے بیگم بھٹو ان کے ساتھ ہولیں، لیکن یہ بھی ایک سازش تھی کہ عام انتخابات میں 17 جگہ پر مرتضیٰ بھٹو کو کھڑا کر دیا، ہم نے انھیں سمجھایا کہ اس طرح تو انتخابات نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر عالیہ امام کہتی ہیں کہ ’’مرتضیٰ بھٹو کی واپسی پر ایئرپورٹ پر اتنے لوگ تھے کہ شاید گاندھی جی کی موت پر ہی اتنے ہوں گے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا اس میں کچھ ایسے ہاتھ ہیِں، جنھیں بس آپ خود سمجھ لیجیے، اتنا ہی کہنا کافی ہے۔‘‘

’’مرتضیٰ بھٹو نے جو ’’الذوالفقار‘‘ بنائی، جس نے پرتشدد کارروائیاں کیں، ’پی آئی اے‘ کا طیارہ بھی اغوا کیا، اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟‘‘

ہمارے اس سوال کے جواب میں انھوں نے بہت محتاط رویہ اپنایا اور کہا ’بس اب یہ تو ہوچکا۔۔۔‘‘

ہم نے کہا ’’لیکن پھر اس طرح سیاست میں تشدد تو آگیا ناں؟‘‘

’’بس میں نے آپ کو بتایا ناں کہ درمیان کے لوگوں نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دیے۔ یہ ہے قصہ بس!‘‘ اس بار بھی انھوں نے مختصر جواب دیا۔ ہم نے ایک بار پھر جاننے کی کوشش کرتے ہوئے دریافت کیا کہ ’’پرتشدد کارروائیاں تو غلط تھیں ناں وہ؟‘‘

جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اب صحیح اور غلط کا فیصلہ تو تاریخ کرتی ہے۔‘‘

’’لیکن آپ کے خیال میں یہ کیا ہے؟‘‘

’’میرے خیال میں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

’’عدم تشدد کے تو خلاف ہے؟‘‘

’’درمیان کے لوگوں نے اتنے اوپر چڑھایا۔‘‘

’’تھا تو غلط ہی، جو ’’الذوالفقار‘‘ بنا کر تشدد کیا گیا؟‘‘

ہمارے اس بار کے سوال پر انھوں نے قدرے وضاحت کی کہ ’’الذوالفقار کا تو تجربہ ہی غلط تھا، جیسے ’ایم کیو ایم‘ والے کہتے ہیں کہ ہم جاگیرداری کے خلاف ہیں۔ لیکن الگ ہو کر تحریک نہیں چلتی۔ اس میں ’زمین کے لوگ‘ شریک ہوں!‘‘

’’کیا یہ (ایم کیو ایم) نہیں ہیں ’زمین کے لوگ۔۔۔؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو وہ بولیں:

’’ایک فرد نہیں، پوری قوم کے لوگ اکھٹے ہوں۔‘‘

’’پھر وہی لوگ جو انھیں اکھٹا نہیں ہونے دیتے؟‘‘ ہم نے انھی کے موقف سے ایک سوال اخذ کیا۔ تو انھوں نے کہا کہ ’بس پھر آپ آئیسولیشن میں رہ جاتے ہیں! تمھیں بالکل معلوم ہے کہ کچھ ’نادیدہ قوتیں‘ ہیں، میں ایک جملے میں بتا چکی ہوں کہ ’ہوتے ہیں فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ!‘ جب پوری تحریک آگے بڑھ جاتی ہے، تو سبوتاژ کرنے آجاتے ہیں۔‘

پیپلزپارٹی کے ساتھ رہنے کے سوال پر کہتی ہیں کہ ساتھ الگ ہونا کچھ نہیں، بس جب آپ ایک نظریے کو پسند کرتے ہیں، تو بس اس نظریے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انھوں نے ایک سے زائد بار استفسار پر بھی یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کب تک باقاعدہ پیپلزپارٹی کا حصہ رہیں اور کب الگ ہوگئیں۔ بس ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے نظریے کے ساتھ ہیں، اور یہی فکر پیپلزپارٹی لے کر چلی تھی، ہم نے سوال کیا کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی تو اب اس نظریے پر نہیں، اور اب یہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی پیپلزپارٹی ہے، کیا آپ ان کے بھی ساتھ ہیں؟ تب بھی انھوں نے یہی کہا کسی فرد کے ساتھ نہیں، جو سوشلسٹ نظریہ دے، میں اس کے ساتھ ہوں۔ میں شخصیت کے بہ جائے نظریے پر کاربند رہتی ہوں۔

ہم نے ڈاکٹر عالیہ امام کے سامنے بے نظیر بھٹو کے پہلے وزارت عظمیٰ کے دور میں مئی 1990ء میں رونما ہونے والے ’سانحہ پکا قلعہ‘ حیدرآباد کا سوال بھی رکھا، پھر نوازشریف اور بے نظیر کے دور میں کراچی میں ہونے والے سیاسی آپریشنوں کا سوال بھی رکھا تو انھوں نے کہا کہ ’’یہ میرا موضوع نہیں ہے، یہ سب سازشیں ہیں۔ عوامی تحریکوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں ہوتی ہیں، جو ہمیشہ سے رہی ہیں۔ ’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں‘‘ اس جگہ پر لا کر کھڑی کردیتی ہیں حکومتیں۔ آپ کی نگاہ کو دھندلا کر دیتی ہیں، کون دوست؟ کون دشمن؟ کس نے تیر چلایا؟ کہاں سے تیر آیا؟ بس ہمیں اس منزل پر لا کر کھڑا کیا گیا ہے۔‘‘

’’عوام کے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد آگے بڑھی یا پیچھے ہٹی؟‘‘ ہم نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ان سے دریافت کیا، جس پر ان کا موقف تھا:

’’نہ آگے اور نہ پیچھے، مسائل ابھی ہیں اور اس کی بنیاد ایک سرمایہ دارانہ نظام بنا ہے۔ جو افراد کو ایسا کردیتا ہے کہ وہ گھر والوں کو دیکھے یا پھر تحریک چلائے! یہ پانی اب اتنا گندا ہے کہ تہہ تک نگاہ پہنچانا دشوار ہے۔۔۔ کہ پتا چلے کہ کون دوست اور کون دشمن؟ کس نے نشانہ بنایا اور کس نے نہیں۔‘‘

ڈاکٹر عالیہ امام کہتی ہیں کہ ان کے ایک مضمون سے متاثر ہوکر فیض احمد فیض نے انھیں ’بلبلِ پاکستان‘ کا خطاب دیا تھا۔ وہ ’مشیر ثقافت‘ کے عہدے پر بھی فائز رہیں، اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’ثقافت خود ایک ہتھیار ہے، جس پر لوگ توجہ نہیں دے رہے۔

یہ ادبی کانفرنسیں یہ محض ناول، افسانہ اور غزل کہہ دینا کافی نہیں ہے، بلکہ اہم یہ ہے کہ یہ سب کس رخِ حیات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ صرف آگے بڑھنا کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ کس سمت جا رہے ہیں۔ رخِ حیات کو طے کریں۔ شعر کی داد، تمغے، واہ واہ ہونا یہ ثقافت نہیں ہے۔ ثقافت زمین سے جڑی ہوئی ایک قوت ہے۔ ہمارے اوپر کے لوگ اس قوت اور گہرائی سے شاید ناواقف ہیں ۔ ثقافت تو ایک ایسا ہتھیار ہے، جو تاریکی کی قوتوں پر وار کرتا ہے اور پھر ایک نئی صبح کا باعث بنتا ہے۔ ‘

ڈاکٹر عالیہ امام اسلام آباد میں قیام کے دوران بھی سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں میں شریک رہیں۔ اب بھی صحت اجازت دے تو وہ خلوص اور محبت سے کسی لیکچر اور اظہارخیال کی دعوت دینے والوں کو رد نہیں کرتیں۔ وہ آخری دم تک سماج کو سیراب کرنے کے نظریے پر یقین رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ اسلام کا شاہ نامہ لکھنے والوں اسلام کا شاہی سے تعلق کیا ہے۔

اسلام اینٹی سام راج اور اینٹی شاہی ہے۔‘ ہم نے ڈاکٹر عالیہ امام کے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ہونے کے حوالے سے پوچھا، تو انھوں نے نفی کی اور کہا کہ ’’میں ان کے ساتھ نہیں رہی، آپ مسائل پر بات کیجیے، شخصیات پر نہ آئیں۔‘‘

ڈاکٹر عالیہ امام نے مذہب سے لگاؤ کا اظہار کیا، تو ہم نے سوشلسٹ سوچ کے حامل افراد کے مذہب کی نفی یا لاتعلقی کرنے کا ذکر چھیڑا، جسے انھوں نے غلط تصور قرار دیا اور کہا کہ اسلام ایسے نظام کی بات کرتا ہے کہ چند لوگوں کی حاکمیت نہ ہو، وسائل سب کے لیے ہوں۔ اسلام اور سوشل ازم ایک ہی ہے، بس اس کے چہرے بدلے ہوئے ہیں۔ جو اسے نہیں سمجھتے وہ نادانی میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اسلام اپنے عہد میں انقلابی ہے، اس کی بنیاد عقل پرستی کی طرف ہے۔ یہی سوشل ازم ہے کہ سب کی صلاحیتوں کو ترقی کے مواقع ملیں، جو یہاں صرف دولت مندوں کو ملتے ہیں۔

ہم نے ڈاکٹر عالیہ امام سے سماجی شعور کی سطح کی بابت دریافت کیا کہ یہ بلند ہے یا پست؟ تو وہ کہنے لگیں کہ ’یہ کوئی بلند یا پست ہونے والی چیز نہیں ہے۔ ایک طبقے یا گروہ کے سامنے ایک نظریہ ہوتا ہے، جسے حالات کے تغیر کے آئینے میں وہ فکروشعور اور جذبے کی صداقت میں آگے بڑھاتا ہے۔ وہ ہو سکتا ہے کہ کبھی مدھم اور کبھی تیز ہوتا رہے۔۔۔ جب تک عوام کے حقوق کی جدوجہد جاری ہے۔ وہ رکے گا نہیں۔

’’کہتے ہیں کہ جس خطے میں ہمارا ملک بنا ہے، وہ انقلاب کے لیے سازگار نہیں، کیوںکہ یہاں لوگ مختلف قوموں، طبقوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں؟‘‘

ہمارے اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ یہ جاگیردار اور سرمایہ دار اور ملٹری کا گٹھ جوڑ ہے، کہ آپ کو پیچھے دھکیلنا ہے۔ یہ ہٹلر اور ظالموں کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔

ڈاکٹر عالیہ امام بتاتی ہیں کہ ان کی پندرہ، سولہ کتب شایع ہو چکی ہیں۔ جب ’اکادمی ادبیات پاکستان‘ کی جانب سے ان کی کتاب ’تصور انقلاب اور جوش‘ شایع ہوئی، تو ایوان صدر نے فون آیا کہ صدر مملکت خود اس کی رونمائی کریں گے، پھر گورنر ہاؤس کراچی میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اس کتاب کے لیے ایک اچھی تقریب سجائی اور کہا کہ لوگوں نے جوش ملیح آبادی کو زبان کا شاعر قرار دیا، حالاں کہ وہ فکر کے شاعر تھے۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا حیدر امام لندن میں ڈاکٹر ہے، ان کی بہو ہندوستان سے تعلق رکھتی ہیں، ایک بیٹی نجمہ بھی لندن میں ہے، جس کے شوہر سائیکیٹرسٹ ہیں، جب کہ کراچی میں وہ اپنی دوسری بیٹی کے ساتھ مقیم ہیں۔

بھوپال، لکھنئو اور لندن سے تعلیمی مدارج طے کیے
ڈاکٹر عالیہ امام بتاتی ہیں کہ وہ 1939ء میں ’یوپی‘ میں پیدا ہوئیں، ہمارا تعلق وہاں کے ایک علمی وادبی گھرانے سے ہے۔ والد ایڈووکیٹ جنرل تھے، میں 1969ء میں پاکستان آئی۔۔۔ ہمارے والد ایڈووکیٹ جنرل تھے اور ہمارا گھرانا عالموں اور ادیبوں کا تھا، جہاں اردو کے انقلابی شاعر جوش ملیح آبادی، علامہ اقبال، ممتاز دانش ور علامہ نیاز فتح پوری اور سید محمد عسکری وغیرہ جمع رہتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارا گھرانا دہلی ہی میں رہا، صرف ایک بہن سیدہ عابد عباس یہاں آئیں، جو ایجوکیشنل سیکریٹری بھی رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’راجا صاحب محمود آباد پاکستان کے معماروں میں سے ہیں، انھوں نے اپنی پوری جائیداد اور دولت پاکستان کے حوالے کر دی ان کے چھوٹے بھائی راجا شہنشاہ حسین امام کے بیٹے راجا کاظم امام سے 1968ء میں ہماری شادی ہوئی، وہ سوئیڈن میں ایک اعلیٰ عہدے پر تھے۔

ہمارے سسرال میں ایک سے ایک اعلیٰ فن کار آتے تھے۔ ہمارے شوہر کی کلاسیکی موسیقی پر بڑی نظر تھی، جب ہم پاکستان آگئے، تو ہماری سب سے پہلے نثار میمن اور پروفیسر شمشاد وغیرہ سے ملاقات ہوئی۔ ان کے توسط سے آدم جی سائنس کالج میں تدریس کی ملازمت مل گئی۔ اسی زمان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بڑی تحریک چل رہی تھی، ہمارے پرنسپل کو پتا چلا کہ یہ بھی سوشلسٹ ہیں، لہٰذا انھیں بھی نکالا جائے۔ جب ہمیں نکال دیا تو آغا شاہی نے فوراً اسی زمانے میں مجھے اور شوہر کو وہاں پرنٹنگ پریس میں انچارج بنا دیا، پھر ہم چین چلے گئے۔

تعلیم کے حوالے سے ڈاکٹر عالیہ امام بتاتی ہیں کہ وہ کیمبرج اسکول (بھوپال) میں زیرتعلیم رہیں۔ پھر لکھنئو یونیورسٹی میں بھی زیرتعلیم رہیں۔ بعد میں لندن میں قیام کے دوران وہاں سے ’جدوجہدِ آزادی میں ادب کا حصہ‘ پر ’پی ایچ ڈی‘ کیا اور بعد میں ’لٹریچر اور سائنس‘ پر بھی تحقیق کی۔

جب نصرت بھٹو کو فارسی میں بات کرنے سے روک دیا گیا
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے حوالے سے ماضی کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر عالیہ امام کہتی ہیں کہ ’’بھٹو کی لائبریری والے کمرے میں مرتضیٰ کی لاش رکھی ہوئی تھی۔ شاید اتنا بڑا ’ماتم‘ محرم پر بھی نہ ہو، جتنا مجمع اُس وقت وہاں تھا۔ سبھی غم گین ایک دوسرے کو پرسہ دے رہے تھے۔

معراج محمد خان بھی موجود تھے، بیگم نصرت بھٹو آتی ہیں، ان کے پاس صحافی دوڑے چلے آتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وہاں موجود رخسانہ بنگش انگریزی میں ان سے کہتی ہیں ’’بیگم بھٹو آپ فارسی میں کچھ نہیں کہیں گی۔‘‘ غم سے نڈھال بیگم بھٹو مجھ سے نحیف ونزار آواز میں مجھ سے کہتی ہیں ’’دیکھیے ناں، ڈاکٹر صاحب، میری تو مادری زبان فارسی ہے۔۔۔‘‘

ماجرا یہ تھا کہ ضیا اصفہائی کی ماں قمر اصفہانی آئی ہوئی تھیں، وہ فارسی میں بات کر رہی تھیں۔ نصرت بھٹو کو اس لیے روکا گیا کہ وہ انگریزی میں اتنے زیادہ اچھی طرح بات نہیں کر پائیں گی، جس طرح روانی اور آسانی سے فارسی میں کہہ سکیں گی، اس طرح پھر صحافیوں کے سامنے انھوں نے کوئی بات نہیں کی۔ ڈاکٹر عالیہ امام کہتی ہیں کہ نصرت بھٹو کو اردو بھی آتی تھی، لیکن فارسی ان کی مادری زبان تھی۔

کبھی کوئی معمار بھی گھر میں رہا ہے۔۔۔؟‘‘
تحریک پاکستان کے راہ نما راجا صاحب محمود آباد ڈاکٹر عالیہ امام کے شوہر کے بڑے بھائی تھے۔ ہم نے قیام پاکستان کے اوائل میں ’مسلم لیگی قیادت سے اختلاف کے حوالے سے جاننا چاہا تو انھوں نے بتایا کہ پہلے جہاں 70 کلفٹن کے قریب ہمارا گھر تھا، وہاں راجا صاحب محمود آباد بھی رہتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا ’’راج ابا، (انھیں سب راج ابا کہتے تھے) آپ یہ بتائیے کہ قائداعظم بھی آپ کے گھر آئے تھے، آپ نے اتنی بڑی ریاست اور یہ سب کچھ پاکستان کے حوالے کر دیا، آپ کو کیا ملا؟ اس وقت وہ حقہ پی رہے تھے، تھوڑی دیر خاموش ہوگئے۔ پھر کہنے لگے’’عالیہ، تمھارا تاریخی شعور بہت کم زور ہے۔‘‘

میں نے کہا آپ کے سامنے تو ظاہر ہے میری علمیت کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی، لیکن پھر بھی آپ ہمیں بتائیے تو سہی کہ اتنا کچھ پاکستان کو دیا، آپ کو کیا ملا؟ جس پر وہ مسکرائے اور کہا کہ ’’کیا کبھی کوئی معمار بھی گھر میں رہا ہے۔۔۔؟‘‘ بس یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے، پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں، اس کے بعد وہ لندن چلے گئے۔

ہم نے ڈاکٹر عالیہ امام سے ان کے یہاں کی قیادت سے اختلافات کی نوعیت جاننا چاہی تو وہ بولیں ’’وہ پاکستان میں جمہوریت چاہتے تھے، وہ رسول کریم ﷺکی تعلیمات سے متاثر ہو کر ایک فقرہ ہر جگہ دُہراتے تھے کہ ہم ایک ایسا نظامِ حیات چاہتے ہیں، جہاں چند لوگ وسائل کے مالک بن کر نہ بیٹھیں، بلکہ زندگی کے تمام پوشیدہ خزینے عام لوگوں کے کام آئیں۔‘‘

ولی خان نے کہا کیا آپ کو ہمارا کوئی دعوت نامہ ملا تھا؟
ڈاکٹر عالیہ امام نے بتایا کہ 1972ء میں لسانی بل کے ذریعے سندھی اور مہاجر قوموں کو باقاعدگی کے ساتھ تقسیم کر دیا گیا، جس کے بعد پیدا ہونے والی نزاعی صورت حال پر ذوالفقار علی بھٹو نے ملاقات کے لیے مختلف اردو اور سندھی کے دانش ور اور ادبا وغیرہ کو اسلام آباد بلایا، تو وہ بھی ان میں شامل تھیں۔ اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں ایک طرف سید محمد تقی، رئیس امروہوی، وائس چانسلر جامعہ کراچی ڈاکٹر محمود حسین وغیرہ اور دوسری طرف شیخ ایاز وغیرہ سب تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو دونوں کے درمیان بیٹھے۔ اس بیٹھک میں قاضی فضل اللہ نے کہا ’’سائیں۔۔۔! یہ آجر لوگ ہیں، سائیں۔۔۔! یہ کتابیں لکھتے ہیں، سائیں۔۔۔! یہ رہتے تو دلّی میں تھے۔ دلی کے کوچے انھیں بہت پسند تھے؎

دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

یہ ایسے عاشق تھے، لیکن سائیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ دنیا کا سب سے خوب صورت ملک کون سا ہے۔۔۔؟ تو انھوں نے کہا حضور مکہ اورمدینہ۔۔۔! سائیں۔۔۔! یہ گنگا جَل پیتے تھے، گنگا جَل میں نہاتے تھے، جَمنا کی سیر کرتے تھے، لیکن جب ان سے پوچھا گیا دنیا کا شیریں ترین پانی کون سا ہے۔۔۔؟ تو انھوں نے کہہ دیا دجلہ اور فرات۔۔۔! ان سے دنیا کا شیریں ترین پھل پوچھا، تو ان کے تو وہاں آم کے باغات تھے، ان کے شعرا کو بھی آم بہت پسند تھے، لیکن جب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ کھجور۔۔۔! تو یہ جب اُس ملک میں رہتے ہوئے وہاں کے نہ ہوئے، تو ہمارے تمھارے کیا ہوں گے۔۔۔!!‘‘

وہ کہتی ہیں کہ اس وقت وہاں سب بیٹھے ہوئے تھے، کوئی کچھ نہ بولا اور کیا کہتے؟ کچھ بول ہی نہیں سکتے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ پشاور میں ’نیپ‘ (نیشنل عوامی پارٹی) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں مختلف پروفیسر کہہ رہے تھے کہ ہم نے پاکستان کے لیے ہندوستان میں یہ چھوڑ دیا اور وہ چھوڑ دیا، پاکستان کے واسطے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ جب سب کہہ چکے، تو ولی خان نے کہا کہ اگر ایک جملے کی اجازت ہو تو میں بھی کہہ دوں۔ پھر کہنے لگے کہ ’’مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ آپ لوگوں کو کیا ہمارا کوئی دعوت نامہ ملا تھا؟ جو گیٹ کریش کر کر کے آگئے!‘‘

عالیہ امام کہتی ہیں کہ ولی خان کا یہ بہت بڑا جملہ تھا۔ اب اس کا کیا مطلب نکلتا ہے، جو سمجھتا ہے وہ سمجھ جائے۔

آپ کو سندھی قوم میں گھلنا ملنا چاہیے تھا!
ڈاکٹر عالیہ امام کا خیال ہے کہ 1947ء کے بعد ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں سے جو مہاجر سندھ میں آئے تھے، انھیں چاہیے تھا کہ وہ سندھی قوم میں گھلتے ملتے، ان کے ساتھ شادیاں کرتے، اپنے تعلقات بڑھاتے۔ آج لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کون ہیں، پہلے تو ’تلیَر‘ تھے، ’مکّڑ‘ تھے، اب ہم کیا ہیں۔۔۔؟ آپ سندھی ہیں۔ آپ سندھی زبان سیکھتے، سندھیوں سے میل جول بڑھاتے!‘‘

ہم نے کہا کہ ’سندھ میں تو دوسری قومیں بھی رہتی ہیں، اور اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں، لیکن سندھی بننے کا تقاضا صرف مہاجروں ہی سے کیوں کیا جاتا ہے؟‘ جس پر انھوں نے کہا کہ دوسری قوم، جیسے بلوچستان اور پنجاب وغیرہ کے تو اپنے صوبے تھے، پاکستان کے تھے۔ یہ سب یہاں سے آئے تھے۔ تم کہاں سے آئے۔۔۔؟

ہم نے کہا اس ملک کے لیے قربانیاں تو دی ہیں؟ ہجرت کرنے والوں کے علاقوں سے قیام پاکستان کے لیے 56 فی صد ووٹ تھے، تو کیا اب انھیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے؟ ‘

جس پر انھوں نے کہا ’’بس! آپ وہاں سے آئے تھے، یہ یہاں سے آئے تھے! ملک بن چکا ہے، بس اسے خوب صورت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اب پاکستان تمھارا ہے، ایک ٹکڑا زمین مل گیا، تم لوگ خوش قسمت ہو کہ تمھیں ایک ٹکڑا ملا ہے۔ اسے اچھا بنائو تاکہ دنیا میں مقام ملے۔ فلسطینی تو ابھی تک اس کے لیے جدوجہد ہی کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔