ایک دن ویران مندروں میں ذکر شری کٹاس راج کے قدیم مندروں کا

حارث بٹ  اتوار 2 اکتوبر 2022
پنجاب کی جھیلوں اور شمال کی جھیلوں میں ایک واضح فرق ہے۔

پنجاب کی جھیلوں اور شمال کی جھیلوں میں ایک واضح فرق ہے۔

مہا بھارت میں جب ارجن اپنے بھائی کرشن سے اس دنیا کے بارے میں کچھ بھید جاننا چاہتا ہے تو کرشن کہتا ہے ’’اور یہ بھی جان لو کہ کنول کے پتے اور مرغابی کے پَر پانی میں رہنے کے باوجود خشک رہتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہیں پر اس کی آلائشوں سے آزاد رہتے ہیں۔‘‘

میں ادھر اُدھر بھٹکتا پھرتا ہوں۔ کبھی پرانی مسجدوں میں، کبھی مندوں میں تو کبھی گوردوارں میں، اور مجھے اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ مندر ہندوؤں کا ہے یا جین مذہب کے ماننے والوں کا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں بھگوان شیوا کے شوالا مندر جا رہا ہوں یا پھر کسی دیوی کے مندر۔ میں تو بس جہاں کسی مٹتی ہوئی تہذیب کے بارے میں سنتا ہوں تو اس جانب سفر کو نکل پڑتا ہوں۔

کسی پرانی ڈھے چکی عمارت کی تصویر دیکھتا ہوں تو اس جانب نکل پڑتا ہوں کہ نہ جانے کب اس کی گرتی ہوئی دیوار کو فقط ایک دھکا اور دیا جائے اور یہ عمارتیں، یہ پرانی حویلیاں، متروک شدہ عبادت گاہیں مکمل طور پر ناپید نہ ہوجائیں اور ایسا ہوا بھی کہ میرے اپنے ہی شہر سیالکوٹ میں ایک بڑی پرانی حویلی تھی جس نے مجھے ہمیشہ ہی اپنی طرف کھینچا تھا۔

وہ ویران تھی، اجاڑ تھی مگر مضبوط تھی۔ اس کے درودیوار ایسے کم زور نہ تھے کہ زمانے کے تھپیڑوں کو نہ سہہ سکتے مگر اسے پھر بھی گرا دیا گیا۔ یہ حویلی سردار گنڈا سنگھ اوبرائے نے بنوائی تھی جنھوں نے اوبرائے اسپورٹس کے نام سے سیالکوٹ میں ایک بڑی فیکٹری بھی بنائی تھی۔ یہ حویلی تقسیم کے بعد سیالکوٹ جنرل ڈاک خانے کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی۔ بعد میں جب ڈاک خانے کی اپنی عمارت تیار ہوگئی تو اس حویلی کو خالی کردیا گیا۔

بعد میں پتا نہیں اس حویلی پر کیسے قبضہ ہوگیا اور اس کے وارث نہ جانے کہاں سے پیدا ہوگئے۔ حالاںکہ سردار گنڈا سنگھ اوبرائے اپنے پورے خاندان کے ساتھ بھارت چلے گئے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ حویلی اب موجود نہیں۔ اس جگہ بس اب ایک کھلا میدان ہے۔ ایک کام کی بات بتاتا چلوں کہ جس روڈ پر یہ حویلی تھی وہ شہر کا مصروف ترین کمرشل علاقہ ہے۔

میں نہ تو کرشن تھا اور نہ ارجن تھا کہ مجھے دنیا کی آلائشوں سے کوئی رغبت نہ ہو، میں تو ایک لُور لُور پھرنے والا ایک بنجارا تھا جسے کسی بھی حالت میں سکون نہیں تھا۔ جو اگر گھر میں ہو تو اسے باہر کی یاد ستاتی ہے اور اگر کبھی باہر نکل جائے تو اسے کاکے یاد آنے لگتے ہیں۔ نہ جانے میرا سفر ہمیشہ پانیوں کی طرف ہی کیوں ہوتا ہے اور ویرانیوں کی طرف بھی۔ شاید اس لیے کہ انسان کی تخلیق بھی پانی سے ہی ہوئی ہے اور ہر قسم کی تخلیق کے لیے ویرانی درکار ہوتی ہے۔

میرے احباب اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم فلاں جگہ کس کے ساتھ جا رہے ہو یا پھر کس کے ساتھ گئے تو میرا زیادہ تر جواب ہوتا ہے کہ میں وہاں بالکل تنہا تھا۔ جواب ملتا ہے کہ ایک تنہا انسان کیوںکر زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے تو پیاروں میرے نزدیک سب سے زیادہ لطف اندوز ہونے والی چیز تنہائی ہے۔ اگر آپ اپنی تنہائی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے تو شاید آپ اپنی کسی بھی چیز سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ زندہ رہنے کے لیے جن عناصر کی ضرورت ہوتی ہے ان میں کتاب,، قلم اور تنہائی بہت اہم ہیں۔

پنجاب کی جھیلوں اور شمال کی جھیلوں میں ایک واضح فرق ہے۔ شمال کی جھیلیں دور سے بہت پیاری لگتی ہیں، قریب جانے پر ان کے حُسن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب کہ پنجاب کی جھیلیں صرف دور سے ہی پیاری لگتی ہیں۔ ان کے قریب جانے پر وہ اپنا حُسن کھو دیتی ہیں۔ ہم وادیِ سون سے کلر کہار کو آتی سڑک پر سے نیچے اتر رہے تھے تو بھری بھری سی ہلکے سبز رنگ کے پانیوں والی کلر کہار جھیل بہت بھلی لگ رہی تھی۔

موسم ایسا نہ تھا کہ یہاں کوئی مرغابی ہوتی ورنہ ہم اپنے لیے وہ کم از کم وہ چار مرغابیاں ضرور تلاش کر لیتے جن کا تعلق خوشی کے ساتھ تھا مگر مشکل یہ تھی کہ ہم جس موسم میں کلرکہار جھیل پر اتر رہے تھے، اس موسم میں یہاں مرغابیاں نہیں ملتیں ورنہ صرف ایک مرغابی ہی ہماری خوشی کے لیے بہت تھی۔ دور سے دیکھنے پر احساس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ جھیل سہانی دھند میں لپٹی ہوئی ہو، مگر وہاں کوئی دھند نہ تھی۔ جولائی کے ماہ میں دھند کیوںکر ہونے لگی۔

نہ تو ہم کوئی مجنون تھے اور بھٹکے ہوئے راہی کہ اسے دھند مان لیں۔ دن حبس کے تھے مگر چوںکہ آسمان پر سورج کے آگے بادل تھے اور ہم بائیک پر تھے اس لیے خوش گوار سا محسوس ہو رہا تھا۔ دور سے ہی کلر کہار جھیل بہت بھلی سی محسوس ہو رہی تھی۔

اس لیے ہم نے اس کے قریب جانے کی کوشش نہیں کی۔ قریب جانے پر اسے کیسا دکھنا تھا یہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا۔ ایسا نہیں کہ کلرکہار جھیل پیاری نہیں، وہ بہت پیاری ہے، جیسے شمال کی جھیلوں کو دیکھنے کا وقت ہوتا ہے کہ جھیل کے رنگ صبح کے وقت سب سے زیادہ نکھر کر سامنے آتے ہیں اور دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ جھیل کے رنگ بھی ڈھل جاتے ہیں۔

بالکل اسی طرح پنجاب کی جھیلوں کو دیکھنے کے موسم ہوتے ہیں اور جون جولائی تو ان جھیلوں کے قریب جانے والا موسم بالکل بھی نہیں۔ مگر میں فقط ایک روٹی کے ٹکڑے کی وجہ سے مجبور تھا اور پنجاب کی جھیلوں کو اُن موسموں میں کبھی نہ دیکھ سکا تھا جن میں مجھے انھیں دیکھنا چاہیے تھا۔

میں فقط جون جولائی میں ہی اپنے کام سے فراغت پاتا تھا۔ اس لیے میں نے کلرکہار جھیل کے قریب جانا مناسب نہیں سمجھا کہ کائی زدہ پانی کو دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم نے دور سے ہی کلرکہار جھیل پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور ’’پھر کبھی‘‘ آنے کے وعدے کے ساتھ ہم کٹاس راج کی طرف چل پڑے۔

ہمارا سفر کٹاس راج کی طرف جاری تھا کہ راستے میں ’’تختِ بابری‘‘ کا بورڈ نظر آیا۔ ساتھ ایک سیدھی سڑک اوپر کو جا رہی تھی۔ وقاص نے میرے کہنے پر بائیک اس سڑک پر ڈال دی۔ تختِ بابری کیا ہے؟ روایت ہے کہ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر، جس نے کابل سے دہلی تک حکومت کی، کی فوجوں نے کلر کہار پڑاؤ ڈالا تو ایک بڑے پتھر کو کاٹ کر اس کا تخت بنا دیا گیا۔ اسی کو تختِ بابری کہا جاتا ہے۔ بابر نے یہاں ایک باغ بھی بنوایا تھا جو آج بھی قائم ہے۔

اسے باغِ صفا کہا جاتا ہے۔ اگرچہ میں کوئی مغلیہ خاندان کا چشم و چراغ نہ تھا مگر میں پھر بھی اس تخت پر جلوہ افروز تھا جو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے لیے بنایا گیا تھا۔ میرے پاس عیش کا کوئی سامان نہیں تھا مگر اتنا تو تھا کہ آج میں اور بابر ایک ہی تخت کے مالک بن گئے تھے مگر نہ تو یہ تخت مستقل طور پر بابر کے پاس رہا اور نہ میرے پاس رہنا تھا۔

یہی شاید اس دنیا کی سب سے بڑی خوب صورتی ہے کہ یہاں کچھ بھی مستقل نہیں۔ اگر کچھ مستقل ہے تو وہ ہے ’’تبدیلی‘‘ کہ یہاں سب کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ سب کچھ حرکت میں ہے۔ سکوت میں کچھ بھی نہیں۔ تختِ بابری کو دیکھ کر مجھے اپنے انجنیئرنگ انسٹیٹیوٹ کے تیسرے سال کا وہ ٹور یاد آ گیا جب ہم شمالی علاقہ جات کی سیاحت کو گئے تھے تو واپسی پر کلرکہار انٹرچینج سے باہر نکل کر ہمیں تختِ بابری لے جایا گیا۔ اس زمانے میں ہم نئے نئے hiking کے لفظ سے متعارف ہوئے تھے اور ابھی ایک دن پہلے ہی ہم نے ڈونگا گلی سے ایوبیہ کے لیے hiking کی تھی۔ اس لیے نیا نیا جنون تھا تو ہم لوگ تختِ بابری کے پیچھے موجود ایک پہاڑی پر چڑھ گئے۔

ہم کچھ ہی لڑکے اور چند ایک لڑکیاں تھیں جنھوں نے اس پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کی مگر جب سانس پھولنے لگا تو لڑکیاں فوری طور پر نیچے بھاگ گئیں۔ ہم چار پانچ لڑکوں نے کوشش کی اور اس پہاڑی پر جا پہنچے۔ تھوڑی دیر وہی رک کر اردگرد کی علاقوں کا نظارہ کیا اور پھر نیچے اتر آئے۔

میری خواہش تھی کہ ایک بار پھر انہی یادوں کو تازہ کیا جائے، اسی پہاڑی پر چڑھا جائے جہاں میں آج سے کم و بیش بارہ تیرہ سال پہلے چڑھا تھا کہ شاید ہمارے قدموں کے نشان اب بھی کہیں موجود ہوں مگر فی الوقت ہمارے پاس وقت کم تھا کہ ابھی کٹاس راج مندر جانا تھا اور وہاں موجود قدیم مندوں کو دیکھنا تھا، اس لیے تختِ بابری پر ہی کھڑے ہو کر اپنی پرانی یادوں کو تازہ کیا اور آگے کٹاس راج کی طرف چل پڑے۔

ابھی آپ کٹاس راج سے بہت دور ہوتے ہیں تو سڑکوں پر لکھا آنا شروع ہو جاتا ہے کہ کٹاس راج اتنے کلومیٹر رہ گیا ہے۔ ابھی کٹاس راج کچھ فاصلے پر تھا کہ دور سے کٹاس کے مندر نظر آنا شروع ہوگئے۔ میں نے وقاص کو ہاتھ سے ایک مندر کی طرف اشارہ کیا کہ دیکھو کٹاس راج آ گیا ہے۔

ہمارے دونوں جانب پہاڑیاں تھیں اور ان پہاڑیوں پر مندر تھے۔ ہم نے بائیک ایک طرف لگائی اور کٹاس راج کے کمپلیکس میں داخل ہوگئے۔ کٹاس راج مندر میں داخل ہونے کی کوئی فیس نہیں۔ لیکن شاید ایک قدیم ورثے کو دیکھنے آنے والے مسلمان سیاحوں سے حکومت کو فیس لینی چاہیے کہ اس سے ایک اچھا منافع مل سکتا ہے جو انہیں مندروں پر خرچ کر کے ان کی حالت مزید بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

ہم نے ایک رجسٹر میں انٹری کروائی تو ایک شخص ہمارے ساتھ ہو لیا۔ حالاںکہ کٹاس راج کی ساری تاریخ ہمیں معلوم تھی۔ ہم جانتے تھے کہ کٹاس راج کے تانے بانے دو ہزار سال سے بھی قبل کر ہیں کہ اس جگہ کا براہ راست تعلق شِومہاراج اور ان کی پتنی پاروتی کے ساتھ تھا مگر پھر بھی ہم نے اس آدمی کا اپنے ساتھ لے لیا کہ حضرت نے ہمیں لالچ دیا تھا کہ وہ ہمارے لیے شِو مندر بھی کھول دیں گے، جس میں شِو مہاراج کا ’’ایک خاص نشان‘‘ موجود تھا۔

ہم اس لالچ میں آ گئے اور ہمارے لیے فقط ڈیڑھ سو روپے میں شِیو مندر کھول دیا گیا۔ جونہی مندر کی حدود شروع ہونے لگی تو ہم نے اپنے جوتے باہر ہی اتار دیے کہ ہم سب پر دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام بھی واجب ہے، نہ صرف واجب ہے بلکہ عین فرض بھی ہے۔ شیو مندر کا دروازہ کھلا تو ایک بڑا سا پھولوں سے سجا ہوا سنگی پیکر ہمارے سامنے تھا جسے دیکھ کر میںحیرت زدہ بھی ہوگیا۔

میں نے وقاص کو سمجھایا کہ یہ اصل میں کیا ہے تو وقاص نے مجھے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ اس شبیہ کی پوجا کی جاتی ہے، اس پر دودھ چڑھایا جاتا ہے، پھولوں سے اسے سجایا جاتا ہے، یہ چوںکہ ایک خالصتاً مذہبی معاملہ ہے، اس لیے یہاں خاموشی ہی بہتر ہے۔

مہابھارت میں ہے کہ جب ارجن نے کہا کہ اے کرشن اگر تم واحد ہو، ایک ہو تمھارے سوا کوئی دوسرا نہیں تو یہ کیا ہے کہ دنیا میں اتنے مذہب ہیں، اتنے فرقے ہیں تو کرشن کہتا ہے، ’’جان لو ارجن کہ جو کوئی صدقِ دل سے میری تلاش میں نکلتا ہے اور وہ جس راستے سے بھی میری جانب آتا ہے تو میں آگے بڑھ کر اسی راستے پر اس کا استقبال کرتا ہوں، اسے مل جاتا ہوں۔‘‘

اس شبیہ کے سامنے نندی (بیل) کی مورتی رکھی تھی۔ تقریباً ہر شیوا مندر میں شیو کے اس نشان کے سامنے نندی جی کی مورتی رکھی ہوتی ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق نندی کو شیوا بھگوان سے اس قدر محبت تھی کہ انھوں نے شیوا بھگوان سے درخواست کی کہ وہ انھیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رہنے کی اجازت دیں۔ شیوا بھگوان نے نندی کو ایک بیل ک اروپ دے دیا اور اس کے بعد نندی ہمیشہ شیوا کے سامنے ہی رہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نندی کے کان میں جو بات کہی جائے وہ نندی خود شیوا بھگوان کو بتاتے ہیں۔ نندی کو بھگوان شیوا کا اوتار بھی مانا جاتا ہے کہ بھگوان شیوا نے نندی کے روپ میں بھی جنم لیا تھا ہندو مذہب کے مطابق نندی کا جنم آگ سے ہوا تھا۔ ہر شیوا مندر کی طرح یہاں بھی ترشول موجود تھا۔ شری کٹاس راج میں شیوا بھگوان کے علاوہ ان کی پتنی پاروتی کی بھی مورتی رکھی ہے اور ان کے کچھ اوتار جیسے دُرگاں ماں، شیراں والی ماں کی بھی تصاویر لگی ہیں۔

شری کٹاس راج میں شیوا مندر کے ساتھ ہی ایک بارہ دری ہے اور بارہ دری کے بالکل ساتھ مقدس پانیوں کا چشمہ ہے۔ روایات میں ہے کہ جب بھگوان شیوا کی پتنی پاروتی مر گئیں تو پاروتی کے دکھ میں شیوا جی کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے۔ ایک آنسو اجمیرشریف کے پاس کہیں جا کر گرا اور دوسرا آنسو پوٹھوہار کے علاقے میں گرا جس کے اطراف بعد میں مندر بنا دیے گئے۔

بہت سے مندروں کے اس کمپلیکس کو ہم شری کٹاس راج کہتے ہیں اور یہاں جو چشمہ ہے یہ مقدس پانیوں کا چشمہ ہے بلکہ یہ بھگوان شیوا کا آنسو ہے۔ اگر آپ ایک مذہب کے ماننے والے ہیں تو اسی خدا کا آنسو آپ کے لیے کس قدر روحانی حیثیت رکھتا ہو گا یہ اندازہ لگانا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں کیوںکہ مقدس پانی تو ہمارے پاس بھی ہیں۔ براہ راست ہمارے پاس نہ سہی مگر ہماری ان تک رسائی تو ہے۔ وہ پانی کبھی میلے تو نہیں ہوئے۔

ان پانیوں کی جانب کبھی کسی نے نقاہت سے تو نہیں دیکھا بلکہ ہر کوئی ہمیشہ چاہ سے دیکھتا ہے، اسے استعمال کرتا ہے خواہ ہمیں اس کا ذائقہ عام سا ہی کیوں نہ لگے مگر پھر بھی ہم سے نہایت احترام سے کھڑے ہو کر پیتے ہیں کہ ہم بس یقین کر لیتے ہیں کہ یہی اصل پانی ہے۔

ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ حاجی صاحب کو تو پانچ پانچ لیٹر کی فقط دو بوتلیں لانے کی اجازت تھی تو پھر بھی حاجی صاحب نے ساری برادری، محلے، دوست احباب کو کیسے ان دو بوتلوں میں پورا کر دیا۔ ہمیں بس یقین ہوتا ہے کہ یہی اصل مقدس پانی ہے۔ اس لیے ہم اسے فوراً عزت و احترام کے ساتھ کھڑے ہو کر پی جاتے ہیں، مگر شری کٹاس راج کے یہ کسیلے، گدلے اور بدبو دار پانی تھے جن کی جانب دیکھنے کو بھی جی نہ چاہتا تھا، جن میں سے ایک خاص مہک سی آتی تھی اور وہ مہک کسی فرقہ واریت کی نہ تھی بلکہ وہ مہک تو وہاں جمی کائی کی تھی۔ یہ کیسے مقدس پانی تھے جن کو اب ان کے ماننے والے پی نہیں سکتے تھے، ان سے نہا نہیں سکتے تھے۔

کوئی اگر اس چشمے سے آپ کے سامنے پانی بھرے کہ آپ کا یقین ہو کہ یہ اسی مقدس چشمے کا پانی ہے تو آپ تب بھی وہ پانی نہیں پی سکتے خواہ آپ اس مذہب کے ماننے والے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ کیسے مقدس پانی تھے۔۔۔ ہاں یہ ایسے ہی مقدس پانی تھے، مگر یہ مقدس پانی ہمیشہ سے ہی ایسے نہ تھے۔

قریب گزرے وقتوں میں ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب یہ پانی واقعی مقدس بھی تھے اور شفاف بھی۔ ایک وقت ایسا بھی ان ہرے کچور پانیوں پر گزرا ہے کہ جب آپ اپنے ہاتھ کو اس پانی میں ڈبکی لگاتے تھے تو آپ کے جسم پر کپکپاہٹ طاری ہوجاتی تھی کہ آپ کا ہاتھ کسی عام پانی میں نہیں بلکہ شیوا مہاراج کے آنسوؤں میں ہے۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ کبھی یہ پانی شیوا مہاراج کی آنکھ کے اندر تھے، اُن کے جسم کا حصہ تھے اور انھوں نے اپنی پتنی پاروتی کی یاد میں اِن کو بہایا تھا۔ مگر یہ پانی جو میرے سامنے تھا یہ کم ازکم شیوا بھگوان کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو معلوم نہیں ہوتا تھا۔ یہ تو کسی جوہڑ کے بدبودار پانی سے بھی زیادہ بدبودار اور گندا تھا۔

میں مقدس پانیوں کے چشمے کے پاس کھڑا تھا کہ میں مجھے اس پانی میں اپنی قوم کا عکس نظر آیا۔ ان مندوں نے ایک تکلیف دہ وقت بھی دیکھا ہے اور اس وقت سے یہ جگہ تکلیف میں ہی ہے۔

قریب ہی سمیٹ فیکٹری ہونے کی وجہ سے جب تالاب کے پانی خشک ہوگئے تو سپریم کورٹ کے حکم پر فیکٹری والوں نے مندر کے قریب بُورنگ کے کر یہاں پانی ڈال دیا۔ مگر ان پانیوں کو اب صاف کون کرے گا کہ جیسے ان کائی زدہ پانی کو صاف کرنا کوئی بہت مشکل عمل ہو۔ ایک سادہ سا bleaching process  بھی ان پانیوں کو صاف کر سکتا ہے مگر اتنی تکلیف کوئی کیوںکر اٹھائے۔ یہ کیسے مقدس پانی تھے,، یہ بس ایسے ہی مقدس پانی تھے۔

شری کٹاس راج کے کمپلیکس میں ہی ہری سنگھ نلوا کی حویلی بھی ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں دل چسپی رکھنے والوں میں سے ایسا کون ہے جو ہری سنگھ نلوا کے بارے نہیں جانتا۔ اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ اگر ہری سنگھ نلوا نہ ہوتا تو رنجیت سنگھ کی خالصہ تحریک اس کی زندگی میں اتنی مضبوط کبھی نہ ہوتی۔

1791 میں گوجرانوالہ کے علاقے میں پیدا ہونے والے اس جرنیل کا نام تو فقط ہری سنگھ ہی رکھا گیا تھا مگر یہ بہادر اتنا تھا کہ عین جوانی میں تن تنہا ایک ٹائیگر کو مار ڈالا۔ اس واقعے کے بعد سے ہری سنگھ کے نام کے ساتھ نلوا کا اضافہ ہوگیا۔ ہری سنگھ نلوا راجا نل سے بہت متاثر تھا جو شیروں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ ہری سنگھ میں بھی یہی خاص بات موجود تھی۔ اس لیے اسے پہلے نل ثانی کہا گیا مگر بعد میں یہ ہری سنگھ نلوا کے نام سے مشہور ہوا۔

رنجیت سنگھ نے ہری سنگھ نلوا کو کشمیر، ہزارہ اور پشاور کا دیوان بھی مقرر کیا۔ آپ میں سے بہت سے احباب اس بات سے واقف ہوں گے کہ ہزارہ ڈویژن کے ہری پور کا نام بھی ہری سنگھ نلوا کے نام پر ہی ہے۔ پنجاب سمیت جب کشمیر بھی خالصہ حکومت میں شامل ہوچکا تھا مگر ہزارہ کے لوگ بے پناہ مزاحمت کر رہے تھے۔ یہاں تک کے خالصہ تحریک کے تین بڑے جرنیل قربان ہوگئے مگر یہ علاقہ خالصہ حکومت کا حصہ نہ بن سکا۔

رنجیت سنگھ نے ہری سنگھ نلوا، جو اس وقت کشمیر کا گورنر تھا، کو ہزارہ کے لیے روانہ کیا جس نے جمرود قلعے پر قبضہ کرکے افغان حکومت تک کو ہلا دیا۔1938میں جب ہری سنگھ نلوہ نے قبائلی علاقوں کے جمرود قلعے پر قبضہ کیا تو اس سے افغانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، کیوںکہ جمرود قلعہ افغان قبائلیوں اور درانیوں کے لیے ایک دروازے کی حیثیت رکھتا تھا۔ جمرود قلعے پر قبضہ ہونے کے بعد یہ بات یقینی تھی کہ ہری سنگھ اب کبھی بھی افغانستان کی جانب پیش قدمی کا حکم دے دے گا۔ 1836 میں ہی ہری سنگھ نلوہ نے کابل کی دوست محمد خان کی حکومت پر چڑھائی کردی۔ اس لڑائی میں ہری سنگھ نلوہ شدید زخمی ہوا اور بالاٰخر انہی زخموں کی وجہ سے 30 اپریل 1837 کو جمرود میں ہی اس دنیا سے کوچ کرگیا۔

ہندوستان کی سرزمین پر بے شمار طالع آزما حملہ آور ہوتے رہے۔ سکندر اعظم سے لے کر غزنوی، ابدالی، بابر اور نادر شاہ تک لیکن صرف ایک مرتبہ یہ ہندوستانی سرحدیں عبور کرکے باہر کی دنیا پر حملہ آور ہوئے اور یہ ہری سنگھ نلوا تھا جس کی سپاہ نے جلال آباد اور کابل کو فتح کیا.۔ تبت کے نواح تک پیش قدمی کی۔

آپ کٹاس راج مندر کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں تو بائیں جانب آپ کی ملاقات مہاتما بدھ سے ہوجائے گی۔ مہاتمابدھ سے میری پہلی ملاقات 2009 میں ہوئی تھی۔ میرے ماموں آرمی میں تھے اور ان دنوں راولپنڈی میں تھے۔ اب تک کی زندگی میں مجھے ان کا واحد فائدہ یہ رہا ہے کہ انھوں نے میری مہاتمابدھ سے ایک ملاقات ٹیکسلا کے کھنڈرات میں کروا دی تھی۔

ان ہی کی بدولت میں نے گندھارا تہذیب کو دیکھا۔ تاریخ سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ گندھارا تہذیب مہاتما بدھ سے وابستہ ہے۔ اس علاقے میں مہاتما بدھ کے ماننے والے اکثریت میں تھے۔ ٹیکسلا کے عظیم الشان اسٹوپے، مُہرہ مرادو، راجیہ دھرمیکا، جولیاں کے راہب خانے، کیسے کیسے خوب صورت ورثے سے مالا مال ہے یہ گندھارا تہذیب۔ شری کٹاس راج کا یہ اسٹوپا کوئی بہت بڑا اسٹوپا تو نہیں مگر پھر بھی اپنی تاریخی حیثیت تو رکھتا ہے۔ بدھ یاتری بھی نہ صرف اپنے اسٹوپا کے گرد سات چکر لگاتے ہیں بلکہ ایک خاص مقام سے ہی وہ یہ چکر لگانا شروع کرتے ہیں جہاں مہاتما بدھ کا مجسمہ اسٹوپا پر نصب ہے۔

اسٹوپے میں پتھروں پر مہاتما بدھ کے مختلف ادوار بنائے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ مہاتما بدھ کی پیدائش، رات کے وقت کپل وستو کے شاہی محل سے فرار، اپنے گھوڑے کنتھکا پر سوار، جب ان کی بیوی خوابیدہ ہے اور بالآخر مہاتما بدھ کی چتا کا الاؤ روشن ہو رہا ہے، جس کے آس پاس مہاتما بدھ پر ایمان لانے والے بھکشو سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ بدھ یاتری ان ساری تصاویر کو نظر میں رکھتے ہوئے اسٹوپے کے گرد چکر لگاتے۔ اسٹوپے پر آخری تراشیدہ تصویر وہ ہوتی ہے جس میں بدھ کی راکھ کو ہاتھیوں پر لاد کر ملک کے مختلف حصوں میں روانہ کیا جا رہا ہوتا ہے۔

شری کٹاس راج کی دیواریں پورس پتھر سے بنائی گئی ہیں۔ یہ پتھر وہاں بنتا ہے جہاں پانی رستا رہتا ہو اور پھر اس مقام پر پانی میں پائی جانے والی مختلف معدنیات کے جمع ہوتی رہیں اور یہ خاص ماحول اور درجۂ حرارت میں جمع ہوتی ہیں۔ پھر اس کے اندر مختلف پتے، حشرات، پتھر اور کافی کچھ بھی جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس پتھر کو ٹوفا Tufa/Tuffa  کہا جاتا ہے۔ سالٹ رینج کے کافی مندر اسی ٹوفا پتھر سے بنائے گئے ہیں اور کٹاس میں بنے غاروں ہی سے یہ ٹوفا پتھر نکالا گیا تو وہاں غار بھی بن گئے جو الگ سے استعمال میں آ گئے۔ اسی طرح ملکانہ مندر کے پاس بھی پتھر نکالے جانے سے اک غار بن گیا ہے۔

اگر آپ کٹاس کے غاروں میں چکر لگائیں تو آپ کو وہاں اوپر چھت سے کونیں لٹکتی نظر آئیں گی وہ ٹوفا ہی بن رہا ہے۔ وقت کے ساتھ جب یہ پتھر کھرتا رہتا ہے تو اس میں جمع شدہ فوسلز نظر آنے لگتے ہیں اور اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہڈیاں ہیں۔

مہاتما بدھ سے ملاقات کرنے کے بعد ہم سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ کم و بیش پانچ سے ساٹھ سیڑھیاں تو ہوں گی۔ مجھے اس وقت اپنا ہم راہی وقاص شدید برا لگ رہا تھا۔ وہ تھک چکا تھا اور آگے جانے سے انکاری تھا۔ بے چارا پچھلی رات ساڑھے دس بجے سے بائیک چلا رہا تھا اور اب سہ پہر کے چار بج رہے تھے۔

کہتے ہیں جو پہاڑوں پر آپ کا بوجھ اٹھا لے وہی آپ سے مخلص ہوتا ہے۔ نرسنگھ پھوار کی اونچی ہوتی ہوئی چڑھیاں ہوں یا نیلا واہن کے گم ہوجانے والے راستے، وقاص نے میرا سارا بوجھ اٹھایا تھا مگر اب وہ واقعی تھک چکا تھا۔ اس لیے اوپر جانے سے انکاری تھا۔ وہ میرا بار بار ہاتھ کھینچنے لگا کہ یہیں سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اوپر جا کر کیا کرنا ہے، مگر میں بضد تھا کہ سات مندروں پر پہاڑی پر جانا ہی جانا ہے۔ ہمارے بالکل سامنے سات مندوں والی پہاڑی تھی۔ ان مندروں میں سے تین مندر وقت کے آگے نہ رک پائے اور نہ جانے کہاں چلے گئے۔

البتہ چار مندر ابھی بھی ہمارے سامنے کھڑے تھے، جن میں سے ایک سورج دیوتا کا مندر تھا، ایک چندرما کا اور ایک پرتھوی کا۔ ایک جانب راجا رام چندر کامندر تھا۔ راجا رام چندر کے مندر کی خاص بات اس کی بناوٹ ہے کہ راجا کی مورتی جہاں رکھی ہوتی تھی، وہاں دن کے وقت بھی روشنی نہیں پڑتی۔ مندر کی تعمیر کے وقت اس بات کا لحاظ رکھا گیا تھا کہ روشنی کے مندر میں داخل ہوتے وقت کے زاویے یہ رکھے گئے تھے کہ راجا کی مورتی پر روشنی نہ پڑے۔ بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ راجا رام چندر کے دو بیٹوں نے پنجاب کے دو بڑے شہر آباد کیے ہیں۔ ایک اپنا لاہور اور دوسرا بابا بلھے شاہ کا قصور۔ یقیناً راجا کے اور بھی بیٹے ہوں گے مگر کام کے تو دو ہی تھے۔

احباب اس بات سے تو واقف ہی ہوں گے کہ لاہور راجا لوہ نے آباد کیا تھا مگر یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ راجا لوہ اسی راجا رام چندر کا سپوت تھا جس کا مندر شری کٹاس راج میں ہے۔ ہم اس وقت جس پہاڑی پر کھڑے تھے اسے ’’ست گھرا‘‘ کہتے ہیں۔

کسی زمانے میں یہاں سات مندر تھے مگر اب صرف چار ہیں اور یہ چار فی الحال تو اپنی ٹھیک حالت میں تھے، بعد میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اس کا کچھ پتا نہیں۔ تین مندر بالکل ایک ہی قطار میں کھڑے تھے۔ ایک زمینی رنگ کے پتھروں والا تھا، یہ پرتھوی مندر تھا۔ اس کے ساتھ دو سفید مندر تھے جن میں سے ایک قدرے بڑا تھا جو سورج دیوتا کا مندر تھا اور جو قدرے چھوٹا تھا وہ چندرما کا مندر تھا۔ ست گھرا کو جاتی سیڑھیوں کے ساتھ بنے اسٹوپا کے پاس ہی ایک ہنومان مندر بھی ہے مگر یہ ہنومان مندر ست گھرا میں شمار نہیں ہوتا۔

شام کے تقریباً پانچ بجنے والے تھے اور ہم دونوں کے بدن بالکل ہی تھک چکے تھے۔ مگر چوںکہ جوانی تھی، جذبہ تھا اس لیے ہم رات ساڑھے دس بجے سے سفر میں تھے اور ابھی ہمیں شری کٹاس راج سے واپس سیالکوٹ بھی جانا تھا۔ کٹاس سے آگے بل کھاتی ہوئی پہاڑیوں کو پار کرنے کے بعد کھیوڑہ کا شہر تھا جہاں نمک کی کان ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ وقاص کو کھیوڑہ شہر بھی دکھا دوں مگر مسئلہ وقت کا تھا کہ نمک کی کان تو ہم دیکھ سکتے تھے مگر اس کان کو دیکھنے کے بعد رات مکمل طور پر اتر چکی ہوتی۔ کھیوڑہ سے آگے ہمیں پنڈ دادن خان کا راستہ لینا پڑتا جہاں کی سڑک بھی خراب ہے اور راستہ مکمل طور پر ویران بھی ہے۔

2015میں میں یہ غلطی کر چکا تھا۔ یہ غالباً میری زندگی کا پہلا سیاحتی ٹور تھا۔ اس وقت زیادہ معلومات بھی نہ تھیں۔ بس لوگوں سے پوچھتے ہوئے کسی طرح کھیوڑہ پہنچ گئے اور پھر کٹاس دیکھ کر جب واپسی بھی اسی راستے سے وہئی تو رات ہوچکی تھی۔

مزید یہ کہ ہمارا ڈرائیو بھی ان علاقوں میں نیا نیا آیا تھا تو وہ بھی راستہ بھول گیا۔ کلمہ پڑھتے پڑھتے ہم رات کے نہ جانے کون سے پہر جہلم کے قریب جی ٹی روڈ پر نکلے تو جان میں جان آئی۔ میں وہی غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا مگر کھیوڑہ ابھی تک میرے ذہن پر نقش تھا۔ ایک چھوٹی سی بچہ ریل تھی جو یاتریوں کو پوری کان کی سیر کرواتی تھی۔ کان میں نمک سے بنے ہوئے مختلف مشہور ماڈلز تھے۔

کہیں نمک سے مینار پاکستان بنا تھا تو کہیں نمک سے بابِ پشاور۔ ایک الگ ہی قسم کی دنیا اس نمک کی کان میں آباد ہے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جاتے تھے توں توں میرا ڈر مجھ پر حاوی ہونے لگا کہ اگر ہم اس کان کے اندر بند ہو گئے، کوئی گڑبڑ ہوگئی تو کیا ہو گا۔ کوئی ہمیں بچانے آئے گا بھی یا نہیں؟ یہ تمام باتیں میرے دل میں چل رہیں تھیں کہ میں نے فوری طور پر باہر کی جانب دوڑ لگا دی، مگر یہ تو آٹھ سال پرانا قصہ تھا۔ ان آٹھ سالوں میں مجھ میں فقط یہ تبدیلی آسکی کہ پہلے میں اپنے ڈر کا اظہار نہیں کرتا تھا، اب کھل کر اظہار کر لیتا ہوں تو آج میں نے بہتری اسی میں جانی کہ کٹاس راج سے واپس ہو لیا جائے۔

کٹا راج کے متروک ہو چکے مندروں کو الوداع کہا اور خانپور کے مقام پر سوہاہ چکوال روڈ کو جا ملے۔ یہ تمام دن ایک ہی تھا۔ آج ہم نے متروک ہوچکی عبادت گاہوں کی خاک چھانی تھی۔ کبھی نرسنگھ پھوار مندر کے پانیوں کو چھوا تھا تو پھر ملوٹ مندر اور ملکانہ مندر کی ڈھے چکی دیواروں پر ان کے پجاریوں کے لمس کو محسوس کیا تھا۔

مگر کیا خدا بھی متروک ہوتے ہیں؟

ہاں۔۔۔

جب پجاری نہ رہیں تو خدا متروک ہو جایا کرتے ہیں۔۔۔

خدا کب سے پجاریوں پر انحصار کرنے لگا؟

ابد سے۔۔۔۔

نہیں جاناں۔۔۔

خدا متروک نہیں ہوتے، پجاری نہ رہیں تب بھی وہ متروک نہیں ہوتے۔ وہ ہوتے ہیں۔۔۔

چاروں سُوں کسی نہ کسی صورت میں

سنو جاناں۔۔۔۔

کہ جہاں عبادت گاہیں متروک ہوجاتی ہیں وہاں کی ہوائیں

وہاں کی گھٹائیں

وہاں کے بادل

وہاں کے پھول

وہاں کے چرند

وہاں کے پرند

وہاں کی مٹی

وہاں کی خوشبو

سب اپنے خدا کے ہونے کا یقین دلاتی ہے

سنو جاناں

خدا متروک نہیں ہوتے

پجاری نہ رہیں,، تب بھی نہیں ہوتے.

ہمارا یہ ایک دن پورا ہونے والا تھا مگر ابھی اس کا ایک اہم حصہ باقی تھا۔ ہمیں گھر خیروعافیت سے پہنچنا تھا۔ نمک کا عشق ہم نے اگلی بار کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ نمک سے عشق کے بارے میں اپنے دینہ (جہلم) والے گلزار صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ:

زباں پہ لگارے لگارے نمک عشق کا

عشق کا

تیرے عشق کا

بلم سے مانگا مانگا رے

نمک عشق کا

ترے عشق کا

ڈلی بھر ڈالا جی

نمک عشق کا ہائے تیرے عشق کا۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔