عام انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات کو بھی دستور کا حصہ بنایا جائے، حافظ نعیم الرحمن

رضوان طاہر مبین  اتوار 16 اکتوبر 2022
ہماری کوئی ’فائل‘ نہیں بنی ہوئی کہ ہمیں بلیک میل کیا جا سکے، امیر جماعت اسلامی کراچی کی خصوصی گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

ہماری کوئی ’فائل‘ نہیں بنی ہوئی کہ ہمیں بلیک میل کیا جا سکے، امیر جماعت اسلامی کراچی کی خصوصی گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

یہ انٹرویو بلاشبہہ بہت اہم تھا اور ہم کئی دنوں سے اس کے لیے کوشاں تھے۔۔۔ بالآخر ’ادارۂ نور حق‘ کراچی میں شعبہ نشرواشاعت کے روح و رواں زاہد عسکری کے توسط سے ہماری ملاقات طے ہوئی۔۔۔ اور پھر ہم مقررہ وقت پر امیر جماعت اسلامی (کراچی) حافظ نعیم الرحمن کے روبرو تھے، رسمی کلمات کے بعد باقاعدہ گفتگو کا آغاز ہوا، چوں کہ حافظ نعیم کراچی کی سیاست کے شہ سوار ہیں، اور کراچی اور کراچی کی سیاست اِس ناچیز کی دل چسپی کے چند بڑے موضوعات میں سے ایک ہے۔

اس لیے ہمارے پاس لامحالہ یہاں کی سیاست، پس منظر اور موجودہ حالات و واقعات پر سوالات زیادہ رہے۔۔۔ اس کے لیے ہمیں مکمل وقت ملا، گفتگو مجموعی طور پر ہم وار رہی، البتہ بعضے موڑ پُرپیچ بھی رہے۔۔۔ کہیں انھیں ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے سوالات کسی اور طرح کے ہونے چاہیے تھے، لیکن ہمارا خیال تھا کہ ’انٹرویو کنندہ‘ دراصل ایسے پہلوؤں پر ہی بات کرنے کا خواہاں ہوتا ہے کہ جس سے متعلق عوام اور قارئین کے دلوں میں کچھ تشنگی ہو یا پھر منطقی طور پر اس حوالے سے وہ باتیں اور سوالات ذہن میں ابھرتے ہوں۔

کیوں کہ عام طور پر سیاست دانوں کے خیالات ان کے بیانات، پریس کانفرنس اور ’پریس ریلیز‘ کے توسط سے لوگوں تک پہنچتے ہی رہتے ہیں۔ تو ہمارے خیال میں انٹرویو کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس سے کچھ مزید معلومات حاصل ہوں، پھر حافظ نعیم الرحمن نے بلامبالغہ کراچی کے حالیہ سیاسی اُفق پر ایک واضح ’فرق‘ پیدا کیا ہے، اور وہ اپنے بُہتیرے ویڈیو انٹرویو میں کراچی کے بے شمار مسائل پر بے لاگ باتیں کرتے ہوئے دکھائی اور سنائی بھی دیتے ہیں اور بطور سیاست کے طالب علم ہمیں لگتا ہے کہ ’جماعت اسلامی‘ کے پلیٹ فارم سے پہلے کبھی ان مسائل پر اس طرح بھرپور اور مستقل مزاجی سے بات نہیں کی گئی، پھر حافظ نعیم نے سیاست میں جدید اِبلاغی راہوں کے توسط سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو بھی اپنی جانب متوجہ بھی کیا ہے۔

بس یہی وجہ تھی کہ ہم نے کوشش تو پوری کی ہے کہ جماعت اسلامی (کراچی) کی سیاست اور حافظ نعیم الرحمن کے تعلق سے دیگر بہت سے انٹرویوز کے باوجود جو ’خلا‘ باقی رہ گیا ہے، وہ سب نہ سہی، لیکن کافی حد تک ہماری اس گفتگو کے وسیلے پُر ضرور ہو جائے۔

حافظ نعیم الرحمن بتاتے ہیں کہ وہ شپ اونر کالج، این ای ڈی یونیورسٹی، کراچی، صوبے اور پھر مرکزی ناظم ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ رہے، 2000ء میں بطور کارکن جماعت اسلامی کا حصہ بنے، 2013ء سے امیر جماعت اسلامی، کراچی ہیں۔ مرکزی امیر کی مدت پانچ سال اور صوبے اور حلقہ کراچی کے امیر کے لیے مدت تین سال ہے، ورنہ دیگر ضلعی ناظمین کا دورانیہ دو سال ہے۔

جب ہم نے تذکرہ کیا کہ ’’آپ سے پہلے کی اور آج آپ کی جماعت اسلامی (کراچی)؟‘‘ تو ہنستے ہوئے انھوں نے ہمیں درمیان میں روکا کہ ’’کیا ہوگیا، یہ وہی ہے۔ یہ حالات کی بات ہوتی ہے، جماعت اسلامی کے نظام میں افراد آتے اور چلے جاتے ہیں، ہر فرد کا کام کرنے کا اپنا اپنا انداز اور مزاج اور حالات کے تناظر میں فیصلوں کا فرق ہوتا ہے۔‘‘

’’تو کیا فرق پڑا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ کہنے لگے کہ ہمارے لیے یہ موقع پیدا ہوا کہ ’ایم کیوایم‘ عوامی رائے کے لحاظ سے ایک زوال پذیر جماعت بن گئی، ماضی میں بھی بن رہی تھی، لیکن اسے سہارا دے دیا جاتا رہا اور اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ نہ روکے تو یہ بالکل ختم ہوجائے۔

’’کون سی ایم کیو ایم؟‘‘ ہمارے ذہن میں سوال ابھرا۔ انھوں نے ’بہادرآباد‘ میں موجود دھڑے کی جانب اشارہ کیا کہ ’’جو انتخاب لڑ رہی ہے، وہی۔ ہم تو ظاہر پر بات کریں گے۔

اندرخانے کیا ہے، ہمیں نہیں پتا۔۔۔‘‘ پھر کہنے لگے کہ ’’2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں ہم ان کے بائیکاٹ کی وجہ سے جیتے، لیکن اگلے برس 2002ء کے عام انتخابات میں وہ ہماری بلدیاتی کارکردگی کے سبب ہم سے قومی اسمبلی کی سات، آٹھ نشستیں ہارے اور اگر منور حسن کی نارتھ ناظم آباد والی نشست پر پولنگ اسٹیشن پر قبضہ نہ کرتے، تو اس سمیت کُل 12، 15 نشستیں ہار جاتے، یعنی یہ تبھی سے ہارنا شروع ہوگئے تھے۔

حافظ نعیم اُس وقت کے انتخابی اتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘ میں کراچی میں اصل ووٹ ’جماعت‘ کا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پھر ’ایم کیو ایم‘ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے باوجود ہار گئی، تب ’ایم کیو ایم‘ کے جاں نثار ساتھی بھی نعمت اللہ کو دوبارہ ناظم دیکھنا چاہتے تھے، کیوں کہ ’ایم کیو ایم‘ کا کام کرنے کا ماضی نہ تھا۔ مختلف سروے میں بھی نعمت اللہ آگے تھے، لیکن پرویز مشرف نے ’ایم کیو ایم‘ کو سہارا دیا۔

’ایم کیو ایم‘ جیسی تنظیموں کے لیے یہی طریقہ ہونا چاہیے کہ آپ انھیں طاقت کے ذریعے نہ کچلیں، بلکہ سیاست میں سب کو مواقع دیں، اگر ان میں جان ہوگی، تو جیت جائیں گے ورنہ نہیں، لیکن بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے غلط راستے کا انتخاب کیا، انھیں مصنوعی تنفس سے زندہ رکھتے ہیں اور جب طاقت وَر ہو جاتی ہے، تو اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ غلط حکمت عملی ہے۔ اس کا نقصان کراچی کو بھی ہوا اور پاکستان کو بھی۔‘‘

حافظ نعیم نے جب ’فطری سیاسی عمل‘ کی بات کی، تو ہم نے ’ایم کیو ایم‘ کے حوالے سے 2015-16ء سے جاری کارروائیوں کا سوال اٹھایا، انھوں نے کہا ’’اسے آپ الگ کر کے نہیں دیکھیں گے، اس سے پہلے تو سب کچھ ان کے حوالے کر دیا تھا۔

2013ء کے انتخابات تو یہ بری طرح ہار گئے تھے، تو کیوں قبضہ کرا کرا کے ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ ووٹ دلوا کر انھیں جتوایا۔ رینجرز اور پولیس کیوں بیچ میں نہیں آئی؟ جب وہ ہارنے لگتے ہیں، تو انھیں سہارا دیتے ہیں۔ اب بھی ان کے کہنے پر بلدیاتی انتخابات ملتوی کر کے انھیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

’’یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ اصل ووٹ ’لندن‘ والی ’ایم کیو ایم‘ کا ہے، نہ کہ ’بہادرآباد‘ والی کا؟‘‘ ہمارے اس سوال پر حافظ نعیم کہتے ہیں کہ ’’اب کسی بھی ’ایم کیو ایم‘ کا ووٹ بینک نہیں، وہ زوال پذیر ہیں۔‘‘

ہم نے کہا ’’آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں، جب کہ آپ نے خود ہی کہا فطری طریقے سے چناؤ میںآئیں گے تو۔۔۔‘‘

’’تو ہار جائیں گے، 2013ء اور 2018ء میں بھی ہارے۔‘‘ انھوں نے جلدی سے جواب دیا۔ ہم نے کہا کہ 2018ء میں تو ’دھڑا‘ الگ ہو چکا تھا، جس پر وہ کہنے لگے کہ ’’ہم ظاہر پر بات کریں گے، جو ’ایم کیو ایم‘ اس وقت ہے، وہی سیاسی طور پر نمائندگی کر رہی ہے۔‘‘

ہم نے ان کے ’ایم کیو ایم‘ کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کے تعلق سے پوچھا کہ اسی طرح اس وقت انھیں ہٹایا ہی ہوا ہے؟ تو کہنے لگے کہ 2005ء اور 2013ء میں بھی تو الطاف حسین والی ’ایم کیو ایم‘ ہی ہار رہی تھی ناں۔ ہم نے استدلال کیا کہ ’’یہ تو ایک شفاف انتخابات کے بعد ہی درست طور پر معلوم چلے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے، 2015ء میں عزیزآباد میں کنور نوید جمیل کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے بعد دوبارہ یہ موقع نہیں آیا‘‘ جس پر وہ کہنے لگے کہ میں نے اس کے نتائج کو کبھی قبول نہیں کیا۔

وہ جیتے ضرور، لیکن 95 ہزار ووٹ ملنا دراصل انتخابی فہرستوں میں تبدیلی کے سبب تھے۔ میں نے مانا 1988ئ، 1990ء میں بھرپور جیتے اور 2005ء میں ہم ان کی بائیکاٹ کی وجہ سے جیتے، لیکن یہاں گڑبڑ ہوئی، جیسے 2018ء میں بھی فوج کی زیرنگرانی انتخابات میں ’آر ٹی ایس‘ (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) کا مسئلہ ہوا، کوئی ایک سیاسی کارکن نہیں، جو ان انتخابات کو ٹھیک کہے، اس کا خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی انداز ہوگیا، چَھاپ سکتے ہیں، تو یہ چَھاپ دیجیے گا!‘‘

حافظ نعیم الرحمن کا خیال ہے کہ لسانیت کی بنیاد پر کوئی تنظیم ٹھیک نہیں ہوسکتی، اپنی برادری کی نمائندگی اور حقوق پر ضرور بات کرنی چاہیے، لیکن دوسرے سے نفرت کرنا زہرِقاتل ہے اور ’ایم کیو ایم‘ نے نفرت سکھائی۔ ہم نے کہا کہ آپ سیاسی عمل میں مداخلت کے خلاف ہیں، لیکن اب جو ’ایم کیو ایم‘ میں مختلف گروپ بنوائے گئے ہیں؟‘‘ جس پر انھوں نے کہا کہ مرکزی ’ایم کیو ایم‘ وہی ہے، جو پاکستان میں رجسٹرڈ ہے۔

الطاف حسین پر پابندی لگی ہے، تو وہ یہ عمل تو پاکستانی پرچم جلانے سے بعد تک کئی مرتبہ کرچکے، پھر سمجھوتا کیوں ہوتا تھا؟ اب پاکستان مخالف نعروں پر کارروائی کرنے والے بہتر جانتے ہیں، ہم اس موضوع پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔

’اُس دھڑے کو تو انتخاب میں کھڑے ہی نہیں ہونے دیا جا رہا؟‘‘ ہم نے توجہ دلائی، وہ بولے ’’کیسے نہیں ہونے دیا جا رہا، وہ آئیں سامنے۔‘‘ ہم نے کہا آگے آنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، ڈاکٹر حسن ظفر عارف کا واقعہ تو آپ کے سامنے ہے!‘‘

تو کہنے لگے کہ وہ شامل بھی تو کب ہوئے۔ ہم نے کہا لیکن وہ ان کی نمائندگی تو کر رہے تھے؟ کہتے ہیں:

’’یہ سب ایک معمّا ہے کہ جیسے آپ کہیں کہ ہمارے اتنے سارے لوگ ماورائے عدالت قتل ہوگئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ یہ میرا پہلا انٹرویو ہے، جو اتنا ’کنفیوزنگ‘ ہے۔ جن چیزوں کا تعلق پاکستان کے تحفظ سے ہے، انھیں موضوع بنانا درست نہیں۔ 1992ء کے آپریشن کی ہم نے مخالفت کی، حالاں کہ سب سے زیادہ لوگ انھوں نے ہمارے قتل کیے، لیکن پروفیسر غفور اور منور حسن کہتے تھے کہ یہ طریقہ مسئلے کا حل نہیں، یہی بات ہم نے وزیرستان اور سوات کے لیے بھی کہی۔‘‘

’’2013ء سے جاری حالیہ آپریشن کے والے سے آپ یہ نہیں کہتے؟‘‘ ہم نے ایک ٹکڑا لگایا، تو انھوں نے کہا ’’اب تو کوئی آپریشن ہے ہی نہیں، یہ تو ’اہدافی کارروائی‘ ہے۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ آرمی چیف، وزیراعظم نواز شریف وغیرہ کی موجودگی میں ہم نے فوجی آپریشن کے بہ جائے ’ٹارگیٹڈ آپریشن‘ کا کہا، فوجی آپریشن سے عوام پستے ہیں، اور نفرت پیدا ہوتی ہے، ضمنی نقصان ہوتا ہے۔‘‘

’’کیا اس میں نہیں ہوا؟‘‘ہم نے اضافہ کیا، تو وہ بولے کہ ’’میرا خیال ہے کہ نہیں۔‘‘

’’وہ گذشتہ ماہ جو لاشیں ملیں؟‘‘ ہم نے سندھ کے مختلف علاقوں سے ملنے والی کراچی کے سیاسی کارکنان کی لاشوں کی طرف اشارہ کیا، تو وہ کہنے لگے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں اتنا دم ہونا چاہیے کہ آپ مجرموں کو سزا دلوائیں، آپ کیسے کسی کو مار کر پھینک سکتے ہیں۔

ہم نے کہا جماعت اسلامی کے سینٹیر مشتاق احمد خان تو خیبرپختونخوا میں اپنی حریف ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ پر جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اُن پر بھی الزامات لگ بھگ کچھ ایسے ہی ہیں، جیسے ’متحدہ قومی موومنٹ‘ پر، اگرچہ انھیں انتخاب لڑنے کی اجازت بھی ملی، لیکن جماعت اسلامی (کراچی) اپنی یہاں کی حریف ’متحدہ‘ کے لیے یہ سب نہیں کہتی؟ تو کہنے لگے کہ ’’جتنی بات انھوں نے کی، وہ ہم بھی کرتے ہیں۔‘‘

’’تو کیا آپ اُن پر پابندی ہٹانے اور ان کے شفاف ٹرائل کا مطالبہ کرتے ہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو کہنے لگے کہ ’کس پر پابندی ہے۔‘

ہم نے کہا ایم کیو ایم (الطاف) پر۔ تو کہنے لگے کہ اس لیے ہے کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا۔ ہم نے ان کی معافی کا تذکرہ کیا، تو کہنے لگے کہ معافی مانگنا کیا ہوتا ہے، یہ ریاست اور عدالتوں کا کام ہے۔ ہم نے کہا عدالت میں تو نہیں لے کر جا رہے، تو کہنے لگے کہ ’’وہ اس قابل ہوں کہ جائیں عدالت، آکر سامنا کریں۔ 1992ء سے اب تک آئے کیوں نہیں؟‘‘

ہم نے پوچھا کہ ایک متنازع ہی سہی، لیکن ایک انتخابی عمل کے ذریعے جو ’ایم کیو ایم‘ آپ کے مقابل ہوتی تھی، تو کیا آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ آج ایک کھلے انتخابی عمل سے اُسی ’ایم کیو ایم‘ کو باہر کریں؟ تاکہ کوئی شبہ نہ رہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ سیاسی عمل کے ذریعے جو جا رہا ہو، اسے جانے دیں۔ زبردستی نہ لائیں اور اگر کوئی آ رہا ہو، تو آنے دیں، 2005ء کے بلدیاتی اور 2002ء کے انتخابات میں جب ہم آرہے تھے تو ہمارا راستہ کیوں روکا گیا؟‘‘

2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں ’ایم کیو ایم‘ کو زبردستی لانے کے موقف کے حوالے سے حافظ نعیم کہتے ہیں کہ 2002ء میں آپ نے ’ایم کیو ایم‘ کی موجودگی میں اس کا عکس بھی دیکھا۔‘‘ ہم نے کہا 2002ء میں تو ’متحدہ مجلس عمل‘ کا اتحاد اور گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات کا بھی ایک گہرا اثر تھا؟ تو کہنے لگے کہ ’’یہ عنصر تو ہر جگہ تھا، اس کے ساتھ 2001ء کے انتخابات بھی بڑا عنصر تھے، پھر 12 مئی 2004ء کے ضمنی انتخاب میں انھیں کیا خوف تھا، جو انھوں نے ہمارے کارکنان قتل کیے؟ ہم نے تو ایک بھی نہیں مارا۔ ’ایم کیو ایم‘ کوئی ایک کارکن بتادے جسے ہم نے مارا ہو!‘‘

ہم نے ماضی میں ایک عدالتی فیصلے میں جماعت اسلامی سمیت کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں کے ’عسکری ونگ‘ کا سوال کیا، تو انھوں نے کہا ’’آپ غلط کہہ رہے ہیں، بھتّے لینے کے حوالے سے ہمارے ایک ’یو سی‘ ناظم فضل الرحمٰن کا نام آیا، جسے ہم نے چیلنج کیا، پھر ہائی کورٹ نے اس نام کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔‘‘

ہم نے جماعت اسلامی کے سابق ٹاؤن ناظم لیاقت آباد ڈاکٹر پرویز محمود کے قوم پرستوں اور ’لیاری گینگ وار ‘ کے ملزم عزیربلوچ کے ساتھ پر استفسار کیا، تو انھوں نے کہا اس وقت عزیر بلوچ کی ’امن کمیٹی‘ تھی، ان کا قتل وغارت کا سلسلہ نہیں تھا۔ ہم نے کہا یہ 2011ء کی بات ہے، جب بھتّا نہ دینے پر ’امن کمیٹی‘ کی جانب سے 2010ء میں ’سانحہ شیرشاہ‘ ہوچکا تھا اور کراچی میں شدید لسانی کشیدگی تھی، اور وہ یہاں ریلیاں نکال رہے تھے، جس میں ڈاکٹر پرویز محمود بھی ساتھ ہوتے تھے۔

جس پر وہ کہتے ہیں کہ ’’سیاسی سرگرمیوں میں تو کسی کے ساتھ بھی ساتھ شریک ہوا جا سکتا ہے۔‘‘ ہم نے کہا ان کا موقف بھی تو دیکھیے، ان پر بھی وہی الزامات تھے، جو آپ ’ایم کیو ایم‘ پر لگاتے ہیں؟ جس پر وہ گویا ہوئے کہ کسی کے ساتھ تصویر ہونے کا مطلب اتحاد نہیں، ہم نے کہا صرف تصویر نہیں، عملی طور پر بھی وہ ان کے ساتھ تھے، جس میں ’محبت سندھ ریلی‘ بھی نکالی، جس کا تصادم بھی ہوا؟ جس پر کہنے لگے کہ ’’ڈاکٹر پرویز محمود جماعت اسلامی کے رکن تھے، وہ کسی بھی شدت پسند سرگرمی میں ملوٖث نہیں تھے، ان کے تعلقات ’ایم کیو ایم‘ سمیت سب کے ساتھ تھے، اس پر ہمیں کوئی اعتراض بھی نہیں، تاہم کسی آدمی کے کہیں شریک ہونے کو جماعت اسلامی کی پالیسی نہیں کہہ سکتے۔‘‘

حافظ نعیم الرحمن سے ہم نے پوچھا کہ وہ میئر کراچی بن کر محدود ’بلدیاتی نظام‘ میں فنڈ کہاں سے لائیں گے؟ تو کہنے لگے کہ ’’حکومت سندھ سے لڑ لڑ کر کام کرائیں گے، روئیں گے نہیں۔ ہم اسی محدود اختیار کے ذریعے بہت سے کام کریں گے، صفائی اور سڑک پر گاڑی چلنے کے لائق ہو، سبزہ اور باغات دکھائی دیں، اتنا بجٹ تو ہوتا ہے۔ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ مرتضیٰ وہاب ترجمان حکومت سندھ ہونے کے باوجود ’کے ایم سی‘ کے ٹیکس روکنے پر بات کر رہے ہیں، وہ پہلے بلدیہ کے اپنے پیسوں کا حساب دیں۔‘‘

شہر کے بڑے منصوبوں پر صوبے اور وفاق سے کام کرانے کے لیے پرعزم حافظ نعیم کہتے ہیں کہ جب آپ ایمان داری سے کام کرتے ہیں، تو پھر آپ کو روکنا آسان نہیں ہوتا، مگر جب آپ کی اپنی فائل بنی ہوئی ہو، تو پھر کوئی بھی آپ کو بلیک میل کر سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں، تبھی وہ کھل کر بات کر سکتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے لیے ہمیں نظرانداز کرنا ان کی سیاست کے لیے مسئلہ بن جائے گا۔

کراچی میں بلدیہ اور قومی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کو غیرمنصفانہ سمجھنے والے حافظ نعیم کہتے ہیں کہ ’’حلقہ بندیاں درست ہونے کا انتظار کریں گے تو انتخابات بہت دنوں تک ممکن نظر نہیں آتے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انتخابات کرائیں، پھر حلقہ بندیوں کو درست کرانے کی جدوجہد آگے بڑھائیں۔‘‘

ہم نے انتخابی نتائج کے بعد سیاسی اتحاد کی ترجیح پوچھی۔ تو کہنے لگے کہ ابھی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں، بس ’ایم کیو ایم‘ کے ساتھ نہیں ملیں گے۔ ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے پر کہتے ہیں کہ بلدیاتی اور ملکی سیاست الگ نہج پر ہے، یہ ہمارا سیاسی لائحہ عمل ہے، تاکہ ہم ’بلدیاتی انتخابات‘ کے لیے یک سو ہو سکیں۔ ہم نے کہا کیا آپ جماعت اسلامی کو صرف ’بلدیہ‘ کی جماعت بنا رہے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ پہلے بلدیہ کی، پھر قومی کی بھی بنائیں گے۔

حافظ نعیم الرحمن سے جماعت اسلامی کے بغیر کسی شخصیت اور موروثیت کے کام یابی سے چلنے والی ملک کی واحد بڑی سیاسی جماعت کے حوالے سے تذکرہ ہوا، تو انھوں نے کہا کہ دراصل دوسرے لوگ سیاسی نہیں، سیاسی وہ ہوگا جو اپنے اندر جمہوری ہوگا۔ اگر آپ جمہوریت کے لیے سنجیدہ ہیں، تو بلدیاتی اختیارات اور انتخابات کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی طرح دستور کا حصہ بنائیں، اسے صوبوں پر نہ چھوڑیں، بلکہ یہ آئینی طور پر لازمی ہوں۔ اس سے نئی قیادت سامنے آئے گی۔ دوسرا طلبہ یونین کے انتخابات کے نتیجے میں شخصیات اور خاندانوں کا اثر کم ہوگا اور کارکنان کا اثر بڑھے گا۔

حافظ نعیم کا خیال ہے کہ چار مارشل لاؤں سے بھی سیاسی عمل میں رخنہ پڑا۔ ہم نے کہا پرویزمشرف کی حکومت کو بھی مارشل لا کہہ رہے ہیں، ان کے دور میں تو انتخاب لڑا؟ تو کہنے لگے مجبوری تھی، پھر 2008ء میں نہیں بھی لڑا، دوسروں نے جھوٹ بولا، ہم اپنے کہے پر قائم رہے۔

ہم نے ’جماعت اسلامی‘ کے حلقوں میں نعمت اللہ کے کارناموں میں پرویزمشرف سے گریز کے رویے کے حوالے سے استفسار کیا، تو انھوں نے پرویزمشرف کے کردار کا اعتراف کیا اور کہا، انھوں نے وہ بلدیاتی نظام پورے ملک کو دیا، لیکن چند علاقوں کے سوا کہیں یہ نتائج نہیں آئے۔

ہم نے کراچی پر ان کی خصوصی توجہ کا ذکر کیا اور یاد دلایا کہ تب 29 ارب روپے کا خصوصی پیکیج دیا کہ جب ان کی اتحادی ’ایم کیوایم‘ بہت جزبز ہوئی تھی، جس پر حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ معنی نہیں رکھتا، نعمت اللہ نے مختلف اسٹیک ہولڈرز اسٹیل ملز، سول ایوی ایشن ، پورٹ قاسم وغیرہ سے 12 ارب کا فنڈ لیا، پرویزمشرف نے مدد کی، مگر پھر ’ایم کیو ایم‘ سے سمجھوتا کر لیا۔

وہ 2011-12ء میں ’خانہ شماری‘ میں جماعت اسلامی کی جانب سے آبائی پتے پر اندراج کے مطالبے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہمارا موقف تب بھی وہی تھا اور آج بھی وہی موجودہ پتے پر اندراج کا ہی ہے، انتخابی فہرستوں میں بھی جو فرد جہاں ہے، وہیں گنا جائے۔‘‘ ایک چھوٹے پلاٹ پر کثیر ووٹروں کے اندراج کے حوالے سے پوچھا کہ جب اس جگہ عمارت ہوگی، تو یہ اچنبھے کی بات تو نہیں، انھوں نے کہا، کہ ’’وہ جو ہم سپریم کورٹ میں کیس جیتے، وہ عمارت نہیں تھی، دو، چار سو گز کے گھر پر 648 ووٹر درج تھے۔

جماعت اسلامی کے ناظم کراچی نعمت اللہ خان کی جانب سے شروع کی گئی کمرشلائزیشن پر انھوں نے کہا کہ ’’اس کے بغیر دفاتر وغیرہ کہاں بنتے۔ بہت سی عمارتیں بنی ہوئی تھیں، اور بن رہی تھیں، اس کی قانونی حد بندی کی گئی، ہر ’عمارت کار‘ انفرااسٹریکچر ٹیکس ہوتا ہے، تاکہ بنیادی سہولتیں بڑھائی جائیں، بعد میں ٹیکس تو لیے، لیکن سہولتیں نہیں بڑھائیں، جس سے مسائل ہوئے۔‘‘

’’تجاوزات کے نام پر شہر کے بیچوں بیچ خرید کر لیے گئے گھر اور عمارتیں تو گرا دیں، لیکن بغیر کسی ’این او سی‘ کے سراسر قبضوں کی آبادیوں کے خلاف آپ عدالت نہیں جاتے؟‘‘ وہ کہتے ہیں ’’ہمارا کیس سب کے خلاف ہے،کسی کی ذاتی زمین ہو یا پارک، ہم سب کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، لیکن اگر ہمارے کیس کی غلط تشریح کی جا رہی ہے، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔۔۔!‘‘

ہم نے اورنگی ٹاؤن کے معروف ’جرمن اسکول‘ کے فیصل ٹیکنیکل گراؤنڈ پر قبضہ چھڑانے کے فیصلے پر عمل کے لیے عدالت نہ جانے کا پوچھا تو انھوں نے کسی بھی ڈیل کی تردید کی اور کہا اس پر کارروائی کر رہے ہیں۔ ’’کیا کراچی کو پانی و بجلی وغیرہ جیسی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی جماعت اسلامی کے ’عوامی ریفرنڈم‘ کی تائید کی ضرورت ہوگی؟‘‘ ایسے ’ریفرنڈم‘ کو وہ اپنی جدوجہد کا طریقۂ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ’بحریہ ٹاؤن‘ کی جو زمین تلف ہوئی، ہم نے ان سے متاثرہ لوگوں کو اربوں روپے دلوائے۔ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جس نے 35 فی صد ڈیولپمنٹ چارجز کا مسئلہ بھی حل کرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’کے الیکٹرک‘ کے ناجائز چارجز بھی ختم کرائے۔ مختلف اداروں میں جماعت اسلامی کے لوگوں کے ’کردار‘ کا سوال ہوا کہ ’کراچی یونین آف جرنلسٹ‘ (دستور) میں ’غیرصحافی‘ ارکان بھی شامل ہیں، تو انھوں نے کہا کہ وہ ہم سے الگ ہیں، اگر ایسا ہوا ہے، تو غلط ہے۔ ’’جامعہ کراچی میں بھی آپ کے حلقۂ اثر کے لوگ بھرتیوں میں اپنے لوگوں کو آگے لانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں؟‘‘ اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’’غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں، لیکن ہمارا اسے درست کرنے کا پورا انتظام ہے، اور جماعت اسلامی میں مجموعی طور پر خیر غالب ہے۔‘‘

’’اَبے کیا ہوگیا۔۔۔!‘‘
حافظ نعیم الرحمٰن سے جماعت اسلامی (کراچی) کے نئے روپ پر ان کے کردار کی بات کی جائے، تو وہ ایک دم شرما سے جاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جماعت وہی ہے، بس فیصلوں کا فرق ہے۔ ’’آپ کے دور میں جماعت اسلامی کی جانب سے پہلی بار ’کراچی حقوق مارچ‘ ہوا، جس پر تنقید ہوئی کہ ایک وسیع نظریاتی تحریک کو محدود کیا جا رہا ہے، تو کہنے لگے کہ یہ بس پیپلز پارٹی نے کہا، کوئی مذہبی حلقہ ہمارے اس قدم کے خلاف نہیں۔

’’آپ نے جماعت کا رجحان تو تبدیل کیا، یہ تو مانیں گے؟‘‘ اس سوال پر انھوں نے کہا ’’ماضی میں میئر عبدالستار افغانی نے بھی موٹر وہیکل ٹیکس ’بلدیہ کراچی‘ کو دینے کا مطالبہ کیا، جس پر ان کی ’بلدیہ‘ ختم کی گئی۔ یہ بھی حق کا مطالبہ تھا، وہی مطالبہ میں بھی کرتا ہوں۔‘‘

ہم نے کہا ’’ماضی میں جب ’ایم کیو ایم‘ بھی انھی حقوق کی مانگ کرتی تھی، تب اگر آپ بھی یہ کرتے تو یہ زیادہ اچھا نہیں ہوتا؟‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم بات کرتے تھے، لیکن اخبار اور چینل پر آتا نہیں تھا۔ 2005ء میں ’کے الیکٹرک‘ کی نج کاری کے خلاف احتجاج کیا۔ ’ایم کیو ایم‘ کے پاس نظامت اور صوبے اور وفاق میں حکومت تھی۔ ایم کیو ایم کے راہ نما خواجہ اظہار الحسن جھوٹ بولتے ہیں کہ تب نعمت اللہ ناظم کراچی تھے، یہ 2005ء میں تب ہوا، جب مصطفیٰ کمال آچکے تھے۔‘‘

ہم نے کہا اسمبلیوں میں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ تو موجود تھی؟‘‘ تو انھوں نے کہا کہ ’’وہ بھی احتجاج کر رہی تھی، ہم نج کاری کے خلاف اپنی حمایت یافتہ مزدور یونین کے ہم آوا زتھے، اخبارات دیکھ لیجیے، ’ایم کیو ایم‘ نج کاری کی حامی تھی، ہم نے کراچی کے مسائل پر پہلے بھی بات کی اور اب بھی کی، اب جگہ زیادہ ہے اور ہم نے زیادہ بلندآہنگ ہوکر بات کی ہے۔‘‘

مستقبل میں مرکزی امیر جماعت اسلامی کے طور پر امکان پر بے ساختہ لجاجت سے کہتے ہیں ’’ابے کیا ہوگیا۔۔۔!‘‘ پھر بہت محتاط انداز میں بتاتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی کا اپنا ایک نظام ہے۔ ہمارے ہاں یہ باتیں نہیں ہوتیں، جو خود کو پیش کرتا ہے، وہ نااہل ہو جاتا ہے تو بس۔‘‘

ایک ’فلاحی تنظیم‘ اور ’سیاسی جماعت‘
ہم نے حافظ نعیم الرحمٰن سے ایک ’این جی او‘ اور ایک سیاسی جماعت کے درمیان فرق کا سوال بھی کیا، اگرچہ ’الخدمت‘ کا فنڈ الگ ہے، لیکن اگر آپ ان فلاحی سرگرمیوں کی بنیاد پر اپنی سیاست کرتے ہیں تو کیا یہ درست عمل ہے؟ وہ تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایسی سیاست سب کریں، میں ’الخدمت‘ کا کراچی کا صدر بھی ہوں۔‘‘

ہم نے کہا ’این جی او‘ دراصل اپنی خدمات سے ’سرکار‘ کو غافل کر دیتی ہے، جب کہ سیاسی جماعت کا راستہ تو اسی نظام درست کرنا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک الگ بات ہے، قانونی طور پر کوئی بھی سیاسی جماعت کسی بھی ’این جی او‘ کے ساتھ اپنے نام قیادت اور نشان کے ساتھ تعاون کر سکتی ہے۔ ’الخدمت‘ کے حسابات بالکل الگ ہیں، تاہم بہ وقت ضرورت جماعت اسلامی کی پوری تنظیم ’الخدمت‘ بن جاتی ہے۔

ہم نے کہا ’الخدمت‘ کو تو عام لوگ بھی چندہ دیتے ہوں گے، لیکن اگر آپ ’الخدمت‘ کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگیں تو؟ اس پر ان کا خیال ہے کہ جو ’الخدمت‘ کے ساتھ ہے، وہ جماعت اسلامی ہی کی وجہ سے ہے۔ ہم نے کہا پھر یہ شکوہ کیوں ہوتا ہے کہ لوگ ’الخدمت‘ کے ساتھ ہیں، تو جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیتے؟ کہتے ہیں کہ وہ ایک الگ بات ہے۔

’’پورا مُحلہ اٹھ کر آجاتا تھا۔۔۔‘‘
حافظ نعیم الرحمٰن بتاتے ہیں کہ وہ یکم دسمبر 1972ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے، وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں، ایک بہن کا انتقال ہوگیا۔

1987ء میں میٹرک کے بعد بڑے بھائی کی ملازمت کے سبب کراچی آگئے، پاکستان شپ اونرز کالج میں داخلہ لیا، 1988ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے، والد مولانا مودودی کی معتقد تھے۔ ’جمعیت‘ سے وابستگی کے حوالے سے کالج کی یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت ’جمعیت‘ پر بہت خراب وقت تھا۔

’اے پی ایم ایس او‘ اور ’ایم کیو ایم‘ کا زمانہ تھا۔ ’ایم کیو ایم‘ کے حوالے سے استفسار پر بتاتے ہیں ’’انھیں ابتدائی طور پر بہت ووٹ اور پذیرائی ملی، لیکن بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ ایک فاشسٹ تنظیم بن گئے۔ انھوں نے سوچا کہ اب حمایت مل گئی، تو اب اور کوئی دوسرا کام نہ کریں، اب دوسرے اپنا بوریا بستر سمیٹیں اور چلے جائیں، اور پھر کراچی میں ہمارے سوا کوئی اور تنظیم نہیں رکی۔‘‘ کالج کے دوران ’اے پی ایم ایس او‘ سے ٹکرائو کا پوچھا، تو کہتے ہیں کہ ٹکرائو ظاہر ہے یک طرفہ تھا، اس وقت ’ایم کیو ایم‘ کی طاقت تھی، ذرا ذرا سی بات پر پورے محلے کی آبادی اور ’یونٹ‘ اور ’سیکٹر‘ کے لوگ آجاتے تھے، جیسے کسی اور کالج یا یونیورسٹی میں کوئی جھگڑا ہوگیا اور انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ ہمیں یہاں سے نکال دینا چاہیے۔

اس کے باوجود ہماری کوشش ہوتی تھی کہ ہم مثبت طریقہ اختیار کریں، بطور ناظم ’جمعیت‘ وہاں ’اسپورٹس فیسٹول‘ کرایا اور ہماری ’البدر الیون‘ اور ان کی ’حق پرست الیون‘ کا میچ ہوا اور وہ ہم سے فائنل جیت بھی گئے۔ ہم نے پوچھا ’شفاف طریقے سے؟‘ وہ بولے‘ جی بالکل، وہ لڑکوں کا کھیل تھا، لیکن ان پر اوپر سے فیصلہ ہوتا تھا کہ آج پورے شہر میں یہ کرنا ہے۔

غلطیاں تو سب سے ہو سکتی ہیں، لیکن گولیاں، اغوا اور جان سے مار دینا یہ کراچی میں پہلے نہیں ہوتا تھا۔ 1947ء تا 1986-87ء طلبہ کے جھگڑوں میں ایک یا دو جانیں گئی ہوں گی، اس کے بعد تو معمول بن گیا!

جب طلبہ تنظیموں کے تشدد کی بات آئی، تو ہمارا دھیان جامعہ کراچی کے تین فروری 1981ء کے واقعے کی طرف گیا، جس میں ’اے پی ایم ایس او‘ (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کی جانب سے یونین کے انتخابات میں فتح کے بعد زبردست تصادم ہوا تھا، اور الطاف حسین کو یونیورسٹی سے باہر پھینک دیا گیا تھا؟ اس حوالے سے حافظ نعیم الرحمن کہتے ہیں کہ ’آپ کو اس حوالے سے درست معلومات نہیں ہیں، انھوں تو شاید کلاس کے ’سی آر‘ کا انتخاب بھی نہیں جیتا۔ یہ 1986ء میں ابھرے، پہلے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے تھے۔

جامعہ کراچی میں دائیں اور بائیں بازو کے لوگ شام کو ایک ساتھ چائے پیتے تھے، یہ فاشزم ’پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (پی ایس ایف) نے شروع کیا، جس کی انتہائی شکل ’اے پی ایم ایس او‘ تھی۔ ہم نے کہا جامعہ کراچی میں اسلحہ لانے کا الزام ’جمعیت‘ اور ’پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ ایک دوسرے پر لگاتے ہیں؟‘ انھوں نے کہا ’اگر ہمیں لانا ہوتا تو پہلے ہی لاتے ناں، ہم تو بہت پہلے سے تھے۔ ’پی ایس ایف‘ تو بعد میں بنی۔

’’دراصل ماحول میں تشدد ہی بعد میں آیا؟‘‘ وہ بولے کہ ’’اس کے باوجود بھی تشدد میں اتنی جانیں نہیں گئیں۔‘‘ ہم نے پوچھا کہ انھیں شکایت ہے کہ اتنی ساری قوم پرست تنظیمیں تھیں، لیکن آپ نے صرف ’اے پی ایم ایس او‘ کو قبول نہیں کیا؟ وہ گویا ہوئے کہ ’’میں ایسا نہیں سمجھتا، یہ ان کا اپنا نقطۂ نظر ہے۔‘‘ ’اے پی ایم ایس او‘ کے جامعہ کراچی سے نکالے جانے کی اصل وجہ کے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’جمعیت‘ کے مقابلے میں ان کی اتنی حیثیت ہی نہیں تھی۔ بعد ’ایم کیو ایم‘ کی سیاست وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔

گفتگو کے اس مرحلے پر انھیں محسوس ہوا کہ ہمیں اس طرح سوالات نہیں کرنے چاہئیں۔۔۔ ہم نے عرض کیا کہ جب کراچی کی سیاست پر بات ہوگی، تو ’ایم کیو ایم‘ کے حوالے سے بھی بات تو ہوگی ہی۔

وہ کہنے لگے کہ سیاسی مسائل پر بات کیجیے، بڑے لوگ خیالات پر بات کرتے ہیں، افراد پر نہیں! ہم نے کہا جناب، جہاں جس حوالے سے سوالات ہوں گے، وہ تو ہم لازمی کریں گے ہی، اور منطقی اعتبار سے پیدا ہونے والی تشنگی دور کرنے کے لیے مزید سوالات اٹھیں گے، تو انھیں بھی نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

تمام ’کارکنان جماعت‘ ہر مہینے اعانت کرتے ہیں
حافظ نعیم الرحمٰن بتاتے ہیں کہ ’’اسلامی جمعیت طلبہ‘ میں بالترتیب کارکن، رفیق اور پھر ’رکن‘، جب کہ جماعت اسلامی میں میں صرف کارکن اور پھر ’رکن‘ ہوتا ہے۔ کارکن کوئی بھی بن سکتا ہے، شرائط پوری کرے تو رکن بھی بن سکتا ہے۔ کراچی میں 40، ہزار کارکن اور ایک لاکھ سے زائد سرگرم حامی ہیں۔

مرکزی امیر کے لیے باقاعدہ براہ راست تمام 45 ہزار ’رکن‘ ووٹ دیتے ہیں۔ ’رکن‘ کے لیے شرائط وہی ہیں، جو عام مسلمان کے لیے ہیں کہ نماز روزے کا پابند، کبائر یعنی شراب، بدکاری، دھوکا دہی اور حق تلفی میں ملوث نہ ہو اور جماعت اسلامی کے نظم وضبط کا حصہ بننے کے لیے تیار ہو، اس کی تربیت کی جاتی ہے۔

’رکن‘ شوریٰ کے ارکان کے لیے بھی ووٹ دیتا ہے اور امیر کے لیے بھی۔ کراچی میں کسی بھی شہر سے زیادہ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار افراد رکن ہیں، کیوں کہ یہ ایک بڑا شہر اور پرانی جماعت ہے اور یہاں شروع سے نظریاتی سیاست کا ماحول رہا ہے۔‘‘ اس مرحلے پر حافظ نعیم ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’دیکھیے ناں، اب آپ صحیح سوال کر رہے ہیں۔‘‘

اسلامی جمعیت طلبہ کی ’جمہوریت‘ کا کوئی ثانی نہیں!
حافظ نعیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ نظریاتی طور پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریک ہے، ہم دین کے احیا اور اسے ریاست کی قوت دینے کی جدوجہد کر رہے ہیں، زندگی کا نظام اللہ کی مرضی کے مطابق چلنا چاہیے، جو صرف لازم پردہ اور بڑی داڑھی نہیں، بلکہ پورا نظام حیات ہے۔

’جمعیت‘ نظریاتی طور پر ضرور ’جماعت‘ کے قریب ہے، لیکن یہ خودمختار اور ایک الگ وجود رکھتی ہے۔ 1947ء سے آج تک سوائے ایوب خان کے دو سال کے، ہر سال اس کا انتخاب ہوا۔ 75 برس میں کوئی اور طلبہ تنظیم ایسی نہیں، جس کا ہر سال مرکزی اور مقامی ناظمین کا انتخاب ہوتا ہو۔ جماعت اسلامی کو تو چھوڑیے، یہاں ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کی جمہوریت کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ باتیں بتانے کی ضرورت ہے، کچھ واقعات سے لڑنے جھگڑنے کے تاثر بن جاتا ہے، جب کہ ان کا مثبت کام بہت بڑا ہے۔

فنڈز کے سوال پر انھوں نے بتایا کہ ’’کچھ اہل خیر بھی اعانت کرتے ہیں، لیکن ہمارا ہر کارکان ہر مہینے اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیتا ہے، دو روپے بھی دے، تو وہ بھی اہم ہیں اس لیے ہمیں کوئی ہلا نہیں سکتا۔ ہم کسی کی ’ڈکٹیشن‘ قبول نہیں کرتے کہ کوئی کہے ایک کروڑ دوں گا فلاں کو امیدوار کھڑا کر دو۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔