ذکر کچھ کتابوں کا

نسیم انجم  ہفتہ 22 مارچ 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

عرصہ دراز کی بات ہے کہ جب ایک اہم ادبی تنظیم ’’مماثلات‘‘ کی جانب سے ادبی پروگراموں کا انعقاد ہوا کرتا تھا پھر ایک طویل وقفہ آ گیا اس وقفے یا جمود کو توڑنے کے لیے بانیان تنظیم نے کئی سال ہوئے جب اس انجمن کو دوبارہ فعال کر لیا اور اس تنظیم کے تحت نہ کہ اہم اجلاس ہوئے بلکہ باقاعدہ تقریبات بھی منعقد کی گئیں۔ پچھلے دنوں تین ستارہ ہوٹل میں دادو کے ذوالفقار گادھی کی دو کتابوں بعنوان ’’ھک وک جو سفر‘‘۔۔۔۔ ’’دریچہ بے صدا‘‘ کی تقریب رونمائی کی گئی اس سے قبل کیے جانے والے اجلاس میں تنظیم کی اہم شخصیات نے ادب کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دینے کا عزم کیا اور ’’مماثلات‘‘ کے ذریعے کچھ منفرد امور ادب کے حوالے سے انجام دینے پر زور دیا۔

ان ہی کاموں میں تقریب اجرا اور مختلف اہم اور ادبی شخصیات کے ساتھ شام منانے اور ان کی ادبی خدمات کو سراہنے کے لیے دوست و احباب کو مدعو کیا گیا ان دنوں جو پہلی تقریب کا اہتمام کیا گیا وہ تھی ممتاز افسانہ نگار شہناز پروین کے افسانوی مجموعوں ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ اور ’’آنکھ سمندر‘‘ کے افسانوں پر گفتگو مقررین نے شہناز پروین کی ادبی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی، اسی ہوٹل میں اندرون سندھ سے آئے ہوئے مہمان ذوالفقار گادھی کے شعری مجموعے اور ترجمے کی کتاب ’’ھک وک جو سفر‘‘ پر مدلل اور جامع مضامین پڑھے گئے، جناب یاور امان، جناب امین لاکھو جو کہ حیدر آباد سے تشریف لائے تھے اور مارو جمالی ان کا تعلق دادو سے تھا، ان کے علاوہ بھی کئی اہل قلم نے مترجم و شاعر کے ادبی کاموں پر روشنی ڈالی، پروفیسر علی حیدر ملک ، صبا اکرام، جناب اے خیام، راقم الحروف نے اپنے خیالات کا اظہار کیا نیز ’’ھک وک جو سفر‘‘ گلاب فن‘‘ اور دوسرے افسانوں کا ترجمہ ہے، مماثلات کے روح رواں، شاعر و نقاد اسرار حسین تھے جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن زیب اذکار حسین، جمیل احمد، قمر افضل قمر ، مجید رحمانی اور کامریڈ محمد علی نے ان کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مماثلات کو دوبارہ فعال کیا ہے۔ اور یہ ایک اچھی کوشش ہے۔

اسلام آباد سے موصول ہونے والی کتابیں بعنوان ’’ہنس پتالی شاعری‘‘ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اسپتال کے حوالے سے ہے دوسری ’’گڑبڑ گھٹالہ‘‘ دونوں ہی مزاحیہ کتابیں ہیں اور ان کے مصنف ڈاکٹر مظہر عباس رضوی ہیں۔ انھوں نے ’’ملاوٹ‘‘ اور ’’ہیراپھیری‘‘ کو شاعری کے قالب میں بے حد خوبصورتی کے ساتھ ڈھالا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

خالص کہاں اب کوئی نوالہ۔ اینٹوں کو پیسا مرچوں میں ڈالا۔ دنیائے زر میں ایک شور شر ہے۔ ہر سو ہے مظہر گڑبڑ گھٹالہ۔ بے شک ہر ادارے اور ہر جگہ گڑبڑ مچی ہوئی ہے، غیر ذمے دار ڈاکٹرز مریضوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں کبھی بنا تشخیص کے دوائیں تجویز کر دیتے ہیں تو کبھی مریض کے پیٹ سے چاقو اور قینچی نکالنا بھول جاتے ہیں۔ چند ہی ہفتے گزرے ہیں جب یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ ایک ڈاکٹر تقریباً ایک گز کا کپڑا نکالنا بھول گئے ایک سال بعد وہ کپڑا برآمد ہوا، وہ بھی اس وقت جب مریض کی جان کے لالے پڑ گئے۔ انسانی کی جسم میں پیٹ کی ہر لحاظ سے بڑی ہی اہمیت ہے، پیٹ کا ایندھن حاصل کرنے کے لیے، بے شمار برائیاں پروان چڑھتی ہیں اور جرائم پیشہ افراد اس پر یہ ستم ڈھاتے ہیں کہ ہیروئن بھرے کیپسولوں کو پیٹ میں چھپا کر سرحدیں پار کر جاتے ہیں گویا اسی پیٹ کے ذریعے دولت کو ٹھیس نہیں لگنے دیتے۔ ہمارے معاشرے میں اچھے معالجوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنے پیشے اور قلم کی بدولت انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، ڈاکٹر مظہر عباس کا شمار بھی ان ہی طبیبوں میں ہوتا ہے وہ اپنے مریضوں اور ادب شناس حضرات کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’غزل کا اغوا‘‘ میں غزل کی تضمین طنز و مزاح کے انداز میں نفاست کے ساتھ کی ہے

اجاڑا اس طرح اشعار کا چمن میرا

کہ مجھ سے چھین لیا موضوع سخن میرا

غزل کہی تھی فقط میں نے جان جاں کے لیے

لکھی نہ تھی کوئی یاران نکتہ داں کے لیے

جو شعر سرقہ ہوئے کو بہ کو تلاش کروں

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

ہم جس ناہموار معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یقینا یہ بات ان لوگوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے، جن کے حقوق کو غصب کر لیا جاتا ہے، انھیں غربت کی چکی میں پسنے کے لیے بغیر کسی ندامت کے چھوڑ دیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص بے حد امیر تو کوئی بے حد غریب کہ اچھا کھانا تو دور کی بات شکم سیر کے لیے روٹی میسر نہیں آتی ہے۔

یہ شعر بھی ایسے ہی حالات کا ترجمان ہے۔

اڑا رہے ہیں وہ مرغا‘ نہاری اور پائے

میں جوڑتا ہوں یہاں پائی پائی مشکل سے

کالم اختتامی سفر پر گامزن تھا کہ آ گئی ڈاک، کھولی تو ایک پیکٹ میں کتابی سلسلہ ماہی اجمال تھا اور دوسری شاعری کی کتاب عنوان ’’وقت کی قید سے‘‘ شاعرہ ثروت زہرہ ہیں۔ ’’اجمال‘‘ کے مدیر و ناشر فہیم السلام انصاری ہیں، جو پابندی سے رسالہ نکال رہے ہیں۔ یقینا تحریر وہ ہی موثر ہوتی ہے جو تحریک پیدا کرے، شمارے میں بہت سی تحریریں ایسی ہیں جو قابل توجہ ہیں، کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے لکھے گئے مضامین بے حد محنت اور تحقیق سے لکھے گئے ہیں قاری ان مضامین کو پڑھ کر پوری کتاب کا مزہ مختصر سے وقت میں حاصل کرلیتا ہے، یہ ایک اچھی کوشش ہے، شعر و سخن اور افسانے بھی اپنی نیت کے اعتبار سے دلچسپی کا باعث ہیں، ایلیٹ کا شعری وژن ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا تحریر کردہ ہے۔ ’’جدید غزل‘‘ احمد صغیر صدیقی کی تحریر ہے دونوں ہی مضامین قارئین کے لیے تقریباً مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں خصوصاً ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ اپنے مضمون کو اختتام تک پہنچایا ہے۔ ادب کا قاری دونوں مضامین سے بھرپور طریقے سے استفادہ کر سکتا ہے۔

ثروت زہرہ کی شاعری پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایک عام شاعرہ نہیں ہیں، بلکہ اپنی شاعری کے حوالے سے خصوصیت اختیار کر گئی ہیں اس کی وجہ ان کی سوچ و افکار کا ایک علیحدہ انداز ہے۔ اور جس طرح انھوں نے زمانے کو دیکھا، لوگوں کو برتا، جانچا، خود غرضی و ستم ظریفی کو پروان چڑھتے اور اپنے نوکیلے پنجوں کو گاڑتے دیکھا، اس قسم کے تمام احساسات کو انھوں نے اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔

’’ہزاروں خواہشیں ایسی‘‘ یہ ان کی نظم کا عنوان ہے، اپنی خواہشوں کا اظہار بے حد محرومی اور دکھوں کے ساتھ کہا گیا ہے۔

کاش میں سمندر کا نمکین پانی ہوتی

نیلی روشنائی پہن کر

بند سیپیوں کے راز چراتی

جل پریوں سے دوستی کرتی

عکس کے زاویے تراشتی

لہروں کی گود میں بیٹھ کر

دھرتی کو اپنا سنگھار دیتی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔